خادم اعلیٰ نہیں وزیراعلیٰ چاہیے

ملک میں کوئی بھی ادارہ اس وقت اپنا کام بہتر انداز میں نہیں کررہا بلکہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ تمام اداروں کے سربراہ حکمرانوں کے ذاتی ملازم بن چکے ہیں اور وہ صرف انہی کی خدمت پر معمور ہیں رہی بات عوام کی وہ اذیت کی موت مرنے اورسسک سسک کر جینے کی حد تک آزاد ہے خوشحال زندگی صرف حکومت میں موجود افراد اور انکے حواریوں کے لیے ہی رہ گئی ہے کسی بھی سرکاری ادارے کی کارکردگی کو دیکھ لیں وہاں پر بیٹھے ہوئے جونیئر افسران نے اعلی عہدوں پر قبضہ جما رکھا ہے کیونکہ ایسے چھوٹے عہدوں کے چھوٹے افسران حکمرانوں کے ذاتی ملازم بن کرکام کرتے ہیں وہ عوام کو اپنے آپ سے اور حکمرانوں سے دور رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں اور رہی سہی کسر حکمرانوں نے بادشاہ بن کر پوری کردی ہے ملک کے کسی بھی شہر سے جب انکی شاہی سواری گزرتی ہے تو سڑکیں خالی کروالی جاتی ہیں مائیں رکشوں اور گاڑیوں میں بچے پیدا کر رہی ہوتی ہیں اور مریض ایمبولینس میں دم توڑ جاتے ہیں اگر کوئی مریض خو ش قسمتی سے ہسپتال پہنچ بھی جائے تو وہ وہاں پر موجود ڈاکوؤں کے ہاتھوں مرجاتا ہے مشرف کی آمریت نما جمہوریت میں جب چوہدری پرویز الہی خادم اعلی نہیں بلکہ وزیراعلی پنجاب ہوا کرتے تھے تو اس وقت تمام بڑے ہسپتالوں میں الگ سے ایمرجنسی بنا کر ادویات مفت کردی گئی تھی سرکاری سکولوں میں مفت کتابوں سمیت تعلیم بھی اعلی تھی جبکہ حادثات کی صورت میں زخمیوں کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ریسکیو1122جیسی لاجواب سروس متعارف کروائی گئی بے حسی کے اس دور میں جب زخمی سڑک پر پڑا تڑپ رہا ہوتا ہے اور اسکو کوئی شخص اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال نہیں پہنچا تا کہ کہیں خون کے چھینٹوں سے اسکی گاڑی کی سیٹیں خراب نہ ہوجائیں اور بعد میں رہی سہی کسر موٹی توند والے پوری کردیں تو ایسے میں آمریت دور کا یہ تحفہ کسی غنیمت سے کم نہیں ہے جبکہ موجودہ جمہوریت نما آمریت میں ہر طرف قانون اور عوام کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے سفارش اور رشوت کا نظام اس حد تک مضبوط ہوچکا ہے کہ میرٹ اور ایمانداری کے لفظ صرف کتابوں میں پڑھنے کے لیے رہ گئے ہیں ہر ادارہ تباہ ہوچکا ہے اور وہاں پر بیٹھے ہوئے افسران اور اہلکاروں میں ضمیر نام کی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہر فرد صرف پیسے کمانے کے لیے وقت گذاررہا ہے فائلیں اس وقت تک آگے نہیں پہنچتی جب تک انہیں پہیے نہ لگا دیے جائیں اسی تباہی کو دیکھ کر ہماری عدالتیں بھی کبھی کبھار اپنے ریمارکس دیتی رہتی ہیں ابھی کل ہی کی بات ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جناب شجاعت علی خان نے عدالتی احکامات پر حکومتی عدم دلچسپی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی گڈ گورننس کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہی شہریوں سے امتیازی سلوک برتا جارہا ہے اگر حکومت نے آئین اور عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں کرنا تو اداروں کو بند کردیتے ہیں ۔ہمارے حکمرانوں نے آئین کولونڈی اور عدالتی فیصلوں کو مذاق بنا رکھا ہے آج عدلیہ فیصلے تو دے رہی ہے مگر حکومت کو ان فیصلوں کو کوئی پرواہ نہیں جمہوری دور میں عوام اپنے حکمران سے دور ہیں حکومت کے وزیر ،مشیر اور اراکین اسمبلی اپنے بادشاہوں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے درباریوں کی خوش آمد میں مصروف ہیں اور درباری اپنے آقاؤں کے تلوے چاٹنے میں مصروف ہیں جبکہ عوام کی پریشانیاں ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی کبھی وہ اپنے حق کے لیے مال روڈ پر پہنچ جاتے ہیں تو کبھی جی ٹی روڈ کو بلاک کردیتے ہیں،حکمران اپنے گھر میں خاموشی سے یہ سب تماشادیکھ رہے ہوتے ہیں لاہور میں خادم اعلی کے دفتر کے باہر کلب چوک میں دھرنے پر بیٹھے ہوئے ڈاکٹروں کو پانچ روز ہوچکے ہیں مجال ہے کہ حکومت نے انکی سنی ہو عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آنے والوں نے عوام کے ہی سر کچلنا شروع کردیے ہے بجائے اسکے کہ ہر آدمی کے حقوق اسکی دہلیز پر اسے ملتے یہاں پر تو رات دن کے احتجاج پر بھی حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی یہ لاہور ہے جسے صوبائی دارالحکومت بھی کہتے ہیں جہاں خادم اعلی اس کے بے اختیارے وزیر اور بغیر کسی کام کے تعینات مشیروں سمیت حکومتی نمک خواروں کی فوج موجود ہونے کے باوجود شہریوں کو اپنے چھوٹے سے چھوٹے مسائل کے حل کے لیے بھی پنجاب اسمبلی کے باہر مظاہرہ کرنا پڑتا ہے مگر اسکے باوجود بھی انکے مسائل حل نہیں ہوتے جبکہ پنجاب کے دور دراز کے علاقوں میں جہاں زندگی کی سانسیں بھی گن گن کرلینا پڑتی ہے جہاں ایک یا دو روپے کے جھگڑے پر زندگی ختم کردی جاتی ہے جہاں جاگیردار اور سرمایہ دار خدا بنے بیٹھے ہیں جہاں کا کمی آج بھی زمیندار کے پاؤں میں بیٹھتا ہے جہاں گدھے اور انسان ایک ہی جگہ پانی پیتے ہیں جہاں ایک سوٹ اور جوتی عمر بھر ساتھ نبھاتی ہے جہاں انسان آج بھی دو وقت کی روٹ کے لیے جانور کی طرح کام کرتا ہے جہاں تعلیم شعور کے لیے نہیں بلکہ نوکری کے لیے حاصل کی جاتی ہے جہاں کسی کے سر میں چوٹ لگ جائے تو اسے چار سو میل کا سفر طے کرکے جنرل ہسپتال لاہور لایا جاتا ہو اور پھر ہسپتال والے اسکی گائے بھینسیں تک بکوادیں اور پھر وہ اپنے ساتھ ایک لاش لیکر واپس چلے جائیں اور حکمران اپنے آپ کو خادم اعلی کہہ کر تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجائیں تو ایسی جمہوریت سے آمریت سو درجہ بہتر ہے جہاں ناظمین کے زریعے اقتدار اور اختیارات نچلی سطح تک منتقل کردیے جائیں غریب کے لیے علاج اور تعلیم مفت ہو اور آنے والے سیاستدانوں کی تیاری کے لیے جمہوریت کی اصل روح بلدیاتی نظام کی نرسری سے نئے سیاستدان پیدا کیے جارہے ہو تو وہ آمریت، بادشاہی جمہوریت سے بہت بہتر ہے اس لیے ہمیں خادم اعلی نہیں بلکہ وزیراعلی چاہیے جو ہر کسی کی پہنچ میں ہو ۔
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 514799 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.