کاما کبو‘ تیز قدموں سے کھیتر کی طرف بڑھ
رہا تھا۔ آج کھیتر پر کام کافی تھا۔ دوسرا چودھری کے موڈ کا بھی کچھ پتا
نہیں چلتا تھا۔ اس کے بگڑنے کے لیے‘ کسی وجہ کا ہونا ضروری نہ تھا۔ چودھرین
سے اپنے لچھنوں کی وجہ سے‘ چھتر کھاتا رہتا تھا۔ گھر کا غصہ باہر آ کر
کاموں پر نکالتا۔ کام کاج کوئی کرتا نہیں تھا‘ گھر سے یوں سج سنور کر نکلتا
جیسے جنج چڑھنے جا رہا ہو۔ سارا دن ڈیرہ پر بیٹھا‘ آئے گئے کے ساتھ گپیں
ہانکتا یا پنڈ کی سوہنی کڑیوں کے ناز و ادا کے قصے سنتا۔ کوئی ہتھے چڑھ
جاتی تو معافی کا دروازہ بند کر دیتا۔ ناکامی کی صورت رہتی‘ تو سارا غصہ
کاموں پر نکالتا۔ سب چپ رہتے‘ ہر کسی کو جان اور چمڑی بڑی عزیز ہوتی ہے۔
کھیتر پر آتے جاتے اس طرح کی سوچیں اسے گھیرے رکھتیں، غلطی یا ظلم‘ زیادتی
چودھری کرتا ڈال گریب کاموں پر دی جاتی۔ وہ سوچ رہا تھا‘ یہ زندگی بھی کیسی
ہے گھر جاؤ‘ کوئی ناکوئی مسلہ راہ روکے کھڑا ہوتا۔ باہر آؤ تو کامے پر وہ
کچھ بیت جاتا جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوتا۔
جب وہ کھیتر پہنچا‘ وہاں عجب کھیل رچا ہوا تھا۔ چودھری کے ہاتھ میں خون
آلودہ چھرا تھا اور سامنے کاما ابی‘ خون میں لت پت پڑا تھا۔ وہ یہ منظر
دیکھ کر گھبرا گیا۔ چودھری سخت غصے میں تھا۔ اس نے چھرا کامے کبو کی طرف
بڑھاتے ہوئے کہا: ذرا اسے پکڑنا‘ کبو نے پکڑ لیا اور خود کامے ابی کے پاس
پہنچ گیا اور افسردہ و پریشان ہو کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ دریں اثنا پولیس
پہنچ گئی اور کبو کو پکڑ لیا۔
چودھری غصے سے اٹھا اور پان سات کبو کو رکھ دیں۔ مجھے پتا نہ تھا کہ تم
اتنے ظالم اور کمینے ہو۔ پولیس والوں نے کہا چودھری تم چھوڑو‘ تھانے جا کر
ہم اس کی طبیعت صاف کر دیں گے۔ وہاں موقع پر اور بھی دو تین کامے موجود تھے‘
کسی کے منہ سے سچ نہ پھوٹا۔ اس اچانک نازلی آفت نے اس کے ہوش ہی گم کر دیے۔
تھانے جا کر اس کی خوب لترول کی گئی۔ وہ کہے جا رہا تھا‘ میں نے کچھ نہیں
کیا۔ اس کی کب کوئی سن رہا تھا۔
ایک شپائی بولا: تمہیں ہم نے کچھ نہ کرنے سے روکا تھا۔
ایک اور نے نعرہ لگاؤ: کچھ کر لیتے نا
ایک نے کہا: اب یہاں سے جا کر کچھ کر لینا
پہلے والا بولا: یہاں سے جائے تو ہی کچھ کرئے گا
ایک جو ذرا پرے کھڑا تھا کہنے لگا: تو پھر یہ قتل کس نے کیا ہے۔ خون سے
بھرا چھرا تو تمہارے ہاتھ میں تھا۔
حجور قتل کرنا تو دور کی بات‘ میں تو ایسا قیمتی چھرا خرید ہی نہیں سکتا۔
چھرا تو چودھری نے مجھے پکڑایا تھا۔
الزام تراشی کرتے ہو۔ اس کے بعد لاتوں مکوں اور تھپڑوں کی برسات ہو گئی۔
تھانہ تو تھانہ‘ کورٹ کچہری بھی اس کی سن نہیں رہی تھی۔ لگتا تھا‘ کہ کورٹ
کچہری بھی چودھری ہی کی تھی۔ ہر کوئی اسے دشنام کر رہا تھا۔ اس کی تو کوئی
سن ہی نہیں رہا تھا۔ ماجرے کو آنکھوں سے دیکھنے والے‘ اس کے ہی گریب ساتھی
تھے۔ وہ بھی دیکھ اور جان کر‘ کبو ہی کو مجرم ٹھہرا رہے تھے۔ اس کے حق میں‘
ایک بھی نہ تھا۔ ہر کوئی اسے قاتل کہے جا رہا تھا۔ اس نے سوچا‘ جب اتنے لوگ
کہہ رہے ہیں کہ میں قاتل ہوں تو یقینا میں ہی قاتل ہوں۔ پھر اس نے کہنا شوع
کر دیا: ہاں ہاں میں ہی قاتل ہوں۔۔۔۔ابی کو میں نے ہی قتل کیا تھا۔
|