حضرت عمر ؓ کا خطبہ ءِ خلافت

حضرت ابوبکر صدیق ؓ یا ر غار نے مسلمانوں پر جو عظیم ترین احسان کیا وہ یہ تھا کہ حضرت عمر ؓ کو خلیفہ نا مزد کر نا اور پھر حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنی نا مزدگی کو اسطرح سچ کر دیا کہ اسلام کی عظمت اور شان کو انتہائی بلندیوں پر لے گئے جب بھی کو ئی شخص حکمرانی کے تخت پر بیٹھتا ہے تو اُس کے سامنے کچھ مقاصد اور خواب ہو تے ہیں جن کو وہ اپنی فہم و فراست عقل و دانش کردار کی بلندی سے سچ کر دکھا تا ہے اپنے مقاصد اور لائحہ عمل سے وہ اپنے پہلے خطاب سے لوگوں کو آگاہ کر تا ہے حکمرانی پر بیٹھنے کے بعد پہلے خطاب سے ہی کسی حکمران کی آنے والی حکومت کا پتہ چل جاتا ہے کہ اُس کااسلوب حکومت کیسا ہو گا وہ انفرادی اور اجتماعی سوچ کے حوالے سے کیسا ہو گا وہ پہلے حکمران کے طرز عمل یا انداز حکمرانی کو لے کر چلے گا کیا وہ اپنا نیا طرز حکومت اور منصوبے لے کر آیا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پہلا رسمی خطاب اصل میں منشورحکومت ہی ہو تا ہے فاتح ایران و روم ایسے عظیم حکمران تھے کہ جن کا حکم دریائے نیل بھی مانتا تھا اور اگر ان کے دور حکومت میں کبھی زلزلہ آیا تو انہوں نے زمین کودبا کر کہا کیوں ہل رہی ہو کیا میں انصاف نہیں کر تا یہ آگ کے پیچھے دوڑ پڑتے ہیں کہ تم کسی کے گھر کو کیوں جلا رہی ہو کیا میں انصاف نہیں کر تا عظیم الشان سلطنت کے اکلوتے وارث حکمران ہو نے کے با وجود پیکر عاجزی بنے رہتے کپڑوں میں کئی کئی پیوند لگے ہو تے آج بھی حکمرانوں کی لسٹ اگر بنا ئی جا ئے تو سرفہرست جن کا نام آتا ہے وہ حضرت عمر فاروق ؓ ہیں آپ ؓ نے مسند خلافت پر بیٹھنے سے پہلے جو پہلا خطبہ خلافت ارشاد کیا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے یا ر غار حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے احترام میں منبر کا دوسرا زینہ چھوڑ کر تیسرے زینے پر کھڑے ہو تے تھے کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ آقائے دو جہاں ﷺ کے احترام میں پہلا زینہ چھوڑ کر دوسرے زینے پر کھڑے ہو تے تھے حضرت عمر فاروق ؓ نے بہت بڑے اجتماع سے خطاب فرمایا ۔ لوگو میں تمہیں میں سے ایک انسان ہوں اگر مجھے خلیفہ رسول ﷺ کی نافرمانی گوارا ہو سکتی تو میں ہر گز یہ ذمہ داری نہ لیتا مجھے معلوم ہے لوگ میری سختی سے ڈرتے ہیں اور میری دوستی سے لرزا بر اندام رہتے ہیں جو کو ئی بھی یہ احساس رکھتا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے مجھے رسول کریم ﷺ سے شرف صحبت حاصل رہا ہے میں آپ ﷺ کا ادنی مطیع اور خادم تھا اور کسی بھی نرمی اور رحمدلی میں آپ ﷺ تک نہیں پہنچ سکتا با رگاہِ رسالت ﷺ میں میری حیثیت ایک برہنہ تلوار کی تھی حضور ﷺ جب چاہتے مجھے نیام میں رکھ لیتے اور جب چاہتے اِذن کار عطا فرما دیتے میں آپ ﷺ کی خدمت میں اسی طرح رہا یہاں تک کہ اﷲ تعالی نے آپ ﷺ کو اپنے ہاں یا د فرما لیا آپ ﷺ آخر وقت تک مجھ سے راضی رہے اِس پر میں اﷲ تعالی کا شکر گزار ہوں اس کے بعد مسلمانوں کی خدمت ابو بکر صدیق ؓ کے سپرد کی گئی جن کے تحمل اور نر می سے کسی کو انکا ر نہیں اور میں بھی ان کا اطاعت کیش کا مددگار اور معاو ن رہا میں اپنی سختی کو ان کی نرمی میں سمو دیتا تھا یہاں تک کہ اﷲ تعالی نے انہیں ہم سے جدا کر دیا وہ دم آخر تک مجھ سے خوش رہے اور اے لوگوں اب تمہارے معاملات کی ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے دراصل یہ میری تمہارے ذریعے اور تمہاری میرے ذریعے آزمائش ہے تمہیں معلوم ہو نا چاہیے کہ میری سختی اب نرمی میں بد ل گئی ہے لیکن ان لوگوں کے لیے بدستور قائم ہے جو لوگوں پر ظلم کر تے ہیں جو لوگ امن سلامتی سے رہتے ہیں اور ایمانی جرات کا اظہار رکھتے ہیں ان کے لیے میں بہت نرم ہوں اگر کو ئی کسی پر زیا دتی کر ے گا تو میں اس وقت تک اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اُس کا رخسار زمین پر نہ لگا دوں اور دوسرے رخسار پر اپنا پا ؤں نہ رکھ دوں تا آں کہ وہ حق کے سامنے ہتھیا ر ڈال دے لوگو مجھ پر تمہارے چند حقوق ہیں یہ ضرور حاصل کرو مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ جب تم میں سے کو ئی میرے پا س آئے تو اپنا حق لے کر جا ئے مجھ پر تمہارا یہ حق ہے کہ میں تم سے خراچ اور غنیمت سے زیا دہ تمہا رے مال سے کچھ نہ لوں مجھ پر تمہارا حق یہ ہے کہ میں تمہا رے عطیات اور وظائف میں اضافہ اور تمہا ری سرحدوں کی حفاظت کروں اور تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ جب تک تم جنگ پر جاؤ تو میں ایک با پ کی طرح تمہا رے مال اہل و عیال کی حفاظت کروں اﷲ کے بندو اﷲ سے ڈرو مجھ سے درگزر کر کے میرا ہا تھ بٹا ؤنیکی کی تکمیل اور برائی سے گریز میں میری مدد کرو اور تمہا ری جو خدمات اﷲ تعالی نے میرے سپرد کی ہیں ان کے متعلق مجھے تنبیہ اور نصیحت کرو میں تم سے مخا طب ہوں اور اپنے اور تمہا رے لیے خدا سے مغفرت کا طالب ہوں ۔ یہ تھا عمر فاروق ؓ کا پہلا خطبہ ءِ خلافت اور پھر اہل دنیا نے دیکھا اور تا ریخ کے اوراق فخر محسوس کر تے ہیں عمر فارو ق ؓ کی حکمرانی کے کارناموں کا اظہار کر کے ۔ محبوب کی جو چیز پیا ری لگتی ہو تو محب کی نظر میں بھی وہ محرم اور عزیز ہو جا تی ہے یہی دستور محبت ہے حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں تمام ازواج مطہرات ؓ کو دس ہزار اور حضرت عائشہ ؓ کو با رہ ہزار سالانہ وظیفہ دیتے تھے اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ اماں عائشہ ؓ کو دو ہزار اِس لیے زیا دہ دیتا ہوں کہ وہ سرور دو جہاں ﷺ کو سب سے زیا دہ محبوب تھیں حضرت عمر فاروق ؓ کے بھائی زید کے پروتے کا نام بھی محمد تھا ایک مرتبہ کسی نے ان کو پکار کر برا بھلا کہا عمر فاروق ؓ کو جب پتہ چلا تو تڑپ اٹھے اس کو فورا بلا کر کہا اِس کا نام تبدیل کرو اسم محمد کو یہ کبھی گالیاں نہیں پڑ سکتیں اور اُس بچے کا نام عبدالرحمان رکھ دیا آپ ؓ کو اﷲ کی رضا اِس قدر عزیز تھی کہ ایک دفعہ کہنے لگے اہل کو فہ نے مجھے بالکل تھکا مارا ہے میں کسی نرم اور رحم دل آدمی کو حاکم بنا کر بھیجتا ہوں تو وہ اس سے گستاخیاں کر تے ہیں اور اگر کسی سخت گیر حاکم کو تو وہ اس کی شکا یتیں کر نے لگتے ہیں ایک شخص بو لا امیر المومنین ؓ میں ایک طا قت ور امانت دار اور اطا عت گزار شخص کو جانتا ہوں جو تمام خو بیاں رکھتا ہے اس کو اگر آپ ؓ حاکم لگا دیں تو وہ آپ ؓ کو خوش اور مطمعن کر دے گا یہ شخص خوبیوں سے مالا مال ہے حضرت عمر ؓ نے پو چھا تم کس شخص کا ذکر کر رہے ہو تو وہ شخص بو لا عبداﷲ بن عمر ؓ تو آپ ؓ بو لے استغفراﷲ یہ تقرر ہر گز نہ کروں گا مجھے تو صرف اﷲ تعالی کی حقیقی رضا مطلوب ہے ایک جگہ فرماتے ہیں اگر ملت کے مفاد میں مجھے ایک گورنر کی جگہ یعنی اس کو ہٹا کر دوسرا گورنر لگا نا پڑے تو یہ میرے لیے بالکل معمولی بات ہو گی ۔ حضرت عمر ؓ نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اگر کسی نے انہیں ابو بکر ؓ پر ترجیح دی تو وہ اسے چالیس کو ڑوں کی سزا دیں گے ایک بار حضرت عمر ؓ کو جمعہ میں کچھ دیر ہو گئی چنانچہ منبر نبوی ﷺ پر جلو ہ گر ہو تے ہی انہوں نے قوم سے دیر پر آنے پر معذرت چاہی اور فرمایا کہ دراصل ان کے پاس ایک قمیض تھی اُس کو دھونے اور سوکھنے میں دیر ہو گئی عبداﷲ بن عمر ؓ فرماتے ہیں ایک بار میں نے ایک اونٹ خریدا اور پھر اُسے سرکاری چراگاہ میں بھیج دیا جب وہ خو ب مو ٹا تا زہ ہو گیا تو میں اُسے مدینہ لے آیا تو میرے والد حضرت عمر ؓ آگئے اور مو ٹے تا زے اونٹ کو دیکھ کر بو لے یہ اونٹ کس کا ہے میں دوڑ کر سامنے آیا اور کہا میرا اور کیسا ہے تو امیر المومنین ؓ بو لے ہاں کہا گیا ہو گا کہ یہ امیر المومنین ؓ کے بیٹے کا اونٹ ہے اِس کی زیا دہ حفاظت اور خدمت کی گئی ہو گی اور بازار میں بھی کہا گیا ہو گا یہ امیر المومنین کے بیٹے کا ہے اِس لیے اصل قیمت مجھے دو اور زائد نفع جو بھی ملا ہے اسے بیت المال میں جمع کراؤ ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736238 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.