علامہ اقبال کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے ؟
کیا ان کی وجہ شہرت و عزت صرف شاعر ہوناہے۔یہ درست ہے کہ وہ بہت بڑے فلسفی
تھے۔ وہ ایک قانون دان ، ماہر تعلیم اور سیاست دان بھی تھے ۔ ہسب اپنی جگہ
پربہت اہم ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے امت مسلمہ
کا تعلق قرآن حکیم سے جوڑنے کی کوشش کی ۔ وہ پیامبر قرآن تھے اور میرے
نزدیک یہی ان کی پہچان ہے۔ علامہ نے نے امت کے زوال کے اسباب کا بہت گہرائی
سے سے جائیزہ لیا اور زوال کی بڑی وجہ قرآن سے دوری اور اس پر عمل پیرا نہ
ہونا قرار دیا۔ انہوں نے عمل کا پیغام دیا اور کہا کہ دوبارہ عروج کے لیے
قرآن میں غوطہ زن ہونا پڑے گا۔ انہوں نے غیر قرآنی تصورات کو مسترد کیا اور
عشق مصطفے ٰ ﷺ کی شمع کو قلوب میں منور کرنے کی کوشش کی۔ علامہ نے مغربی
مفکرین اور مادیت کی طرف مائل مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ کی غلط فہمیوں
کا دور کرنے لیے اپنے خطبات پیش کیے۔ ایک ہزار سالہ تاریخ میں وہ پہلے شخص
ہیں جنہوں نے یہ تصور دیا کہ اسلام کو بحیثیت دین کے عملی مظاہرہ کے لیے
ایک الگ مملکت کی ضرورت ہے۔ یہ کسی شاعر کا خواب نہیں تھا بلکہ ان کی قرآن
فہمی کا حاصل تھا۔انہوں نے جو سمجھا قرآن سے سمجھا اور جو کچھ سمجھایا قرآن
سے سمجھایا اسی لئے فکر اقبال کا منبع قرآن ہے۔ وہ برملا کہتے ہیں کہ
گر دلم آ ئینہءِ بے جوہر است ور بہ حرفم غیر قرآن مضمر است
پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن این خیاباں راز فکرم چاک کن
تنگ کن رختِ حیات اندر برم اہلِ ملّت را نگہدار از شرم
روزِ محشر خوار و رسواکن مرا بے نصیب از بو سہ ءِ پا کن مرا
ان اشعار میں اقبال بارگاہ رسالت ؐ میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اﷲ، اگر
میرے دل کا آئینہ جو ہروں سے خالی ہے اور اگر میری باتوں میں قرآن کے علاوہ
کچھ اور ہے تو آپ میری فکر کی عزت کا پردہ چاک کردیں اورایسا انتظام
فرمائیں کہ میرے کانٹے سے آپ کے پھولوں کی کیاری پاک ہوجائے۔زندگی کا لباس
مجھ پر تنگ کر دیجیے اور ملتِ اسلامیہ کے افراد کو میری برائی سے بچائے
رکھیے۔ میرے آقاروز قیامت مجھے ذلیل ورسوا کیجیے اور کہ مجھے اپنے پاوں کے
بو سہ سے بھی محروم رکھیے ۔ اس سے بڑی بات اقبال کہہ نہیں سکتا تھا بلکہ
کسی بھی مسلمان کے لئے یہ آخری حد ہے۔ رسول اکرم ﷺ سے والہانہ محبت ان کے
پیغام کی بنیادہے۔ اقبا ل نے امت مسلمہ کے تن مردہ میں روح پھونکی اور
انہیں اپنے سوز جگر سے آشنا کیا۔ وہ اپنا یہی پیغام دوسروں کو یوں دیتے ہیں
کہ
مقامِ خویش اگر خواہی دریں دہر بحق دل بند و راہِ مصطفیٰ رو
یعنی ا گر اس دنیا میں توبلند مقام حاصل کرنے کی خواہش تو پھر اپنے دل کواﷲ
سے آباد کر اورحضور اکرم ؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوجا۔انہوں نے دراصل
قرآن حکیم کی ایک آیت کی تشریح کی ہے کہ اگر تم اﷲ سے محبت کرنا چاہتے
ہوتومیری پیروی کرو۔مسلماں کیوں پستی کا شکار ہیں، اس پر بڑی لمبی بحثیں
ہوتی ہیں اور طویل تقاریر کی جاتی ہیں لیکن اس دانائے راز نے اسباب زوال
امت صرف ایک شعر میں یوں بیان کیا کہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
انہوں نے نہ صرف امت کے مرض کی درست تشخیص کی بلکہ اس کا علاج بھی ایک شعر
میں یوں تجویز کیا کہ
گر تو می خو اہی مسلمان زیستن نیست ممکن جز بقرآن زیستن
کہ اگر تم دنیا میں عزت چاہتے تو یہ قرآن پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے۔ لیکن
وہ افسوس کا اظہا رکرتے ہیں ہوئے کہتے ہیں کہ اے مسلمان! تو صوفی اور ملا
کے فریب اور کم نگاہی کا غلام ہے اور قرآن حکیم کی حکمت سے پیغام حیات اور
زندگی بسر کرنے کا طریقہ حاصل نہیں کر رہا۔ تمہارا تعلق تو قرآن کی آیات سے
صرف اتنا سارہ گیا ہے کہ تمہارے ہاں کسی پر جب نزع کا عالم ہوتا ہے تو سور
ہ یٰسین کی تلاوت کی جاتی ہے کہ مرنے والے کی جان آسانی سے نکل جائے۔ وہ
فرماتے ہیں کہ
بہ بند صو فی و ملا اسیر ی حیات از حکمت قرآں نگیر ی
بآ یا تش تراکار ی جزایں نیست کہ از یسینِ اْو آساں بمیر ی
علامہ کاہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ہمارا تعلق خدا کی آخری وحی کی
جانب موڑا ہے اور یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔اقبال ہمیں لائحہ عمل
دیتے ہوئے کہتے ہیں
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں اﷲ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
|