پاک بھارت لائن آف کنٹرول پر جنگ۔۔!!

سابق صدر و جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کے پہلے دور اقتدار میں پاک بھارت بارڈر کارگل کو فتح کی منزل تک پہنچایا، پاکستانی افواج نے بہترین حکمت عملی اور اعلیٰ جنگی پلان سے بھارت کو زیر کرلیا تھا، کارگل اور سیاچن وہ دو محاظ تھے جو دنیا میں سب سے بلند اور مشکل جنگ تسلیم کی جاتی ہے اور جس پر اربوں کی لاگت بھی رہتی ہے،پاک افوا ج کی کامیاب پالیسی کو اُس وقت دھکچا لگا جب جیتی جنگ کو ہار میں تبدیل کردیا گیا اور نواز شریف نے امریکہ کے کہنے پر اپنی فوج کو واپس آنے کا حکم نامہ جاری کردیا جس سے کئی سو پاکستانی فوجی شہید ہوئے،جمہوریت کے علمدار کے غلط فیصلوں سے ہمیشہ پاکستان کو نا تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے ، پاک فوج کے اعتماد اور یقین کے بعد پڑوسی ملک چین نے پاکستان میں نہ صرف کاروبار بلکہ صنعت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا ، جنرل راحیل شریف اور ان کے رفقائے کار کے اعتماد کے بعد پاک چین راہداری پر کام شروع کیا گیا ، بڑھتی ہوئی پاکستان میں صنعتی و تجارتی ترقی بھارت، افغانستان، اسرائیل اور پس پشت دیگر ممالک کو برداشت نہیں ہورہی ہے، اسی بابت پاکستان کے دشمن ممالک وہ جو کھل کر ہیں اور وہ بھی جو منافقت اپنائے بیٹھے ہیں ان سب نے مسلسل پاکستان میں بے امنی پھیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کہیں خود کش حملے کراتے ہیں تو کہیں ہماری اہم ترین تنصیبات کو نقصان پہچانے کیلئے ہمارے درمیان بسنے والے سہولت کاروں اور معاون کاروں کے طفیل انارکی، بے امنی، قتل و غارت،ٹارگٹ کلنگ جیسے موذی واقعات پیدا کرتے چلے آرہے ہیں۔۔۔!! جنرل راحیل شریف اور ان کے رفقائے کار کورکمانڈروں نے آج تک سہولت کاروں، معاون کاروں کے خلاف بھرپورایکشن نہیں لیا جس کی وجہ سے دشمن کے پالتو کتے آئے روز کہیں نہ کہیں دہشت گردی پھیلاتے رہتے ہیں۔۔۔۔!!

ایک پڑھا لکھا گروہ کہتا ہے کہ ضیا الحق میں آنے والے افغانستانیوں کو واپس کیوں نہیں کیا جاتا ؟؟؟ سن ستر کے بعد سے افغانیوں کو واپس بھیجا جائے، اس گروہ کے مطابق ان کی جانچ پڑتال ان کے سی این آئی سی سے کی جائے جس میں اگر ان کے بزرگ سن انیس سو ستر سے قبل سر زمین پاکستان میں رہ رہے ہیں اور ان کا افغانستان کبھی بھی نہیں جانا ہوا ہو تو انہیں پاکستانی ہی تصور کیا جائے بصورت ایسے پشتو اور فارسی بولنے والے افغانیوں کو بے دخل کرنا فی الفور عمل میں شامل ہے، پاک بھارت کی طرح پاک افغانستان کی لائن آف کنٹرول بنانا چاہیئے تاکہ کوئی بھی غیر قانونی طریقہ سے داخل نہ ہوسکے۔چمن کے بارڈر پر بھی افغانیوں کی جس طرح بدمعاشی ہے حکومت بلوچستان کو اپنی رٹ قائم کرنی چاہیئے، کے پی کے اور بلوچستان وہ واحد صوبے ہیں جو اگر اپنی ذمہ داری کو احسن انداز میں مکمل کریں تو ممکن نہیں کہ پاکستان سے دہشتگردوں کا خاتمہ یقینی ہوسکے اس کیلئے ان دو صوبوں کو بلخصوص اور بلعموم پنجاب اور سندھ کو بھی اپنا کردار شفاف بنانا ہوگا۔کوئی بھی شخص بغیر اجازت یاپھر گھر کے بھیدی کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح یقیناً پاکستان میں ہونے والےخود کش حملوں کے پیچھے ہمارے ہی صفوں میں بسنے والے چند غدار ہونگے جب تک ان غداروں کا قلع قمع نہ کیا جائے گا اُس وقت تک پاکستان میں امن و امان نا ممکن ہے۔!!پاک بھارت لائن آف کنٹرول کی صورتحال اسی بابت کشید سے کشید تر ہوتی چلی جارہی ہے کہ بھارت کو ہمارے ملک میں با آسانی غدار، سہولت کاراور معاون کار وں کی وجہ سے دراندازی کرتے ہوئے کسی قسم کا کوئی خوف رکھتا ، یقینا ً اس میں ہمارے سیکیورٹی اداروں کی نا قص پالیسی بھی ہو لیکن سب سے زیادہ ہمارے معاشرے اور بلخصوص سیاسی ڈھال کی وجہ سے پاکستانی غدار، سہولت کاراور معاون کاراپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں جب تک صرف اور صرف وطن عزیز کو تمام سیاسی جماعتوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جائیگی اس وقت تک یہ دندناتے پھرتے رہیں گے۔۔!!سن انیس سو چودہ سے سن انیس سو پندرہ پاک بھارت سرحدی جھڑپیں پاکستانی افواج و ہندوستانی افواج کے درمیان ماضی میں ہونے والی سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ ہے، حالیہ جھڑپوں کا آغاز جولائی کے وسط میں شروع ہو،بھارتی افواج فائر بندی کی خلاف ورزی کی مرتکب تا حال ہوتی چلی آرہی ہے،بھارت نے گذشتہ اڑھائی سالوں کے دوران مجموعی طور پر چھ سو سات بار لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی خلاف ورزیاں کیں ، جس میںستاون شہری شہید ہوئے،اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیرپر بات سے پہلے ہرسال لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی بھارت کا وتیرہ بن گئی ہے، گذشتہ اڑھائی برسوں میں بھارت نے چھ سوسات مرتبہ ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری کی خلاف ورزی کی، جن میں ستاون پاکستانی شہید ہوئے،اعدادوشمار کے مطابق سن انیس سو چودہ سے اب تک بھارت نے سیز فائر کی خلاف ورزیاں زیادہ تر جولائی سے ستمبر کے دوران کیں،سن انیس سو چودہ کے دوران بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی تین سو پندرہ بار خلاف ورزیاں کیں، جس میں اٹھارہ شہری شہید اورچوہترزخمی ہوئے،سن انیس سو پندرہ میں بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی دو سو اڑتالیس بار خلاف وزریاں کیں، جس میں انتالیس شہری شہید اورایک سو پچاس زخمی ہوئے۔حالات اور واقعات کے مطابق بھارتی خلاف ورزیوں کا سلسلہ زیادہ تر جولائی اور ستمبر کے درمیانی عرصے میں نظر آیا، جن دنوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن منعقد کئے جاتے ہیں،اعداد و شمار کے مطابق رواں سال بھی بھارتی فوج نے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر سیز فائر کی چوالیس بار خلاف وزریاں کیں ہیں ، جن میں سےاکیس بار اسی عرصے میں کی گئیں،گزشتہ دو ماہ سے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کے واقعات معمول کی بات بن گئے ہیں جبکہ آٹھ جولائی کو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد کشمیر کی کشیدہ صورتحال اوراٹھارہ ستمبر کو بھارت کے اُڑی فوجی کیمپ کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تیزی سے بگاڑ پیدا ہو،دو روز قبل چھ نومبر کو بھی بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کے بٹل سیکٹر پر بلا اشتعال پر فائرنگ کی گئی تھی۔ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق پندرہ نومبر سن انیس سو پندرہ کو بھارت کی جانب سے ایک بار پھردراندازی کی گئی لیکن اس بار بھارت نے تیرہ سال کےبعدپہلی مرتبہ توپخانےکااستعمال کیا گیا جس سے پاک فوج کے سات جوان شہید ہوگئے، ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نےاے آر وائی نیوز کو بتایا کہ بھارت کی جانب سےسیزفائرکی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں،بھارت نے ستمبرمیں ایل اوسی کی خلاف ورزی شروع کی،بھارت کی جانب سےایل اوسی کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں،ستمبرمیں بھارتی فوج کی جارحیت سےدوجوان شہیدہوئےتھے،بھارت نےجب بھی خلاف ورزی کی پاک فوج نےمنہ توڑجواب دیا، اکتوبر سےاب تک ورکنگ باؤنڈری سینتیس مرتبہ جارحیت کی گئی،بھارت نےرواں سال انیس سو ننانوے کے معاہدے کے مطابق سیزفائرکی خلاف ورزیاں کیں،بھارت نےسرجیکل اسٹرائیک کاڈرامہ بھی رچایا،پوری دنیانےسرجیکل اسٹرائیک کاڈرامہ دیکھا، کسی بھی ایونٹ سےبھارت سیزفائرکی خلاف ورزی کرتاہے،ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ بھارت کاجانی نقصان پاکستان کی نسبت تین گنازیادہ ہے،بھارت کوسیزفائرکی خلاف ورزی پربھرپوراورمنہ توڑجواب دیا جاتا ہے ، بھارت اپنےجانی نقصان کوکم کرکےبتاتاہے، معاہدےمیں طےتھاکہ توپخانےکااستعمال نہیں کیاجائیگا،بھارت توپخانے کےذریعےمعصوم شہریوں کونشانہ بناتاہے۔۔۔!! پاکستانی سینئر صحافی، دانشور، مفکرین اور ماہر ین کے مطابق پاکستان دشمنی میں بھارت اور دیگرممالک نہیں چاہتے کہ پاکستان خوش حالی کی جانب گامزن ہو، پاک چائنا راہداری کا آپریشن شروع ہوچکا ہے ابھی مزید کام باقی ہے ، پاکستان بھر میں لنگ بنائے جارہے ہیں جنہیں ایم کے نام سے منسوب کیا ہے،یہ ایم کی سیریز مواصلات کے نظام کو جدید ترین بنائے گی، اس پاک چائنا راہداری سے نہ صرف چائنا مزید ترقی کریگا بلکہ سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو حاصل ہوگا، کیونکہ پاکستان کئی مسائل سے دوچار ہے اور بھاری قرض تلے دبا ہوا ہے ، پاک چائنا راہداری سے یہاں بھی صنعتوں کے کئی شہر آباد ہوجائیں گے اور پاکستان دنیا بھر میں سونے کی چڑیا کی مانند جانا پہچانا جائیگا جبکہ بھارت اپنی غلط پالیسیوں کے سبب اپنے عوام کی زندگی مزید برتر بنانے پر اترا ہوا ہے ، نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت ۔خود بھارت کو غلط پالیسیوں کے سبب کئی مسائل سے دوچار کرسکتی ہے ، مودی حکومت اگر اس غلط فہمی میں ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول کو ڈسٹرپ کرکے پاکستان کو اپنے مثبت اقدامات سے ہٹادیگاتو یہ ہرگز ممکن نہیں، اور دوسری جانب بھارت و افغانستان اپنے جاسوسوں اور دہشتگردوں کے سبب پاکستان کے ترقیاتی امور میں رخنا ڈالے گا تو یہ بھارت اور افغانستان کی بہت بڑی بھول ہے کیونکہ بہت جلد نیشنل سیکیورٹی پلان کے تحت پاک فوج ایکشن لیکر مخالفین پاکستان کا قلع قمع کرنے والی ہے اس ایکشن میں نہ رنگ و نسل کا امیتاز برتا جائیگا اور نہ ہی قوم و نسل کی رعایت دی جائیگی ،نیشنل ایکشن پلان میں صرف اور صرف پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے فی الفور ایکشن کی تیاریاں کی جارہی ہیں اس کیلئے سیکیورٹی اداروں نے بہت وقت حکومت کو دیا ہے مگر حکومت کی جانب سے مایوس کن اور سست روی نے مجبور کردیا ہے کہ پاکستان کے خلاف ہر اٹھنے والےاقدامات کو جڑ سے ختم کردیں گے اور تمام سہولت کاروں، معاون کاروں کاخاتمہ کرکے ترقی کے اس سفر کو آگے بڑھائیں گے۔بھارت جارحانہ عمل کریگا تو پاکستان ہر بار اپنا مضبوط دفاع کرکے ایسا سبق سیکھائے گا کہ پس پشت ممالک (امریکہ، اسرائیل وغیر ہ وغیرہ)بھی بھاگ نکلیں گے ،انشا اللہ ۔۔۔!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 245568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.