بابل کا آنگن

میرے سامنے پندرہ سولہ سال کی نوجوان معصوم نازک سی ننھی پری پھوٹ پھوٹ کر رورہی تھی میرے مشفقانہ روئیے سے اُس کے اندر غم کا سیلاب پھوٹ پڑا تھا اُس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے تھے اُس کی فالجی کیفیت اب نارمل ہو تی جا رہی تھی اُس پر قابض خو ف نے اُس کی قوت گو یائی جو چھین رکھی تھی اب اُس کی آہستہ آہستہ بحالی ہو رہی تھی اُس کے لرزتے جسم کا لرزنا آہستہ آہستہ کم ہو رہا تھا وہ جو مرض الموت کی تکلیف سے گزر رہی تھی اب اُس میں زندگی کی حرارت بیدار ہو رہی تھی کچھ دیر پہلے وہ خو ف و دہشت اور عدم تحفظ کے اندھے خو فناک غار میں ڈوبتی جا رہی تھی اُس کے چاروں طرف خوف کے سائے لرزاں تھے اب اُسے زندگی کا احساس ہو رہا تھا اب اُسے امید کی کرن نظر آنے لگی تھی خو ف دہشت نے اُس کی ہڈیوں تک رسائی حاصل کر لی تھی وہ عقل و فہم شعور سے محروم ہو چکی تھی اُس کو چاروں طرف موت ہی نظر آرہی تھی معصوم پری شاید پہلی بار گھر سے نکلی تھی وہ جو بچپن سے آج تک ماں بھائی یا والد کی انگلی تھام کر نکلتی تھی جس نے دو قدم بھی کبھی اکیلے نہ اٹھا ئے ہوں جس نے ہمیشہ گھر کی چار دیواری میں اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے تحفظ میں گزارے ہوں آج پہلی با ر کسی پارک میں اکیلی بیٹھی تھی اوباش نوجوان اُس سے چھیڑ خا نی کر رہے تھے وہ جو عزت کی پوٹلی تھی آج اُس کے نا زک جسم اورچہرے پر گندی نظریں پڑیں تو وہ اپنے ہو ش و حواس کھو بیٹھی اُس نے آج تک اِس طرح کے حالات نہیں دیکھے تھے وہ اگر کبھی رات کو اٹھتی تھی تو والد والدہ اُس کے ساتھ اُٹھ جا تے آج وہ اپنی زندگی کے سب سے تلخ اور خو فناک تجربے سے گزری تھی اُس کی حالت اور پھوٹ پھوٹ کر رونا مُجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا اُس کو اِسطرح روتا دیکھ کر میں پگھلتا جا رہا تھا اندر ہی اندر کٹ رہا تھا کس طرح اِس معصوم بیٹی کو چُپ کراؤں کیسے اُس کا خو ف اور غم ہلکا کروں میں نے اُس کو رونے دیا تا کہ وہ ریلیکس ہو جا ئے اور میں سوچ رہا تھا کہ نو جوانی میں قدم رکھتے ہی بابل کی یہ معصوم تتلیاں یہ چڑیاں کس بے دردی سے بابل کا آنگن چھوڑکر اڑ جا تی ہیں بابل کی دہلیز سے با ہر قدم نکالتے وقت یہ بالکل بھی نہیں سوچتیں کہ دنیا میں خدا کے بعد ماں باپ ہی اُس کے سب سے زیا دہ حما یتی وفادار اور جان دینے والے ہیں دنیا میں ماں باپ ہی ایسے ہیں جو اپنے بچوں کی خو شی کے لیے اپنی جان تک دینے کو تیار ہو جا تے ہیں بچوں کی ضروریات پو ری کر نے کے لیے اپنی ضرورتوں کا گلا گھونٹ دیتے ہیں بچوں کے کپڑے کھلونے اور تربیت اور پڑھائی کے لیے اپنے تمام وسائل جھونک دیتے ہیں خو د بھوکا رہ لیتے ہیں اِن کی تمام ضروریات پو ری کر تے ہیں رات کو اگر کسی بچے کے اوپر کپڑا نہ ہو تو فوری کپڑا دیتے ہیں اگر بچہ بیما ر ہو تو ساری رات اُس کے سرہا نے بیٹھ کر اُس کو دوائی دیتے ہیں اور اگر خدا نہ کر ے کبھی بیما ری لمبی ہو جا ئے تو ایک ڈاکٹر سے دوسرے ڈاکٹر حکیموں بابوں مزاروں پر کس طرح دیوانہ وار جا کر ماتھا رگڑتے ہیں خو د کپڑے نہیں لیتے خود لنڈے کے کپڑے پہن کر اِن کو نئے کپڑے لے کر دیتے ہیں خو د ساری عمر پیدل یا لو کل بسوں ویگنوں پر سفر کر تے ہیں اِن کو کار لے کر دیتے ہیں روزانہ صبح سویرے اُٹھ کر اِن کو تیار کرانا نا شتہ کرانا اور خود سکول چھوڑ کر آنا اور اگر کبھی دو پل کے لیے بھی یہ بچے نظروں سے اوجھل ہو جا ئیں اِن کا فون بند ہو جا ئے یا سکول سے لیٹ ہو جائیں تو وہ دیوانوں کی طرح ننگے پاؤں گھر سے نکل پڑتے ہیں، خو د پرانے گھر میں لیکن ان کے لیے نیا گھر اور ہر چیز لے کر دیتے ہیں اِن کی طرف آنے والی ہر مشکل اور مصیبت کے سامنے خود سینہ تان کر کھڑے ہو جا تے ہیں اِن کی ہر پریشانی پر خدا کے سامنے ایک ہی دعا کر تے ہیں کہ اﷲ میاں اِس کی پریشانی بیما ری اور مو ت مجھے دے دو اِس کو آرام دو اِس کی پریشانی بیماری ختم کر دو اِن کے منہ سے نکلی ہو ئی ہر بات پو ری کر تے ہیں شدید حیرت ہو تی ہے ایسے بچوں پر جب دو دن کی دوستی کے لیے اپنے ماں با پ سے نا فرمانی کر تے ہیں اور یہ بیٹیاں جن پر بابل جان دیتا ہے جب یہ جوا نی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں تو وہ ماں با پ کی تمام خدمات کس طرح ایک سیکنڈ میں بھول کر چند دن کے دوست یا چند فون کالوں پر بھول جا تی ہیں اور پھر جب یہ نا زک پریاں با بل کے آنگن سے اِس ما دیت پرستی میں غرق دنیا اور وحشی درندوں کے ہا تھ چڑھتی ہیں تو اِن کو بابل کا گھر ماں با پ کی محبت اور تحفظ یا د آتا ہے اور پھر زمانے بھر کی ٹھوکریں کھا تے اپنی عزت تار تار کر کے واپس با بل کی طرف آتی ہیں تو وہ سراپا رحمت پھر اِن کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے زمانے بھر کی ٹھو کروں گندی نظروں سے بر باد ہو کر جب یہ واپس آتی ہیں تو ماں با پ پھر بھی سراپا رحمت ہو تے ہیں کا ش یہ معصوم پریاں با بل کی دہلیز پھلانگنے سے پہلے ایک بار سوچ لیں کہ دنیا میں سب سے زیا دہ اگر کو ئی وفادار جانثار ہیں تو یہ والدین جن کو یہ ٹھوکر مار کر بھا گ جا تی ہیں اُس شخص کے لیے جو ان کو جا تے مارتا ہے ذلیل کرتا ہے گا لیاں دیتا ہے اور اکثر چھو ڑ کر بھا گ جا تا ہے یا کسی کے ہا تھ بیچ دیتا ہے یا جان چھڑانے کے لیے مار دیتا ہے ۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ سیکورٹی گار ڈ نے میرے کندھے پر ہا تھ رکھا اور کہا جناب رات ہو گئی ہے اندھیرے نے چاروں طرف قبضہ جما لیا ہے اب اِس لڑکی کا کیا کر نا ہے ننھی پری رو رو کر چپ کر گئی تھی اور نظریں جھکا ئے پھر بیٹھی تھی میں نے اُس سے پو چھا بیٹی آپ کہاں سے آئی ہو آپ کے والد کا کیا نام ہے تو اُس نے انکار کر دیا کہ اگر وہ گھر گئی تو اُس کے گھر والے اس کو مار دیں گے آپ مجھے کہیں سے زہر لا دیں میں خو دکشی کر نا چاہتی ہوں یا میرا گلا گھونٹ دیں میں نے اِس جگہ سے اب کہیں نہیں جا نا میں بار بار اُس کا ایڈریس پو چھ رہا تھا لیکن وہ بتا نے پربالکل بھی تیار نہیں تھی ۔ اب میں نے اُسے پو لیس کا خو ف دلا یا کہ تم کو تھا نے بند کرا دیتا ہوں تو وہ تھو ڑا سا ڈر گئی اب میں نے کہا ٹھیک ہے تم اپنے گھر نہ جا ؤ کسی دوست رشتے دار کا نمبر دو تو وہ اِس بات پرراضی ہو ئی اور اپنی دوست کا نمبر دیا میں نے تھو ڑی دور جا کر اس کا نمبر ملا یا جو مل گیا تو اُس سے اِس لڑکی کے با پ کا نمبر لیا اب میں نے فوری طور پر اُس کے با پ کو فون کیا اُس کا با پ تقریبا 50کلو میٹر دور چھو ٹے شہر میں رہتا تھا جو صبح سے پا گلوں کی طرح اِس کو ڈھونڈ رہا تھا میں نے اُسے کہا آپ ادھر ہی رہو میں اس کو اِس کی دوست کی طرف لا رہا ہوں آپ ادھر آجاؤ اب بڑی مشکل سے لڑکی کو منایا کہ آپ اپنی دوست کی طرف چلو تو وہ مان گئی ہم اب کا ر میں اُس کے شہر جا رہے تھے راستے میں اُس لڑکی نے بتا یا کہ رانگ کال پر اِس لڑکے سے پندرہ دن پہلے بات چیت شروع ہو ئی تو میں خوا بوں کی دنیا سجا ئے اِس سے ملنے آگئی سارا دن اُس کے پاس رہی شام سے پہلے وہ مجھے یہاں چھوڑ کر چلا گیا اور اپنا مو با ئل بند کر دیا اور ایک با ر فون کر کے کہا واپس چلی جا ؤ میں تو تم سے مذاق کر رہا تھا مجھے تم سے کو ئی محبت نہیں ہے ۔ اِس کے سارے خواب ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گئے اب یہ خو فزدہ تھی کہ با پ بھا ئی اس کو قتل کر دے گا اپنی با توں میں ہم اُس کے شہر پہنچ گئے اُس کی دوست کے گھر جا کر ڈرائینگ روم میں بیٹھے تو اُس کے والدین بھی آگئے پہلے تو وہ بہت خو فزدہ حیران ہو ئی لیکن جب باپ نے رو رو کر گلے لگا یا پیا ر کیا تو نا رمل ہو ئی ماں باپ کی آنکھوں سے خو شی کے آنسووں کا سیلاب جا ری تھا اور وہ ہا تھ جو ڑے شکریہ ادا کر رہے تھے لا ہور واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ بابل کاآنگن چھو ڑنے والی یہ ننھی پریا ں بھول جا تی ہیں کہ با ہر وحشی جنسی درندے اُن کا انتظار کر رہے ہیں اﷲ سب کی عزتیں محفوظ رکھے آمین ۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 735653 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.