تحریر: فاروق الزمان
نعمتِ حق رحمت اﷲ بابا جی سرکار ہیں
فیض گستر ہیں بہر سو مصدر ایثار ہیں
برصغیر پاک وہند میں ایسے ایسے جلیل القدر روحانی پیشوا پیدا ہوئے جنہوں نے
اسلام کی روشنی کو منور کئے رکھا۔ جنہوں نے اس خطے میں تاریکی اور مایوسی
کے خلاف طبلِ جنگ بجایا اور اصلاح معاشرہ میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کو
جب ہم مملکتِ خداداد کہتے ہیں تو بہت ساری کہانیاں، بہت سارے کرداراور بہت
سارے واقعات جو بقا اور استحکام کے ضامن ہوتے ہیں ، اپنے گردوپیش میں بیش
بہا معاندانہ رویوں کے باوجود جنم لے لیتے ہیں۔اپنی اپنی ڈیوٹی پر ماموریہ
لوگ تاریخ کا حصہ اور تشکیل کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ایساہی ایک کردار حضرت
بابارحمت اﷲ المعروف بابا دھنکہ کا ہے۔ جنہوں نے اسلام کی اشاعت، تبلیغ اور
روحانیت میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ تقریباََ نصف صدی تک مانسہرہ سے 50کلو
میٹر دورلساں نواب کے نواح میں ایک پہاڑی چوٹی پر رہے۔ ۔ آپ کا عرس ہرسال
ماہِ صفرمیں منایا جاتا ہے۔ (امسال مورخہ18-19-20نومبر بروز جمعہ ، ہفتہ
اتوار) ۔ جس میں ملک کے طول و عرض سے سینکڑوں عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔
بابا رحمت اﷲ ایک ایسی روحانی شخصیت تھے جن سے بہت سے لوگ فیضیاب ہوئے۔ میں
بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے روحانیت کے اس چشمے سے اپنی بے چین روح
کی تسکین کی۔ حضرت بابا رحمت اﷲ ایک صاحبِ نظر،ولیِ کامل اور قلندرِ دوراں
تھے۔ان کا تعلق مانسہرہ کے ایک ایسے زمیندار گھرانے سے تعلق تھا جس کا کوئی
صوفیانہ پس منظر نہیں ہے۔ نابغہ کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ روحانی پس
منظر یا پیش منظر کا محتاج ہو۔ اس عطا ئے ربانی کے پیچھے نسل در نسل کسی
پختہ ہوتی ہوئی سوچ کا البتہ ضرور ہاتھ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے نابغہ
کا ظہور غیر متوقع حالات اورزمینی حقائق کا محتاج ہوتا ہے۔ایسا انسان پیدا
ہوتے ہی اپنے اندر وہ تمام خصوصیات لیے ہوئے ہوتا ہے جو اس کے مستقبل کی
نشاندہی کررہی ہوتی ہیں۔ایسے انسان کی زندگی میں واقعات بھی اسی طرح کے جنم
لیتے ہیں، جو اس کی منزل کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ حضرت قبلہ بابا جی
سرکار دھنکہ شریف تقریبا 1930میں جسگراں شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش
اور ولایت کی نوید وخوشخبری ایک مردِحق کی زبانی آپ کے والد محترم حضرت
محمد اکبر ؒ کو مل چکی تھی۔ اس خوشخبری نے حضرت محمد اکبرؒ کو شادمان و
شادکام کردیا۔حضرت باباجی سرکارؒ کے والد محترم محمداکبر ؒ طریقت میں سلسلہ
چشتیہ کے رہنما و پیشوا حضرت دیوان آلِ رسول رحمتہ اﷲ علیہ ، سجادہ نشین
دربارودرگاہ خواجہ خواجگان حضورمعین الدین حسن سجزیؒ تھے۔ حضرت قبلہ باباجی
سرکار دوسرے بچوں سے طبعاً مختلف تھے۔ آپ کے غیرضروری مشاغل سے پرہیز کرتے
، مقصد حیات پر غورکرتے۔ چونکہ گھر کا ماحول درویشانہ تھا، والدین راجع الی
اﷲ والرسول تھے، بزرگان دین کے معتقد تھے اور عبادت گزار تھے اس لئے ان کے
نورانی رجحان و کردار نے بابا جی سرکار ؒ پر نہایت ہی خوشگوار اثرات
ڈالے۔بابا جی سرکارؒ کو بچپن سے خواجہ خضرعلیہ السلام سے خصوصی فیض حاصل
تھا۔ آپؒ نے متعدد مرتبہ اس بات کا ذکر کیا کہ بچپن میں آپ ؒ کو حضرت
خضرؑکی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔اس حوالے سے باباجی سرکارؒ کے ماموں زاد
بھائی فقیر محمدبچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز وہ، رحمت اﷲ (بابا
جی سرکارؒ) اور ان کا ایک اورعزیز دوست محمدقریبی کھیتوں میں بکریاں چرا
رہے تھے کہ ہمارے سامنے کچھ فاصلے پر اچانک ایک نورانی چہرے والے بزرگ
نمودار ہوئے۔ انہوں نے ہماری طرف بڑھنا شروع کردیا۔ دوست محمد اور مجھ پر
خوف طاری ہوگیا۔ ہم بدحواس ہوکر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے جبکہ رحمت اﷲ(باباجی
سرکارؒ) پرسکون اپنی جگہ پرہی کھڑے رہے۔ ہم نے مڑ کر دیکھا تو وہ بزرگ ،
رحمت اﷲ سے بات چیت میں مصروف تھے۔ چند لمحوں بعد وہ بزرگ واپس چل پڑے۔ ہم
بھی واپس رحمت اﷲ ؒ کی طرف جانا شروع ہوگئے۔ پھر اچانک ہماری نظروں کے
سامنے وہ بزرگ غائب ہوگئے۔ ہم نے بابا جی سرکارؒ سے اس بزرگ کے بارے میں
پوچھاتو آپؒ نے کوئی جواب نہ دیا۔ ہم نے بہت اصرار کیا لیکن آپؒ اس بارے
میں خاموش ہی رہتے ۔ 1967ء میں جب آپؒ پہاڑی پر تشریف فرما ہوئے توایک دن
میں اوردوست محمد آپ ؒ سے ملاقات کیلئے آئے۔ آپؒ نے خود ہی ہمیں بچپن کا وہ
واقعہ یاد دلایا۔ ہم نے پھرسے اُس بزرگ ہستی کے بارے میں جاننے کیلئے اصرار
شروع کردیا۔ اس پر آپؒ نے فرمایا کہ وہ حضرت خضر علیہ السلام تھے اور وہ اب
بھی کبھی کبھی شرفِ ملاقات بخشتے ہیں۔
باباجی اپنی اولین منزل کا کریڈٹ اپنی والدہ ماجدہؒ کو دیتے تھے، جن کے
علاج کی غرض سے آپ ان کو کئی کئی کوس کندھوں پر اٹھا کر ہسپتال لے جاتے رہے۔
اس خدمت کا صلہ تھا کی اس عظیم المرتبت ماں کی یہ دعا تھی کہ’’ خدایا میرے
بیٹے کی زندگی کو اس پھول کی مانند بنا دے جس کی خوشبو چار دانگ ِعالم میں
پھیل جائیــ، اور کبھی ختم نہ ہو‘‘۔پھر یوں ہوا کہ پھر خوشبوؤں نے بیٹے کو
اپنے جلومیں لے لیا۔لذتِ آشنائی میں آپ داتاکی نگری لاہور آئے ، حضرت بڑے
میاں ؒ سرکار کے ہاں زانوئے تلمذتہہ کیا اور قریباََ دس سال تک حضرت
داتاگنج بخشؒ سے فیضان کی جھولیاں بھرتے رہے۔ کراچی میں حضرت عبداﷲ شاہ
غازی ؒ سے بھی برکات سمیٹیں ۔ توفیق و تربیت اس مقام تک پہنچ چکی تھی کہ
حضرت خضر علیہ السلام، جنابِ غوث پاکؒ، حضرت دادا گنج بخشؒ اور ان کے اولین
استاد ِمکرمؒ نے بیک وقت آپ کو خرقہِ ولایت عطافرمایا۔ جس کے بعد آپ اپنی
والدہ ماجدہ کے گاؤں دھنکہ شریف میں آکر جلوہ گر ہوگئے۔ آپ نے اپنے گھٹنے
رسی سے باندھ لئے کہ مبادا اضطرارمیں بھی مرشد ؒ کی حکم عدولی نہ ہونے پائے۔
قبلہ بابا جی ؒکی ساری زندگی پرغور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ ذکر الٰہی
کی لازوال دولت کی بدولت وہ خالقِ کائنات کے اس قدر قریب ہوگئے کہ سوائے
ذات وحدہ لاشریک انہیں کوئی نظر نہیں آتاتھا۔ اسی کیفیت کی بدولت وہ اﷲ کے
محبوب ہو گئے اور اﷲ نے انہیں انسانی بنیادی ضرورتوں سے بے نیاز کر دیا۔
باباجی سرکارؒ ذکر الٰہی کے حوالے سے فرماتے : ’’اﷲ تعالی کا ذکر ایسا ہو
کہ دل میں اس کا خیال ہو، سر میں اس کا دھیان رہے، زبان پر اس کا چرچا ہو،
آنکھوں میں اس کا جلوہ ہو، کانوں میں اس کے کلام کے نغمے ہوں، پاؤں پر اس
کی اطاعت ہو۔ غرض انسان اس میں کھو جائے جیسے پانی میں مچھلی‘‘۔اس ذات باری
تعالیٰ کی یاد سے ایک لمحہ بھی توجہ نہ ہٹائی جائے اور اس کے ذکر کے بغیر
کسی طور اسے کل نہ پڑے۔ گویا ذکر الٰہی میں کامل سپردگی ہونی چاہیے۔ اس کے
ذکر میں خیر ہی خیر ہے۔ لہٰذا دین ودنیا اور آخرت کی بہت بڑی نعمت ہی ذکر
الٰہی ہے۔ اسے ہر رنگ میں جاری رہنا چاہئے۔جب انسان ذاکرِ الٰہی بن جائے تو
آپ خود اندازہ لگا لیجئے اس کا اﷲ کے ہاں کیا مقام ہو گا۔ حدیثِ قدسی ہے کہ
جو ربّ کا ذکر کرتا ہے میں اﷲ اس کے ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں۔ لہٰذادنیا
و آخرت میں بھلائی کی کلید ذکر الٰہی ہے۔بابا جی سرکارؒ فرماتے ہیں: جھوٹ
بولنے سے نہ صرف اﷲ کی ذات ناراض ہوتی ہے بلکہ انسان خود بھی بے شمار مسائل
سے دوچار ہو جاتاہے۔حق اور سچ کااظہار کرنے سے چاہے انسان کو دنیوی نقصان
ہی کیوں نہ اُٹھانا پڑے ، اس کی پرواہ کیے بغیرسچ بولناچاہیے۔قبلہ باباجیؒ
ہر آنے والے زائر اور مرید کو سختی سے نماز قائم کرنے کی تاکید کرتے۔باباجیؒ
کے فیضان سے ایک دنیا فیض یا ب ہوئی ہے۔ ان کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ
ہزاروں اورلاکھوں میں ہے۔21فروری 2008ء میں برصغیر کے اس عظیم درویش بزرگ
کا انتقال ہوا۔ آپ کا مزار اسی پہاڑی چوٹی پر واقع ہے جہاں وہ تقریباََ نصف
صدی سے براجمان تھے۔(ختم شد) |