ہرسکول کے باہر پمفلٹ آویزاں کئے جائیں گے، جن پر
واضح طور پر ٹال فری نمبر لکھا ہوگا۔ طلبہ اپنے سکول میں ہونے والے ناروا
سلوک، کلاسز کا تسلسل سے نہ ہونا، استاد کی غیر حاضری، گندگی اور بنیادی
سہولتوں کے فقدان بارے اپنی رائے ٹال فری نمبر پر درج کروا سکیں گے۔ اس
سکیم کا آغاز لاہور اور بہاول پور سے کیا جارہا ہے۔ اس ہیلپ لائن کا قیام
’’پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب‘‘ پروگرام کے تحت کیا گیا ہے۔ جو کام حکومت پنجاب،
محکمہ تعلیم، وزیر تعلیم، ای ڈی اوز وغیرہ مل کر بھی نہیں کر سکے ، اب وہ
سکول کے بچوں کے ذریعے کروانے کا اہتمام ہو رہا ہے۔ اگر یہ کام اتنے ہی
آسان ہوتے اور یہ مسائل ایسے ہی حل ہونے والے ہوتے تو بین الاقوامی سطح پر
بہتر کارکردگی کے سرٹیفیکیٹ پانے والے وزیر اعلیٰ کے صوبے کے سکولوں میں
حقیقی معانوں میں سب اچھا کی رپورٹ ہوتی۔ سرکاری سکولوں کا مرثیہ پڑھنے کی
یہاں ضرورت نہیں، کیونکہ حکومت کا ایک ایک اہلکار حکومت کے غیر سنجیدہ رویے
سے آگاہ ہے، بچہ بچہ سکولوں کی حالتِ زار سے آشنا ہے۔ خود وزیر اعلیٰ اپنی
جذباتی تقریروں میں اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ ہمارے سکولوں میں
استاد نہیں، چار دیواری نہیں، پینے کا پانی نہیں، بچے نہیں (سچ تو یہ ہے کہ
کچھ بھی نہیں)۔ ایسے میں بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے باوجود سکولوں
کے باہر پمفلٹ آویزاں کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اگر کسی سکول میں چار دیواری ہی
نہیں، تو کیا کسی بچے کے ٹال فری نمبر پر فون کرنے سے چار دیواری بن جائے
گی؟ کیا کسی بچے کے شکایت درج کروانے پر سکول میں کلاس روم تعمیر ہو جائیں
گے؟ کیا کسی کی شکایت پر کسی پرائمری سکول میں سات کلاس روم اور سات ہی
استاد پورے کردیئے جائیں گے؟ زمینی حقائق اور تجربہ بتاتا ہے کہ کسی بھی
بچے کے کسی فون پر اس قسم کا کوئی مطالبہ پورا نہیں کیا جائے گا۔ تو پھر یہ
نمبر لٹکانے اور بنانے کا کیا فائدہ؟
ہاں! یہ ٹال فری نمبر اس وقت کارآمد ہوگا جب کسی استاد نے کسی بچے کو ہاتھ
بھی لگا دیا، کیونکہ ’’مار نہیں، پیار‘‘ کا سلوگن حکومت کو عزیز از جان ہے،
اور بچے اس سلوگن سے بھی عزیز۔ مگر وہی بچے جو سکولوں میں داخل ہوگئے، جو
داخل نہیں ہو سکے ، ان کے لئے البتہ نعرے اور دعوے کافی بڑی مقدار میں
موجود ہیں۔ پنجاب میں گزشتہ تیس برس میں سے کم و بیش بیس سال حکومت کرنے
والے میاں برادران سکولوں سے باہر پنجاب کے اسّی لاکھ بچوں کی ذمہ داری
قبول کرنے کو تیار نہیں، شاید ’سابقہ‘ حکومتوں نے ہی ان بچوں کو سکول نہیں
آنے دیا، یا پھر آئے ہوؤں کو سکول سے نکال دیا۔ میاں شہباز شریف جلسوں اور
تقریبات میں سکول سے باہر بچوں کا ذکر جذباتی انداز میں کرتے ہیں، بعض
اوقات تو ان کی آواز بھی بھرا جاتی ہے، پھر اُن کے دل سے آواز اٹھتی ہے،
جسے وہ فرطِ جذبات میں ترانے کی صورت میں گاتے ہیں، اس موقع پر وہ عموماً
حبیب جالب کی ایک انقلابی نظم کا سہار ا لیا کرتے ہیں، اور ظلم کے ضابطوں
کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ غریب جب اٹھے تو امرا
اور اشرافیہ کے محلات کو گرا دیں گے۔ حاضرین و سامعین سوچتے رہ جاتے ہیں کہ
یہ اشرافیہ ہے کون؟ خیر یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ ٹال فری نمبر صرف ایک
کام کے لئے استعمال ہوگا، وہ ہے اساتذہ کی تضحیک اور توہین۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک اور ٹال فری نمبر بھی سکولوں کے باہر آویزاں کروا
دے، جو اساتذہ کے استعمال کے لئے ہو، جس پر فون کر کے استاد صاحب اپنے
شاگردانِ رشید کے بارے میں حکمرانوں کو آگاہ کر سکیں کہ وہ مہینے میں کتنے
روز سکول تشریف لاتے ہیں؟ کلاس میں اُن کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ استاد کی
توہین کو کوئی موقع وہ کیسے ضائع نہیں کرتے؟ ان کی سکول اور سکول سے باہر
سرگرمیاں کیا ہیں؟ کس طرح وہ ہوم ورک نہیں کرتے، اساتذہ کے سامنے کس طرح
بدتمیزی کرتے ہیں؟ ان کے والدین باربار فون کرنے کے باوجود بھی نہیں آتے۔یہ
بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت طرح طرح کے پمفلٹ آویزاں کرنے کی بجائے سکولوں کو
سہولتوں سے آراستہ کرے، ہر پرائمری سکول میں کم از کم سات کلاس روم ہوں،
اتنے ہی استاد بھی، دیگر بنیادی اور ضروری سہولتیں بھی موجود ہوں، بچوں کے
والدین کو بھی سکول رابطے کا پابند کیا جائے، اور یہ بھی کہ حکومت اپنے
دیگر غیر اہم اور اشتہاری قسم کے میگا پراجیکٹس کو روک کر صرف پنجاب کے پون
کروڑ بچوں کو ہی سکول لے آئے تو بڑی بات ہے۔ |