اے میری آ ذاں ء شہر
(Mehvish Hayat, Jauharabad)
میں نے زندگی کو مشاغل کی نظر کیا۔تاکہ میں
سب کچھ بھول جاؤں مگر ہنگامہ ہائے ذود زیاں میں بھی میرا ساتھ نہ چھوڑا ۔
اور مجھے اداس رکھا ۔ مجھے نحلستانوں کے ٹھنڈے سائے اپنوں کے جانے کے غم سے
نہ بچا پائے۔ میری نیندیں خوابوں کے سفر پر رواں دوان رہتی ہیں۔ اور میں نہ
چاہتے ہوے بھی مختلف سوچوں کے گرداب میں پھستی چلی جاتی ہوں۔ میں خود کہ
پھر سے وہاں لے جاتی ہوں جہاں صرف معصوم کلیاں لال رنگ مین روندی گئیں۔ وہ
لال رنگ جو زندگی کی شروعات سمجھا جاتا ہے۔جو زندگی میں خوشیوں کی علامت
سمجھا جاتا ہے۔تو دوسری طرف وہ لال رنگ معصوم کلیوں کی زندگی کے اختتام کی
علامت بن گیا۔
میں یہ سب کچھ کیسے بھول جاؤں وہ تمام مناظر جو میری انکھوں میں پیوست ھو
چکے ہیں کہ جب بھی انکھیں کھولوں صرف دکھ، آہیں ، چیخ و پکار اور وہی لال
رنگ کیوں نظر آتا ہے۔ میں کیسے اپنے شہدوں کو بھول جاؤں جنہوں نے اپنے ہی
دیس میں پردیسیوں کی طرح جام شہادت نوش کیا۔جن آ ہوں اور سسکیوں نے حیرت
کدوں سے لے کر تاج و تخت کے جیالوں تک کہ ہلا کر رکھ دیا۔مگر افسوس جوہمارے
دکھوں میں شریک ہونے کا دعوا کر رہے ہیں جو ہمارے مستقبل کے مجرم ہیں کیا
انہیں معلوم نہیں کہ مجبوری اور بے حسی انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے ا
ور گھن کی طرح کھا جاتی ہے ۔ کیوں کیوں آخر کیوں ؟
یہ سوال اتنا بڑا بھی نہیں کہ جس کا جواب چہروں کہ گمنام کر دے یہ آج کا
سوال نہیں بلکہ یہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔ جو اپنے جواب کا منتظر ہے۔ وہ
عظیم ہستیاں جو خود کو دانشور سمجھتی اور کہلوانا پسند کرتی ہیں، جو اونچی
کرسیوں پر براجماں ہیں ۔ وہ کن خوابوں کی تعبیر کے خواہشمند ہیں۔وہ خوابوں
کے کن خوبصورت آئینوں میں نظارے دیکھنے میں گم ہو چکے ہیں۔انہیں معلوم نہیں
کہ جب حقائق سے پردہ اٹھے گا تو ظلم ختم ہوجائیں گے۔۔۔۔ آ ئینے پاش پاش ہو
جائیں گے اور خوبصورت خواب ایک بھیانک تعبیر دے کر رخصت ہو جائیں گے۔اور
زندگی ایک خوف ناک اور حسرت ناک ماضی کی تصویر بن کر رہ جائے گی۔
جنہوں نے خوبصورتی کے لبادے اوڑھ رکھے ہیں ان کے دل زنگ آلود ہیں جس میں
صرف اور صرف نفرت کے بیج ڈالے گئے ہیں۔جن سے نکلنے والی کونپلیں زہر آلود
ہیں ۔ جو انسانیت کے خون کی پیاسی ہیں۔انسانی خون کے دریا بہانے والے آخر
اسی دریا میں غرق ہوں گے۔سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔اور یہ خود
اندر سے کھوکھلے ہو جائیں گے۔ جو یہ بھول گئے ہیں کہ اس قوم کے معصوم بچوں
کے جذبے بھی تلوار کی مانند ہیں۔وہ تلوارجو میان میں جانے کے لیے نہیں بلکہ
دشمن کاسینہ چھلنی کرنے والے ہیں۔ان کے حوصلے بلند ہیں جو جسموں کا خون
نہیں بہاتے بلکہ دلوں کہ موم کرتے ہیں۔اور جب دلوں کو موم کر لیا جائے تو
دلوں پر حکمرانیاں ہونے لگتی ہیں ۔اور جب دلوں پر حکمرانیاں ہو جائیں تو
قبریں روشن ہو جاتی ہیں۔
اور بزدلوں کی طرح ہم پر حملہ کر کے ہمارے دلوں میں خوف و ہراس کبھی بھی
پیدا نہیں کر سکتے۔خوف زدہ انسان اول تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا اور اگر
کر بھی لے تو غلط کرتا ہے۔خوف انسان کی تمام فکری صلاحیتوں کہ ختم کر دیتی
ہے اور اس کی ذات کھوکھلے ستون کی مانند ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاتی ہے۔مگر
آج بھی ہماری قوم متحد ہے ہمارا بچہ بچہ حوصلے اور جذبے سے لبریز ہے۔ دنیا
کی کوئی طاقت ہماری قوت ارادی ، جواں مردگی کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور جو
قومیں اپنی غلطیوں کی اصلاح نہیں کرتیں وہ ہمیشہ سرگرداں رہتی ہیں وہ زندگی
سے گلہ کرتی ہیں، زندگی سے الجھتی رہتی ہیں ۔اور اسی الجھاو میں ان کی
سانسیں اکھڑ جاتی ہیں ۔ اور پھر سارے مقابلے ساری فتوحات سب کچھ لا فانی ہو
کر رہ جاتا ہے۔آندھی اور چراغ پر بھروسہ کرنے والوں نے کیا دیکھا ۔آندھی
آتی ہے چڑیا کا نشیمن اڑ جاتا ہے ۔مگرصبح وہی چڑیا فظا میں نغمہ سرا ہے اسے
کسی واقعے اور سانحے کی پرواہ نہیں ۔
ہمیں بھی اس چڑیا کی مانند بننا ہے اور اپنا نشیمن بچانا ہے۔اور ہر منفی
طاقت کا مقابلہ کرنا ہے اور ہر برائی کو جڑ سے نکال پھیکنا ہے ۔کیوں کہ
انسانی عقل و خرد کی تمام طاقتیں مکڑی کے کمزور جالے کے سامنے بے بس نہیں
ہو سکتی ۔اور دشمن واقعی اندھیروں میں ڈوب چکے ہیں ۔اور روشنی کے دھندلے
خزانوں کے متلاشی ہیں۔وہ روشنی جو سہمی سہمی ، دبی دبی اور مدھم مدھم سی
ہے۔
بقول احمد فراز:
میں تو ہر طرح کے اسباب ہلاکت دیکھیوں
اے وطن کاش تجھے اب کے سلامت دیکھوں |
|