وبال دیکھیے

لالے دینو سے‘ اکثر چائے کے کھوکھے پر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ اس کے محنتی اور مشقتی ہونے میں‘ کوئی شک نہیں۔ سارا دن ریڑھی پر سبزی بیچتا اور رات کو ریڑھی گھر ڈک کر‘ یہاں چار یاری میں آ بیٹھتا۔ ہم سب مل کر گپ شپ کرتے‘ ہنسی مذاق بھی خوب چلتا‘ دن بھر کی باتیں ہوتیں‘ سیاسی موضوعات بھی گفتگو میں آ جاتے‘ ذاتی معاملات پر مشاورت ہوتی۔

شقے کو بیوی کی بدسلوکی کے سوا‘ کچھ نہ آتا تھا۔ غریب تو سارے ہی تھے‘ لیکن لبھے پر غربت کچھ زیادہ ہی نازل ہو گئی تھی۔ طافی نے چوں کہ داڑھی رکھی ہوئی تھی‘ اس لیے ہم سب اسے مولوی کہہ کر پکارتے‘ مسلمان جرنیلوں کے کچھ تاریخی اور کچھ پاس سے گھڑ گھڑ کر قصے سناتا۔ اگر پڑھا لکھا ہوتا تو دوھائی کا کہانی کار ہوتا۔ لالے دینو کو اپنے بڑوں کی وڈیائی کے سوا کچھ نہ آتا تھا۔ وہ وہ چھوڑتا‘ کہ ہم سب دھنگ رہ جاتے۔ اکبر بادشاہ بھی جاہ و جلال اور مال و منال میں پیچھے رہ جاتا۔

صدیقا منہ پھٹ بھی ہماری سلام دعا میں شامل تھا۔ اس کا کام ہی ہر اچھے برے‘ سچ جھوٹ پر تنقید کرنا تھا۔
مولوی اور لالے دینو کو تو آڑے ہاتھوں لیتا تھا۔ اس کی تنقید‘ کسی حد تک غلط بھی نہ تھی۔ اس کا کہنا تھا‘ ان جرنیلوں نے اسلام نہیں پھیلایا۔ جرنیل مسلمان ہوں یا غیرمسلم‘ قتل و غارت کا ہی بازار گرم کرتے آئے ہیں‘ ان پر فخر کیسا‘ ہاں داتا صاحب یا ایسے دوسروں نے‘ اپنے عجز و انکسار‘ پیار‘ رواداری‘ بھائی چارے‘ انسانی برابری کے درس سے اسلام پھیلایا ہے۔ اسی طرح لالے دینو سے کہتا‘ او چھوڑو یار‘ جو تم بتاتے ہو‘ وہ ہوں گے‘ دیکھنا تو یہ ہے کہ تم کیا ہو‘ بس ماضی پر اتراتے رہو اور خود صفر رہو۔ یار ہمیں بھی کوئی خاص کرنا چاہیے تا کہ آتی نسل کے کام آ سکے۔

اکثر معاملہ بحث اور پھر تو تکرار کی حدوں کو چھونے لگتا۔ میرا موقف تھا‘ اس بیٹھک کو شغل میلے تک رہنا چاہیے۔ کوشش کے باوجود‘ تو تکرار ہو ہی جاتی۔ اس روز لالا دینو کچھ زیادہ ہی گرم ہو گیا۔ صدیقا بھی تو زبان کو تالہ نہیں لگا رہا تھا۔ صدیقے نے لالے دینو کا گریبان پکڑ لیا۔ لالے دینو نے وٹ کر صدیقے کے سینے میں گھونسہ مارا اور وہ نیچے گر پڑا۔ لالے دینو کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ صدیقہ زمین پر آ رہے گا۔ اب وہ ہی سب سے زیادہ ترلے لینے والوں میں تھا۔ افسوس صدیقا لالے دینو کی ایک نہ سہہ سکا اور اللہ کو پیارا ہو گیا۔ پلس آئی اور ہم سب کو پکڑ کر لے گئی۔ ہماری تو کچھ جھڑ جھڑا کر تھانے سے رخصتی ہو گئی ہاں لالے دینو کو پھنٹی کے ساتھ جیل بھی جانا پڑا۔ وبال دیکھیے‘ ہمیں بھی باطور گواہ حاضری پر رکھ لیا گیا۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211074 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.