یادرہے کہ آج سے چھ ماہ قبل افغانستان میں
امن کی خاطر افغانستان،پاکستان،چین اورامریکاکے مابین ہفتہ وارملاقاتوں کا
سلسلہ''کوآڈیلیٹرل گروپ''کے نام سے جب شروع ہواتوامیدتھی کہ چاردہائیوں کے
بعدبالآخراس خطے کےعوام کوخون کی ہولی سے نجات مل جائے گی لیکن انہی دنوں
بھارت نے اپنے مربّی کی شہہ پراس خطے میں اپنی ناکامی کودیکھتے ہوئے افغان
حکومت کے ایک دھڑے کے ذریعے ملاعمر کی ہلاکت کارازافشاء کرکے امن کے اس
سارے عمل کوسبوتاژکردیا۔یقیناً اس سازش کے پیچھے قصرسفیدکے فرعون کواپنے
دیگرفوائد کے ساتھ ساتھ انتخابات میں کامیابی بھی مقصودتھی جس کیلئے
ملامنصورکو ایک سازش کے تحت ایران سے واپسی پرپاکستان کی حدودمیں ڈرون حملے
میں ہلاک کرکے وہ افغانستان میں اپنے وہ مقاصدحاصل کرناچاہتاتھاجس کووہ ایک
طویل جنگ میں حاصل نہ کرسکاتھالیکن یہ تمام سازشیں طالبان کوشکست نہ دے
سکیں اورافغان طالبان نے بڑے سرعت کے ساتھ ایک مرتبہ پھرافغانستان میں اپنے
تابڑتوڑحملوں میں اپنی برتری کابھرپوراحساس دلاتے ہوئے امریکااوراس کے
اتحادیوں کومجبورکردیاکہ وہ یہاں اپنی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے مستقل
طورپرکبھی بھی قیام نہیں کرسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا،بھارت اوراس کے اتحادیوں نے پچھلے کئی ماہ سے ایک
مخصوص بین الاقوامی سازش کے تحت افغانستان میں اپنے موجودہ اہداف کے حصول
کیلئے پاکستان کوایک سیاسی انتشارمیں مبتلاکرکے اقوام عالم کی نظروں سے
توجہ ہٹانے کی بھرپورکوشش کی لیکن افغان طالبان نے ایک مرتبہ پھراپنی مستقل
مزاجی اورجارحانہ عمل سے امریکاکومجبورکردیاہے کہ وہ اسے ہرحال میں افغان
سرزمین سے مکمل طورپراپنابسترگول کرناہوگا اوراس خطے میں مستقل امن
کاواحدراستہ افغان عوام ہی کوکرناہے۔افغان طالبان نے اپنے اس ایجنڈے کوآگے
بڑھانے کیلئے قطرمیں ہونے والے مذاکرات کے بعدچین،سعودی عرب اورایران کیلئے
اپنے نمائندے مقررکردیئے ہیں تاکہ معاملہ آگے بڑھایا جا سکے اوراس حوالے سے
باضابطہ اعلان بعدمیں کیا جائے گااوران ممالک سے امریکی انخلاء کیلئے مدد
بھی طلب کرلی ہے۔
اس حوالے سے طالبان کے امیرملاعمرکے بھائی عبدالمنان نے قطرمیں امریکی
اورافغان حکام سے مذاکرات کئے۔پہلے دونوں فریقین نے اس کی تردیدکی لیکن اب
دونوں جانب سے اس کی تصدیق ہوگئی ہے اوراب ایسالگ رہاہے کہ طالبان آئندہ
ٹھوس مذاکرات کیلئے مشاورت کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تین رکنی وفد نے
پاکستان کوقطرمیں ہونے والے حالیہ مذاکرات کے حوالے سے اسلام آبادپہنچ
کربریفنگ دی۔ایک پاکستانی اہلکار کے علاوہ خودافغان ذرائع نے بتایاکہ
طالبان وفدنے قطرمیں امریکااورافغان مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کومکمل
اعتماد میں لینے کیلئے پاکستان کادورۂ کیا۔ طالبان رہنماء کے بقول پاکستان
جانے والے اس وفد میں ملاسلام حنیفی اورملاجان جودونوں طالبان دورِحکومت
میں وزیررہ چکے ہیں،کے علاوہ مولوی شہاب الدین دلاوربھی شامل تھے جوکابل
میں طالبان حکومت کے دورمیں سعودی عرب اورپاکستان میں افغان سفیرکے فرائض
سر انجام دے چکے ہیں۔
پاکستانی سیکورٹی اداروں میں سے ایک اعلیٰ اہلکارنے بھی تصدیق کی کہ
پاکستانی حکام اورافغان طالبان کے درمیان حالیہ ملاقاتیں امن مذاکرات کو
آگے بڑھانے کیلئے انتہائی مفید ثابت ہوں گی کیونکہ پاکستان اس سلسلے میں
اپنے ہمسایہ ملک افغانستان میں قیام امن کویقینی بنانے کیلئے اپناکردارادا
کر رہاہے اورہم پچھلے ایک سال سے کابل حکومت اورطالبان کے درمیان مذاکرات
ممکن بنانے کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت
میں ہوئی جب گزشتہ دنوں اس حوالے سے رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ افغانستان
میں قیام امن کی غرض سے طالبان اورافغان حکومت کے درمیان قطرمیں خفیہ
مذاکرات کے نئے دورکاآغازہوگیاہے۔دوسری جانب افغان صدارتی محل کے ذرائع نے
بھی اعتراف کیاتھا کہ افغان انٹیلی جنس کے چیف محمد معصوم استنگزئی
اورنیشنل سیکورٹی ایڈوائزرمحمدحنیف اتمرنے بھی قطرمیں ہونے والی ایک ملاقات
میں شرکت کی تاہم طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہدنے اپنے ایک بیان میں اس
قسم کے مذاکرات یاملاقات کی رپورٹس کومستردکردیاتھا۔
طالبان کے ترجمان نے مذاکرات کے حوالے سے یہ بیان دیاتھاکہ ہمارے مؤقف میں
کوئی تبدیلی نہیں آئی اورطالبان اپنی شرائط پرہی مذاکرات میں حصہ لیں گے ۔ہماری
پالیسی اس حوالے سے بالکل واضح ہے تاہم یہ امربھی قابل ذکرہے کہ وزیراعظم
کے مشیرخارجہ سرتاج عزیزنے افغان سفیرعمرزخیل وال کی جانب سے افغان طالبان
کے وفدکی جانب سے افغان طالبان کے وفدکی پاکستان آمدسے لاعلمی کااظہارکرتے
ہوئے اس کوبے بنیاد قراردیتے ہوئے مسترد کرتے ہوئے کہاکہ وفودآتے رہتے
ہیں،اس سے پہلے بھی کئی آئے تھے،اس لئے میں اس کی تصدیق کرنے سے قاصرہوں۔
سرتاج عزیزکاکہناتھاکہ افغانستان میں امن کیلئے ہرکوئی اپنے تئیں کوششیں
کررہاہے اوراس مقصدکیلئے کام کرنے والاچارملکی گروپ بھی کوششیں کررہاہے
تاکہ اس خطے میں جلدامن قائم کیاجاسکے تاہم پچھلے دنوں بالآخرسرتاج عزیزنے
اس وفدکی آمدکی تصدیق کردی۔
دوسری جانب افغان طالبان کے پاکستان آنے والے وفدنے پاکستانی حکام کوبتایا
کہ امریکاافغانستان سے انخلاء چاہتاہے تاہم اس کیلئے امریکاسخت شرائط عائد
کرناچاہتاہے اس لئے خطے کے ممالک اس حوالے سے طالبان کی مددکریں۔افغان
طالبان نے اس حوالے سے چین،ایران اورسعودی عرب کیلئے نمائندے مقررکرنا شروع
کردیئے ہیں ۔افغان طالبان کے سیاسی دفترقطرکے سابق رکن مولوی نیک
محمدکاکہناہے کہ انہیں باضابطہ طور پرایران کیلئے طالبان کانمائندہ مقرر
نہیں کیا گیاہے تاہم انہوں نے بھی ایسی اطلاعات سنی ہیں کہ انہیں طالبان کی
طرف سے ایران کیلئے رسمی طورپر نمائندہ مقررکیاجارہاہے۔مولوی نیک محمدنے
ملااختر منصورکے امیربنتے ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیاتھالیکن اب افغان
طالبان مولوی نیک محمدکوایران کیلئے ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں جبکہ چین
اور سعودی عرب کیلئے نامزدنمائندوں کے ناموں کوخفیہ رکھاجارہاہے تاہم اہم
ذرائع کے مطابق اگرطالبان مذاکرات کافیصلہ کرلیتے ہیں توچین اورسعودی عرب
کے نمائندوں کانام بھی ظاہرکردیاجائے گا۔افغان طالبان کی کوشش ہے کہ وہ بھی
افغانستان کے اندراپنے حملوں کے ساتھ ساتھ مذاکرات کیلئے دروازے کھلے رکھے
تاہم حزبِ اسلامی کے معاہدے کے بعدافغان طالبان پرمذاکرات کیلئے دباؤ بڑھ
گیاہے اورطالبان کے اندربھی مذاکرات کیلئے آوازیں اٹھناشروع ہوگئیں ہیں۔
حال ہی میں طالبان کے قطردفترکے سابق سربراہ طیب آغاکی جانب سے طالبان کے
امیرہیبت اللہ اخوانزادہ کے نام لکھاگیاخط اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات کے مطابق۲۰۱۶ء میں افغانستان میں مجموعی
طورپردولاکھ ایک ہزارہیکٹررقبے پر پوست کاشت کی گئی جس سے افیون کی کاشت
میں ۴۳فیصد اضافہ ہواہے۔یادرہے کہ افغانستان کاشماردنیامیں سب سے زیادہ
پوست پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتاہے،جس سے بعدمیں ہیروئن بنائی جاتی
ہے۔یہ پہلاموقع ہے کہ افغانستان میں طالبان نے بھی اپنے زیرِکاشت علاقوں
میں پوست کی کاشت پرٹیکس عائدکیاہے جوان کی شدت پسند سرگرمیوں کے لیے رقم
فراہم کرنے کااہم ذریعہ ہے۔پوست کے پودوں سے حاصل ہونے والی افیون
کااستعمال درد کش ادویات بنانے میں ہوتا ہے، اگرچہ کئی ممالک ادویات کی
تیاری کیلئے پوست خودکاشت کرتے ہیں لیکن افغانستان سے حاصل ہونے والی پوست
زیادہ تر منشیات بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔افغانستان میں حکومت نے
بظاہرپوست کی کاشت ختم کرنے کی پالیسی نافذکی ہے لیکن حکومتی زیرِکنٹرول
علاقوں میں افیون کی کاشت میں اضافہ پرحکام نے اپنی آنکھیں بندکررکھی ہیں۔
صرف افغانستان کے جنوبی علاقے میں مجموعی پیداوارکا۷۸ فیصدحصہ پوست کاشت
ہوتی ہے۔طالبان کے زیرِکنٹرول جنوبی صوبے ہلمندمیں تقریباً۸۰ہزارہیکٹررقبے
پرپوست کاشت کی گئی ہے۔ ۲۰۱۴ءمیں افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلا کے
بعدطالبان نے ہلمند میں کنٹرول حاصل کرلیاتھا۔اہم مستندذرائع کے مطابق سی
آئی اے بھی اس بہتی گنگاسے خوب فائدہ اٹھارہی ہے جس کی بناءپرافغانستان میں
اپنے قیام کوطول دینے کیلئے مختلف سازشوں میں مصروف ہے لیکن شنیدیہی ہے کہ
امریکی انتخاب کے بعدافغانستان سے باقی ماندہ امریکی فورسزکامکمل انخلاء
شروع ہوجائے گا۔ |