جنسی خواہش اوراسلامی تعلیمات
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
اﷲ تعالیٰ نے جانداروں کی نسل کے اس دنیا
میں بڑھانے کے لیے ایک طریقہ متعین فرما رکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
جانداروں کی تمام اقسام میں سے ہر ایک قسم میں مذکر و مؤنٹ ایک مخصوص طریقے
سے ملیں جس کو عرفِ عام میں ہمبستری (مجامعت) کہا جاتا ہے۔ اس طریقے سے
ملنے کے بعد اﷲ تعالیٰ اپنی قدرت سے مؤنث کے اندر عمل کو قرار دلوا کر
اولاد کی افزائش فرماتے ہیں۔ (بعض جانداروں میں براہِ راست اولاد کے بجائے
انڈوں کی صورت میں ابتدا ہوتی ہے اور ان انڈوں سے اولاد فراہم کی جاتی ہے
اس کا اصول دانشمندوں نے یہ بتلایا ہے کہ جن جانداروں کے کان باہر ہیں ان
کے یہاں براہِ راست اور جن کے کان ظاہر نہیں ہیں اُنہیں انڈوں کے ذریعے
اولاد سے نوازا جاتا ہے۔)
انسانوں کے علاوہ جتنے جاندار ہیں وہاں اس عمل کے لیے قیود اور شرائط نہیں
ہیں کوئی بھی مذکر کسی بھی مؤنث کے ساتھ اس عمل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نسل
کے بڑھنے کا ذریعہ بن سکتا ہے لیکن انسان جانداروں میں اشرف المخلوقات بھی
ہے اور اﷲ تعالیٰ کا خلیفہ بھی ہے اسے بھی اگرچہ نسل بڑھانے کے لیے یہی
طریقہ مرحمت فرمایا گیا ہے لیکن اس کے استعمال سے پہلے اس کے لیے رشتے بھی
طے کیے گئے ہیں اور ان رشوں میں اس عمل کا جواز نکاح کے بعد رکھا گیا ہے
گویا کہ یہ عمل جو نسل کے بڑھانے کے لیے انتہائی ضروری اور واحد عمل ہے غیر
محارم سے نکاح سے پہلے انہیں اختیار کیا جاسکتا اور محارم کے ساتھ کسی بھی
صورت میں اس کا جواز نہیں ہے لہٰذا شرفاء اس عمل کے لیے نکاح کا طریقہ
اختیار کرتے ہیں جوکہ اسلام سے پہلے بھی انسانی معاشرے میں رائج تو تھا
لیکن اس میں بھی بہت ساری قباحتیں شامل تھیں۔ اسلام نے آکر اس میں اصلاحات
فرمائیں اس تمہید کے بعد یہ بات طے ہوگئی کہ اگر کوئی مرد یا عورت بغیر
نکاح کے آپس میں یہ عمل دہراتے ہیں تو وہ اسلام کے حلاف عمل کرتے ہیں اور
ان کا یہ عمل اسلام کے رُو سے زنا کہلائے گا۔
ہمبستری کے اندر اﷲتعالیٰ نے اگرچہ لذت رکھی ہے اور مذکر اور مؤنث دونوں کی
طبیعتوں میں اس کی طرف میلان اور جھکاؤ رکھا ہے لیکن ہمبستری کا مقصد
افزائش نسل یعنی توالد و تناسل لہٰذااِسے حقوق زوجیت کا نام بھی دیا جاتا
ہے اور اسی مقصد اور نیت سے یہ ہمبستری ہونی چاہیے۔
محض مستی نکالنے، ہیجان ختم کرنے اور دوستیاں قائم کرنے کے لیے یہ عمل نہیں
ہونا چاہیے لہٰذا اپنی منکوحہ تک محدود رہنا چاہیے اور اس کے ذریعے سے
انسانی، فطری ذوق کی تکمیل بھی ہوتی رہتی ہے لہٰذا غیر کی طرف متوجہ ہونے
کی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی اس لیے کہ اس کا مقصد توالد و تاسل رکھا گیا
ہے اور غیر عورت سے ہمبستری کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اولاد کا نسب
بھی خراب ہوجاتا ہے لہٰذا کوئی شریف اس بات کو گوارا نہیں کرے گا۔
زنا کیاہے؟:
کسی مرد و عورت کا بغیر عقد نکاح کے جوکہ ایجاب و قبول پر مشتمل ہوتا ہے
آپس میں ہمبستری کرنا زنا کہلاتا ہے۔ (نیز اسلامی جہاد کے نتیجے میں غلام
بنائی جانے والی باندیاں، مجاہدین کو بطور انعام ملا کرتی تھیں جو وہ اپنے
پاس باعتبار خدمت کے رکھتے تھے اُن باندیوں کے ساتھ بغیر عقد نکاح کے بھی
ہمبستری جائز تھی۔
دورِحاضر میں ایسی باندیاں ناپید ہیں ان باندیوں کی خریدوفروخت بھی جائز
تھی اور غیرمجاہدین بھی بازار سے خرید کر انہیں اپنی مملوکہ بنالیا کرتے
تھے اس مملوکہ سے بھی ہمبستری بغیر نکاح کے جائز تھی۔ البتہ یہ مملوکہ اگر
کسی کے نکاح میں ہو تو اُس کے علاوہ کسی اور کے لیے اس سے ہمبستری کرنا
جائز نہیں تھا۔ نیز ان باندیوں کو ان کے مالک اخروی ثواب کی خاطر یا کسی
گناہ کے کفارے کے طور پر بھی آزاد کردیا کرتے تھے (جن کی ترغیب وحکم انہیں
اسلام نے دے رکھا تھا) ان کے آزاد ہونے کے بعد ان کی باندی ہونے کی حیثیت
ختم ہوجاتی تھی جس کے بعد اُن سے بغیر نکاح کے ہمبستری جائز نہیں تھی۔ واضح
رہے کہ آج کے دور کی گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیاں باندیوں کی تعریف
میں نہیں آتیں لہٰذا اُن کے ساتھ بھی بغیر عقدنکاح کے ہمبستری جائز نہیں۔)
زمانۂ جاہلیت میں رائج شادی کے مختلف طریقے:
1…… مرد ایک یا بہت سی عورتوں کا مالک ہوتا تھا اس کا مقصد عورتیں جمع کرنا
ہوتا تھا اور عورت کی حیثیت عام مال و متاع جیسی ہوتی تھی۔عرفِ عام میں
اِسے زواج البعولۃ کہا جاتا تھا۔
2……دو مرد اپنی اپنی بیویوں کا ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کیا کرتے تھے جس
میں نہ عورت کو بتلایا جاتا تھا۔ نہ اُس سے قبول کروایا جاتا تھا، نہ مہر
کی ضرورت ہوتی تھی یہ بھی عورت کا تذلل کا ایک ذریعہ تھا عرف عام میں اس کو
زواج البدل کہتے تھے۔
3……عورت اور مرد بغیر کسی خطبہ کے نکاح اور تقریب کے آپس میں کسی ایک مدت
مقررہ اور خاص مہر پر متفق ہوجاتے تھے، مقررہ مدت ختم ہوتے ہی بغیر طلاق کے
نکاح خودبخود ختم ہو جاتا تھا اور نکاح کے نتیجے میں مہیا ہونے والی اولاد
ماں کی طرف منسوب ہوتی تھی۔ عرفِ عام میں اسے نکاح متعہ کہتے تھے۔
4…… مرد وار عورت آپس میں بغیر نکاح، خطبہ اور مہر کے ایک دوسرے کے ساتھ
آپس میں رہ پڑتے تھے۔ اور اس دوستی کے نتیجے میں ازدواجی تعلقات قائم کرتے
تھے، باہمی رضامندی سے یہ تعلق قائم ہوتا تھا اور باہمی رضامندی سے یہ تعلق
ختم ہوجاتا تھا اور اگر اولاد ہوتی تھی تو وہ ماں کی طرف منسوب ہوتی تھی اس
کو عرف عام میں نکاح الحذن کہا جاتا تھا۔ (یہ طریقہ آج کل مغربی معاشرے میں
جاری و ساری ہے۔)
5……جنگ کے بعد جو قیدی ہاتھ لگتے تھے اور فاتح کے لیے مفتوح کی عورتیں مال
وغیرہ سب مباح تھیں یہ عورتیں فاتح کی ملکیت ہوجاتیں چاہے وہ انہیں بیچ دے
یا ان سے مباشرت کرے یا کسی کو تحفہ میں دے دے۔ صبح سے شام تک عورتیں غلام
کی طرح بکتی رہتی تھیں اس میں بھی خطبہ، نکاح، مہر کی ضرورت نہ تھی۔ عرف
عام میں اسے نکاح الضعینۃ کہا جاتا تھا۔
6……ایک شخص اپنی زیرِکفالت رہنے والی لڑکی کا نکاح کسی شخص سے اس شرط پر
کردیتا تھا کہ وہ اپنی کسی بہن یا بیٹی سے اسی کا نکاح کرائے گا اس میں بھی
مہر مقرر کرنا ضروری نہ تھا ایسے نکاح کو عرف عام میں نکاح شغار کہا جاتا
تھا، آج کل ایسے نکاح کو ’’وٹّہ سٹّہ‘‘ کی شادی کہتے ہیں۔ اس میں اور اس
وقت کے نکاح شغار میں فرق یہ تھا کہ نکاح شغار میں مہر مقرر نہیں ہوتا تھا۔
وٹہ سٹہ میں تمام اسلامی نکاحی شرائط پوری کی جاتی ہیں۔
7……ایک شحص اپنی بیوی کو کسی دوسرے خوبصورت مرد کے ساتھ ازدواجی زنگی
گزارنے کے لیے بھیج دیا کرتا تھا او رخود اس سے الگ رہتا تھا تاکہ اس کی
نسل اس سے خوبصورت پیدا ہو اور حمل کے ظاہر ہونے کے بعد وہ عورت دوبارہ
اپنے شوہر کے پاس آجایا کرتی تھی۔ عرف عام میں اِسے نکاح الاستبضاع کہا
جاتا تھا۔
8……دس آدمی ایک ہی عورت کے ساتھ مباشرت کیا کرتے تھے اور جب اس عورت کے ہاں
اولاد ہوتی تو وہ ان سب کو بلواتی اور ان میں سے جس کے لیے چاہتی تو کہتی
کہ یہ بچہ تیرا ہے اور اس مرد کو اس سے انکار کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ عرف
عام میں اس کو نکاح الرسہط کہا جاتا تھا۔
9……دس آدمی یا دس سے زیادہ کسی ایک عورت سے ہمبستری کے تعلقات رکھ سکتے
تھے، نکاح الرسبط اور اس میں فرق یہ ہے کہ نکاح الرسہط میں دس کی تعداد
متعین ہوتی تھی اور اس میں تعداد کی کوئی قید نہیں ہوتی تھی، دس سے زیادہ
افراد بھی شامل ہوسکتے تھے زیادہ کی کوئی حد نہ تھی۔دوسرے یہ کہ ان مردوں
میں سے کسی کی طرف بچہ منسوب کرنا عورت کا نہیں بلکہ مرد کا کام ہوتا تھا۔
اور وہ مرد اس بات کو قیافہ شناسوں سے طے کرایا کرتے تھے۔ عرف عام میں اس
کو نکاح البغایہ کہا جاتا تھا۔
نکاح کیاہے؟
اسلام نے مندرجہ بالا تمام نکاحوں کو مسترد کرتے ہوئے اس میں اصلاحات کرکے
ایک مستقل آسان اور پاکیزہ نکاح عطا فرمایا ہے جس میں نکاح کے بعد وہ عورت
کسی بھی غیرمرد (محارم وغیرمحارم) سے ازدواجی تعلقات قائم ہی نہیں کرسکتی۔
نیز اس میں دو گواہوں کی، مہر مقرر کرنے کی اور عورت کی طرف سے ایجاب اور
مرد کی طرف سے ماضی کے صیغے کے ساتھ قبول کرنے کی لازمی شرط ہے۔ ان شرائط
کے ادا کرنے کے بعد دو مرد و عورت آپس میں میاں بیوی بن جاتے ہیں اور یہی
دونوں ایک دوسرے کے حقوق زوجیت کی ادائیگی کے واحد ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس
طرح ان دونوں کے آپس کے حقوق زوجیت کے ادا کرنے سے شہوانی ہیجان ختم ہوتا
رہتا ہے اور عفت و عصمت کی راہیں مضبوط ہوتی رہتی ہیں۔ اور اس کے محدود
ہونے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس عنوان سے فحاشی کا راستہ بند ہوجاتا ہے،
جسے قرآن مجید نے ﴿وَسآءَ سَبِیْلاً﴾ کہا۔
نکاح شرعی کے دیگر مقاصد وفوائد:
جب بچہ اور بچی بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں تو وہاں شہوانی خواہشات کی
تکمیل کا داعیہ ان کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے، نکاح شرعی کے ذریعے سے ان کے
اس داعیے کی تکمیل ہوتی رہتی ہے لیکن نکاح کا مقصد صرف ان جذبات کا پورا
کرنا نہیں ہوتا اس بچے اور بچی سے بلوغت کی عمر تک پہنچنے پر ایک باکردار
انسان بنانے کے لیے نئی زندگی کا آغاز کرایا جاتا ہے۔ اس باکردار زندگی میں
آپس کے حقوق زوجیت کے علاوہ دیگر حقوق کی ادائیگی کا بھی ایک دوسرے کو ذمہ
دار قرار دیا جاتا ہے، بچوں کی افزائش نسل کے ساتھ ساتھ ان کی دیکھ بھال
اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی ڈالی جاتی ہے۔ معاشرتی حوالے سے گھر کے
دیگر افراد اور ہمسائے کے حقوق بھی ان پر لازم کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ نکاح
کے ذریعے سے نئی زندگی کا شروع کرنے والا اپنا گھر بساتے ہوئے دوسروں کے
حقوق بھی ادا کرتا رہتا ہے یہ مقاصد اور فوائد زنا میں پائے ہی نہیں جاتے۔
زنا سے ان حقوق سے فرار کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور معاشرے میں جسمانی اور
معاشرتی انارکی پھیل جاتی ہے اور زانی مرد وعورت بے راہ روی کی زندگی
اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس کے اوپر بند باندھتے ہوئے اس
کے سدباب کے لیے ارشاد فرمایا کہ ﴿ولاتقربوا الزنی﴾ ’’کہ زنا کے قریب بھی
نہ جاؤ‘‘۔ یہاں قرآن نے زنا نہ کرنے کے حکم کے بجائے زنا کے قریب جانے سے
بھی منع فرمایا ہے۔ یعنی وہ تمام باتیں جو زنا کی طرف لے جاتی ہیں ان تمام
باتوں سے قرآن منع کررہا ہے تجربہ اور مشاہدے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بے
حیائی، بے حجابی، بے لباسی اور ایسے تمام لباس جس سے مرد وعورت کے ستر چھپے
نہ رہیں، ایسی تمام تقریری و تحریری باتیں، ایسے تمام افعال، برہنہ و نیم و
برہنہ تصویریں، فحش و نیم فحش شاعری، فحش و ننگی فلمیں، ہر قسم کا رقص،
ٹیلیفونک اور موبائلی رابطے، اٹرنیٹ چیٹنگ، انٹرنیٹ کیفے، بچوں اور بچیوں
کی مخلوط تعلی، مرد و عورت کی بے حجابانہ مخلوط تقاریب، مرد وعورت کی آپس
میں غیرضروری گفتگو، عورت کا نامحرم سے نرم و ملائم لہجے میں بات کرنا، مرد
وعورت کی بدنظری، فحش باتوں کا سننا وغیرہ وغیرہ داخل ہیں۔ اگر انسان شریعت
کے اس روکے جانے والے حکم پر عمل کرلے تو یقیناً دنیا سے زنا کا تقریباً
تقریباً خاتمہ جوائے۔
زنااورنکاح کے درمیان ایک واضح فرق:
جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک دنیا کے تمام انسانوں میں
یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ نکاح اعلانیہ طور پر کرتے ہیں اس کی نہ صرف اپنی
خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دوسروں کو اطلاع دی جاتی ہے بلکہ اس تقریب میں
شرکت کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ ناراض رشتہ داروں ہر ممکن طریقے سے راضی بھی
کہا جاتا ہے جبکہ زنا ایک ایسا مکروہ، قبیح اور بُرا فعل ہے کہ جس کی خود
زانی اور زانیہ فخریہ طور پر اعلان نہیں کرتے بلکہ چھپ چھپا کر خفیہ طور پر
اس عمل کو کیا جاتا ہے گویا کہ انسانی فطرت بھی اسی سے نفرت کرتی ہے اور اس
کے غلط اور بُرا ہونے کا احساس رکھتی ہے۔ اگر ان کے نزدیک یہ اچھا کام ہوتا
تو وہ ضرور شادی کی طرح اس کا اعلان کرتے اور اس سے پہلے تقریب کا اہتمام
کرتے۔
زنا کے نقصانات:
1……زنا کے ذریعے سے پیدا ہونے والی اولاد کا نسب مشتبہ ہوجاتا ہے یقین کے
ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ زانیہ کی یہ اولاد کس مرد کی ہے؟
2……جب بچے کا نسب مشتبہ ہوگیا تو اس کی پرورش کا ذمہ دار کوئی مرد نہیں
بنتا اس طرح ایک بچے کا ضائع ہوجانے کا یقینی خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور وہ
بچہ سرپرست نہ ہونے کی وجہ سے تباہ و برباد اور طرح طرح کی برائیوں میں
مبتلا ہوکر ردنیا کے امن و چین کی تباہی کا ذمہ دار بنتا ہے۔
3……اگر زنا کے ذریعے سے حمل ٹھہرجائے اور زانیہ اسقاط کرادے اور وہ حمل چار
ماہ سے زائد کا ہو تو زنا کے ساتھ ساتھ زانیہ قتل کی مجرم بھی ہوگی اور یہ
نسل انسانی کے انقطاع کا ذریعہ بھی بنے گی۔
4……زانیہ ایک سے زائد افراد کے ساتھ اپنے ازدواجی تعلقات قائم کرتی ہے
لہٰذا نتیجہ کے طور پر اس عورت پر کسی کو بھی دسترس حاصل نہیں ہوسکتی۔ تمام
مرد اس پر قبضہ کرنے کی طرف کوشش کریں گے اور وجہ ترجیح کسی کو بھی حاصل نہ
ہوگی۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں کشیدگی پھیلے گی بلکہ قتل وغارت گری کا
بازار بھی گرم ہوگا۔
5……جس عورت کو زنا کی لَت پڑ جاتی ہے کوئی بھی شریف النفس آدمی اُسے قبول
کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ معاشرے میں ایسی عورت سے نفرت کا اظہار دیکھا
جاتا ہے۔ اور وہ ذلت آمیز نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
6……زنا کے اس عمل کے نتیجے میں کسی خاص مرد کو کسی خاص عورت سے کوئی خاص
محبت باقی نہیں رہے گی جس کو جہاں موقعہ مل گیا جس کو چاہا بلا لیا، اپنی
مستی نکال لی، نتیجے میں انسان اور حیوان میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔
7……زنا کے ذریعے سے صرف جنسی تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں ایک انسان باکردار
شخصیت کا رُوپ نہیں دھار سکتا۔ جبکہ معاشرے میں باکردار انسان ہی تعمیر
انسانیت اور تعمیر معاشرہ کے کام آتا ہے۔
شریعت میں زنا کی حیثیت:
قرآن مقدس میں جگہ جگہ زنا کی مذمت بیان کی گئی ہے کہیں فرمایا ﴿انہ کان
فاحشہ وساء سبیلا﴾(بنی اسرائیل 32) ’’یقیناً وہ بڑی بے حیائی اور بُری راہ
ہے۔‘‘
کہیں فرمایا: ﴿انہ کان فاحشۃ وتعتاوساء سبیلا﴾(نساء 22) ’’بے شک یہ بری بے
حیائی اور نفرت کی بات تھی اور بہت بُرا طریقہ تھا۔‘‘
کہیں فرمایا﴿ولایزنون……یلق اتاما﴾ (فرقان 68) ’’اور زنا نہیں کرتے اور جو
کوئی ایسا کرے گا اس کو سزا سے باقہ پڑے گا۔‘‘
نبی ﷺ جب کسی عورت سے بیعت لیتے تھے تو انہیں چند باتوں سے منع کیا جاتا
تھا جس میں زنا بھی شامل ہے ﴿ولایزنین ولاتعتلین﴾ (ممتحنہ 12) ’’اور (وہ
عورتیں) بدکاری نہیں کریں گی اور اپنے بچوں کو قتل (بھی) نہیں کریں گی۔‘‘
قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد ہے ﴿وزروا ظاھرالاتم وباطنہ﴾ انعام 120)
’’اور چھوڑ دو گناہ کے ظاہر کو(بھی) اور اس کے باطن کو (بھی)۔‘‘
احادیث میں زنا کی مذمت بیان کرتے ہوئے فرمایا (مامن ذنب بعد استرک اعظم
عنداﷲ من نطفۃ ومنعھا رجل فی رحم لایحل لہ) ’’شرک کے بعد کوئی گناہ اس نطفہ
سے بڑھ کر گناہ نہیں ہے جس کو کوئی شخص کسی ایسے رحم میں رکھے جو شرعاً اس
کے لیے حلال نہ تھا۔‘‘(ابن کثیر جلد3صفحہ38)
نبی ﷺ کا ایک اور ارشاد ہے (لایزنی الزانی حین یزنی وھو مومن۔ ایاکم ایاکم)
’’زناکار جس وقت زنا کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا۔‘‘(مشکوٰۃ باب الکبائر)
اس کی وضاحت نبی اکرم ﷺ نے اپنے ایک اور فرمان میں اس طرح فرمائی (اذا زنی
العبد فرج منہ الایمان فکان فوق رأسہ کالظلۃ فاذا فرج من ذلک العمل یرجع
الیہ الایمان) (مشکوٰۃ باب الکبائر) ’’بندہ جب زنا کرتا ہے اس وقت ایمان اس
سے نکل جاتا ہے اور اس کے سر پر سایہ بن کر ہوتا ہے اور زانی جب فعل زنا سے
فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف پلٹ آتا ہے۔‘‘
زانی کے ساتھ آخرت میں سلوک:
واقعہ معراج میں نبی ﷺ کا گزر ایک ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے سامنے ایک
ہانڈی میں پکا ہوا گوشت رکھا ہوا تھا اور دوسری ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا
بدبودار گوشت پڑا تھا اور ان لوگوں کی حالت یہ تھی کہ کچا اور سڑا ہوا گوشت
کھا رہے تھے اور پکا ہوا نہیں کھا رہے تھے، حضورﷺ نے پوچھا کہ یہ لوگ ہیں؟
جبرئیل امین نے جواب دیا کہ یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں کہ جو حلال بیوی یا
شوہر کو چھوڑ کر حرام کاری اور زنا میں مبتلا رہتے ہیں یعنی زناکار مردوں
اور زناکار عورتوں کی مثال ہے۔(تفسیرروح البیان جلد5صفحہ 111)
زناکے ذریعے دنیامیں ہلاکتیں:
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ زنا کسی قوم میں عام نہیں ہوتا مگر ان میں بکثرت
موت ہوتی ہے۔(مشکوٰۃ صفحہ 459)
اسی طرح نبی ﷺ کا ایک اور ارشاد ہے کہ جس قوم میں جب زنا پھیل پڑتا ہے تو
اُسے قحط سالی کی مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے اور رشوت کی گرم بازاری ہوتی
ہے تو اس پر خوف طاری کردیا جاتا ہے۔(مشکوٰۃصفحہ 313)
حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ جس قوم میں بدکاری پھیل
جاتی ہے اﷲ تعالیٰ اس قوم میں مصیبت کو پھیلا دیتا ہے۔(تاریخ ملت
جلد2صفحہ40)
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ﴿ماظھرالربووالزنا فی قریۃ
اور اذن اﷲ باھلاکھا﴾(الجواب الکافی صفحہ 220) ’’کسی بستی میں سود اور زنا
جب پھیل پڑتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس بستی کی ہلاکت کی اجازت مرحمت فرما دیتا
ہے۔‘‘
زنا کی سزا:
زنا کی سزا پر گفتگو سے پہلے اس بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ اسلام
کو سزائیں دینے سے ایسا شغف نہں ہے جتنا جرائم کے سدباب سے ہے۔ لہٰذا زنا
کے ثبوت کے لیے اسلام نے شرائط بہت سخت رکھی ہیں جو درج ذیل ہیں:
1……زانی اور زانیہ کو زنا کرنے کی حالت میں چار مرد دیکھیں یہ ایک انتہائی
مشکل امر ہے کہ زنا بھی کھلے عام نہیں کیا جاتا، کہیں چھپ چھپا کر ہی ہوتا
ہے ایسے میں اگر ایک آدمی کی نظر پڑ بھی گئی تو دیگر تین آدمیوں کے جمع
کرنے تک وہ اپنے اس عمل سے فارغ بھی ہوچکے ہوں گے سوچنے کی بات ہے! اسلام
نے نکاح جس کے ہزاروں گواہ بن سکتے ہیں وہاں دو ہی گواہ رکھے ہیں اور زنا
جس کا ایک گواہ بھی ملنا مشکل ہے اس کے ثبوت کے لیے بیک وقت چار گواہ مانگے
ہیں۔
2……یہ چار گواہ اپنی گواہی میں معتبر بھی ہونے چاہییں اگر ان میں سے کوئی
گواہ جھوٹا ثابت ہوا تو اُسے قاضی اَسّی(80) کوڑوں کی سزا دے گا اسے اصطلاح
میں حدقذف کہتے ہیں اور اس ڈر سے کوئی آدمی بغض، حسد عداوت، کینہ کو بنیاد
بناکر جھوٹا الزام لگا ہی نہیں سکتا۔
3……ان گواہوں کی گواہی کے بعد زنا ثابت ہوجانے پر جو شرعی سزا دی جائے گی
اس کی تکمیل سے پہلے اگر کوئی گواہ اپنی گواہی سے دستبردار ہوجائے تو زانی
اور زانیہ کی سزا بھی موقوف ہوجائے گی وغیرہ وغیرہ۔ مندرجہ بالا ثبوت کی
شرائط کی روشنی میں زنا کی سزا جو رکھی گئی ہے وہ درج ذیل ہے:
(۱) زانی اور زانیہ اگر غیرشادی شدہ ہیں تو اُنہیں سوسو(100) کوڑوں کی سزا
دی جائے گی۔
(۲) اگر زانی اور زانیہ شادی شدہ ہیں تو زنا ثابت ہونے کی صورت میں اُنہیں
ایک گڑھا کھود کر اُس گڑھے میں کھڑا کیا جائے گا اور عوام الناس کو جمع
کرکے کہا جائے گا کہ انہیں اس وقت پتھر سے مارا جاتا ہے جب تک کہ ان کی موت
واقع نہ ہوجائے۔ اصطلاح میں اس کو سنگسار کرنا کہتے ہیں۔
زنا کی سزاکے بارے میں ایک غلط فہمی:
مسلمان تو شرعی سزا سے کسی صورت میں انکار نہیں کرسکتا چاہے اس کی سمجھ میں
آئے یا نہ آئے۔ لیکن دورِحاضر میں بعض گمراہوں کی طرف سے یہ غلط فہمی
پھیلائی جارہی ہے کہ زنا کے ثبوت پر دی جانے والی اسلامی سزا ایک وحشیانہ
فعل ہے (نعوذباﷲ) جبکہ اگر قتل کر دینا ہی مقصود ہے تو آج دیگر کئی آسان
ذرائع یہ مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس وحشیانہ سزا کا کیا جواز ہے؟
ان کی خدمت میں یہ مؤدبانہ عرض ہے کہ جب اسلام نے اس سزا کو نافذ فرمایا اس
وقت بھی قتل کردینے کا دوسرا آسان ذریعہ موجود تھا یعنی تلوار سے اس کا سر
قلم کردیا جاتا لیکن اس ذریعے کے موجود ہونے کے باوجود سنگسار کی سزا کا
نافذ ہونا ایک بہت بڑی مصلحت کی وجہ سے ہے جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اگر
کوئی گواہ منحرف ہوجائے تو سزا موقوف ہوجائے گی۔ بتلائیے! تلوار سے قتل
کردینے کی صورت میں اس مصلحت پر عمل کیا جاسکے گا؟ زانی یا زانیہ گواہوں کے
نہ ہونے کی صورت میں اپنے اس زنا کے فعل سے منکر ہوجاتے ہیں تو بھی اُن کی
سزا موقوف ہوجائے گی۔ بتلائیے! تلوار سے قتل کرنے کی صورت میں اس پر عمل
کیا جاسکتا تھا؟ لہٰذا اس عقلی دلیل کے بعد منقول شدہ اسلامی، شرعی سزا کو
تسلیم کرلینے میں ہی عافیت ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی نافذ کردہ حد ہے اور اس کے
بارے میں شک و شبہ یا انکار کرنا اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال دینے کے
مترادف ہے۔ |
|