خیالی پلاؤ

اللہ بخشے پہا خادم بڑے ہنس مکھ اور جی دار قسم کے بندے تھے۔ خوش حالی سے تہی دست ہوتے ہوئے بھی‘ انہیں کبھی کسی نے رنج و ملال کی حالت میں نہ دیکھا۔ منہ میں خوش بول رکھتے تھے۔ کبھی کسی کو معلوم نہ ہو سکا کہ اندر سے کتنے دکھی ہیں۔ ان کی بیگم فیجاں‘ اتنی ہی سڑیل اور بدمزاج تھی۔ کردار کی بھی صاف ستھری نہ تھی۔ مزے کی بات یہ کہ گھر سے کبھی کسی نے دونوں کی اونچی آواز تک نہ سنی تھی۔ یہ تو محض خوش فہمی ہو گی کہ ان کے درمیان تلخی نہ ہوتی ہو گی۔

ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے لاڈ پیار کر رہے تھے۔ منہ سے بھی بہت کچھ کہے جا رہے تھے۔ کہہ رہے تھے‘ میں اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بناؤں گا‘ پھر سونے کے سہرے سجا کر‘ ہاتھی پر بٹھا کر‘ پیچھے گاڑیوں کی قطار ہو گی‘ بہو بیانے جاؤں گا۔ اس کی شادی پر بٹیروں کے گوشت کی دیگیں چڑھیں گی۔
ساتھ میں بیسیوں بکرے زبح کر ڈالے۔ میٹھے میں بھی بہت ساری چیزیں دستر خوان پر سجا دیں۔

میں کچھ دیر تو ان کی آسمان بوس باتیں سنتا رہا۔ پھر مجھ سے چپ نہ رہا گیا‘ میں نے پوچھ ہی لیا‘ پہا جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہو سکے گا۔ میری طرف انہوں نے ہنس کر دیکھا اور کہا‘ جب خیالی پلاؤ پکایا جا رہا ہو تو راشن رسد کی کیوں کمی رکھی جائے۔ یہ کہہ کر ان کی آنکھیں لبریز ہو گیئں‘ ہاں منہ سے کچھ نہ بولے۔

میں نے سوچا‘ کہہ تو ٹھیک رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر صاحبان ووٹ کی حصولی کے لیے بڑے خیالی پلاؤ پکاتے ہیں۔ راشن رسد کی اس میں کمی نہیں چھوڑتے۔ ایسے ایسے نقشے کھنچتے ہیں‘ کہ شداد کی ارم بھی کوسوں کے فاصلے پر چلی جاتی ہے۔ امن و سکون کی وہ فضا‘ خیالوں اور خوابوں کو سکھ چین سے نوازتی ہے۔ عملی طور پر بھوک‘ دکھ‘ درد اور مصیبت ان کے کھیسے لگی ہے۔ ہاں البتہ یہ رشک ارم دنیا‘ ان لیڈروں کی دنیا میں ضرور بسی چلی آتی ہے۔ گماشتے انہیں سب اچھا کا سندیسہ سناتے آئے ہیں۔

اگر عورت چاہے تو صفر کو بھی‘ سو کے مرتبے پر فائز کر سکتی ہے۔ اگر الٹے پاؤں چلنے لگے تو سو کو صفر بھی نہیں رہنے دیتی۔ دوسرا گریب صرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے‘ اس سے آگے اس کی اوقات و بسات ہی نہٰیں ہوتی۔ فیجاں کو تو اہل اخگر سے‘ موج مستی سے ہی فرصت نہ تھی‘ شوہر اور بچوں پر کیا توجہ دیتی۔ وہ ملکی لیڈر صاحبان کے قدموں پر تھی۔

ایک روز پتا چلا‘ اس نے پہا خادم سے طلاق لے لی ہے اور کسی کے ساتھ چلی گئی ہے۔ پہا خادم اکیلا ہی زندگی کی گاڑی چلاتا رہا۔ ایک روز شراب کے نشہ میں دھت‘ ایک سیٹھ صاحب کی گاڑی کے نیچے آ کر‘ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ بچے در بہ در ہو گئے۔ جس بچے کو وہ ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا‘ منڈی میں پلے داری کرنے لگا۔ بعد میں لاری اڈے ہاکری کرنے لگا۔ اس کی ایک مزدور کی بیٹی سے شادی ہو گئی۔ اللہ نے اسے چاند سا بیٹا عطا کیا۔ بےشک باپ کی طرح بڑا محنتی ہے اور آج کل باپ کے سے خیالی پلاؤ پکاتا ہے۔ اس کی بیوی سگھڑ ہے‘ عابی کی وفادار بھی ہے۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ اس کے خیالی پلاؤ کسی حد تک سہی‘ منزل پا ہی لیں۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.