زمین پر بیٹھے بچے!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
تقریب پر وقار تھی اور موضوع قابلِ تحسین۔
متعدد معزز ممبرانِ اسمبلی اگلی نشستوں پر جلوہ گر تھے ، ان میں سے موضوع
سے تعلق شاید کسی ایک دو کا تھا۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے تعلیمی شعبہ
جات کے سربراہان بھی تشریف رکھتے تھے، شہر کے صاحبانِ علم و دانش بھی مدعو
تھے، موضوع سے دلچسپی رکھنے والے باذوق شہری بھی موجود تھے، طلبا وطالبات
کی بڑی تعداد بھی حاضر تھی۔ سٹیج پر تعلیم وتربیت کے وزیر مملکت میاں بلیغ
الرحمن، پنجاب کے وزیر تعلیم رانا مشہود، وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی
ڈاکٹر قیصر مشتاق جلوہ افروز تھے۔ جس معاملے پر اسلامیہ یونیورسٹی کے غلام
محمد گھوٹوی ہال میں یہ تقریب ہو رہی تھی، وہ ایک انوکھا مگر بہت ہی دلکش
تھا۔ ’’بچوں میں مطالعہ کی عادت کا احیاء و فروغ‘‘۔ ضلعی انتظامی افسر کی
نگرانی میں یہ خوبصورت پراجیکٹ ترتیب دیا گیاتھا، پانچویں کلاس کے پچیس
ہزار بچے منتخب کئے گئے تھے، جن میں ہر ہفتہ ایک بچے کو کتاب دی جائے گی،
دوسرے ہفتے دوسرے کو ، اسی طرح چار بچے چار ہفتوں میں کتاب کا مطالعہ کریں
گے اور مہینے کے آخر میں چاروں بچے اور ان کے استاد صاحب مل کر کتاب کے
موضوعات پر بحث اور گفتگو کریں گے، حاصلِ مطالعہ پیش کیا جائے گا، کتاب کے
ساتھ ساتھ مطالعہ کا بھی تجزیہ ہوجائے گا۔ اس ضمن میں فیروز سنز نے بھی اہم
کردار ادا کیا ، کمپنی نے پچاس ہزار روپے سالانہ کتابیں دینے کا اعلان کیا
۔
تقاریر ہوئیں، تعلیم کے وزراء نے اس پراجیکٹ کو سراہا، صوبائی وزیر تعلیم
نے پروگرام کی حُسن و خوبی سے متاثر ہو کر اس کو پنجاب بھر میں نافذکرنے کا
اعلان بھی کیا۔ یقینا مقامی انتظامیہ کا یہ پراجیکٹ قابلِ تقلید ہے۔ کتاب
دوستی بچوں کو آوارگی کی بجائے سنجیدگی کی طرف لائے گی۔ وقت کی رفتار کے
ساتھ چلنا صرف آج ہی ضرورت نہیں، حالات کا یہ تقاضا ہمیشہ سے رہا ہے۔ جو
زمانے کی رفتار کو پہچان گئے وہ کامیاب ہوگئے، جو رُک گئے وہ کچلے گئے۔ اس
برق رفتاری کا درس ایک صدی قبل ہمیں اقبالؒ بھی دے گئے ہیں۔ کمپیوٹر اور
موبائل نے انسان کی زندگی میں بجلیاں بھر دی ہیں۔ ہماری نئی نسل فطری طور
پر گلیمر کے پیچھے ہی سرپٹ بھاگ رہی ہے، ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل ہے اور
کندھے پر لیپ ٹاپ۔ والدین نے بچوں کی معمولی سی ضد پر انہیں موبائل لے دیئے
ہیں۔ بچوں پر نگاہ رکھنا والدین کا فرض ہوتا ہے، والدین کے خیال میں بچے
گھر میں بیٹھے بہتر ہیں، خواہ وہ کمپیوٹر میں کچھ بھی دیکھیں۔ سب کچھ ہے
مگر بچوں میں مطالعہ کی عادت صفر ہے۔ اگر انتظامیہ نے بچوں میں مطالعہ کے
احیاء اور فروغ کے لئے پراجیکٹ بنایا ہے تو اس پر نہایت یکسوئی اور محنت سے
عمل کرنے کی ضرورت ہے، یہ نہیں کہ سرکاری طور پر جاری ہونے والے بے شمار
پراجیکٹس بڑی شان وشوکت سے شروع ہوتے ہیں اور نہایت گمنامی کے عالم میں
اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ بعض اوقات پراجیکٹ کا دارومدار اس کے بانی
افسر پر بھی ہوتا ہے، کسی باذوق سرکاری افسر نے اِس قسم کا کوئی قدم اٹھایا
تو آنے والے صاحب کی اس میں دلچسپی نہ ہوئی تو کتابیں اگلے سالوں میں خستہ
حال سٹوروں میں دیمک کی خوراک بن جاتی ہیں۔ دیمک بھی اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہے
اس کی خوراک کا بندوبست ہماری سرکار خوب کرتی ہے۔
جن بچوں کے لئے یہ تقریب سجائی گئی تھی،ان میں سے بھی نمونے کے طور پر کچھ
بلائے گئے تھے تاکہ انہیں کتابیں دے کر تصاویر بنوائی جا سکیں۔ وہ خوبصورت
ہال میں لگی کرسیوں کے اطراف میں دیواروں کے ساتھ نیچے بیٹھے تھے، ان بچوں
کی اگرچہ تعداد صرف دس تھی،جن میں پانچ بچیاں اور پانچ بچے تھے، مگر سرکاری
سکولوں کے کلچر کے مطابق ان پر کسی نے توجہ نہ دی، ایک صحافی کے توجہ دلانے
پر انہیں وہاں سے اٹھایا گیا، ان معصوم بچوں پر جب وفاقی وزیر مملکت کی
توجہ دلائی گئی تو انہیں یونیورسٹی اساتذہ نے اپنے ساتھ سیٹوں پر ایڈجسٹ
کرلیا۔ ذرا بچوں اور بچیوں کے جذبات کا اندازہ لگائیے، جب وہ سہمے سہمے
گیلری میں نیچے بیٹھے تھے، مقررین تقریریں کر رہے تھے، جو بچوں کے سر کے
اوپر سے گزرتی ہونگی، اور جن بچوں کے روشن مستقبل کی منصوبہ بندی کی جارہی
تھی، وہ خود مہمان ہوتے ہوئے بھی دوسرے مہمانوں کے قدموں میں بیٹھے تھے۔
پوری سرکاری تقریب ایک طرف اور اِ ن بچوں کا نیچے بیٹھنا ایک طرف، اس رویے
سے سنجیدگی اور اخلاص کی جھلک دکھائی نہیں دیتی۔ دل اسی انجام سے ڈرتا ہے
․․․ اِن بچوں اور اس قسم کے دیگر حکومتی منصوبوں کی طرح یہ پراجیکٹ بھی
زمین پر ہی نہ بیٹھ جائے۔ |
|