پاکستان میں پس نو آبادیاتی اُردو شاعری(1947-1958)

 جب برصغیر سے بر طانوی نوآبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا اور 14 اگست 1947 کو آزادی کی صبح درخشاں طلوع ہوئی تو بر صغیر کے مسلمانوں کواس بات کاقوی یقین تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کو نو آزاد اسلامی مملکت میں تر قی اور خوشحالی کے ثمرات سے مستفیض ہونے کے فراواں مواقع نصیب ہوں گے ۔ آزادی کے فوراً بعد پاکستان کی نو آزاد مملکت میں سیاسی رسہ کشی زور پکڑ گئی ۔ وہ سیاست دان جن کا تحریک پاکستان میں کوئی کردار نہ تھا، جو اس کے مخالف تھے وہ وزیر بن گئے۔ (1) بر صغیر میں اپنی نو آبادی میں نوے سال تک قیام کے بعد یہاں سے رخصت ہوتے وقت بر طانوی سامراج نے ہندوؤں کی ملی بھگت سے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کے بعد جغرافیائی طور پر منقسم اور عسکری اعتبار سے کم زور کرنے اور ہندوؤں کو خوش کر نے کی غرض سے جس مکروہ منصوبے پر عمل شروع کیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے مخالفوں کو کھل کھیلنے کاموقع مل گیا ۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد قائد اعظم ؒکی علالت کے باعث ملکی نظم و نسق کی صورت حال اور بھی پیچیدہ ہوگئی ۔ بر صغیر سے نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعدآزادی کی منزل پانے کے لیے برصغیر کی ملت اسلامیہ کو جس قلز مِ خوں سے گزرنا پڑا اس کے تصو ر ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ برطانوی استبداد نے سر حدوں کا تعین کرنے کی غرض سے جو جارحانہ منصوبہ تشکیل دیا اس میں اِسلام دشمنی اور جانب داری نمایاں تھی ۔
30 جون 1947 کو آخری وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن(Lord Louis Mountbatten)نے دوسرحدی کمیشن مقر ر کئے جن کا سربراہ ریڈ کلف(Cyril John Radcliffe) تھا۔(2 ) تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری وائسرائے ماؤنٹ بیٹن (عرصہ ملازمت:اکیس فروری 1947 پندرہ اگست 1947 ) اور برطانوی قانون دان ریڈ کلف (1899-1977)دونوں مسلمانوں کے ساتھ ذاتی عناد رکھتے تھے اور کانگرس سے مل کرمسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی سازشوں میں نہایت راز داری اور انہماک سے مصروف تھے۔ اس کمیشن نے 9۔اگست 1947کو تقسیم ہند کا نقشہ پیش کیا مگر اس کا اعلان چودہ اگست 1947کو کیاگیا۔بر طانوی سامراج کے مرتب کیے ہوئے اس ظالمانہ نقشے کے مطابق پنجاب اور بنگا ل کو تقسیم کر دیا گیا۔ برطانوی سامراج کی کینہ پروری کے باعث تقسیم ہند کے وقت بر صغیر کے مسلمانوں کو شدید دشواریوں ،جان لیوا صدمات ،پیچیدہ مسائل اور انتہائی کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ ریڈ کلف کمیشن نے بددیانتی سے کام لیتے ہوئے مسلم اکژیتی علاقے بھارت کے حوالے کردئیے۔ جونا گڑھ اور حید ر آبا د دکن کی مسلم ریاستیں جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت تھی، استحقاق کے باوجود مسلمانوں کے حوالے نہ کی گئیں ۔ فیروز پور اور زیرہ کی تحصیلیں بھارت کے حوالے کر کے پاکستان کو فیروز پور ہیڈ ورکس سے محروم کر دیا گیا۔بنگال کی تقسیم کے وقت بر صغیر کی قدیم ترین اور اہم بندر گاہ کلکتہ (Kolkata) کو بھارت کے حوالے کر دیاگیا۔ یہ بندر گاہ بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سال 1870میں تعمیر کی تھی اور اس سے مشرقی بنگال کے مسلمان تجارت کرتے تھے۔ پنجاب میں گورداس پور اور بٹالہ کی جغرافیائی اعتبار سے نہایت اہم تحصیلیں بھارت میں اس لیے شامل کی گئیں کہ کشمیرپر بھارت کے غاصبانہ تسلط کی راہ ہموار کی جا سکے۔(3)کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے توقع یہ تھی کہ کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گا لیکن کشمیر کے حکمران ہر ی سنگھ نے برطانوی سامراج اور ہندوؤ ں کی شہ پر کشمیر کی مسلمان اکثریت کی رائے کے بر عکس ذاتی فیصلے اور بھارت کی ترغیب و تحریص پر کشمیر کو بھارت کے حوالے کرنے پر ضد کی۔کشمیری عوام کی طرف سے ہری سنگھ کے اس فیصلے کی شدید مزاحمت ہوئی اور بھارت نے اپنی فوج کشمیر میں پہنچا دی ۔اس صورت حال پر کشمیری مسلمانوں میں شدید غم و غصہ اور اضطرب پایا جاتا تھا وہ ہری سنگھ کے اس صریح ظلم اور ناانصافی کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور جبر کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہو گیا ۔ستائیس اکتوبر 1947کو کشمیر میں پاکستانی فوج بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تو پاکستان کی نو آزاد مملکت کی فوج کے قائم مقام انگریز سپہ سالار جنرل گریسی(Douglas Gracey)نے یہ حکم ماننے سے معذوری ظاہر کر دی۔(4) پاکستانی فوج کے قائم مقام سپہ سالارجنرل گریسی نے بد نیتی کی وجہ سے بانیٔ پاکستان اور اس ملک کے پہلے گورنر جنرل کی حکم عدولی کی۔اس کے پسِ پردہ بر طانوی سامراج کی اسلام دشمنی اور بھارت نوازی کی منفی سوچ کار فرما تھی۔ بانی ٔ پاکستان قائد اعظمؒ محمد علی جناح نے ریڈکلف ایوارڈ کو نا منصفانہ اور بد نیتی پر مبنی قرار دیا۔(5)1857میں بر صغیر میں مسلمانوں کی جائز حکومت کو بر طرف کرنے والے ظالم و سفاک بر طانوی سامراج نے نوے سال بعد ریڈ کلف ایوارڈ کی صورت میں مسلمانوں کو اُن کے جائز حقوق سے محروم کر کے اپنی اسلام دشمنی کا ایک اور شرم ناک ثبوت پیش کر دیا۔ریڈ کلف ایوارڈ کے بارے میں فیڈرل کورٹ پاکستان کے چیف جسٹس محمد منیر (عہدہ :انتیس جون 1954تادو مئی(1960نے کہا:
’’اگر یہ ایوارڈ قانونی تھا تو اس میں قانونی فیصلے کی ہر صفت مفقو د تھی ۔ اگر یہ ایوارڈ سیاسی تھا تو پھر انصاف پسندی اور غیر جانبدار ی کا دعویٰ کیوں۔یہ کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ ہندوستان انگریزوں کی ملکیت تھا اور ان کے وائسرائے نے جسے جو چاہا دے دیا۔‘‘(6)
جسٹس محمد منیر (1895-1979)نے ریڈکلف ایوارڈ کے بارے میں جن تحفظات کا اظہار کیا وہ بر محل تھے۔ نو آبادیاتی دور میں غاصب برطانوی سامراج نے پُورے بر صغیر کو اپنی خاندانی میراث سمجھ رکھا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ماؤنٹ بیٹن اورریڈکلف دونوں مِل کر ہندوؤں کی ضرورت کے مطابق بر صغیر کے وسیع علاقے جن میں مسلمان اکثریت کے علاقے بھی شامل تھے ، بلا تامل کانگرس کی جھولی میں ڈال رہے تھے۔ پس نو آبا دیاتی دور میں جنگل کے ایسے ہی دساتیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ضرورت کسی ضابطہ ٔ اخلاق یا قانون کی تابع نہیں ہوتی۔ حریص ضرورت مند کی کرگسی نگاہیں اپنی ضرورت کی خاطر خود اپنے لیے جائز یا نا جائز راہیں تلاش کرنے کی مجاز ہیں اورضروت کسی،مخالفت، مزاحمت یا مصلحت کی پروا نہیں کرتی ۔ نو آبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج اور اس کے حامیوں نے ایک سازش کے تحت بر صغیر کیتہذیب،ثقافت،تمدن، معاشرت، اخلاقیات اور اقدارِ عالیہ کے مسلمہ معائر کو تحت الثریٰ میں گرا دیا ۔نوے سال پر محیط نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پس نو آبادیاتی دور میں اس خطے کے با شندوں کو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے طویل جد و جہد کی ضرورت تھی۔بر طانوی سامراج کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث برصغیر کی ثقافت،قومیت ،لسانیات ،ادیان،رنگ و نسل کے مسائل اور عدل و انصاف کے معیار انحطاط کی زد میں آ گئے۔ نوے سال پر محیط غلامی کی بھیانک تاریک رات اور ہوائے جور و ستم کے مہیب بگو لوں نے بر صغیر کے عوام کی زندگی کا تما م منظر نامہ گہنا دیا۔
نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ جب ایک آزاد ،خو د مختار اوراسلامی فلاحی مملکت کے خواب کی تکمیل ہو گی تو ان کے مقدر کا ستارہ چمک اُٹھے گا۔ المیہ یہ ہوا کہ ، بد دیانتی ، تعصب اور انتقام پر مبنی برطانوی استعمار کی شاطرانہ چالوں نے مسلمانوں سے آزادی کی خوشیاں چھین لیں۔ تقسیم ہند کے منصوبے میں جانب داری اور بر طانوی سامراج کی کینہ پروری کے باعث برصغیر کے مسلمانوں پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹُوٹ پڑے۔ انتقالِ آبادی کے نتیجے میں پاکستان میں پس ماندہ اور مفلوک الحال طبقے کا معیارِ زندگی غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلا گیا ۔ ملک کی معیشت، دفاع ، تجارت ، صنعت اور دیگر تمام امور حالات کے رحم و کرم پر تھے ۔ اس تکلیف دہ صورتِ حال میں ملی درد اور قومی مفاد کو اولین ترجیح دینے والے دیانت دار، مخلص اور جذبۂ ایثار سے سرشاربے لوث کارکنوں کی کمی شدت سے محسوس ہو نے لگی ۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ تھاکہپاکستان کی نو آزادمملکت کو مصائب کے کوہ ِگراں کے نیچے سسکتے ہوئے بے یارو مددگار تارکینِ وطن کے مسائل کے فوری حل اور ان کی آبرو مندانہ بحالی کا کٹھن مرحلہ درپیش تھا۔ ان تمام مسائل کے پس پردہ ریڈ کلف کی بد دیانتی کارفرماتھی جس نے تمام اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال کر ظلم و استبداد ،کینہ پروری اور انتقام کی درد ناک داستان رقم کی۔ نوے سال پر محیط بر صغیر کے مسلمانوں کی جد جہد آزادی کے بعد بر طانوی سامراج کی بد دیانتی کے باعث جوعلاقے مسلمانوں کو مِلے،ان میں جغرافیائی اعتبارسے ربط ہی نہ تھا۔پاکستان کے مشرقی اور مغربی حصے میں ایک ہزار میل کا علاقہ بھارت کی تحویل میں تھا ۔برطانوی سامراج نے ہندوؤ ں سے ساز باز کر کے تقسیمِ ہند کے موقع پربر صغیر کے مسلمانوں کو جوعلاقے دئیے وہ ایک ناقابل فہم ،غیر مستحکم اور غیرفعال حکومت کا تصور سامنے لاتے تھے۔ بر صغیر سے نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعداسلام دشمن استعماری طاقتیں ایک سازش کے تحت بر صغیر کے مسلمانوں کو آزادی کے بعد ایسی نو آزاد مملکت کے شہری بنانا چاہتی تھیں جو اپنی تعمیر و ترقی کے کاموں کی تکمیل اور مؤثر دفاع کرنے سے معذور ہو ۔بر صغیر کے مسلمانوں نے اپنے ذہن میں آزادیٔ کامل کا جو نقشہ بنا رکھا تھا اس کی عملی صورت کے بجائے ریڈ کلف ایوارڈ کی صورت میں انھیں آزادی کاایسا دیمک خوردہ پروانہ تھمادیا گیا جس کی عصبیت کی بنا پر احمقانہ تحریف او ر مجنونانہ تمسیخ کر کے برطانوی سامراج نے مسلمانوں کے جذبا ت کو ٹھیس پہنچائی ۔
نوآبادیاتی دور میں برطانوی سامراج کے استحصالی ہتھکنڈوں کے باعث بر صغیر کے عوام کو دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلنے پڑے۔نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد گلستانِ وطن میں سیاسی نشیب و فراز عجب گُل کھلا رہے تھے۔ بر طانوی سامراج کی سازش کے باعث علاقائی،لسانی،نسلی اورفرقہ وارانہ اختلافات میں شدت آ گئی۔ نو آبادیاتی دور میں موقع پرست اور متلون مزاج لوگ جو آئین ِ نو سے خوف زدہ تھے اور طرزِکہن پر اڑ گئے تھے ،اُن کی بن آ ئی۔ان لوگوں نے اپنی بے بصری،کور مغزی ،ذہنی افلاس اور قوت اِرادی کے فقدان کے باعث برطانوی استعمار کے دامن میں پناہ لے رکھی تھی۔وہ خود بھی شدید بے یقینی اور عدم تحفظ کا شکار تھے اور پُورے معاشرے کو بھی اسی نوعیت کے عدم تحفظ اورغیر یقینی حالات کی بھینٹ چڑھانے کی سازشوں میں مصروف ر ہتے تھے۔ایسے تھالی کے بینگن ،چکنے گھڑے رواقیت کے داعی بن بیٹھے اور معاشرے کے زیرک افراد کو اپنا دست نگر اور تابع بنانے کی سازش کرنے لگے۔ بر صغیر سے نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد نو آزاد مملکتوں میں سر حدوں کے تعیّن میں جو نانصافی اور بد دیانتی کی گئی اس کے باعث نہتے مسلمان مہاجرین کے قافلوں پر جن میں عورتیں ،کم سِن بچے اور معمر افراد بھی شامل تھے قاتلانہ حملے کیے گئے اور لُوٹ مار کی گئی ۔مسلح ہندوؤں اور سکھوں کے بُزدلانہ حملوں کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ مسلمان لقمۂ اجل بن گئے ۔بھارت سے پاکستان داخل ہونے والے مسلم تارکین وطن کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ بیان کی جاتی ہے۔ (7) بھارت سے ترکِ وطن کرنے والے مسلمان اپنے خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کیے گئے مکانات اور جائیداد یں وہیں چھوڑ کر دامن جھاڑ کر اپنے دِ ل میں ہزاروں تمنائیں لیے موت کے سائے میں ارض پاکستان کی جانب رواں دواں تھے۔ آزاد وطن کی خاطر سب کچھ چُھوٹ گیا جو زادِ راہ ساتھ تھا وہ بھی بلوائیوں نے راستے میں لُوٹ لیا۔ آغازِ سفر کے وقت آزادی کے اس قافلے میں جو مخلص ر فیقِ سفر شامل حال تھے ،وہ سلامت نہ رہے اور منزل پر محض چند لوگ ہی پہنچ سکے باقی سب خاک نشینوں کا خون راستے ہی میں رِزق خاک ہو گیا۔ شریف اور خوش حال خاندانوں سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو بھارت میں اپنے مکان اور حویلی کے مالک تھے ،ہجرت کے بعد جانی اور مالی نقصان اُٹھا کر انھوں نے ارض ِ پاکستان پر قدم رکھا تو کس مپرسی کے عالم میں اُن کا اﷲ بیلی تھا۔بر طانوی سامراج کی کینہ پروری کی مظہر مجنونانہ ،حاسدانہ اور منتقمانہ تیراندازی میں آزادی کے متوالوں کی آرزوئیں مات کھا کررہ گئیں۔نو آبادیاتی دور تو ختم ہو گیا مگر بر طانوی سامراج کی مسلط کی ہوئی ذلت،تخریب، نحوست ،بد بختی ،بے توفیقی اور خانہ جنگی کا منحوس سلسلہ ختم نہ ہو سکا۔نو آبادیاتی دور کے اعصاب شکن ماحول میں غلامی کا طوق پہننے والی اقوام نے اپنے گلے سے غلامی کا طوق تو اُتا رپھینکا لیکن اُنھیں ذہنی غلامی سے نجات حاصل نہ ہو سکی۔ بر طانوی سامراج کے اخلاق سے عاری فاتر العقل اور مخبوط الحواس کارندوں نے بر صغیر کے باشندوں کے ساتھ جو اہانت آمیز سلوک روا ررکھا اس سے تنگ آ کر انھوں نے مغرب کی مصنوعات ،تہذیب اور معاشرت کو ہمیشہ نفرت کی نگا ہ سے دیکھا۔ بر صغیر کے با شعور باشندوں بالخصوص مسلمانوں نے بر طانوی سامراج کے تما م اقدامات کو ہمیشہ شک و شبہ کی نگا ہ سے دیکھا۔بر صغیر سے بر طانوی استعمار کے خاتمے کے بعدبرطانوی سامراج کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنی سابقہ نو آبادی کو معاشی،سیاسی،تہذیبی ،ثقافتی اور عسکری شعبوں میں اپنا دست نگر رکھ کر اس قدر دباؤ ڈالیں کہ اس خطے کے باشندے ان کے تابع بن کر رہیں۔ان کے دیو ِ استبداد نے دکھاوے کی عالم گیریت ،تصنع کی مظہر آزاد خیالی اور جعلی جمہوریت کی آڑ میں ہر شورش اور سوزش کا قلع قمع کرنے کی سازش کی ۔بر طانوی استعمار کا وہ قصرِ عالی شان جو نوے برس تک اس خطے میں جاہ و جلا ل کی علامت سمجھا جاتا تھا ،حریت ضمیر سے جینے کی تمنا رکھنے والوں نے اس کی بنیادیں ہلا دیں۔اپنے اقتدار کی گرتی ہوئی دیوار کو پستہ لگانے کے لیے بر طانوی سامراج نے بہت کوشش کی مگر ان کی کوئی اُمید بر نہ آئی اور نہ ہی انھیں اپنے قیام کو مزید طویل کرنے کی کوئی صورت نظر آئی ۔ تقسیم ہند کے وقت بر صغیر کے مسلمانوں کے تمام شکوک درست ثابت ہوئے۔ رولٹ ایکٹ کے بعد تو بر طانوی سامراج سے انصاف کی توقع ہی اُٹھ گئی تھی ۔اہلِ ہوس نے ہر سُو اپنے دام بکھیر رکھے تھے ،شکایت اورانصاف کی التجا لا حاصل تھی۔ ریڈ کلف ایوارڈ نے بر طانوی سامراج کے کر یہہ چہرے سے نقاب اُٹھا دیا اور مسلمانوں پر اس سازش کے تمام پہلو واضح ہو گئے۔پس نو آبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج کی ریشہ دوانیوں کے باعث مسلمانوں کو بے چینی ،اضطراب،تشویش اور پیچیدہ مسائل کی ایسی دلدل میں دھکیل دیا گیاجس سے بچ نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ بر طانوی استعمار نے بر صغیر میں صنعت اور مواصلات کے شعبوں میں جو کام کیا اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والے مسخرے ناسٹلجیا کے مہلک روگ میں مبتلا ہیں اور اپنے آقاؤں کی آواز کی آواز سنا کر بے وقت کی ر اگنی الاپتے ہیں۔ان کے مضحکہ خیز دلائل میں کوئی وزن نہیں بر طانوی استعمار کی غلامی نے یہاں کے باشندوں کومستقل نوعیت کی ذہنی اسیری اور احساسِ کم تری میں مبتلا کر دیا ۔بر طانوی سامراج نے ارضی حوالوں کے بجائے اپنی مرضی کے دلالوں پر انحصار کیا اورعلاقوں کے بجائے افراد کے اذہان اور قلوب کو مسخر کر کے اپنا اطاعت گزار بنانے کی ٹھان لی تا کہ وہ ثقافتی بالا دستی کی لاٹھی تھام کر اپنی تمام سابقہ نو آبادیوں کی سب بھینسوں کو بِلاروک ٹوک ہانکتے رہیں۔ نوآبادیاتی دور میں مہاجرین کے لُٹے پٹے قافلے جب پاکستان پہنچے تو ان کے لیے سر چھپانے کی جگہ میسر نہ تھی۔ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد ایک سازش کے تحت بر طانوی سامراج نے اُجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ بنا دی۔آگ اورخون کا دریا عبور کر کے پاکستان پہنچنے والے لاکھوں مہاجرین کے قیام ،طعام اور علاج کی مناسب سہو لیات کی فراہمی کے لیے وسائل میسر نہ تھے۔قانون آزادیٔ ہند 1947کی شق 8(1) کے تحت گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں مناسب ترامیم کرنے کے بعد اسے پاکستان کی وفاقی حکومت کے پہلے عبوری آئین کی حیثیت سے نافذ کر دیا گیا۔آئین ساز اسمبلی کا انتخاب 1947میں ہو گیا تھا جس نے نو سال بعد (1956) دستور کی منظوری دی۔
ہوس اقتدار کے مارے سیاست دانوں نے قائداعظمؒ کے خوابوں کی تکمیل نہ ہونے دی ۔ قائد اعظم ؒکی وفات سے قیادت کا جوخلاپیدا ہوا اسے ان کے جانشیں پر نہ کرسکے۔(8 ) قائد اعظم ؒ نے مسلمانوں کی خوشحالی کے جو منصوبے بنائے تھے ان پر عمل نہ ہوسکا ۔ حتیٰ کہ آزادی کے مقاصد اور تمام اقدار کو پس ِپشت ڈال دیا گیا۔ (9) برطانوی سامراج کی شہ پرریڈکلف ایوارڈ کی ناانصافیوں ، تارکین وطن کے مصائب و آلام،بھارت کی ہٹ دھرمی اور پاکستانی سیاست دانوں کے رویے نے قائد اعظمؒ کو بہت مایوس کر دیا۔ وہ برطانوی استعمار کی اِسلام دشمنی اور ہندوؤ ں کے تعصب سے سخت نالاں تھے۔ تقسیم ہند کے موقع پر جس سفاکی سے نہتے اور بے گناہ مہاجرین کے خون کی ہولی کھیلی گئی ،اُس پر قائد اعظم ؒ تڑپ اُٹھے ۔مہاجرین کے مصائب و آلام کے لرزہ خیز واقعات سُن کر قائد اعظمؒ کی آ نکھیں بِھیگ بِھیگ جاتیں اور دِ ل تھا م کر رہ جاتے۔1948 میں بیماری کے دوران جب قائداعظمؒ زیارت میں مقیم تھے توآکسفورڈ کے فارغ التحصیل اور آزادی کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ،لاہور کے پہلے مسلمان پرنسپل ممتاز معالج لیفٹنٹ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش(1904-1960) اُن کے علاج پر مامورتھے۔ حالاتِ حاضرہ کے بارے میں قائد اعظم ؒ اپنے ذاتی معالج سے تبادلہ ٔ خیال کر لیتے تھے ۔ایک دِن قائد اعظمؒ نے اپنے معالج لیفٹنٹ کرنل ڈاکٹر الٰہی بخش سے کہا:
’’میری خواہش تھی کہ میں زندہ رہوں ۔لیکن اب مجھے اس کی کچھ فکر نہیں کہ میں زندہ رہوں گا یا مرجاؤں گا۔(10)
آزادی کے بعد پاکستان کو مخلص ،وفادار اور جذبۂ خدمت سے سرشار بیورو کریسی نہ مِل سکی۔نو آبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج کے پروردہ خود غرض اور مفاد پرست بیورو کریٹ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد نو آزاد مملکت میں سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔عقابوں کے نشیمن اب زاغ و زغن ،بُوم ،شِپر اور کرگس کے تصرف میں تھے۔ اپنے معمولی نو عیت کے ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو پسِ پشت ڈالنے اور ملی وقار کو داؤ پر لگانے والے بیو ر وکریٹس کے روّیے نے تشویش ناک صورت اختیار کر لی۔ ڈاکٹروں کے مشورے سے 11 ستمبر1948 کوقائد اعظمؒ کوبلو چستان کے صوبائی دار الحکومت کوئٹہ سے 130کلو میٹر کے فاصلے پر واقع صحت افزا مقام زیارت سے کراچی منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بیورو کریسی کی نااہلی کا اندازہ اس امر سے لگایاجا سکتا ہے کہ با نی ٔپاکستان اورملک کے گورنر جنرل کو شد ید بیماری کی حالت میں ہوائی اڈے سے لانے کے لیے ایسی ایمبولنس بھیجی گئی جس کا نہ صرف پڑول ختم ہو ابلکہ بندر روڈ پر ایمبولنس خراب ہوگئی ۔(11) قائد اعظمؒ بے بسی کے عالم میں ایمبولنس میں لیٹے ہوئے تھے جہاں ان کے معالج لیفٹنٹ کرنل الٰہی بخش ان کی نبض محسوس کر رہے تھے۔ اس وقت صرف محترمہ فاطمہ جناح بھائی کے پاس بیٹھی تھیں اس طرح ایک قیمتی زندگی کا انجام ہونے والا تھا۔ دو گھنٹے کوئٹہ سے کراچی کے سفر میں لگے اور دو گھنٹے ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاؤس تک ۔ یہ قدرت کی ستم ظریقی نہیں تو اور کیاہے؟(12)
نو آبادیاتی دورکے اختتام کے بعد جب پاکستان میں آزادی کے نئے دور کا آغاز ہو اتو اس نو آزاد مملکت کے سامنے مسائل کا ایک کوہِ گراں تھا۔اس کے علاوہ بڑھتے ہوئے سیاسی انتشار کے باعث ملک عدم استحکا م کااشکار کر ہو گیا۔سیاست دانوں کی باہمی چپقلش،بڑھتی ہوئی ہوسِ اقتدار،ذاتی مفادات کے حصول کی تمنا اور عوامی مسائل کے بارے میں عدم توجہی نے قومی سطح پر بے اطمینانی پیدا کر دی۔مقتدر حلقوں کے غیر جمہوری اقدامات کی وجہ سے سلطانی ٔ جمہورکے خواب کی تعبیر نہ مل سکی۔معاشرتی زندگی کی بے چینی،خلفشاراور غیر یقینی حالات پر سیاست دانوں کی خاموشی اور بے حسی کو دیکھ کر لوگ سیاسی عمل سے ناخوش و بیزار تھے۔حساس تخلیق کار اپنے افکار کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرکے حوصلے اور اُمید کی شمع فرزاں رکھنے کی سعی کرتا ہے ۔مہیب سناٹوں میں جری تخلیق کار کی آواز بانگِ درا ثابت ہوتی ہے ۔ بر صغیر سے بر طانوی استعمار کے خاتمے کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔قیام ِ پاکستان کے فوراً بعد حالات نے جو رُخ اختیار کیا اُردو زبان کے شعرا نے اس کا نہایت خلوص اور دردمندی سے جائزہ لیا۔اس عرصے میں انھوں نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں حالات و واقعات کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے دِلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرنے کی کوشش کی۔حریتِ فکر و عمل کی آئینہ دار یہ شاعری اخلاقیات کے نکھار،قومی کردار کی تعمیر اور بے یقینی کے خاتمے میں ممد و معاون ثابت ہوئی۔بر طانوی سامراج نے حقیقی آزادی کو آزادیٔ موہوم میں بدلنے کی جو سازش کی اس کے بارے میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھا کر اُردو شعرا نے فکر و نظر کو مہمیز کیا اور قوم کو جہد و عمل کی طر ف مائل کیا۔ اُردو زبان کے ممتاز شعرا نے ذہن و ذکاوت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تخلیقی فعالیت کو ایک خاص نوعیت کے ردِ عمل کے مطالعہ پر مر کوز کر دیا ۔یہ ردِ عمل اس وقت سامنے آیا جب نو آبادیاتی دور اور اس کے خاتمے کے بعد نوآبادی کے باشندوں اور استعماری قوتوں کے مابین کشمکش کی کیفیت پیدا ہوئی۔ان تخلیق کاروں نے ان حقائق کی گرہ کشائی کی کہ نو آبادی کے باشندوں اور سامراجی طاقت کے فکری تصادم کے تہذیبی اور ثقافتی سطح پر کیا نتائج بر آمد ہوئے۔ مشرق کے مسلمان خاکِ مدینہ و نجف کو اپنی آ نکھ کا سُرمہ سمجھتے ہیں اس لیے وہ مغربی تہذیب کوجُھوٹے نگوں کی ریزہ کاری قرار دیتے ہیں اور مغربی تہذیب کی چکا چوند ان کی نگاہوں کوخیرہ نہیں کر سکتی ۔برطانوی استعمار نے بر صغیر کے باشندوں کو ہمیشہ ہیچ سمجھا اور اہلِ مغرب سے ان کا موازنہ کرتے وقت مشرق کے مکینوں کو نہایت حقارت سے ازمنہ اولیٰ کے قدامت پسند قرار دیا جوجاہل اور غیر مہذب ہیں۔مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرق کے پس ماندہ ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کر کے ان ممالک کی تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ ،سماج اور معاشرت کے بارے میں گمراہ کُن تجزیے پیش کیے۔حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ صداقتوں کی تکذیب مغرب کے عادی دروغ گو محققین کا وتیرہ رہا ہے ۔یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب فرانس کے مہم جُو نپولین بونا پارٹ ( Napoleon Bonaparte)نے سال 1798میں مصر اور شام پر دھاوا بو ل دیا تھا۔ برطانوی نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پاکستان کی نو آزاد مملکت میں معاشرتی زندگی کے معمولات میں کئی تبدیلیاں رُو نما ہوئیں۔اردو زبان کے ادیبوں نے زندگی کے نشیب و فراز ،لطافت و کثافت اور جور و ستم کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر اظہار و ابلاغ کے نئے انداز اور نئی طرزِ فغاں پر توجہ مرکوز کر دی۔نو آبادیاتی دور میں اس خطے کی صدیوں پُرانی تہذیب و ثقافت اور اقدار و رویات کو شدید ضعف پہنچا۔بر طانوی سامراج سے نجات کے بعد یہاں کے تخلیق کاروں نے زندگی کے تلخ و شیریں واقعات،ماضی کے سانحات،جذبات واحساسات کی متغیر کیفیات اور عوامی اُمنگوں کے مطابق حالات کی حقیقی ترجمانی کو اپنا نصب العین بنا کر صحیح فیصلہ کیا۔سماج ،معاشرے اور سیاست کے بدلتے ہوئے موسم،معاشرتی زندگی کے انداز ،رہن سہن کے طریقے ،ملبوسات ،اسالیب اور حصولِ رزق کے وسائل سب کچھ ان تخلیق کاروں کے موضوعات میں شامل رہا۔ آزادی کے بعد رُونما ہونے والے واقعات نے تخلیقی وجدان اور ذوقِ سلیم پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔جہاں تک اسالیب اور ڈسکورس کا تعلق ہے یہ عہدِ غلامی سے بالکل مختلف انداز کا حامل تھا۔آزادی کی فضا میں جذبات و احسات کے زیر و بم ،ماحول اور معاشرت کے نشیب و فراز ،افراد کی زندگی کی دُھوپ چھاؤں ،لوگوں کی پسند و نا پسند اور فکر و خیال کے اختلافات کے بارے میں ایک منفرد سوچ پروان چڑھنے لگی ۔پس نو آبادیاتی دور میں یہاں کے ادیبوں نے یہ باور کرانے کی مقدور بھر کوشش کی کہ تخلیقی فعالیت کے دوران وہ کون سی خوبیاں ہین جن کی بدولت کوئی تخلیق قبولیت عوام کی سند حاصل کرتی ہے اور وہ کون سے عیوب ہیں جو کسی تخلیق کو لائق استرداد ٹھہراتے ہیں۔
بر صغیر کے باشندوں کی طویل جد و جہد کے نتیجے میں چودہ اگست 1947کو بر طانوی سامراج نے بہ ظاہر یہاں سے کُوچ کیا لیکن عملاً یہ پیر ِ تسمہ پا اب بھی اس علاقے کو مکر کی چالوں سے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔اپنی سابقہ نو آبادیات میں سامراجی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا غیر مختتم سلسلہ جاری ہے ۔ بعض تجزیہ کار اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ غیر محتاط سوچ ہے کہ بر صغیر سے نوآبادیاتی دور کا مکمل طور پر خاتمہ ہو چُکا ہے ۔ عالمی سامراج اپنی سابقہ نو آبادیات کو اپنا تابع رکھنے کی خاطر جو ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے ان میں ان سابق نو آبادیات میں سیاسی عدم استحکام،معاشی ابتری،معاشرتی افرا تفری،علاقائی ،لسانی ،نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات،خانہ جنگی،بد عنوانی،فوجی بغاوت اور قتل و غارت گری شامل ہیں۔ برطانوی سامراج نے ایک مکروہ سازش کے تحت بر صغیر کی صدیوں سے موجود عظیم اورقدیم تہذیب و ثقافت کی تمسیخ کرتے ہو ئے مسلمہ صداقتوں اور واقعاتی حقائق کی تکذیب کو اپنا وتیرہ بنائے رکھا۔یورپی استعمارنے نہایت رعونت سے مشرق کے غریب اور پس ماندہ مکینوں کو جاہل،غیر مہذب،گنوار،اُجڈ اور ازمنہ وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی حقیر مخلوق سمجھا۔بر طانوی سامراج نے یورپ میں یہ تاثر دیا کہ بر صغیر کے باشندے جس ماحول میں زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں وہ پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا ہے ۔ بر صغیر کے با شعور ادیبوں کا خیال تھا کہ مشرقیت کے بارے میں کسی اعتذار کی ضرورت نہیں۔مشرق کے مکین اپنی تہذیب و ثقافت کو ایسے انداز ِ فکر کی مظہر سمجھتے تھے جوعلمِ موجودات،علم بشریات اور ظاہری علوم کی اساس پر استوار ہے ۔قیام ِ پاکستان کے بعدادیبوں نے اس نو آزاد مملکت میں طبقاتی منافرت،مشرق و مغرب میں پائے جانے والے فاصلوں او ر تہذیبی و ثقافتی دُوری کے مطالعہ کو مجبوری کے بجائے عصری آ گہی کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری خیال کرتے ہوئے قوم کو احساسِ کم تری سے نکالنے کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ ترقی پزیر ممالک کی غربت ،پس ماندگی اور معیارِ تعلیم کی پستی کو یورپی اقوام نے بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور ان ممالک پر اپنی ثقافتی یلغار کے لیے راہ ہموار کرنے کی سازش کی۔ پاکستان میں خاکِ وطن کے ذرے ذرے سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت پس نو آبادیاتی ادب کا امتیازی وصف سمجھا جاتا ہے ۔ بر طانوی استعمار کے خاتمے کے بعد پاکستانی ادیبوں نے بر طانوی سامراج کے نوے سالہ مظالم کے خلاف کُھل کر لکھااور استعماری طاقتوں کی ہوسِ ملک گیری کے مذموم منصوبوں کے مسموم اثرات سے قارئین کو متنبہ کرنے میں کبھی تامل نہ کیا۔آزادی کے بعدپاکستانی ادیبوں نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں جوڈسکورس اپنایا اس میں قومی وقار،ملی وحدت،انسانیت کا وقار اور سر بلندی،ملکی استحکام اور آزادی کا تحفظ شامل ہیں۔ادیبوں نے قارئین کو اس جانب متوجہ کیا کہ پاکستان کی خوش حالی ،استحکام اور بقا سے ہم سب کی بقا وابستہ ہے۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر یقین رکھنے پر توجہ دی گئی اور ماضی کے تلخ واقعات سے سبق سیکھنے پرزور دیاگیا۔وطن،اہلِ وطن اور انسانیت سے محبت کے جذبات کو تقویت ملی اور بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی پر زور دیاگیا۔آزادی کے بعد پاکستانی ادیبوں نے اس جانب متوجہ کیا کہ جہد للبقا کے موجودہ زمانے میں حیاتِ جاوداں کا رازستیز میں پنہاں ہے ۔ہر انسان محنت شاقہ اور سعی ٔ پیہم سے اپنا مقدر سنوار سکتا ہے ،اسے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ مہیب سناٹوں جان لیوا ظلمتوں میں گھری فرہادکی کُٹیا میں روشنی کی ٹمٹماتی لو اس کے ہاتھ میں تھامے ہوئے تیشے کے شرر کی مرہونِ منت ہے ۔ پاکستانی ادیبوں نے آزادی کے بعد اس احساس کم تری سے نجات حاصل کرنے کی سعی پر توجہ مرکوز رکھی جس میں بر طانوی استعمار نے اپنے نوے سالہ غاصبانہ اقتدار کے دوران اس خطے کے مظلوم باشندوں کو مبتلا کر دیا تھا۔ سلطانی ٔ جمہور اور آزادی ٔ اظہار کی راہ میں حائل ہر دیوار کو تیشہ ٔ حر ف سے پاش پاش کر کے پاکستانی ادیبوں نے ثابت کر دیا کہ قلم کی طاقت کے سامنے کوئی فسطائی جبر اور استعماری قوت نہیں ٹھہر سکتی۔نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد پس نو آبادیاتی مطالعات دنیا بھر کے اہلِ علم و دانش کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ پسِ نو آبادیات ایک کثیر المعنی اصطلاح ہے جس کا دائرۂ کار نہایت وسیع ہے ۔دنیا بھر کے زیرک،فعال ،مستعد اور معاملہ فہم دانش وروں نے عالمی ادبیات ،تاریخ،سیاسیات،سماجیات،علمِ بشریات اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں پس نو آبادیاتی مطالعات کی ہمہ گیر اہمیت وافادیت کو اُ جاگر کرنے کی سعی کی ہے ۔ پسِ نو آبادیات کی مسحور کُن ہمہ گیری قارئین کے لیے ایک منفر د تجربہ ہے ۔وہ سوچتے ہیں کہ ماضی کی غلام اقوام آج کس عزم و استقلال ،حوصلے اور ولولہ ٔ تازہ کو رو بہ عمل لا کر نہایت قوت اور جرأت سے آلامِ روزگار کے مسموم بگولوں اور سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔قیام پاکستان کے بعدپاکستان کے ادیبوں نے بدلتے ہوئے حالات کے بارے میں عوام میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے کے لیے دِن رات ایک کر دیا۔تخلیقِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی تمنا کرنے والے ان تخلیق کاروں نے ثابت کر دیا کہ مظلوم کی حمایت اور حریت ِ فکر کی روایت زندہ اقوام کا شیوہ ہوتاہے ۔ان کے تخلیقی کام کا حقیقی تناظر میں جائزہ وقت کااہم ترین تقاضا ہے ۔کسی بھی مجوزہ تخلیقی فعالیت یا معجزہ ٔ فن کی تخلیق اور اس کے پسِ پردہ کار فرما لا شعور ی محرکات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اس کی خوب جانچ پرکھ اور شناخت کر لی جائے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے تو یہ امر توجہ طلب ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں تخلیق کار نے یہ تخلیقی کام انجام دیا ۔تخلیق کار کے قلب اورروح پر وقت کے کون سے موسم اپنا رنگ جمانے میں کامیاب ہوئے۔یہ بات بھی اہم ہے کہ موضوع زیرِ بحث میں کون سے امور وضاحت طلب ہیں ۔جہاں تک پس نو آبادیاتی مطالعات کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان میں نو آبادیاتی دور کے محکوم باشندوں کے زوایہ ٔنگاہ ،وقت کے بدلتے ہوئے تیور ،فکر و خیال کی انجمن کے رنگ اور ان کے آ ہنگ پیشِ نظر رکھے جاتے ہیں۔پس نو آبادیاتی مطالعات نو آبادیات کے باشندوں کی سوچ پر محیط ہوتے ہیں۔ جری تخلیق کار اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کی نو آبادیات کے وہ مظلوم باشندے جو طویل عرصے تک سامراجی غلامی کا طوق پہن کر ستم کش ِ سفر رہے مگر سامراجی طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا،ان کا کردار ہر عہد میں لائق صد رشک وتحسین سمجھا جائے گا۔یہ دیکھا جاتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کو جب اپنی نو آبادیات میں منھ کی کھانا پڑی اور ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب وہ بے نیلِ مرام نو آبادیات سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو اس کے بعد ان نو آبادیات کے با شندوں نے آزادی کے ماحول میں کس طرح اپنی انجمنِ خیال آراستہ کی۔ استعماری طاقتوں نے دنیابھر کی پس ماندہ اقوام کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑے رکھا۔سامراجی طاقتوں کی جارحیت کے نتیجے میں ان نو آبادیات کی تہذیب وثقافت،ادب،اخلاقیات،سیاسیات ،تاریخ ،اقدار و روایات اور رہن سہن کے قصر و ایوان سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔ پس نو آبادیاتی مطالعات میں اس امر پر نگاہیں مرکوز رہتی ہیں کہ ان کھنڈرات کے بچے کھچے ملبے کے ڈھیر پر نو آزاد ممالک کے باشندوں نے آندھیوں اور بگولوں سے بچنے کے لیے صحنِ چمن کو کس طرح محفوظ رکھا۔ برصغیر سے نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پاکستان میں رُو نما ہونے والے واقعات کو اُردو شعرا نے کس انداز سے دیکھا اس کا پرتو ان کی شاعری میں موجو دہے :
فیض احمد فیض (پیدائش:تیرہ فروری1911،وفات:بیس نومبر1984)
صبح آزادی : اگست 1947
یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا ، یہ وہ سحر تونہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں توجاکے رُکے گا سفینۂ غم دل
جواں لہو کی پراسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے خواب صبر گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینان نو ر کادامن
سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھی تھکن
سنا ہے ہوبھی چکا ہے وصال منزل وگام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاطِ وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کی آگ ،نظر کی اُمنگ،دِل کی جلن
کِسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگارِ صبا کِدھر کو گئی
ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی ٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دِل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
---------------------------------
احمد ندیم قاسمی (پیدائش: بیس نومبر 1916،وفات:دس جولائی،2006)
ادب و سیاست
اگر لاشوں کے قتلوں کی تجارت ہی سیاست ہے
اگر دستورِ آدم ا فگنی جزوِ سیاست ہے
اگر افرنگ کی حلقہ بہ گوشی اب بھی جائز ہے
اگر اِنسان کی اِنسان فروشی اب بھی جائز ہے
اگر آزاد رہنے کی تمنا جُرم ہے اب بھی
اگر انصاف کرنے کا تقاضا جُرم ہے اب بھی
اگر روٹی طلب کر نا جہالت ہے، بغاوت ہے
تو کل کا عقیدہ ہی اگر محنت کی اُجرت ہے
اگر علم و ادب پر ایک طبقے کااجارہ ہے
اگر دانش وروں کو فن پہ پا بندی گوارا ہے
تو میں ایسی سیاست پر فد ا ہونے سے باز آیا
محبت میری فطرت، آدمیّت میرا سرمایہ
مِرے پیش نظر رعنائی و امن و جوانی ہے
مِرے مدِ نظرانساں کا حُسنِ جاودانی ہے
مشینوں کا دھواں اُجرت نہیں ہے جاں سپاری کی
مرصع گالیاں قیمت نہیں خدمت گزاری کی
مجھے محنت کشوں کو دہر کا آقا بنانا ہے
مجھے بچوں کے چہروں پر گلابی رنگ بھرنا ہے
محبت چاہیے مجھ کو، صباحت چاہیے مجھ کو
بغاوت ہے اگر یہ،تو بغاوت چاہیے مجھ کو
یہی میر ا ادب ہے ، اور یہی میری سیاست ہے
مرے جمہورہی سے میری فن کاری عبارت ہے
مِِرے جمہور ہی سے میری فن کاری عبارت ہے
مِرے جمہور ، جن کے خون سے ایوان سجتے ہیں
انہی کی چاپ سے اب آمروں کے کان بجتے ہیں
وہ اُٹھے قافلہ در قافلہ پُورب سے ،پچھم سے
وہ لپکے کارواں در کارواں اقصائے عالم ہے
ملوں سے ، مرغزاروں سے ، بنوں سے ، کوہساروں سے
دکانوں سے، گھروں سے علم و دانش کے اداروں سے
خلش ان کے دلوں میں ، اجتہاد ان کی نگاہوں میں
بچھی جاتی ہیں جمہوری روایات ان کی راہوں میں
مر ا فن ان کی عظمت کا جب استقبال کرتا ہے
تو استحصال مجھ پر کفر کا الزام دھرتا ہے
اگر یہ کفر ہے، اس کفر کو ایماں بناؤ ں گا
گجردم ظلمتِ شب کے ترانے میں نہ گاؤں گا
-----------------------------------------
احمدندیم قاسمی
یہ رات
دلیل صبح طرب ہی سہی یہ سناٹا
مگر پہاڑ سی یہ رات کٹ چکے تو کہوں
پس نقاب ہی پنہاں سہی عروس سحر
مگر یہ پردہ ظلمات ہٹ چکے توکہوں
یہ رات بھی تو حقیقت ہے تلخ و تند و درشت
اسے سحر کا تصور مٹا نہیں سکتا
مجھے تو نیند نہیں آئے گی کہ میرا شعور
شب سیاہ سے آنکھیں چرا نہیں سکتا
اگر نشان سفر تک کہیں نہیں ، نہ سہی
میں رینگ رینگ کے یہ شب نہیں گزاروں گا
شکست سے مرا اخلاق اجنبی ہے ندیمؔ
سحر ملے نہ ملے ، رات سے نہ ہاروں گا (1952)
-------------------------------------------------------------------
احمد ندیم قاسمی
غمِ وطن
میرا غم،صرف میرا غم تو نہیں ،کم کیوں ہو
آدم اِس دور میں بھی کشتۂ آدم کیوں ہو
جس کے دانتوں میں مِری قوم کے ریشے ہیں ابھی
وہی سفاک مِرے دیس کا ہم دم کیوں ہو
کٹ کے بھی جُھک نہ سکا جو سرِ پِندارِ وطن
کِسی سُلطان کے دربار میں اب خم کیوں ہو
مُجھ کو ڈر ہے تیری آواز ہے بھرائی ہوئی
حریت کا یہ ترانہ ہے تو مدھم کیوں ہو
جِس کو تہذیب وتمدن کا افق چھونا ہے
چند فرسنگ کی پرواز سے بے دم کیوں ہو
----------------------------------
عبدا لمجیدسالک (پیدائش:تیرہ دسمبر،1895)
بہار آ گئی لیکن کہاں بہار ابھی
جمالِ عارضِ گُل پر نہیں نِکھار ابھی
بجا کہ رات کٹ گئی آخر
مگر ہوا نہیں خورشید جلوہ بار ابھی
سکون ہو گیا حاصل سکوں پسندوں کو
مگر ہے فِطرتِ جمہور بے قرار ابھی
خدا کا شکر کہ آزاد و کامراں ہے وطن
مگر عوام کو ہونا ہے کام گار ابھی
یہی ہے پِھر بھی دعائے عوام پاکستان
مبار ک اہلِ وطن کو قیامِ پاکستان
----------------------------------------------
مجیدؔلاہوری (عبدا لمجید چوہان )(1913-1957)
یہ کیسی آزادی ہے
یہ کیسی آزادی ہے بھئی ! یہ کیسی آزادی ہے؟
کنگلے تو کنگلے ہی رہے اور دھن والے دھن وان ہوئے
رہزن رہبر بن بیٹھے جو غنڈے تھے پر دھان ہوئے
جاہل تو فرزانے ٹھہرے اورعاقل نادان ہوئے
شہد لگا کر ہم نے چاٹے جتنے بھی اعلان ہوئے
---------------------------------------------
دلاور حسین،دلاور فگار(پیدائش:آٹھ جولائی1929,،وفات:پچیس جنوری1998)
کل مزارِ قائد اعظم ؒ پہ کوئی حیلہ ساز
کہہ رہا تھا آپ نے یہ کیا کہا بندہ نواز
اِنقلاب آتے ہی چھوٹا ہو گیا سب سے بڑا
ہم کو آزادی کا یہ سودا بہت مہنگا پڑا
--------------------------------------------------------
محسن بھو پالی (عبدالرحمٰن)(پیدائش:بھوپال،اُنتیس ستمبر 1932،وفات:کراچی،سولہ جنوری2007)
تلقینِ اِعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہِ طلب میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں مِلی جو شریکِ سفر نہ تھے
----------------------------------------------
علی سکندر جگر مرا دآبادی(1890-1960)
کیا طریقہ ہے یہ صیاد کا اﷲ اﷲ
ایک کو قید کیا ،ایک کو آزاد کیا
جرمِ مجبوری ٔ بے تاب الٰہی توبہ
یہ بھی اِک بے ادبی تھی کہ تجھے یاد کیا
-----------------------------------------
محمد افضل قریشی باقیؔ صدیقی(1908-1972)
آستیں میں سانپ اِک پلتا رہا
ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا
زندگی کی آس بھی کیا آس ہے
موجِ دریا پر دیا جلتا رہا
-------------------------------------------
برطانوی سامراج نے جب بر صغیر میں اپنی نو آبادی کو مسلسل نوے برس تک لُوٹنے کے بعد بر طانیہ لَوٹنے کافیصلہ کیا تو عیار بر طانوی سیاست دانوں نے ریڈکلف ایوارڈ کی صورت میں ایک گہری سازش کی اور سرحدوں کے تعین میں ایسی بدنیتی کا مظاہرہ کیا کہ نو آزاد مسلمان مملکت مسائل کے گرداب میں پھنس گئی۔ عالمی سامراج اپنی نو آبادیات کی آسانی سے جان نہیں چھوڑتا ۔غلام قوموں کی تقدیر وہی رہتی ہے صر ف زنجیر بدل جاتی ہے۔ سامراجی طاقتوں کے مکر کی چالوں پر نظر رکھنے والوں کا خیال تھا کہ یہ تبدیلی نئے نو آبادیاتی نظام (neo-colonialism) اور نو سامراجیت( neo-imperialism) کی ایک شکل تھی۔بر طانوی سامراج اور اس کے ہم نوا لہ و ہم پیالہ شاطر یہ چاہتے تھے کہ نو آبادیوں سے انخلا کے بعد سابقہ نو آبادیات کے حاکموں کو گردشِ حالات اور اپنے انجام سے بے خبر شاہِ شطرنج بنا دیا جائے۔اپنی شاطرانہ چالوں سے بر طانوی سامراج نے پس ماندہ اقوام کی آزادی اور خو دمختاری کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ اپنی سابقہ نو آبادیات کی آزادی کو اس قدر بے وقعت بنا دیا کہ ان کے حاکموں کے سر پر تو تاجِ شاہی سجا دیالیکن ان مجبور اقوام کے پاؤں سامراج کی پہنائی ہوئی بیڑیوں سے فگار تھے۔ برطانوی سامراج نے اپنی سابقہ نو آبادیوں کوخود کفیل نہ ہونے دیا اور زندگی کے ہر شعبے میں انھیں اپنا دست نگر بنا ئے رکھا۔ حالات کے جبر نے یہ دِن دکھائے کہ ان نو آبادیوں کے پاس رُخصت ہونے والے بر طانوی سامراج پر انحصار کرنے کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ خود انحصاری کے بجائے یورپ کی استحصالی طاقتوں پر انحصار کرنے پر مجبور ان اقوام کی آزادی بے وقار ہو کر رہ گئی اور حقیقی آزادی کے بجائے آزادی ٔ موہوم کی فضا میں سانس لینا ان کا مقدر بن گیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے براہِ راست فوجی یلغار اور خون خرابے کے بجائے جو حربے استعمال کیے گئے اُن میں پس ماندہ اور ترقی پزیر ممالک میں یورپی تہذیب وثقافت کی یلغار، ترغیب و تحریص کے لیے سرمائے کا بے دریغ استعمال، یاس و ہراس،دھونس و تشدد یا ڈرا دھمکا کرسیاسی قیادت کو اپنا ہم نوا بنانااور پُور ی دُنیا کو بنی نوع انسان کی ایک بستی قرار دے کر ساری کائنات کی قیادت سنبھالنے کی بالواسطہ کوشش کرناشامل ہیں۔آزادی کے فوراً بعد پاکستان کواسی نوعیت کے حالات درپیش تھے۔
قیامِ پاکستان کے صرف ایک برس بعدگیارہ ستمبر 1948کو بانی ٔپاکستان قائد اعظمؒ محمدعلی جناح خالق ِحقیقی سے جا مِلے۔قائد اعظم ؒ محمدعلی جناح کا شمار دنیا کے ایسے نابغۂ روزگار مدبروں، ممتاز قانون دانوں ،ذہین سیاست دانوں اور محب وطن دانش وروں میں ہوتا تھا جو طوفانِ حوادث میں گھری قوم کو ساحلِ عافیت پر پہنچانے کی صلاحیت سے متمتع تھے۔قائد اعظم ؒ کی اچانک وفات کے سانحہ پر پاکستان میں ہر شخص اشک بار اور پُور ا مُلک سوگوار تھا۔اس سانحہ پر قوم کا ہر فرد سکتے کے عالم میں تھا اور اسی سوچ میں تھا کہ اب طلوعِ صبحِ بہاراں اور فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم دیکھنے کی تمنا شاید کبھی پُوری نہ ہو سکے۔عوام اپنی آرزؤں اور اُمنگوں کی تکمیل قائداعظم ؒ کے وجود میں دیکھ رہے تھے لیکن بانی ٔ پاکستان کی اچانک وفات نے ان کی تمام امیدوں کومایوسیوں میں بدل دیا۔ ملک میں قیادت کا ایسا خطر ناک خلاپیدا ہوگیا جس کا کوئی متبادل موجود نہ تھا۔ آئین کی تیاری کا مرحلہ ابھی طے نہیں ہوا تھا کہ 16 ۔ اکتوبر 1951 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راول پنڈی کے ایک جلسہ عام میں گولی مار کر قتل کردیاگیا۔(13)قومی تاریخ میں پاکستانی قوم کی بد قسمتی کا یہیں سے آغاز ہوتا ہے جب قومی سیاست کو قتل و غارت اور دہشت گردی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ لیا قت علی خان سیاسی حاسدوں کے ہاتھوں زندگی کھوبیٹھے۔(14 )1951 میں راول پنڈی سازش کیس کے سلسلے میں محمد ایوب خان اور اسکندر مرزا نے سیاست میں فوج کے عمل دخل کوروکنے کی کوشش کی۔ راول پنڈی سازش کیس پر تو قابو پا لیا گیا اور سازش کو انھوں نے ناکام بنا دیا لیکن فوج کی سیاست میں مداخلت مکمل طور پر ختم نہ ہوسکی ۔ راول پنڈی سازش کیس کے بارے میں فوج کے اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف اور سازش کی تیاری میں اہم کردار ادا کرنے والے میجر جنرل اکبر خان(عرصہ ملازمت:1934-1951) نے کہاتھا:
ــ’’ہما را اختلاف حکومت سے کشمیرکی آزادی کے مسئلہ پر تھا جنگ بندی قبول کرنے کے سلسلے میں تھا اور یہ کہ لیاقت علی خان نے آئین بنانے میں زیادہ تاخیرکی تھی۔۔۔۔۔ فیض احمد فیضؔ او رسجاد احمد ظہیر جیسے لوگ بھی ہمارے ساتھ تھے یہ لوگ کم ازکم مارشل لاکے حامی نہیں تھے۔‘‘(15)
فیض احمد فیضؔ9۔ مارچ 1951 کو گرفتار ہوئے اور اپریل 1955 میں رہا ہوئے ۔ ان کے ساتھی میجر اسحاق نے اپنی یادداشتوں میں اس مقدمے کے حوالے سے جو تلخ حقائق بیان کیے ہیں وہ اس عہد کی سیاسی سوچ کے بارے میں چشم کشا صداقتوں اور تلخ حقائق سے لبریز ہیں۔بعض لوگوں کا خیا ل ہے کہ یہ سب فرضی مقدمات تھے اور من گھڑت اور جُھوٹی گواہیوں کے ذریعے یاس و ہراس کا ماحول پید اکیا جا رہا تھا۔کینہ پروری اور ذاتی انتقام کی بنا پر قائم کیے گئے اس قسم کے مقدمات میں کئی سلطانی گواہ بلائے ناگہانی بن کر وارد ہوتے رہے اور ان ادیبوں پر عرصہ ٔ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اس معاملہ میں ایسی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوگئی کہ ادیبوں کو اپنی جان کے لالے پر گئے۔ اس واقعہ کے بعدمسلسل تین ماہ تک بگلا بھگت اور جو فروش گندم نما قماش کے مسخرے حریت ِ ضمیر سے جینے والوں کے خلاف زہر اُگلتے رہے ۔ زرد صحافت کی روش اپنانے والے اخبارات نے زیبِ داستاں کے لیے بات اس قدر بڑھائی کہ چند اخبارات نے تو ’’غدار نمبر ‘‘شائع کر کے اپنے دِل کی بھڑاس نکالی۔سیاسی حلقوں میں اس بحث کو اس قدر مبالغہ آمیز انداز میں آگے بڑھایا گیا کہ کوئی یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے ۔بے فائدہ بحث و مباحثہ جاری رہا اور خوف،اضطراب ،دہشت اور سر اسیمگی کی ایسی فضا پید اہو گئی کہ حریت ِ فکر کے علم بردار اس نتیجے پر پہنچے کہ اب متاعِ لوح و قلم چھین لی جائے گی اور سب کو فرضی مقدمات میں دھر لیا جائے گا جن کے نتیجے انھیں پسِ دیوار زنداں رکھاجائے گا۔اخبارات میں اس قضیے کے حوالے سے ایسے اشتہار شائع کرائے گئے جن میں حریتِ فکر و عمل کا مظاہرہ کرنے والے تمام اہلِ قلم کو گولی سے اُڑانے کا مطالبہ کیا گیا۔ آزمائش اور ابتلا کے اُس دور میں حریتِ فکر کے مجاہدوں کی زندگی نے ایک پیہم جبر کی صورت اختیار کر لی تھی اور لوگ یہ سمجھتے تھے کہ نا معلوم ہوائے جور و ستم کے تُند و تیز بگولے کس وقت ان مردانِ حُر کی زیست کی ٹمٹماتی لو کو گُل کر دیں۔
فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں۔کینہ پروراور منتقم مزاج لوگ یہ بُھول گئے کہ بازار میں دی جانے والی گالی کی باز گشت ہمیشہ دیکھنے اور سننے والے کو اذیت میں مبتلا کرتی ہے ۔با شعورلوگ خوف و اضطراب پھیلانے و الے اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں کی پروا نہیں کرتے۔ فرانسیسی فلسفی ژاں پال سارتر ( 1905-1980 ،Jean-Paul Sartre)نے قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں زندگی کو درپیش مسائل کے بارے میں کہا تھا:
"The contradiction of bothclaiming and renouncing the human condition is an explosive one.And explode it does,as you and I well know.And we are living in the age of the conflagration:if the rise in births increases the famine,and if the new arrivals come to fear living a little more than dying the torrent of violence will sweep away all barriers.In Algeria and Angola ,Europeans are mascredon sight.It is the moment of the boomerang,the third stage of violence :it comes back and hits us ,no more than on the other occasions can we understand that it is our own violence."(16)

قائد اعظمؒ کی وفات کے بعدخواجہ ناظم الدین نے ملک کے دوسرے گورنر جنرل( چودہ ستمبر 1948تا سترہ اکتوبر 1951) کامنصب سنبھالا۔ لیا قت علی خان (عہدہ وزارت عظمیٰ :پندرہ اگست 1947تا سولہ اکتوبر 1951)کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے وزارت عظمیٰ(سترہ اکتوبر 1951 تا سترہ اپریل 1953) سنبھال لی اور ملک غلام محمد(عہدہ :سترہ اکتوبر 1951تاسات اگست 1955) نے ملک کے تیسرے گورنر جنرل کا منصب سنبھا ل لیا۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اکثر سیاست دان شکوہ کرتے تھے کہ امورِ مملکت چلانے اور اہم معاملات میں مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے کم حصہ ملتا ہے ۔اس سیاسی بے چینی نے مشرقی پاکستا ن کے عوام میں عدم اطمینان اور اضطراب پیدا کر دیا۔مشرقی پاکستان کے باشندوں کو وہاں کے سیاست دانوں نے یہ کہہ کر مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکایا کہ مغربی پاکستان نے تما م کلید ی عہدوں اور قومی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے ۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان کے عوام میں مایوسی اور محرومی کا احسا س بڑھنے لگا۔مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں نے استعماری طاقتوں اور بر طانوی سامراج کے اشاروں پر قومی وحدت اور ملی استحکام کے تقاضوں سے چشم پوشی کو شعار بنا لیا ۔قائد اعظم ؒ کی وفات کے بعد پاکستان کے سیاست دان اور مقتدر طبقہ اپنے اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے کوشاں تھا۔قومی وسائل اندھے کی ریوڑیوں کی طرح صر ف اپنوں میں بٹ رہے تھے۔جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجوں میں جکڑے مجبور اور غربت وافلاس کے پاٹوں میں پِسنے والے قسمت سے محروم عوام کا کوئی پُرسانِ حال نہ تھا۔ نو آبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج کے پر وردہ مراعات یافتہ استحصالی طبقے نے مظلوم عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی ۔ طبقاتی کش مکش نے گمبھیر صورت اختیار کر لی تھی ۔غربت ،بے روزگاری اور نظم و نسق کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے عوام عدم تحفظ کاشکار تھے ۔اہم عہدوں پر فائز سرکاری اہل کاروں اور عوامی مسائل کو حل کرنے والے عوامی نمائندوں کی بد عنوانیوں کے باعث عوام کو ان پر کوئی اعتماد نہ تھا۔وفاقی مقننہ نے سال 1949میں پروڈا (Public And Representative Office Disqualification Act)کی منظوری دی۔ماہرین ِقانون اور غیر جانب دار تجزیہ کار اس بات پر متفق تھے کہ اس قسم کے قانون بنیادی انسانی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتے اور یہ افراد کی آزادی کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو جاتے ہیں۔پروڈا کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ اس جابرانہ قانون کو حکمران طبقہ اپنی بے عملی اور نااہلی کو چھپانے اور اپنے اقتدار کو طُول دینے کے لیے استعما ل کر رہا ہے ۔آزادی کے بعد پاکستان میں سیاسی رسہ کشی، اکھاڑ پچھاڑ اورمحاذآرائی نے تشویش ناک صورت اختیار کر لی۔17۔اپریل 1953کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے مشرقی پاکستان کے نامور سیاست دان خواجہ ناظم الدین کو وزارت ِعظمیٰ کے عہدے سے بر طرف کر دیا۔اس کے بعد مشرقی پاکستان ہی سے تعلق رکھنے والے سفارت کاراور سیاست دان محمد علی بو گرہ نے وزارت عظمیٰ(سترہ اپریل 1953تا بارہ اگست1955) کا منصب سنبھالا۔محمد علی بو گرہ نے بائیس نو مبر 1954 کو وحدت مغربی پاکستان (One Unit) کے قیام کا اعلان کیا جسے پانچ اکتوبر 1955کو گورنرجنرل کی منظوری کے بعد قانونی حیثیت حاصل ہو گئی۔قائد اعظم ؒکی وفات کے بعد پاکستانی سیاست مسلسل گردشِ ایام کی زد میں رہی ۔پے در پے نا گہانی حادثات سیاست دانوں کے مقدر کی تاریکی بنتے چلے گئے ۔چوبیس اکتوبر 1954کوگورنر جنرل ملک غلام محمد نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی توڑ دی اورسلطانیٔ جمہور کاخواب درہم بر ہم کر دیا۔گورنر جنرل ملک غلام محمد نے اس بنا پر اسمبلی کو فارغ کیا کہ اسمبلی کی نمائندہ حیثیت پر سوالیہ نشان لگ رہے تھے۔ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اسمبلی نے اب تک آئین سازی کے اہم کام میں کوئی قابلِ رشک پیش رفت نہیں کی۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد جمہوریت کے خلاف اپنے اس آمرانہ اقدام اور کھلواڑ کوقانونی،ضروری،دانش مندانہ،اٹل اور ناگزیر سمجھتا تھا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد کے پاس اسمبلی توڑنے کا کوئی اختیار نہ تھا اور نہ ہی اسے اس کی اجازت تھی ۔اس کے بر عکس چشمِ بینا پر یہ بات واضح تھی اسمبلی ایک ایسے آئین پر متفق ہو چُکی تھی جوگورنر جنرل کو پسند نہ تھا۔(17 ) گورنر جنرل ملک غلام محمد نے جب آئین ساز اسمبلی کو فارغ کیا تو اس انتہائی اقدام میں اسے فوج کا سہارا حاصل تھا۔( 18)اُسے یہ زعم تھا کہ مشکل وقت میں مسلح افواج اس کی محافظ اور سر پرست بنیں گی۔ جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے من مانی کرتے ہوئے پُوری آئین ساز اسمبلی کو بر خاست کیا تو عوام میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ آئین ساز اسمبلی کے صدر مولوی تمیز الدین خان(عہدہ:1948-1954) کی طرف سے 7 نومبر1954کو سندھ چیف کورٹ میں منظر عالم ایڈوکیٹ نے گورنمنٹ آف انڈیاایکٹ 1935کی شق223-Aکے تحت رِٹ دائر کی اور گورنر جنرل کے اس اقدام کو چیلنج کردیا۔ سندھ چیف کورٹ نے مولوی تمیز الدین خان کے حق میں فیصلہ دیا اور گورنر جنرل کے اقدام کو کالعدم کر دیا۔اس کے بعد گورنر جنرل ملک غلام محمد کے ایماپر وفاقی حکومت نے فیڈرل کورٹ میں ( PLD1955FC240 )اپیل کی۔یہ اپیل وفاقِ پاکستان بہ مقابلہ مولو ی تمیز الدین خان کے عنوان سے عدلیہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔ فیڈرل کورٹ میں اس وقت چیف جسٹس کا منصب جسٹس محمد منیر(1895-1979)کے پاس تھا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے جسٹس محمد منیر (عہدہ چیف جسٹس :انتیس جون1954تا دو مئی 1960) کا تقر ر کیا تھا۔ اس کیس کی سماعت کرنے والا فیڈرل کورٹ کا پانچ رکنی بنچ درج ذیل جج صاحبا ن پر مشتمل تھا:
جسٹس محمد منیر (چیف جسٹس)،جسٹس محمد شریف،جسٹس ایس۔اے رحمٰن،جسٹس ایس ایم اکرم،جسٹس اے آر کارنیلس(Alvin Robert Cornelius)
جسٹس اے آر کا ر نیلس کے سوا چیف جسٹس محمد منیر سمیت باقی چار جج صاحبان نے اپنے اکثریتی فیصلے میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا۔ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کی معطلی میں جسٹس محمد منیر اور تین جج صاحبا ن نے آسٹریلوی قانون دان ہینز کیلسن( Hans Kelsen) کے نظریۂ ضرورت پر انحصار کیا اور اِسی نظریہ کے تحت آئین ساز اسمبلی کو بر خاست کرنے کے گورنر جنرل کے اقدام کو درست قرار دیا۔ ہینز کیلسن (1881-1973) نے سال 1934میں شائع ہونے والی اپنی تصنیف (Pure Theory of Law) میں نظریۂ ضرورت متعارف کرایا۔جسٹس محمد منیر کی رائے تھی کہ ضرورت کسی قانون کو نہیں جانتی اور ایسے تمام اقدامات جو قانونی نہیں ہوتے ضرورت انھیں بھی قانونی بنا سکتی ہے۔ جسٹس اے آر کا رنیلس نے اپنے اختلافی نوٹ میں گورنر جنرل کے اس اقدام کے قانونی جواز کو مسترد کر دیا۔اس فیصلے کے پاکستانی سیاست اور سلطانیٔ جمہور پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے ۔ جسٹس محمد منیر کے اس فیصلے سے یہ تاثر اُبھر ا کہ پاکستان کی نو آزاد مملکت کی عدلیہ اس قدر قوت اور استعداد نہیں رکھتی کہ وہ جبر و استبداد کے ذریعے مسلط کیے گئے غیر دانش مندانہ آمرانہ فیصلوں اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کاقلع قمع کر سکے۔جسٹس محمد منیر نے فردِ واحد کے غیر قانونی،غیر اخلاقی اور غیر جمہوری آمرانہ اقدام کو نظریہ ٔ ضرورت کی آ ڑ لیتے ہوئے تحفظ فراہم کیا ۔آمریت ایک پھٹکار ہے جوجمہوریت پسند عوام کی عزتِ نفس اورقومی وقار کو تہس نہس کر دیتی ہے ۔جس قوم کے گلے میں آمریت کا طوق ہوتا ہے وہ اقوامِ عالم کی صف میں تماشا بن جاتی ہے ۔ اس فیصلے سے مستقبل میں منتخب اسمبلی کو بر خاست کر کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرنے والے آمروں کو اپنے عزائم کی تکمیل میں اس فیصلے سے تقویت ملی۔آئین ساز اسمبلی کے خاتمے کے بعد محمد علی بوگرہ نے نئی وزارت تشکیل دی جس میں مسلح افواج کے سر براہ محمد ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا ۔ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے جو 5 ۔ اگست 1955 سے بیماری کے باعث رخصت حاصل کی تھی ، 16 ۔ ستمبر 1955کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ گورنر جنرل ملک غلام محمدکا استعفیٰ6 ۔ اکتوبر 1955نافذالعمل ہوا۔ اسی روز میجر جنرل سکندر مرزا نے گورنرجنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔11 ۔ اگست 1955 کو محمد علی بوگرہ کی وزارت مستعفی ہوگئی ۔اسی روز چوہدری محمد علی کی کابینہ نے حلف اٹھایا جس نے 12 ۔ ستمبر 1956 تک کام کیا۔ 29 ۔ فروری 1956 کو آئین منظور ہوا۔ چوہدری محمد علی تاریخ میں ’’آئین کے خالق ‘‘کے طور پر زندہ رہنے کے خواہاں تھے۔(19)لیکن حالات نے ایسا رُخ اختیار کر لیا کہ چوہدری محمد علی کو مستعفی ہونا پڑا ۔ مشرقی پاکستان کے سیاست دان حسین شہید سہروردی نے وزارت عظمیٰ (عہدہ :بارہ ستمبر 1956تاسترہ اکتوبر1957) کا منصب سنبھالا۔ حسین شہید سہروردی (1892-1963)کا شمار کہنہ مشق سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔بر طانوی نو آبادیاتی دور میں بنگال کے آخری وزیر اعظم (تئیس اپریل 1946تا چودہ اگست 1947)کا منصب حسین شہید سہر وردی کے پاس تھا۔ میجر جنرل اسکندر مرزا نے1956 کے آئین کے تحت پاکستان کے پہلے صدر کا عہدہ سنبھالا ۔ اسکندرمرزا ( عہدہ صدارت:تئیس مارچ 1956تا ستائیس اکتوبر1958 ) ۔عوام کے منتخب نمائندوں کے تیار کیے ہوئے 1956 کے آئین پر مکمل عمل در آمد اور اس آئین کی بقا کے بارے میں سیاسی حلقوں میں کئی شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔ آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی بعض مفاد پرست حلقوں کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی۔ اس آئین میں جس وفاقی پارلیمانی نظام کے قیام کو یقینی بنایا گیا تھا ،بعض طاقتوں کو یہ آئین بالکل پسند نہیں تھا۔1956کے آئین کے بارے میں صدر ایوب خان نے لکھا ہے:
’’اس آئین نے اقتدار کو صد ر ، وزیراعظم ، اس کی کابینہ اور صوبوں میں تقسیم کرکے اس کی مرکزیت ہی کو نیست و نابود کردیاتھا۔‘‘(20 )
صدر ایوب خان1956 کے آئین کو سخت نا پسند کرتے تھے اور اس آئین کو متضاد نظریات پر مبنی چوں چوں کا مربہ سمجھتے تھے۔ اسکندر مرزا (اس کے آبا و اجداد میر جعفر کے خاندان سے تھے )نے آئین کے خلاف جوڑ توڑ اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے سیاسی سودے بازی کو معمول بنالیا۔ اسکندر مرزا کی آشیر باد سے ا سپانِ تُرکی و تازی کی خریداریاں اور وفاداریاں تبدیل ہونے لگیں۔ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کرنسی نوٹوں کی چمک کو دیکھ کرلڑھکنے والے لوٹوں پر بس لیبل اتار کر دوسرا چسپاں کرلینے کا معاملہ تھا ۔آئی ۔ آئی چندریگر نے صرف دو ماہ تک( سترہ اکتوبر 1957تا سولہ دسمبر1957) پاکستان کے وزیراعظم کا منصب سنبھالے رکھا ۔ اس عرصے میں محلاتی سازشیں زوروں پر تھیں اور سیاسی عدم استحکام نے سنگین صورت اختیار کر لی تھی ۔ اس دوران آئین معطل یا منسوخ کرنے کی باتیں ہوتی رہیں ۔(21 ) اسکندر مرزا کے دِل میں پاکستان کامطلق العنان حاکم بننے کی تمنا تھی ۔ اپنے صدارتی انتخاب کے لیے اسکندر مرزا نے ساز باز شروع کردی ساتھ ہی ر قو م کے حصول کے لیے میراحمد یار خان سے پچاس لاکھ ، بہاولپورسے چالیس لاکھ روپے حاصل کرنے کی کوشش کی۔(22) فیروز خان نون کی کابینہ نے 16 ۔ ستمبر 1957 کو اقتدار سنبھالا۔ ایوان صدارت میں میجر جنرل اسکند رمرزا محلاتی سازشوں اور جوڑ توڑ سے فرصت نہ تھی۔ قدرت اﷲ شہاب نے جون 1958 کے اوائل کا ایک اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے۔
’’یہ جون 1958 کا اوائل تھا۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھاکا م کررہا تھا صدر اسکندر مرزامیرے کمرے میں داخل ہوئے۔انھوں نے میری میز سے پریذیڈنٹ ہاؤس کی سٹیشنری کا ایک ورق اٹھایااور وہیں کھڑے کھڑے وزیراعظم فیروز خان نون کے نام ایک دو سطری نوٹ لکھا کہ ہماری باہمی متفقہ رائے کے مطابق بری افواج کے کمانڈر انچیف کے طور پر جنرل محمد ایوب خان کی ملازمت میں دوسال کی توسیع کے احکامات فوراًجاری کردئیے جائیں ۔ انھوں نے ’’Most immediate ‘‘ کا لیبل اپنے ہاتھ سے پن کیا۔۔۔۔ کاغذ کے اس چھوٹے سے ٹکڑے نے پاکستان کی تاریخ کا رخ موڑدیا۔‘‘(23 ) پاکستان کے پہلے پارلیمانی دور کے آخری وزیر اعظم فیروزخان نون کو ہٹا کر مارشل لالگانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔طالع آزما اور مہم جُو عناصر موقع کی تلاش میں تھے۔ پاکستان کے 1956کے آئین کے تحت پندرہ فروری 1959کو انتخابات منعقد ہو نے والے تھے۔ پاکستان کے مطلق العنان فرماں روا بننے کی تمنا اپنے دِل میں لیے صد ر اسکندر مرز کو یہ خو ف لاحق تھا کہ آنے والے انتخابات میں حالات کا رُخ بدل بھی سکتا ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ انتخابات میں عوامی تائید اور بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے والے اپنی مرضی کا صدر منتخب کریں اور اُس کی مطلق العنان حاکم بننے کی تمنا پُور ی نہ ہونے دیں۔اس موہوم اندیشے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اُس نے آئین کو پسِ پشت ڈال کر من مانے فیصلے کرنے کا مصمم ارادہ کر لیا۔آئین کوکسی بھی ملک کے لیے اہم ترین دستاویز کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔پاکستان کے آئین کے بارے میں صدر اسکندر مرزا کے خیالات کی وضاحت کرتے ہوئے قدرت اﷲ شہاب نے لکھا ہے:
’’22 ستمبر 1958 کو دن کے ایک بجے صدر اسکندر مرزا نے مجھے اپنے پاس بلا بھیجا۔ ان کے ہاتھ میں پاکستان کے آئین کی ایک جلد تھی ۔ انھوں نے اس کتاب کی طرف اشارہ کرکے مجھ سے پوچھا۔’’تم نے اس Trash کو پڑھا ہے؟‘‘جس آئین کے تحت حلف اٹھا کر وہ کرسی ٔصدارت پر براجمان تھے ۔ اسی کے متعلق ان کی زبان سے Trash کا لفظ سن کر میرامنھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔۔۔۔انھوں نے آئین پر تنقید و تنقیص کی بوچھاڑشروع کردی اور بڑی باقاعدگی سے یہ فقرا دہراتے تھے کہ یہ آئین بالکل ناقابلِ عمل ہے۔۔‘‘(24 )
صدر اسکندر مرزا اور اس کے معتمد ساتھیوں نے اپنے غیر آئینی اقتدار کو طُول دینے اور مطلق العنان حکمران بننے کی خاطر قانون اور اخلاق کی تمام حد یں عبور کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ صدراسکندر مرزا کو اس بات کی مطلق پروا نہ تھی کہ اس قسم کے غیر قانونی اور غیر دانش مندانہ اقدامات سے ایساخطر ناک آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے جو ایوانِ اقتدار کے در ودیوار ہِلاکر ہوسِ اقتدار کے قصرِ عالی شان اور دِل میں انگڑائیاں لینے والی خود غرضی کی مظہر تمنا ؤں کو تہس نہس کر سکتا ہے ۔ایوب خان کے ہاتھوں میں صدر اسکندر مرزا کی حیثیت ایک کٹھ پُتلی کی تھی۔ (25 )نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعدپاکستانی سیاست دانوں نے بر طانوی سامراج کی نوے سالہ غلامی کے تلخ تجربات کو نظر انداز کر دیا ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے لیکن یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ تاریخ کا ایک ہی سبق ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔وقت کی مثال بھی سیل ِرواں کی تُند و تیز موجوں کی سی ہے ۔دنیا میں کوئی بھی شخص پُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں اوربیت جانے والے دورِ زماں کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھ سکتا۔پاکستان میں آزادی کے بعد رُو نما ہونے والے سیاسی عدم استحکام کے مسموم اثرات نے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ، کلیاں شرر ،آہیں بے اثر اور ز ندگیاں پُر خطر کر دیں۔تیزی سے بگڑتی ہوئی معاشی،معاشرتی اور سیاسی صورتِ حال پر فوج کی کڑی نظرتھی۔ سیاست دانوں میں دُور اندیشی اور فہم و فراست کی کمی تھی وہ بگڑتے ہوئے حالات اور اُن کے پس ِ پردہ عوامل کے بارے میں سائنسی اندزِ فکر اپنانے میں ناکام رہے ۔اس عہد کے سیاسی حالات کے متعلق عوامی احساسات اور اہلِ درد کی رائے کے بارے میں ایوب خان نے لکھا ہے:
’’عوام نے کُھلم کُھلا کہنا شروع کر دیا تھاکہ کاش کوئی اﷲ کا بندہ آئے اور ملک کو بچائے۔ظاہر ہے اُن کا اشارہ فوج کی طرف تھا۔‘‘(26 )
پاکستانی قوم یہ سمجھتی تھی کہ جمہوریت کی ناکامی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ملک میں جاری جمہوری عمل کا خاتمہ کر کے مطلق العنان آمریت مسلط کر دی جائے۔وہ اس بات پرمتفق تھے کہ جمہوریت کی کم زور اور ناقص صورت بھی نہایت قوی ، شان و شوکت کی حامل اور جاہ و جلال رکھنے والی آمریت سے بدرجہا بہتر ہے ۔ کسی ملک میں اگر ایک مر تبہ جمہوری عمل کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو اس کے باوجود جمہوری عمل کو بار بار اصلاح کا موقع ملنا چاہیے تا کہ جمہوری عمل کی خامیوں کا ازالہ کر کے سلطانی ٔجمہور کو یقینی بنایا جا سکے۔ صدر اسکندر مرزا نے اپنے آمرانہ طرز عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ کسی صورت میں جمہوری عمل اور آئین کی پاس داری پر آمادہ نہیں ۔اس فرد ِواحد نے 7 ۔اکتوبر 1958کی شام سلطانیٔ جمہور کی بساط لپیٹ دی اور خود مطلق العنان حاکم بن بیٹھا ۔ صدر اسکندر مرزا نے ہوسِ اقتدار اور پاکستان کا مطلق العنان حاکم بننے کی خاطر 1956کے آئین کو منسوخ کر دیا ۔ پاکستان کی آئین سازاسمبلی کو فارغ کر کے وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کی حکومت کر بر طرف کردیا۔انتخابات کے شیڈول کو منسوخ کردیا اور پُورے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کر کے پاکستانی قوم کو آمریت کے شکنجے میں کس دیا۔ ان تمام اقدامات میں صدر اسکندر مرزا نے فوج کی حمایت پر انحصار کیا ۔ بری فوج کے سر براہ ایوب خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی زد میں آنے کے بعد اسکندر مرزا کا ستارہ بھی گردش میں آ گیا اور ستائیس اکتوبر 1958کو اسکندر مرزا کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا اور اسے لندن جلا وطن کر دیا گیا۔ صدر اسکندر مرزا کے مستعفی ہونے کے بعدایوب خان نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعداس خطے میں حالات جس تیزی کے ساتھ خراب ہوئے وہ قومی تعمیر و ترقی اور ملی استحکام کے لیے بہت بُرا شگون تھا۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سیاسی قیادت بے حسی اور بے عملی کا شکار ہے ۔اس الم ناک صورتِ حال کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے فنون لطیفہ با لخصوص ادب سے وابستہ تخلیق کاروں نے مثبت شعور و آگہی کی بیداری پر توجہ مرکوز کر دی۔اس عہد کی شاعری زندگی کی کلیت اور حقیقی معنویت کی آئینہ دار ہے ۔اُردو شعرا نے معاشرے اور سماج کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر حریتِ فکر اور حقیقت نگاری کا بلند معیار پیشِ نظر رکھا۔ پاکستان میں غیر نمائندہ اور غیر جمہوری حکومت کے قیام کے بعد اکثر لوگ مصلحت اندیشی کو شعار بنا کر خاموشی سے زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور تھے۔ اُس وقت اُردو شعرا نے حرفِ صداقت لکھنا اپنا نصب العین بنایا۔
برطانوی سامراج کے اعصاب شکن دور میں بر صغیر کے باشندوں کو جد وجہدِ آزادی پر مائل کرنے اور فکری جمود کے خاتمے میں علی گڑھ تحریک کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین نے بلاشبہ انتہائی مؤثر اورفعال کردار ادا کیا۔بر طانوی سامراج کے ہراساں شب و روز کے مسموم اثرات کا قلع قمع کر کے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو اپنا مطمح نظر بناکرترقی پسند مصنفین تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی خاطر انتھک جد و جہد کی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رجحان ساز ادیبوں نے معاشرتی زندگی کے نشیب وفراز ،بے اعتدالیوں ،تضادات،استحصال اورناانصافیوں کے خلاف کُھل کر لکھا۔ حریتِ فکر کا علم تھام کر حریتِ ضمیر سے جینے کی منزل کے حصول کے جس سفر کا آغاز بر طانوی سامراج کے ظالمانہ دور میں 1936میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیبوں کے وسیلے سے ہوا وہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعدبھی جاری رہا۔ بر صغیر سے بر طانوی سامراج کے خاتمے کے بعد ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیبوں کے زاویۂ نگاہ میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ آزادی کے بعد وادیٔ رومان میں مستانہ وار گھومنے اور جنس و جنوں کے افسانے دہرانے کے مظہر اسلوب کو پزیرائی نہ مِل سکی ۔ نو آزاد مملکت میں کچھ ادیبوں نے تحریک ِ پاکستان کے جوش و جذبے سے گہرے اثرات قبول کیے اور مقتدر حلقوں سے معتبر ربط کو زادِ راہ بنایا۔بعض ادیبوں نے مذہب کی ابد آشنا تعلیمات کواپنے فکر و فن کی اساس بنایا۔کچھ ادیب یہ محسوس کرتے تھے کہ حب الوطنی ہی تخلیقِ فن کا معیار ہے ۔ان حالات میں اکثر ادیب اس امر پر متفق تھے کہ سلطانی ٔ جمہور کا بول بالا ہو اورسماجی انصاف کو یقینی بنایا جائے۔جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے ،ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کر کے اور عوامی اُمنگوں کی ترجمانی کر کے سچا ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے ۔ ترقی پسند مصنفین عہدِ غلامی کی نحوست کے خاتمے اور نئے دور کے آغاز کے سلسلے میں فکر و خیال کی ایسی شمعیں فروزاں کرنے کے آرزو مند تھے جن کے اعجاز سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتما م ہو اور دِلوں کو ایک ولولۂ تازہ نصیب ہو۔
احمد ندیم قاسمی(1916-2006)
یہی تخلیق کا اعجاز ہے جس کے بھروسے پر
خزاں میں بھی چمن کو سینچنے کی رسم جاری ہے
نئی کلیوں کے اِک انبوہ کی تمہید ِرنگیں ہے
کلی جو شاخِ گُل سے دستِ گُل چیں نے اُتاری ہے
گلستاں سے نکل کر کاکلوں میں جس نے دم توڑا
حقیقت میں وہ گُل آئینہ ٔ فصلِ بہاری ہے
مِری ٹُوٹی ہوئی کلیو!مِرے اُترے ہوئے پُھولو!
تمہاری ہی مہک سے ذہنِ انساں تازہ دم ہو گا
کِھلے گا پُھول بن کر ، لہلہائے گا چمن بن کر
تمھاری یاد میں اشکوں سے جو رُخسار نم ہو گا
(1952)
-----------------------------------------------
احمد ندیم قاسمی(1916-2006)
یہی تخلیق کا اعجاز ہے جس کے بھروسے پر
خزاں میں بھی چمن کو سینچنے کی رسم جاری ہے
نئی کلیوں کے اِک انبوہ کی تمہید ِرنگیں ہے
کلی جو شاخِ گُل سے دستِ گُل چیں نے اُتاری ہے
گلستاں سے نکل کر کاکلوں میں جس نے دم توڑا
حقیقت میں وہ گُل آئینہ ٔ فصلِ بہاری ہے
مِری ٹُوٹی ہوئی کلیو!مِرے اُترے ہوئے پُھولو!
تمہاری ہی مہک سے ذہنِ انساں تازہ دم ہو گا
کِھلے گا پُھول بن کر ، لہلہائے گا چمن بن کر
تمھاری یاد میں اشکوں سے جو رُخسار نم ہو گا
(1952)
-----------------------------------------
احمد ندیم قاسمی(1916-2006)
زنداں
ارتقا کا یہ چلن ہے کہ ہر انجام سے قبل
نئے آغاز کے رستے میں اُبھرتی ہے فصیل
اِنقلابات کی یلغار میں دَب جاتی ہے
سطوتِ کوہ ِ ہمالہ ہو کہ طغیانی ٔ نیل
آج زنداں میں سہی دست بہ زنجیر سہی
کل یہ میدان میں شمشیر بہ دست اُبھریں گے
جس طرح تیر کمانوں سے نکل جاتے ہیں
یو ں بہ یک جست فصیلوں سے یہ مست اُبھریں گے
دوستو ایک چھلاوے کے سِوا کچھ بھی نہیں
یہ جو اُٹھتی ہوئی تپتی ہوئی دیواریں ہیں
حریت کی یہ اسیری،یہ تشدد کا فروغ
وقت کی بات ہے ،سب وقت کی رفتاریں ہیں
(سنٹرل جیل لاہور 1951)
-------------------------------------------
احمد ندیم قاسمی(1916-2006)
دِل یا شکم
جستجوئے معاش کو ضِدہے
جیتے جی علم و فن کا دم نہ بھروں
اے شکم اے مِرے تقاضۂ زیست
تیری خدمت کروں کہ شعر کہوں
-------------------------------------
سید احمد شاہ احمد فرازؔ(پیدائش:بارہ جنوری1931،وفات:پچیس اگست2008)
خواب مرتے نہیں
خواب دل ہے ، نہ آنکھیں ، نہ سانسیں کہ جو
ریزہ ریزہ ہو ئے تو بکھر جا ئیں گے
جسم کی موت سے یہ بھی مر جا ئیں گے
خواب مر تے نہیں
خواب تو روشنی ہیں، نوا ہیں ، ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کی دوزخو ں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نور ہیں
خواب منصور ہیں
خواب مرتے نہیں
------------------------------------
احمدفراز
اے بُھوکی مخلوق
(چودہ اگست 1954 )
آج تری آزادی کی ہے ساتویں سالگرہ
چاروں طرف جگمگ جگمگ کر تی ہے شہرپنہ
پھر بھی تیری روح بجھی ہے اور تقدیر سیہ
پھر بھی ہیں پاؤں میں زنجیر یں ہاتھوں میں کشکول
کل بھی تجھ کو حکم تھا آزادی کے بول نہ بول
آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق
-----------------------------------------
احمد فراز
پہلی موت
یہ ہاؤ یہ برات یہ خواب نہ نئے غمگسار تم کو اس ایک خود ساختہ
نمائش کدے کی جانب لیے رواں ہیں ۔ جہاں فقط ایک نقش اک
سانس ایک ماحول اک گھٹن ایک موت اک زندگی ملے گی ۔
جہاں کسی چیز کو کبھی نہیں تغیز بس اک جمود ، اک بے حسی ہے
یہی فردوس رنگ جس کے ہر اک طرف اک بلند و بالا فصیل جس
میں نہ کوئی روزن ، نہ کوئی در ہے ، تمھارے فن کے نگارخانوں کو لوٹ لے گی
نہ مر سکو گے ، نہ جی سکو گے
مگر وہاں ہم نہ آسکیں گے
کچھ ایسے ہم نے خرابے بسا ئے شہروں میں
جو دشت والے تھے وہ بھی اٹھ آئے شہروں میں
ہماری سادہ دلی دیکھیے کہ ڈھونڈتے ہیں
ہم اپنے دیس کی باتیں پرائے شہروں میں
کچھ اس طرح سے ہر اک بام ودر کو دیکھتے ہیں
زمانے بعد کوئی جیسے آئے شہروں پرائے شہروں میں
قدم قدم پہ ہوئے تلخ تجربے پھر بھی ،
ہمیں حیات کے غم کھینچ لائے شہروں میں
سنا ہے جب بھی لٹی ہے بہار کھتیوں کی
تو چند اور محل جگمگائے شہروں میں
ہوا نہ دو کہ یہ جنگل کی آگ ہے یارو!
عجب نہیں ہے اگر پھیل جائے شہروں میں
فرازؔ ہم وہ غزالانِ دشت صحرا ہیں
اسیر کرکے جنھیں لوگ لائے شہروں میں
------------------------------------
احمد فراز
اے بھوکی مخلوق
بیس نہ سو نہ ہزار نہ لاکھ پورے آٹھ کروڑ
اتنے انسانوں پر لیکن چند افراد کا زور
مزدور اور کسان کے حق پر جھپٹں کالے چور
کھیت تو سونا اگلیں پھر بھی ہے ناپید اناج
گوداموں کے پیٹ بھر ے ہیں بوجھل ہیں صندوق
اے بھوکی مخلوق
آج گرفتہ دل تو کیوں ہے تو بھی جشن منا
آنسو گر نایا ب ہیں اپنے لہو کے دئیے جلا
پیٹ پہ پتھر باندھ کے امشب ننگا ناچ دکھا
آج تو ہنسی خوشی کا دن ہے آج یہ کیسا سوگ
تیری بہاریں دیکھنے آئیں دور دور کے لوگ
تیرے خزانے پل پل لوٹیں کتنے ہی فاروق
اے بھوکی مخلوق
------------------------------------------------
فیض احمد فیضؔ ( 1911-1984)
نثار میں تیری گلیوں کے ۔۔۔۔۔۔
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جوکوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چر ا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح وشام کر تے ہیں
بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل توہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سایہ دیوار و در میں جیتے ہیں
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے ، نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
گر آج تجھ سے جد ا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے ، طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں
-----------------------------------
فیض احمد فیض
یہ فصل اُمیدوں کی ہم دم
سب کاٹ دو
بِسمل پودوں کو
بے آب سسکتے مت چھوڑو
سب نوچ لو
بے کل پُھولوں کو
شاکوں پہ بِلکتے مت چھوڑو
یہ فصل اُمیدوں کی ہم دم
اِ س بار بھی غارت جائے گی
سب محنت صبحوں شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی
کھیتی کے کونے کھدروں میں
پِھر اپنے لہو کی کھا د بھرو
پِھر مٹی سینچو اشکوں سے
پِھراگلی رُت کی فکر کرو
پِھر اگلی رُت کی فکر کرو
جب پِھر اِک بار اُجڑنا ہے
اِک فصل پکی تو بھر پایا
جب تک تو یہی کچھ کرنا ہے
( منٹگمری جیل ۔30 مارچ 1955)
------------------------------------------------------
قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی ادیبوں نے اپنے تخیل کی جو لانیاں دکھاتے ہوئے آزادی کے بارے میں مثبت تصورات اور پُر خلوص تاثرات کواپنے اسلوب کی اساس بنایا۔ادیبوں نے فکر و خیال ،موضوعات اور مواد کے انتخاب میں جس ذوقِ سلیم کا ثبوت دیا وہ ان کی حب الوطنی کی دلیل ہے۔اپنے تجربات و مشاہدات کی لفظی مرقع نگاری کرتے وقت پاکستانی ادیبوں نے عصری آگہی کو ہمیشہ اوّلیت دی۔سماجی اور معاشرتی زندگی کے مادی حالات کے بارے میں پاکستانی ادیبوں کے تجزیے اُن کی بصیرت کا منھ بو لتا ثبوت ہیں۔گِردو پیش کے حالات اور زندگی کے تضادات و ارتعاشات کو حقیقی تناظر میں سامنے لا کر حریت فکر کے علم بردار ادیبوں نے اپنے اسلوب کی اثر آفرینی کو چار چاند لگا دئیے۔ پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز اس عہد کی شاعری میں جلوہ گر ہیں۔ان ادیبوں کی تخلیقی فعالیت کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جہاں تک ان کے اسلوب کا تعلق ہے وہاں ایک منفرد نو عیت کی شان دل ربائی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔ان کی تخلیقات کا مواد بہ ہر حال اجتماعی کیفیت کا مظہر ہے۔ معاشرے ،ماحول اور افراد کی پہچان ان جری ادیبوں کے اسلوب کا اہم وصف سمجھا جاتا ہے۔
آغا جمیل
قصۂ درد دِل کہاں کہیے
کون ہے جس کو ہم زباں کہیے
چند تِنکوں کا نام کیا رکھیے
آشیاں ہو تو آشیاں کہیے
کیوں گوارا ہو خاطر صیاد
کیا قفس کو بھی آشیاں کہیے
---------------------------------
اختر انصاری اکبر آبادی(پیدائش:1920)
شاعرو حدِ قدامت سے نکل کر دیکھو
داستانوں کے اب عنوان بدل کر دیکھو
اگلے وقتوں کے فسانے نہ سناؤ یارو
نئے ماحول کے سانچے میں بھی ڈھل کے دیکھو
رہبر طبل و نشاں ،اور ذرا تیز قدم
ہاں مِرے عزمِ جواں،اور ذرا تیز قدم
اِس اندھیرے سے نہ گھبرا کہ ذرا اور آگے
ہے چراغاں کا سماں ،اور ذر اتیز قدم
نہ رازِ ابتدا سمجھو نہ رازِ انتہا سمجھو
نظر والو تمھیں کرنا ہے اب دنیا میں کیا سمجھو
یہاں رہبر کے پردے میں بہت رہزن ہیں اے اخترؔ
رہو دُور اس سے تم جس کو وفا نا آشنا سمجھو
-----------------------------------------
افسر سیمابی
دیر و حرم کی سر زمیں سے
خزاں نے کر دیا پامال جن گُل ہائے سیمیں کو
لگاتا ہے جہاں آنکھوں سے ان کی خاک رنگیں کو
زمانہ ڈھونڈتا ہے پِھر تِری صبحِ نگاریں کو
عروسِ زندگی آتی ہے اکثر پُھول برسانے
وہی تُو ہے وہی تیرے بلا انگیز افسانے
کہاں ہیں وہ تِری شاداب راتوں کے پری خانے
-----------------------------
اقبال صفی پوری
دِل کی ایک ایک خلش صرفِ نظر ہوتی ہے
تب کہیں جا کے شبِ غم کی سحر ہوتی ہے
خامشی اورتکلم میں کوئی فرق نہیں
ایک ہی بات بہ اندازِ دِگر ہوتی ہے
ہائے کیسا فریبِ طلب کھا گئے
جس گلی سے چلے تھے وہیں آ گئے
یہ دِ ل سو بار ٹُوٹے غم نہیں ہے
شکستِ دِل کی قیمت کم نہیں ہے
بھنور سے بچ بھی نکلیں تو کِدھر جائیں
سرِساحل بھی طوفاں کم نہیں ہے
--------------------------------------
آغاشورش کاشمیری(عبدالکریم)(1917-1975)
اب جی رہا ہوں گردشِ دوراں کے ساتھ ساتھ
یہ ناگوار قرض ادا کررہا ہوں میں
شورش میری نوا سے خفا ہے فقیہہِ شہر
لیکن جو کررہا ہو ں بجا کر رہا ہوں میں
------------------------------------------
انوار احسن صدیقی
علاجِ درد
ہر ایک شب میرے لیے غم سقر سے کم نہیں
رہِ حیات اِک جہنم دِگر سے کم نہیں
روش روش لہو میں تر چمن چمن اُداس ہیں
خزاں رسید گُل ،دریدہ پیرہن اُداس ہیں
یہ ظُلمتوں کی رہ گزر،نہ روشنی نہ راہبر
کب آئے گی نہ جانے اِس شبِ سیاہ کی سحر
-------------------------------------------
الطاف گوہر(1923-2000)
آخری شعلہ
روزنِ در سے چلی آتی ہے شام
دِن کی ٹھکرائی ہوئی
رات کے سایوں سے ڈرتی ہوئی گھبرائی ہوئی
روزنِ در سے چلی آتی ہے افسردہ خرام
(جون 1956)


------------------------------------------------
ابن انشا )شیر محمد خان((پیدائش :پندرہ جون1927،وفات:گیارہ جنوری1978 )
ایک اور ہزیمت
بے ستوں وحشتِ فرہاد کا درماں نہ بنا
نِت نئے چاہنے والوں سے بسا ساحلِ نِیل
چھا گئے وادیٔ یونان پہ عشاق نئے
مرگِ یک شخص نہیں آمدِ محشر کی دلیل
آج ماضی کے فسانوں میں پڑے سوتے ہیں
عہدِ رفتہ کے فسانوں کے وہ قاتل وہ قتیل
-------------------------------------------------
احمد ظفر
آپ کہیں تو گلشن ہے
ورنہ دِل اِک مدفن ہے
آگ لگی ہے سانسوں میں
ہائے یہ کیسا ساون ہے
پنچھی پنچھی سہم گیا
دوست یہ اچھاگلشن ہے
-----------------------
احمد ظفر
پتھر کی آواز
تو سونے کی چڑیا تیری پریت سنہری
میں رستے کا پتھر میری چنتا گہری
دُنیا کی جانب دیکھوں تو دنیا بہری
تو بھی آخر اُڑتے اُڑتے تھک جائے گی
شیش محل کی دیواروں سے ٹکرائے گی
سونے چاندی کی جھنکار سے گھبرائے گی
--------------------------------------------
احمد مشتاق
اُداس کر کے دریچے نئے مکانوں کے
سِتارے ڈُوب گئے سبزآسمانوں کے
بھاگنے کا کوئی رستہ نہیں رہنے دیتے
کوئی در کوئی دریچہ نہیں رہنے دیتے
---------------------------------------
اختر حسین جعفری( 1932-1992 )
سر منزل شب
ہم لوگ تو مجرم تھے سزاوار ِسِتم تھے
ہنگامہ سرِ کوچہ و بازار کیاتھا
حق بات سر ِ مقتل و زندان کہی تھی
حق بات کا اظہار سرِ دار کیا تھا
ظُلمت کو کہیں نُور،اندھیرے کو اُجالا
بے بس تھے سرِ منزلِ شب کہہ نہ سکے ہم
آنکھوں کے دریچوں میں وہ اشکوں کا چراغاں
دیکھا تو اسے جشنِ طرب کہہ نہ سکے ہم
اب بھی جو سلامت ہیں تو ہر عہدِ ستم میں
اُس زُلف کا افسانہ بیاں کرتے رہیں گے
ہونٹوں پہ جو آہیں ہیں دھواں بنتی رہیں گی
جو زخم ہیں سینوں میں عیاں کرتے رہیں گے
ہرعہد میں تجدیدِ سِتم ہوتی رہے گی
اظہار سرِ نوکِ سناں کرتے رہیں گے
----------------------------------------------
ادا جعفری(1924-2015)
عالم ہی اور تھا جو شناسائیوں میں تھا
جو دِیپ تھانگاہ کی پر چھائیوں میں تھا
وہ بے پناہ خوف جو تنہائیوں میں تھا
دِل کی تمام انجمن آرائیوں میں تھا
-------------------------------------------------
امین راحت چغتائی
اب نہ ہم ہیں نہ گلستان نہ بیاباں کوئی
کس لیے ہوتا ہے پھردل میں پشماں کوئی
کیا اسی دن کے لیے جیتے تھے راحت ہم لوگ
آج ارباب وفا کا نہیں پرساں کوئی
--------------------------------------------
اطہر ہاپوڑی
زاہد کو میکدے میں کوئی پوچھتا نہیں
پھر اسی پہ غرور کہ میں بر گزیدہ ہوں
دشمن ہوں دشمنوں کا تو ہوں دوستوں کا دوست
تیغ کشیدہ اور کمان خمیدہ ہوں
-----------------------------------------
انوارالحق راضی
غریب انسان ازل ہی سے کچھ حسیں فریبوں میں مبتلا ہے
کہ درحقیقت بذات خود ہے چاہت ناپائید ار دھوکا
نہ جانے کیوں مختصر خوشی میں طویل غم کو چھپا رہے ہیں
گلوں کو حالاں کہ تجربہ ہے کہ ہے قیام بہار دھوکا
--------------------------------------------
باقی صدیقی(1908-1972 )
پُھول بِکھرے ہیں خاک پر ساقی
بامِ افلاک سے اُتر ساقی
بُجھ رہا ہے چراغ ِ مے خانہ
رگِ ساغر میں خون بھر ساقی
بار ہیں اب خزاں کے ہنگامے
فصلِ گُل کی کوئی خبرساقی
پہنچیں نہ پہنچیں منزل پہ لیکن
چل تو پڑے ہیں گِرتے سنبھلتے
--------------------------------------------
جگرؔ مراد آبادی (علی سکندر)(1890-1960)
یہ سنتا ہوں کہ پیاسی ہے بہت خاک وطن ساقی
خدا حافظ ، چلا میں باند ھ کر سرسے کفن ساقی
نہ لا وسواس دل میں جو ہیں جو تیرے دیکھنے والے
سر مقتل بھی دیکھیں گے چمن اندر چمن ساقی
--------------------------------------------
جمال سویدا
اب انتہائے شوق کی وارفتگی نہ پوچھ
منزل قریب ہے مگر اٹھتے نہیں قدم
------------------------------------------

جمیل ملک (1928-2001)
وہ شمع بجھ کے بھی روشن ہے بزم ہستی میں
جو انتظار سحر میں تما م رات جلی
رواں رہیں گے یونہی قافلے بہاروں کے
ہمارے بعد بھی مہکے گی ۔۔زندگی کی ۔۔ کلی
جمیل ان کو نہیں اعتبار جہد حیات
جو کہہ رہے ہیں اس زندگی سے موت بھلی
------------------------------
جلیل قدوائی
کچھ نہ ہم اس زندگی میں کر چلے
مرنے ہی آئے تھے گویا مرچلے
حسرتیں سب دل کی دل میں رہ گئیں
ایک بھی حسرت نہ پوری کر چلے
--------------------------------
نواب زادہ مرزا جمیل الدین عالی (جمیل الدین عالی )(1925-2015)
دوہے
عمر گنوا کر پیت میں ہم کو اتنی ہو ئی پہچان
چڑھی ندی اور اترگئی پر گھر ہوگئے ویران
آپ بنا بنجارہ میں اور آپ بنائی باٹ
بیج کہیورے دیکھنے والے ایسے کس کے ٹھاٹ
---------------------------------------------
تابش دہلوی(پیدائش:گیارہ نومبر،1911،تئیس ستمبر2004)
ہجومِ غم نے بدل دی فطرتَ ہستی
تڑپ کے دِ ل کو،بہت کم قرار ہوتا ہے
ہر ایک گا م پہ دیتا ہے منزلوں کی نوید
وہ قافلہ جو سرِ رہ گزار ہوتا ہے
-----------------------------------------------------
جعفر علی خان اثر
ہماری نا مرادی کا مداوا ہی نہیں ہم دم
کوئی تسکیں اگر دے گا تو دردِ دِل سِوا ہو گا
پڑھے گی آکے رحمت فاتحہ ان کے مزاروں پر
شہیدوں کا لہو سرمایۂ رازِ بقا ہو گا
----------------------------------------------
شبیر حسن خان جوشؔ ملیح آبادی(1894-1982 )
کون مسلم سے کہے اے مومن زار و نزار
لافتیٰ اِ لّاعلی لاسیف اِ لّاذالفقار
کشتیٔ ملت کو اس طوفان میں کھینے کے لیے
کون بڑھتا ہے لہو تھوڑا سادینے کے لیے
باگ میں ہے شہسواروں کے نظام زندگی
اسلحہ کی کھڑکھڑاہٹ ہے پیام زندگی
تجکو لوہابن کے دنیا میں ابھر نا چاہیے
یہ اگر ہمت نہیں توڈوب مرنا چاہیے
-------------------------------------------------------------------------------
جون ایلیا(1931-2002)
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چِھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکونِ دِل و جاں نہیں کہیں
رشتوں میں دھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دُھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
-----------------
جون ایلیا
بے دِلی کیا یوں ہی دِن گُزر جائیں گے
صِرف زِندہ رہے ہم تو مر جائیں گے
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اُداسی کہاں سے آتی ہے
---------------------------------------------
جعفر طاہر سید(1917-1977)
التجائیں ، حسرتیں ، آہیں ، مناجاتیں گئیں
کُوئے قاتل کی طرف کیا کیا نہ سوغاتیں گئیں
تتلیوں کے مسکراتے رنگ یارب !کیا ہوئے
کس طرف گاتی ہوئی بوندوں کی باراتیں گئیں
گونجتی کمکارتی کالی گھٹائیں کیا ہوئیں
بستیوں پر جو برستی تھیں وہ برساتیں گئیں
دل کا دروازہ کھلا رکھوں بھی تو کیا فائد ہ
دوستوں کی دعوتیں ان کی مداراتیں گئیں
سرخ موجوں کی تہوں میں کشیتاں ڈُوبی رہیں
ساحروں کے شعبدے خالی کراماتیں گئیں
منتیں مانیں ، دعائیں کیں نہ لیکن دن پِھرے
رائیگاں قربانیاں بے کار خیراتیں گئیں
سچ کہا یاروں سے تو صدیوں کے یارانے گئے
کُھل کے باتیں کیں تو برسوں کی ملاقاتیں گئیں
ربط حسن و عشق میں ایسا بڑھا اتنا بڑھا
تفرقے جاتے رہے چھوٹی بڑی ذاتیں گئیں
----------------------------------------------
حفیظ ہو شیار پوری(عبدالحفیظ)(1912-1973)
اِس طر ح بھی جانبِ منزل چلے کچھ تیز گام
دُور سے مُڑ مُڑ کے سُوئے رہ گُزر دیکھا کیے
ناشناسِ غم فقط دادِ ہنر دیتے رہے
ہم متاعِ غم کو رسوائے ہنر دیکھا کیے
-------------------------------------------
حسن حمیدی(1929-2005)
وجدان
کیا غم کہ اپنے سر پہ غلامی کا تاج ہے
جب کہ تصورات کی دنیا پہ راج ہے
ہیں اپنے گِردو پیش جہنم کی وادیاں
لیکن سُنا رہا ہوں بہاروں کی داستاں
ایک صدی پہلے۔۔۔۔
ٹیپو کا لہو بیچنے والوں کا کرم ہے
پردے میں اُجالوں کے وہی شامِ الم ہے
سہمی ہوئی آہوں کے جنازوں کو اُٹھائے
کہتے ہیں کہ ہاتھوں میں بہاروں کا علَم ہے
---------------------------------------
حسن حمیدی
ہلاکو ،اب جو تم بغداد آؤ گے
تو سیلِ خوں سے دجلہ اپنے ساحل دھو چُکا ہو گا
یہاں اِک اور لشکر۔۔۔آتش و آ ہن کا لشکرچھاؤنی ڈالے پڑا ہو گا
کئی سو سال سے یہ شہر اپنی بے سکونی میں
کبھی سویا نہ تھا،سو آخر سو چُکا ہو گا
ہلاکو،اب جو تم بغداد آؤ گے
یہاں لاشیں ملیں گی،لیکن ان کے سر نہیں ہوں گے
سروں کا ایک منارا،تمھارے شہرمیں آنے سے پہلے
بن چکا ہو گا،گلی کُوچے،سرائیں ،خانقاہیں،قہوہ خانے
اپنے سائے کے مقابل ہاتھ پھیلائے کھڑے ہو ں گے
کتب خانوں کی خاکستر اُڑائی جا چُکی ہو گی
نوادِر بوریوں میں بٹ چُکے ہو ں گے
کلام اﷲ کے نایاب نسخے اور صحیفے
کہ جِن کی دِید سے سینہ منور تھا ،جلائے جا چُکے ہوں گے
-------------------------------------------------
حمایت علی شاعر(پیدائش:گیارہ جولائی،1926)
مُجھ کو ڈر ہے کہ میرا سوزِ دروں
میرے دِل کوجلا نہ جائے کہیں
پیش و پس کی اُجاڑ تنہائی
مُجھ کو چُپ چاپ کھا نہ جائے کہیں
-------------------------------------------------------
خیال مینائی
خون ِجمہور سے جلتے نہیں محلوں کے چراغ
میری ناکام محبت کا اُڑاؤ نہ مذاق
کسی زردا ر کو پہلو میں گوارا کر لو
زہر کا زہر ہو اکرتا ہے اکثر تریاق
----------------------------------------------
خاطر غزنوی(1925-2008 )
آتشِ گُل کا دھواں ہیں ہم لوگ
بند کلیوں کی زباں ہیں ہم لوگ
زندگی اتنی بھی بے درد نہ تھی
آ گہی بول کہاں ہیں ہم لوگ
رہ نما بیٹھ گئے راہوں میں
اب اکیلے ہی رواں ہیں ہم لوگ
------------------------------------------
خالد علیگ (1925-2007 )
بفضل اختیار جبر جمہوری بتاؤں میں
کہیں طغرل ، کہیں مسخر ، کہیں چنگیز ہے ساقی
تکلف بر طرف اب بھی یہ محسو س ہوتا ہے
کہ جیسے حکمراں اس ملک پر انگریز ہے ساقی
یہاں محفل کی محفل آج کا ہذیان بکتی ہے
یہاں کچھ سوچ کر کہنے میں سب کو باک ہے ساقی
یہاں وجدان پر تالے پڑے ہیں خود نمائی کے
یہاں جہل و خرد سرمایہ ادراک ہے ساقی
------------------------------------------
راز یوسفی
مشاہدات
بے مہر زمانے کی نظر دیکھ رہا ہوں
اک طرفہ تماشا ہے جدھر دیکھ رہا ہوں
گلشن میں ہر اک شاخ سے بیگانہ ثمر سے
ہر آہ کو محروم اثر دیکھ رہا ہوں
جاتی رہی دنیا سے تمیز عیب و ہنر کی
ناقدری ارباب ہنر دیکھ رہا ہوں
جاگ اٹھی ہے لاریب خذف ریزوں کی قسمت
مٹی میں ملے لعل و گہر دیکھ رہا ہوں
-------------------------------------------
رابعہ خاتون نہاں
یوں قافلہ راحت و امید ہو برباد
افسوس ہے افسوس ہے فریاد ہے فریاد
اے نالہ دلگیر ذرا اور مد د کر
مضبوط کچھ ایسی تو نہیں عرش کی بنیاد
---------------------------------------
رشید تبسم
آج ہیں خاص و عام سے پہلے
تھے جو بے ننگ و نام سے پہلے
ہاں مرے ہمراہان تیز قدم
رہبر سست گام سے پہلے
اس سیہ بخت کی سحر معلوم
رات ہے جس کی شام سے پہلے
-------------------------------------
رعنا اکبر آبادی
دنیا ئے معانی
عبائے شیخ ہو یا ہو لباس برہمن ساقی
یہ سب ایمان کی لاشوں پہ لپٹے ہیں کفن ساقی
بہاریں کتنی افسروہ ہیں تیری کم نگاہی سے
ہمیں صحرا نظر آنے لگا ہے ہر چمن ساقی
------------------------------------------
روشن نگینوی
زندگی کچھ بھی سہی مسلسل تو نہ تھی
آج جو صورت حالات ہے وہ کل تو نہ تھی
کیا قیامت ہے کہ ہیں خون میں نہائے ہوئے پھول
پہلے گلشن کو روش صورت مقتل تو نہ تھی
------------------------------------------------
رضا ہمدانی
صحرائے خیال کا دیا ہوں
ویرانۂ شب میں جل رہا ہوں
اپنے ہی لہوکی روشنی میں
نیرنگِ جہاں کو دیکھتا ہوں
اِحساس کی تلخیوں میں ڈھل کر
میں درد کا چاند بن گیا ہوں
گُل زار میں رہ کے بھی رضا ؔ میں
خوشبو کے لیے ترس گیاہوں
---------------------------------------------
رضی اختر شوق(1933-1999)
خلش
کیسے سفاک بگولوں میں بدن سلگا کر
ہم نے ہر حوصلۂ دِل کو بنایا کُندن
دِل کی برفاب اُمنگوں کا لہو پِگھلایا
اور کرتے رہے آرائش لیلائے وطن
نفس باد ِسحر مشک فشاں کب ہو گا
بول اے جاگتے تاروں کے دلوں کی دھڑکن
----------------------------------------------
ساغر صدیقی (محمد اختر)(1928-1974)
ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جُرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
پُوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دئیے
پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دئیے
چاندنی میں یہ آگ کا دریا
کب رواں تھا بہار سے پہلے
ہر شگوفہ سِناں کی صُورت ہے
موسمِ گُل خزاں کی صُورت ہے
ساغر لُٹے لُٹے ہیں سِتارے بُجھے بُجھے
شاید مِرے نصیب کے دِن رات جل گئے
جِس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی
اُس عہد کے سُلطان سے کوئی بُھول ہوئی ہے
-----------------------------------------------
ساغر وارثی
اہل کشتی پہ تو ہیبت نہیں طوفانوں کی
ہمتیں پست ہیں کشتی کے نگہبانوں کی
ہے کہ وہ کہتا ہے کوئی ، کوئی کعبہ ، کوئی رہبر
داستاں ایک ہے تفریق کے عنوانوں کی
-----------------------------------------
سراج الدین ظفر (1912-1972 )
ہم بے خود وں کو وسوسہ خوب زیشت کیا
اے ہم نشیں مٹے گا خط سر نوشت کیا
بت خانے سے کسی کے بلانے کی دیر ہے
روکے گا مجھ کو وعدہ جور بہشت کیا
--------------------------------------
سر شار صدیقی (اسرار حسین محمد امان)(1926-2014)
کوئی حد بھی ہے آخر طول شب کی
طنابیں کھینچ لو صبح طرب کی
چھپیں گے مجھ سے اب رہبر نہ رہزن
ادا پہچان لی ہے میں نے سب کی
-----------------------------------
سرور قدوائی
تجدید
ساز خاموش کے تاروں کو جگاؤں گا ابھی
ایک روٹھے ہوئے نغمے کو مناؤں گا ابھی
شادمانی کو ہم آواز بناؤں گا ابھی
توڑ کر مجلس فر قت کو نکلنا ہے مجھے
غم سے مانوس فضاؤ ں کو بدلنا ہے مجھے
--------------------------------------------------------
سجاد باقر رضوی (1928-1993)
اوربازار سے لے آئے
یاں تو انسان کی عظمت بھی کرتی ہے
دست مزدور کی قوت بھی بکا کرتی ہے
اور سنتا ہوں محبت بھی بکا کرتی ہے
کون جانے کہ ترے دیس کی ریت ہے کیا
------------------------------------------------
سیف الدین سیفؔ (1922-1993 )
آج کھویا اسے ہم نے جسے پایا بھی نہیں
چھپ گیا وہ جو ابھی سامنے آیا بھی نہیں
فیصلے ہو بھی چکے ، حشر کا دن ڈھل بھی گیا
شور محشر نے ہمیں سیفؔ جگایا بھی نہیں
-------------------------------------
سیف زُلفی(سیدمحمد ذولفقار حسین رضوی)
کُوفے کے قریب ہو گیا ہے
لاہور عجیب ہو گیا ہے
ہر دوست ہے میرے خوں کا پیاسا
ہردوست عجیب ہو گیا ہے
ہر آنلھ کی ظُلمتوں سے یاری
ہر ذہن مہیب ہو گیا ہے
کیا ہنستا بستا شہر یارو
حاسد کا نصیب ہو گیا ہے
پھیلا تھا مسیح وقت بن کر
سمٹا تو صلیب ہو گیا ہے
کاغذ پر اُگل رہاہے نفرت
کم ظرف ادیب ہو گیاہے
اس شہر کے دل نہیں ہے زلفیؔ
یہ شہر غریب ہو گیا ہے

----------------------------------------
شاذ تمکنت
میرا فن ،میری زندگی
آزمائش کی گھڑ ی دیکھ قریب آئی ہے
میں کہ عیسیٰ ہوں مقدر میں صلیب آئی ہے
تیرا پر تو مِری ہستی کا نگہ داررہے
دِل وجاں کو ہوسِ لذتِ آزار رہے
اِس شبِ تِیرہ کو اب صبح کا تارا دے دے
پو کو آوا ز دے جینے کا سہارا دے دے
میراضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
تُو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے
--------------------------------------------------------
شان الحق حقی(1917-2005)
راہ جینے کی کہاں سوزشِ پنہاں کے بغیر
ہر نفس شعلۂ خاطر کادھواں ہو جیسے
دِل ہے یوں بے دِلی ٔ ہوش کے ہاتھوں لرزاں
کوئی قاتِل سے طلب گارِ اماں ہو جیسے
اِک نوا حاصلِ صد عہدِ طرب ہے حقیؔ
بُوئے گُل لاکھ بہاروں کا نِشاں ہو جیسے
---------------------------------------------------------
شہرتؔ بخاری (سید محمد انور )(1925-2001)
دل کا ہر گھاؤ بن گیا ناسُور
کیا خبر وقت کو ہے کیا منظور
اپنے داغوں میں کھو گئے ایسے
پُھول میں رنگ ہے ،نہ چاند میں نُور
موت پر بھی رہانہ بس شہرتؔ
کِس قدرہو گئے ہیں ہم مجبور

-----------------------------------------------
شوکت عابدی
حق گوئی جہاں ظلم سے بے گانہ رہے گی
اِنسان کی عظمت وہاں رُسوا نہ رہے گی
وہ دور بھی آئے گا جِس دور میں لوگو
اِنساں کو پریشانیٔ فردا نہ رہے گی
----------------------------------------
شہزاداحمد (1932-2012)
شبِ غم کو سحر کرنا پڑے گا
بہت لمبا سفر کرنا پڑے گا
سوا نیزے پہ سُورج آ گیا ہے
یہ دِن بھی اب بسر کرنا پڑے گا
بہت آتے ہیں پتھر ہر طرف سے
شجر کو بے ثمر کرنا پڑے گا
پیار کے رنگ محل برسوں میں تیار ہوئے
اور اِک لمحے میں غائب در و دیوار ہوئے
پِھر جو دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا موجود
ہم تو بس آ نکھ جھپکنے کے گناہ گار ہوئے
ہم سیاہ بختوں نے سُورج نہیں دیکھا برسوں
صبح دم آ نکھ لگی رات کو بیدار ہوئے
-------------------------------------
شیر افضل جعفری
آج وہ اِذنِ فغاں دیتے ہیں
بے زبانوں کو زباں دیتے ہیں
سوز آنکھوں میں اُمڈ آیا ہے
اب تو آنسو بھی دھواں دیتے ہیں
---------------------------------------
صبااکبر آبادی
نہ مِلاچین کِسی حال میں مجبوروں کو
مُسکرائے تو غمِ عِشق بُرا مان گیا
اپنی رو میں جو بہائے لیے جاتا تھا ہمیں
وہ زمانہ ،وہ تمناؤں کا طُوفان گیا
-------------------------------
صدیق کلیم
تازہ روایت
زنداں کی لگن ہو کہ ستاروں کی ہوس ہو
یہ فطرت ِانساں ہے ،غزل خواں ہی رہے گی
ہر دور میں دُنیاکو نیا رُوپ دیاہے
یہ جرأتِ فن کار درخشاں ہی رہے گیص
-------------------------------------------
ضمیر جعفری سید (1916-1999 )
دِ ل جتنا بِینا ہوتا ہے
اُتنا ہی تنہا ہوتا ہے
عشق ہو یا سمجھانا ۔۔ ناصح!
ہر آزار بُرا ہوتا ہے
-----------------------------------------
ظریف جبل پوری
یہ جھونپڑے ہیں یاں شیخ و شباب رہتے ہیں
وہ کو ٹھیاں ہیں وہاں آں جناب رہتے ہیں
ہمیں تو خون بہانے کاخوں بہا یہ مِلا
ہم اپنے ملک میں خانہ خرا ب رہتے ہیں
--------------------------------------------
ظفر احسن آصف
غلط،غلط کہ بہت خوش گوار ہے دنیا
فریب خوردۂ عہدِ بہار ہے دنیا
ابھی تو مجھ کو ہزاروں فریب کھانے ہیں
ابھی توتجھ پہ مجھے اعتبار ہے دنیا
-----------------------------------------
ظہیر کاشمیری( 1919-1994)
کشتۂ جورِ بہاراں نہیں دیکھے جاتے
ہم سے یہ چاک گریباں نہیں دیکھے جاتے
ہائے وہ لوگ جو خود گھر کو جلا دیتے تھے
آج وہ سوختہ ساماں نہیں دیکھے جاتے
جاں سُلگتی ہے ،کہیں دِل سے دُھواں اُٹھتا ہے
منظرِ شامِ غریباں نہیں دیکھے جاتے
کون دیکھے گا یہ در پردہ سُلگتے ہوئے دِل
اب چراغِ تہِ داماں نہیں دیکھے جاتے
جب سے خاموش چراغِ دِلِ بر باد ہوا
شہر کے جشنِ چراغاں نہیں دیکھے جاتے
آج اِحساسِ بشر نرم و سُبک تر ہے ظہیرؔ
آج یہ وحشی و زِنداں نہیں دیکھے جاتے
---------------------------------------------------
عبدالرؤف عروجؔ
جبینِ ظلمتِ گیتی پہ اِک شِکن ہی سہی
اندھیری رات ہے اِس رات میں کِرن ہی سہی
-------------------------------------------------------
عرش ملیسانی
کتنے طوفاں ہیں یہاں اور تلاطم کتنے
ایک آنسو میں ہیں کیا جانئے قلزم کتنے
----------------------------------------------
عنبر چغتائی
نہ بہتے ہیں آنسو ، نہ لب پر ہنسی ہے
مری زندگی کیا ہے کیا ہوگئی ہے
---------------------------------
عارف عبد المتین
میں سو چتا ہو ں کہ افلاک پر سلگتا چاند
مرے ہی دیدہ بے خواب کا بھرم ہوگا
قدم بڑھائے چلودشت ہجر میں عارف ؔ
کبھی تو فاصلہ جسم و روح کم ہوگا
------------------------------------
عبدالحمید عدم (1910-1981)
نصب کر کے مجسمہ تیرا
اس پہ مے کے دیئے جلائیں گے
محتسب ہم بڑی عقیدت ہے
تیری زر جوبلی منا ئیں گے
-------------------------------
عزیز حامد مدنی (1922-1991)
ہزار وقت کے پر تو نظر میں ہوتے ہیں
ہم ایک حلقۂ وحشت اثر میں ہوتے ہی

کُھلا یہ دِل پہ کہ تعمیر ِ بام و در ہے فریب
بگولے قالب دیوار و در میں ہوتے ہیں
------------------------------------------------
عبداللطیف اجل
بر عکس ہے زمانے کا دستور اِن دِنوں
زنگی کا نام رکھتے ہیں کافُور اِن دِنوں
---------------------------------------------------
فرید عرش
دکھائی دیتا ہے ہر سمت ظلمتوں کا غبار
بھٹک کے قافلۂ شوق آ گیا ہے کہاں
بساطِ موسمِ گُل کو کہاں تلاش کریں
کہ آج صحنِ چمن بھی ہے گوشۂ زنداں
------------------------------------------
غلام جیلانی اصغر
موجِ صر صر کی طرح دِل سے گُزر جاؤ گے
کِس کو معلوم تھاتم دِل میں اُتر جاؤ گے
چار سُووقت کی گردش کی فصیلِ شب ہے
بچ کے اِس گردشِ دوراں سے کِدھرجاؤ گے
آئینہ خانے سے دامن کو بچا کر گُزرو
آئینہ ٹُوٹاتو ریزوں میں بِکھر جاؤ گے
-----------------------------------------
فاروق احمد محشرؔ بدایونی(1922-1994 )
چمن بہ وطن
یوں جیے جا رہے ہیں کہ ہم جیسے زنداں میں ہیں
واقعی ہم بھی کیا اِس گلستاں میں ہیں
عقل گُم ،ہو ش گُم
با خبرہم نہ تم
عالم ِ حسرت و یاس و حرماں میں ہیں
----------------------------------------------------
فارغ بخاری(1917-1997 )
فرازِ دار پہ پہنچے قفس میں بند ہوئے
جہاں گئے تِرے عشاق سر بلند ہوئے
فلک کو اہلِ ہنر سے ہمیشہ لاگ رہی
جو ہوش مند نہیں تھے وہ ارجمند ہوئے
کیا ہے وقت کے جلاد نے قلم اُن کو
جو ہاتھ راہِ وفا میں کبھی بلند ہوئے
---------------------------------------------------
قیوم نظر (1914-1989)
دِن ڈھلے
وہ دفعتاً اِک ہجوم گدراہٹوں کااُٹھا
اُفق پہ طوفان سرخ اُجلی ،سیاہ نیلاہٹوں کا اُٹھا
فضا میں سیلابِ رنگ و نُورو جمال سے شور دم بہ خود آہٹوں کا اُٹھا
یہ آمدِ شب کے پیش خیمے کی دِل فریبی
ابھی اسے ہول ناک ظُلمات کے جہاں میں دھکیل دے گی
-----------------------------------------------------------
قتیل شفائی(1919-2001)
خوشبوکے پجاری ہیں نہ پھولوں کے پرستار
اب اہل گلستاں ہیں بگولوں کے پرستار
باہیں بھی ہیں موجود یہاں دارو رسن بھی
دیکھیں تو کدھر جاتے ہیں جھولوں کے پرستار
نادیدہ بہاروں پہ ہے ایمان ہمارا
ہم ایسے کہاں ہوں گے رسولوں کے پرستار
------------------------------------------
کرار نوری
چمن میں تھے تو نہ تھی ہم کو قدر آزادی
قفس میں آکے ہمیں لطف آشیانہ ملا
دل و نگاہ میں ہے رقص انقلاب و مآل
کوئی خیال محبت میں دیر پا نہ ملا
-----------------------------------
ماہر القادری
گھٹائیں بے طرح سایہ فگن ہیں
لچک جائے نہ شاخ آشیانہ
----------------------------------
محمد احمد خان سحر
سحر قریب ہے اب ختم ہو بھلا قصہ
اجل ٹھہر کہ مری داستاں دراز نہیں
----------------------------------
محسن اعظم گڑھی
دنیا ئے بدمزاق میں لایا گیا ہوں میں
مفہوم کائنات بتایا گیا ہوں میں
--------------------------------
محسن احسان (1932-2010)
ہوا چلی تو مِرا عارضی مکان گیا
طنابیں کھینچ رہا تھا کہ سائبان گیا
میں جِس سے بِھیک سویروں کی مانگتا تھا وہ شخص
رِدا ئے ظُلمتِ شب مرے سر پہ تان گیا
زمیں تو پاؤں تلے سے سَر ک چُکی لیکن
منا ؤ خیر کہ اَب سر سے آسمان گیا
میری طرح کا بہادُر کوئی نہیں ہے کہ میں
عدُو کے سامنے اَپنی شکست مان گیا
اِمام ِوقت نے اَپنی قبا میں ٹانک لیے
گُلاب جتنے لگا کر وہ باغبان گیا
-----------------------------------
محسن بھو پالی (عبدالرحمٰن)(پیدائش:بھوپال،اُنتیس ستمبر 1932،وفات:کراچی،سولہ جنوری2007)
شکست شب
یہ عرصہ گاہ ِ ہلاکت یہ دور ِ تیرہ شبی
یہ کس مقام پہ لے آئی اپنی سادہ دلی
چہار سو یہ اندھیر ا یہ تہہ بہ تہہ ظلمت
چراغ ِراہ گزر ہے کہیں نہ شمع کوئی
حیات ِنو کا تقاضا یہی ہے ہم نہ رکیں
صدائیں آتی رہیں دم بہ دم قدم نہ رکیں
ذرا سی لغز ش بے جا ہے علم و فن کا زوال
زباں پہ بند شیں لگ جائیں پر قلم نہ رکیں
-------------------------
محسن بھوپالی
کِس قدر عام ہے رسوائی ِ انساں محسنؔ
کوئی بھی عظمتِ آدم کا پرستار نہیں
قہر سا قہر ہے تذلیل ہی تذلیل ہے
آدمی بِکتے ہیں اور کوئی خریدار نہیں
-------------------------------------------
مجید لاہوری مجیدؔلاہوری (عبدا لمجید چوہان )(1913-1957)
دستور بن رہا ہے
’’کھوڑو ‘‘ اکڑرہا ہے اور ’’نون‘‘ رہا ہے
روٹھا ہے سہروردی ’’ممدوٹ‘ ‘ تن رہاہے
اور فضل الحق کہ اپنی دھن میں مگن رہا ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
سردار امیراعظم گیسو سنوارتا ہے
بڑھ بڑھ کے فضل رحمن جب ڈینگ مارتا ہے
ممتاز دولتانہ نالج بکھارتا ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
ہارون کے گلے میں تقریر اٹک رہی ہے
اور اپنے راشدی کی ٹوپی چمک رہی ہے
ہے افتخار دین یا چڑیا پھدک رہی ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
عبدالرشید اپنا دکھڑا سنارہا ہے
جوش غضب میں جعفر طوفاں اٹھا رہا ہے
عبدالوہاب خاں بھی گھنٹی بجارہا ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
منصور لیگیوں کی ہر راہ گھیرتا ہے
باری میاں بھی اٹھ کے شعلے بکھیرتا ہے
صوفی حمید، داڑھی پر ہاتھ پھیرتا ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
خاموش تالپور ہے سوہن میاں بھی چپ ہے
ہے نور حق بھی خاموش بسواس خاں بھی چپ ہے
عابد حسین چپ ہے زیب جہاں بھی چپ ہے
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
کر تا ہے بات گر کی نواب گرمانی
بابا جلال کا ہے لہجہ جلال خانی
جنرل مجیب میں ہے کیازور نوجوانی
دستو ر بن رہا ہے ، دستور بن رہا ہے
---------------------------------
مجید امجد
زندگی ، اے زندگی
اس طرف باہر سر کوئے عدم
ایک طوفاں ، ایک سیل ِ بے کراں
ڈوبنے کوہیں مرے شام و سحر کو کشتیاں
اے نگار ِ دلستاں !
اپنی نٹ کھٹ انکھڑیوں سے میری جانب جھانک بھی
زندگی ، اے زندگی (1953)
--------------------------------
مخمور سعیدی
سنتے ہیں آمد آمد فصل بہار تھی
ہم بد نصیب چھوڑ کے جب گلستاں چلے
جب آشیاں تو کیا وہ چمن تک اجڑ گیا
ہم چھوٹ کر قفس سے سوئے آشیاں چلے
----------------------------------------
مختار صدیقی
قریہ ویراں
جھلسے پیڑ ، جلی آبادی ، کھیتی سوکھی ، خزاں راکھ
ہست و بود کامدفن راکھ
گرتے بام و در کے لیے ہے گلیوں کا آغوش
جیسے دیواروں کو تھے کب سے وبال ِ دوش
بار ہٹا توآیا ہوش
-----------------------------------
مشفق خواجہ
کل تو دامن میں بہاریں ہوں گی
آج یہ زیست پریشاں ہی سہی
---------------------------------
منیر نیازی
زندگی
شام کا سورج خود ہی اپنے لہو کی دھاریوں میں ڈوب کر
دیکھتا ہے بجھتی آنکھوں سے سو ادِ شہر کے سونے کھنڈر
اس کو لے جائے گی پل بھر میں فنا کے گھاٹ پر
رات کے بحر سیہ کی موج ہے گرم ِ سفر
دیکھتی آنکھوں افق کے سرد ساحل پر اندھیرا چھائے گا
ڈوبتا سورج کسی بھولے سمے کی داستاں بن جائے گا
------------------------------------------------
نایا ب حسین
ناخدا میری تباہی کی کوئی فکر نہ کر
تونے خود اپنا سفینہ تو ابھارا ہوتا
ہائے موجوں نے کہاں لاکے ڈبویا ہے ہمیں
غم نہ ہوتا جو بہت دور کنارا ہوتا
---------------------------------------
ن۔م ۔ راشد (نذر محمد راشدجنجوعہ) ( 1910-1975)
ریگ ِ دیر وز
۔۔۔ تو محبت کے خرابوں کا مکیں
ایسے تاریک خرابے کہ جہاں
دُور سے تیز پلٹ جائیں وفا کے آہو !
ایسے سنسان خرابے کہ جہاں،
اک صد ا گونجتی ہو،
وہ بھی آلام کہن سا ل کی ’’ یاہو‘‘ ’’یاہو‘‘ !
تو محبت کے خرابوں کا مکیں
ریگ دیروزمیں خوابوں کے شجر بوتا رہا
سایہ ناپید تھا۔۔۔۔۔
سائے کی تمنا کے تلے سوتا رہا !
-----------------------------------------------
ناصر کاظمی (1925-1972)
ممکن نہیں متاع ِ سخن مجھ سے چھین لے
گویا باغباں یہ کنج چمن مجھ سے چھین لے
سینچی ہیں دل کے خون سے میں نے یہ کیاریاں
کس کی مجال میرا چمن مجھ سے چھین لے !
(1956)
----------------------------------------------
نظم اکبر آبادی
جبر مصلحت
بے در و دیوار زیر آسماں رہنا پڑا
ہم کہاں کے رہنے والے تھے کہاں رہنا پڑا
بے وطن ، بے گلستاں بے آشیاں رہنا پڑا
ہم کو غر بت نے جہاں رکھا وہاں رہنا پڑا
-----------------------------------------
وزیر آغا ڈاکٹر(1922-2010)
خلیج
کٹ گئی رات ، الجھنے لگی پھر سانس مری
میرے سینے میں ہوئی پھر سے تمنا بیدار
گرتے پڑتے نئی منزل پہ پہنچ جانے کی
یہ دہکتے ہو ئے جگنو ، یہ سجیلے تارے
یہ بھی اس بزم پر اسرار سے رخصت ہوکر
بڑھ رہے ہیں نئی منزل کو سنبھلتے گرتے
مجھ کو جانے دو کہ راہی نہیں ٹھہرا کرتے
----------------------------------------
وجد چغتائی
جا چکی کب کی گلستاں سے بہار
بجھ گئے رنگین پھولوں کے شرار
دل کے ویرانے میں پھر بھی سر جھکائے
چھڑتا ہے کوئی اک ٹوٹا ستار
--------------------------------
ہادی مچھلی شہری
نشانہ ٔ ستم ِروز گار ہے اب تک
جو بے قرار تھا دل بے قرار ہے اب تک
وطن پہنچ کے بھی لطف ِ وطن نصیب نہیں
دلِ ِ غریب، غریب الدیار ہے اب تک
وہ کارواں جسے گزرے ہوئے زمانہ ہوا
ہماری آنکھ میں اس کا غبار ہے اب تک
----------------------------------------
یاور عباس
کوئی کہہ دو ناخدا سے مجھے دے فریب لیکن
کہیں یہ نہ سوچ بیٹھے کہ بس اب خدا نہیں ہے
یہاں آکے بس گئے ہیں مگر اجنبی سے ہیں ہم

کوئی جانتا نہیں ہے کوئی پوچھتا نہیں ہے
----------------------------------------------
بر طانوی استعمار نے بر صغیر کے باشندوں کو نوے سال(1857-1947)تک اپنی نو آبادی بنائے رکھا۔بر صغیر کے باشندوں نے چودہ اگست 1947 کو غلامی کا طوق اُتار پھینکا اور بر طانوی سامراج کو اس خطے سے کُوچ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اپنی سابق نو آبادی میں سیاسی اور ثقافتی آزادی بر طانوی سامراج کی نگاہ میں کا نٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ بر طانوی استعمار کی مسلط کی گئی نوے سالہ بھیانک تاریک رات میں علاقائی،لسانی،نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ایک سازش کے تحت ہوا دی گئی اور مقامی باشندوں کو آپس میں لڑا کر بر طانوی سامراج نے اپنے غیر قانونی اقتدار کو طُو ل دیا۔ تقسیم ہند کے موقع پر
مہاجرین کے مصائب و آلام اور لرزہ خیز مسائل نے گمبھیر صور ت اختیار کر لی۔اس اعصاب شکن صورت ِحال سے ادیبوں نے گہرے اثرات قبول کیے۔اس خطے میں با لعموم اور پاکستان میں بالخصوص پس نو آبادیاتی ادبیات کے منفرد پہلو سامنے آئے جن میں مہاجرین کے مسائل پر کُھل کر لکھا گیا۔ہجرت کے موضوع پر لکھی گئی تحریریں زندگی کی حقیقی معنویت کی مظہر ہیں۔ پس نو آبادیاتی دور کے ادبیات میں ہجرت کے مسائل اور عام آدمی کی زندگی کے کٹھن شب و روز کی لفظی مرقع نگاری اس عہد کے ادیبوں کے اسلوب میں نمایاں ہے۔پس نو آبادیاتی دور میں پاکستانی ادیبوں نے اقتضائے وقت کے مطابق خلوص اور درمندی کے مظہر احساسات، فکر انگیز جذبات،روح پرور خیالات اور چشم کشا صداقتوں کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔اس طرح اسلوب میں پیدا ہونے والی اثر آ فرینی کے اعجاز سے تخلیق کار کا پیرایۂ اظہار قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر کر سنگلاخ چٹانوں ،جامد و ساکت پتھروں اور مجسموں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔استعماری طاقتیں اپنی نو آبادیات سے اپنے استحصالی ہتھکنڈوں سے کالا دھن سمیٹنے میں مصروف رہتی ہیں۔اپنی زندگی کے مناظر میں بغیر کسی جاں فشانی کے شادمانی،کامرانی اورراحت کی حسین و دِل کش رنگ آمیزی اُن کا وتیرہ بن جاتا ہے۔پس نو آبادیاتی دور میں ادیبوں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہجومِ یاس ،بے تاب اُمنگوں ،بے چین خواہشات،نا آسودہ اُمنگوں اور دِ ل لگی کے مظہر جذبات کی ترنگوں کو صحیح سمت عطا کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
پس نو آبادیاتی دور کے ادب میں بے اظمینانی اور اضطراب کا غلبہ دکھائی دیتاہے ۔آزادی کے حسین خواب کی تعبیر تو مِل گئی لیکن آزادی کے بعد روشن مستقبل کے منصوبوں اور سیکڑوں تمناؤں کی تکمیل کی گتھیاں مسلسل اُلجھتی جا رہی تھیں جنھیں شعور و خرد سے سلجھانے میں کافی دشواریوں کا سامنا تھا۔آزادی کے ارفع مقاصدکے حصول اور ایک آزاد و خود مختار وطن کی سر زمیں پر اپناآشیانہ بنانے کے لیے ہزاروں انسانوں نے اپنی جان کی بازی لگا دی۔پس نو آبادیاتی دور کے تخلیق کار جلداِس نتیجے پر پہنچ گئے کہ بڑھتی ہوئی تمناؤں اور جذبات و احساسات کی شدت حالات و واقعات کے بارے میں سائنسی اندازِ فکر اپنانے کی راہ میں سدِ سکندری بن سکتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اخلاقی اقدار کی زبوں حالی نے معاشرتی زندگی کا سکون غارت کر دیا تھا۔اس المیے کے بعدموہوم خواہشات اور ہوس پر مبنی اُمنگوں کے سرابوں میں بھٹکنے کے بجائے ہوش و خرد اور فہم و فراست کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں میں بھی روشنی کا سفر جاری رکھنا حریتِ ضمیر سے زندہ رہنے کے لیے نا گزیر ہے۔حریت ِ فکر و عمل اور جرأتِ اظہار فرد کی شخصیت کے معدن کے ایسے گوہرِ نایاب ہیں جن میں کسی قسم کی آمیزش یا آلودگی کاتصور ہی نہیں کیاجاسکتا۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں ضمیر کی للکار ہی تنازع للبقا اور جذبوں کی پیکار و ستیز کی مظہر ہے ۔انسانی کردار کے محاسن کے سوتے حق گوئی و بے باکی سے پُھوٹتے ہیں۔ جہاد کی ایک صور ت یہ بھی ہے کہ جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے،ہزار خو ف میں بھی وقت کے فراعنہ کوآئینہ دکھایاجائے۔
پس نو آبادیاتی دور کے آغاز میں پاکستان کو تہذیبی اور ثقافتی محاذ پر بہت مسائل درپیش تھے۔نوے سالہ غلامی نے یہاں کے باشندوں کوایک مستقل نو عیت کے احساسِ کم تری میں مبتلا کر دیاتھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔قصرِ فریدوں اور قیصر و کسریٰ کے ایوان پیوندِ خاک ہو چُکے ہیں لیکن کسی خطے کی تہذیب کے بارے میں کہ جاتا ہے کہ یہ ہر قسم کی آفاتِ نا گہانی سے محفوظ رہتی ہے ۔ پاکستانی ادیبوں نے انسانی فطرت کے مطابق آزادی ٔ اظہار کو اپنے لیے مقیاس العمل قرار دیا۔انھوں نے واضح کر دیا کہ معجزۂ فن کی نمود آزادی ٔ اظہار ہی کی مر ہونِ منت ہے ۔فنونِ لطیفہ با لخصوص ادب کی دنیا کے جملہ مظاہر فرد کی منفرد اور آزادانہ سوچ کے آئینہ دار سمجھے جاتے ہیں۔افراد کی جبلی آزادی کے احساس سے سرشارتخلیقی فعالیت کے ابتدائی نقوش کی لفظی مرقع نگاری ایک سِحر نگاری کی شکل میں قارئین کے قلب و نظر کو مسخر کرنے پر قادر ہے ۔ بر طانوی استعمار نے اپنی نو آبادی میں زندگی کی اقدارِ عالیہ بالخصوص اخلاقیات اور تہذیبی و ثقافتی اقدار کوناقابل ِ تلافی نقصان پہنچایا۔تخلیقِ ادب کا اخلاقیات کے ارفع معائر سے گہرا تعلق ہے ۔پاکستانی ادیبوں نے دورِ غلامی کے ان سانحات اور دُکھوں کا مداوا کرنے کی پُوری کوشش کی۔وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اقتضائے وقت کے مطابق اگر ادب اور فنون لطیفہ کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں اخلاقیات کی تعلیم و تربیت اور سماجی برائیوں کے تدارک پر بر وقت توجہ نہ دی گئی تو سمے کے سم سے پُورا ماحول مسموم ہو جائے گا۔ اردو زبان کے ادیبوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی نسل کو تہذیبی میراث کی منتقلی پر توجہ دی ۔ نوے سالہ دورِ غلامی کے دوران معاشرتی زندگی میں راہ پاجانے والی بُرائیوں اور عیوب نے زندگی کا تمام منظر نامہ گہنا دیا تھا۔ انھیں معلوم تھا کہ نو آبادیاتی دور میں غلامی کی بھیانک تاریک رات تہذیبی ارتقا کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو گئی تھی ۔تہذیب و تمدن اور ثقافت و معاشرت کی نمو ،بالیدگی اور ارتقا کو اپنی اولین ترجیح بنا کر پاکستانی ادیبوں نے حالات کا سائنسی انداز فکر اپناتے ہوئے جو تجزیہ کیا وہ حقیقت پسندانہ اور بر محل تھا۔قومی تعمیر و ترقی کے ابتدائی دور میں پاکستانی ادیبوں کی تحریروں میں حب الوطنی اور اصلاح کا پہلو نمایاں رہا۔ پاکستانی ادیبوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کر کے قوم کے روشن مستقبل کے لیے موثر لائحہ عمل اپنانے پر اصرار کیا۔ادیبوں نے اخبارات،جرائد،ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اپنی حق گوئی کا سلسلہ جاری رکھا۔اگر چہ اس میں کئی سخت مقام بھی آئے مگر ادیب ہمیشہ اپنی وضع پر قائم رہے اور کبھی کسی مصلحت کی پروا نہ کی۔ پاکستانی ادیبوں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوج کے فروغ کے موجودہ دور میں جب تک نئے زمانے کے تقاضوں اور نئی تہذیب کے چیلنج کا موثر جواب نہیں دیا جائے گا اس وقت تک اس خطے کی تہذیب و ثقافت اور تمدن و معاشرت کو اپنی بقا کے خطرے کا سامنارہے گا۔ نو آبادیاتی دور کے بعد نو آزاد مملکت کے با شندے آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں تھے۔ان غیر یقینی حالات میں دِلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرکے حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھنے میں حریت فکر کے علم بردار ادیبوں نے گہری دلچسپی لی۔وہ یہی چاہتے تھے کہ پاکستانی قوم کو ہیجانی کیفیت سے نکال کر انھیں مسرت و شادمانی کے روح پرور احساس سے سر شار کیا جائے۔بر طانوی سامراج نے بر صغیر میں اپنی نو آبادی کو اپنے مفادات کے حصول کی خاطر اپنے خاص انداز میں استعمال کیا۔ ظالم وسفاک بر طانوی استعمار نے بر صغیر میں مغلوں کی مسلمان حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے اقتدار کے لیے مستقل خطرہ سمجھنے لگے تھے۔ مشرق میں واقع نو آبادیات کے بارے میں استعماری طاقتوں کی سوچ کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے لکھاہے :
"Access to Indian (Oriental)riches hadalways to be made by first crossing the Islamic Provinces and by withstanding the dangerous effect of Islam as a system of quasi-Arian belief.And at least for the larger segment of eighteenth century,Britiain and France were successful" (27)
قیام پاکستان کے بعداردو زبان کے ادیبوں کو اس بات کا پختہ یقین ہو گیا تھا کہ بر طانوی استعمار کے خاتمے کے بعد بھی اس خطے میں مراعات یافتہ استحصالی طبقے کی پانچوں گھی میں ہیں۔اس کے بر عکس فقیروں اور فاقہ کشوں کے حالات جوں کے توں ہیں ۔بر طانوی سامراج کے پروردہ عناصرنے ایک سازش کے تحت مفلوک الحال اور پس ماندہ طبقے کو آزادی کے ثمرات سے محروم کر دیا ہے ۔ برطانوی سامراج نے بر صغیرمیں سیاسی ،معاشی ،عسکری ،تہذیبی اور ثقافتی شعبوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہر حربہ استعما ل کیا۔ بر طانوی سامراج کے پروردہ ہوسِ زر کے کُچلے ہوئے موقع پرست عناصر نے اپنے آقاؤں کی شہ پر ہمیشہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ موجودہ دور میں آزادی ٔ کامل کا تصور قابلِ عمل نہیں ۔اس کا سبب یہ ہے کہ اہلِ مشرق کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی ،علم و ادب اور معیشت میں اہلِ مغرب کا تعاون اور امداد نا گزیر ہے ۔ ادب اور فنون لطیفہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگر کرنے کے سلسلے میں یہ باقی تمام وسائل سے زیادہ پُر تاثیر اور افادیت سے لبریز ہیں۔ان کی گہری معنویت ،قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آفرینی اور دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرکے ذہن و ذکاوت اور قلب ونظر کو مسخر کرنے کی صلاحیت کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سائنس سے کہیں بڑھ کر پیچیدہ ، پُر اسرار اور محیر العقول ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستانی ادیبوں نے ادب اور فنون لطیفہ کو قومی تعمیر و ترقی کا وسیلہ بنا کر ید ِبیضا کا معجزہ دکھایا۔پس نو آبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج کی کٹھ پتلیوں نے نو آزاد ممالک میں ہر اعتبار سے مکمل آزادی کے تصور کو خیال و خواب سے تعبیر کیا اور اسے قوم پرستی کا ایک افسانہ قرار دے کر ناقابلِ فہم قرار دیا۔نو آبادیاتی دور کے اختتام کے بعد بر صغیر کے باشندے جد و جہدِ آزادی میں اپنی کامرانی پر شاداں تھے ۔ بر طانوی سامراج کے آلہ ٔ کار مفاد پر ست اور مراعات یافتہ استحصالی طبقے نے آزادی کے بعد صرف پینترا ہی نہیں بل کہ گرگٹ کی طرح کئی رنگ بھی بدلے ۔ مادرِ وطن پر تہمت لگا کر سامراجی طاقتوں سے داد لینے والے سخن فروش جس شاخ پہ بیٹھے ہیں اسی کو کاٹنے میں مصروف ہیں ۔ کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نوچنے اور بھنبھوڑنے والے ابن الوقت عناصر کامل آزادی کے تصور کو قوم پرست بورژوازی (nationalist bourgeoisie) کی ایک صورت سمجھتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے سامراجی آقاؤں کی ہاں میں ہاں ملانے والے اور اس کے جواب میں مراعات حاصل کرنے والے میر جعفر قماش کے ایسے مسخروں کو اپنے سامراجی آقاؤں کی فرقت کا غم اندر سے کھو کھلا کر چُکاہے۔ میر جعفر اور میر صادق کی اولاد یہ سنگ دِ ل درندے یہاں سے بوریا بستر لپیٹ کر اپنے وطن کی جانب کُوچ کرنے والے غیر مُلکی آقاؤں سے بچھڑ کر غمِ فرقت سے زندہ در گور ہو چکے ہیں۔یہ کور مغزاپنے آقاؤں کی یاد تازہ کرنے کی خاطر فسطائی جبر اور استحصالی مظالم سے حریت ِ فکر کے مجاہدوں کو اپنا تابع بنانا چاہتے ہیں۔ یہی وہ عناصر تھے جنھوں نے غیر نمائندہ اور غیر جمہوری حکومتوں کے غیر قانونی اقدامات کی تائید کی ۔تاریخ کا ایک مسلسل عمل ہوتا ہے بیسویں صدی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو تاریخ نے کئی مطلق العنان حکمرانوں کو عبرت کی مثال بنادیا۔ دنیا بھر میں حریت ضمیر سے جینے والے ادیبوں نے ہمیشہ جبر کے خلاف کُھل کر لکھا ہے اور سامراج کے مکروہ عزائم اور استعمار کی ظالمانہ اور شاطرانہ چالوں کے سب راز فاش کر کے جبر کے کریہہ چہرے سے پردہ اُٹھا یا ہے ۔ اُردو زبان کے ادیب جانتے تھے کہ پرِ زمانہ کی رفتار تو پرواز نُور سے بھی کہیں بڑھ کر ہے ۔ اس لیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ضروری ہے ۔سوچ کے زاویے غلط ہو جائیں تو زندگی کا ہر لائحہ ٔ عمل اس سے متاثر ہوتا ہے ۔پسِ نو آبادیاتی دور میں اُردو زبان کے پُر عزم اور جری تخلیق کاروں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حرفِ صداقت لکھنا اپنا شیوہ بنایا۔اُردو زبان کے ادیبوں نے سامراج کی نحوست،بے توفیقی اور بے بر کتی کے خلاف عوام میں حقیقی شعور و آگہی پیدا کر کے جو اہم خدمت انجام دی ،اس کی بنا پر تاریخ ہر دور میں حریت ِ فکر کے ان مجاہدوں کے نام اور کام کی تعظیم کرے گی۔سامراج کیا ہے اس کے بارے میں ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے :
"Imperialism means thinking about,settling on,controlling land that you do not possess,that is disrant,that is livedon and owned by others .For all kinds of reasons it attracts some people and often involves untold misery for others" (28)
سعودی ناول نگار عبدا لر حمٰن منیف (1933-2004)،کینیا کے ادیب این گوگی( Ngugi wa Thiong'o )نے اپنے اپنے ممالک کے عوام کو عالمی سامراج کی شقاوت آمیز نا انصافیوں سے آگاہ کیا ۔ جس بے انتہا جوش ،جذبے ،شدت ِ کرب اور غیظ و غضب سے این گوگی(B;1938) عبد الرحمٰن منیف ،فیض ا حمد فیض،شورش کا شمیری،حبیب جالب اور احمد فراز نے استعمار کے خلاف جس جرأت مندانہ انداز میں حقائق کی ترجمانی کی اس کی بنا پر اِن کوقید و بند کی صعوبتیں بر داشت کر نا پڑیں۔اس کے باوجود انھوں نے استعماری طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سِپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ برطانوی استعمار نے نوے سال سے اس علاقے کے باشندوں کی شہ رگ میں اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے ۔ان ادیبوں کو جس عقوبت اور اذیت میں مبتلا رکھا گیا ان سے ان کے عزم میں کوئی کمی نہ آ سکی۔ اہلِ مغرب ان سے بیزار اور اہلِ مشرق بھی ان سے حذر کرتے تھے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ان جری تخلیق کاروں کے اسالیب کے بارے میں یہ غلط تاثر پیدا کیا گیا کہ یہ زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار جو حالات کے نباض ہیں وہ سب ماضی کی تلخ یادوں کے اسیر اور انحطاط پذیر معاشرے کے ایسے نوحہ خواں ہیں جنھیں نئے دور کے تقاضوں کا کوئی احساس ہی نہیں ۔ایڈورڈ سعید نے لکھا ہے :
" They were likely,on the one hand,to be considered by many Western intelellectuals retrspective Jeremiahs denouncing the evils of past colonialism,and,on the other,to be treated by their governments in Saudi Arabia ,Kenya,Pakistan as agents of outside powers who deserved imprisonment or exile.The tragedy of this experience ,and indeed of so many post colonial experiences ,derives from the limitations of the attempts to deal with relationships that are polarized,radically uneven ,remembered differently."(29)
قیامِ پاکستان کے بعد یہاں کے ادیبوں نے انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انتھک جد و جہد کی۔ بھارت سے ترکِ وطن کر کے پاکستان پہنچنے والے مسلمان مہاجرین کی تعدا اس قدر زیادہ تھی کہ پاکستان کی نو آزاد مملکت ان بے خانماں اور بے یار و مدد گار مہاجرین کی آباد کاری کے کام سے بر وقت عہدہ بر آ ہونے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ بر طانوی سامراج نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کو ان کی اکثریت والے علاقوں سے محروم کر کے انتقالِ آبادی کو مہاجرین کے مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیا۔ بھارت کے طول و عرض سے مسلمان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعدا داپنے خوابوں کی سر زمین پاکستان پہنچی۔آزادی کے وقت پاکستان پہنچنے والے مسلمان مہاجرین کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ تھی۔ پاکستان سے بھارت جانے والے ہندو اور سکھ مہاجرین کی تعداد 4700000تھی ۔پاکستان پہنچنے والے اکثر مہاجرین نے پنجاب میں قیام کافیصلہ کیا۔ مہاجرین نے بھاری جانی اور مالی نقصان برداشت کر کے ارضِ پاکستان پر پہلا قدم رکھا۔ اس موضوع پر قرۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا ‘‘تمام حقائق کی گرہ کشائی کرتا ہے۔ مہاجرین کے دِل میں اپنی تباہیوں ،عزیز و اقارب کی دائمی مفارقت ،مال و متاع سے محرومی اور اپنی بے سر و سامانی کا ہر گز کوئی ملال نہ تھا۔ پاکستان کی سر سبز و شاداب سر زمین پر قدم رکھتے ہی ایک ہی دعا سب کے لبوں پر تھی :
سوہنی دھرتی اﷲ رکھے قدم قدم آباد تجھے
ہجرت کی مسافت کٹ گئی تو محض سفر کی دُھول کو اپنا پیرہن بنائے مہاجرین جب پاکستان پہنچے تو اُن کی روح زخم زخم اور دِل کِرچی کِرچی ہو چُکا تھا۔ مسلح ہندوؤں اور سکھوں نے نہتے مسلمان مہاجرین کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس قتل و غارت کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان مہاجرین کے گھر بے چراغ ہو گئے۔ مشرقی پنجاب سے مسلمان آبادی کے انخلا کے وقت مسلمانوں کے گھروں اور مسلمان بستیوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ نوجوان ،معمراور کم سن مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور مسلمان خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔ امرتسر سے لاہور کی جانب روانہ ہونے والی ریل گاڑیوں میں تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ مسلمان مہاجرین اپنی جان اور عزت وآبرو بچانے کے لیے ریل گاڑیوں کی چھت پر بھی سوار تھے ۔اس ہجرت کو تاریخ کی سب سے ہول ناک خونی ہجرت سمجھا جاتاہے جس کے نتیجے میں بے پناہ جانی اورمالی نقصان ہوا۔ مسلح ہندوؤ ں اور سکھوں نے جس بے دردی اور سفاکی سے نہتے مسلمان مہاجرین کا قتلِ عام کیا اس کو پیشِ نظر ر کھتے ہوئے تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ انتقال آبادی محض ہجرت تک محدو نہ رہی بل کہ یہ بڑے پیمانے پر ایک خونی انقلاب تھا جس کے نتیجے میں دائمی مفارقت دینے والوں کے سوگ میں مسلمانوں کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ غیر جانب دار تجزیہ کارو ں نے بر طانوی سامراج کو اس قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرایا جس نے جاتے جاتے ریڈ کلف ایوارڈ کی صورت میں مسلمانوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ بر صغیر سے نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے وقت بر طانوی سامراج کی اس سازش کو بالعموم پس نو آبادیاتی قزاقی پر محمول کیاجاتا ہے۔اس عہد کے حالات و واقعات کی لفظی مرقع نگاری کرنے والے مورخین نے ان کرب ناک لمحات کا جو نقشہ پیش کیا ہے اسے دیکھ کر کلیجہ منھ کو آتا ہے اور آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگتی ہیں۔اپنی نو آبادی سے رخت ِسفر باندھنے کے عبوری دور میں بھی بر طانوی سامراج نے ہندوؤ ں سے سودے بازی کر لی اور مسلمانوں کو ناقابلِ اندما ل صدمات سے دو چار کر دیا۔ ایڈورڈ سعید نے ہجرت کے مسائل اور اس کے نتیجے میں آبادی میں رونماہونے والے تغیر و تبدل کے بارے میں لکھا ہے :
"The widespread territorial rearrangements of the post-World War Two period produced huge demographic movements,for example the Indian Muslims who moved to Pakistan after 1947 partition,or the Palestinians who were largely dispersed during Israel,s establishment to accomodate incoming European and Asian Jews; and these transformations in turn gave rise to hybrid political forms.(30)
بر صغیر کے مسلمانوں پر بر طانوی سامراج کے مظالم کی داستان کافی طویل ہے ۔مہاجرین کے مسائل کے علاوہ دو نو آزاد ممالک میں اثاثوں کی تقسیم میں بھی بر طانوی سامراج اور ہندو قیادت نے سازباز کر کے مسلمانوں کو اثاثوں میں جو حصہ دیا وہ ان کے استحقاق سے کہیں کم تھا۔ریزرو بنک آف انڈیا کے پاس چار ہزار ملین روپے کے اثاثے تھے۔ان میں سے پاکستان کوصرف 750ملین روپے کا حصہ دیا گیا۔سندھ کے پانی پر تنازع اُٹھ کھڑا ہوا۔اس کے ساتھ ہی شاہی ریاستوں کے الحاق کے معاملے پر بھارت کی توسیع پسندی اور ہوس ملک گیری کے باعث پاکستان کو جونا گڑھ،حیدر آباد اورجودھ پور سے محروم ہونا پڑا۔بھارت نے کشمیر پر بھی غاصبانہ قبضہ کیا مگر اس کا ایک علاقہ (آزاد کشمیر )مجاہدین نے آزاد کر ا لیا باقی کشمیر پر بھارت قابض ہو گیا۔
قیام ِ پاکستان کے بعد اُردو زبان کے جر ی تخلیق کاروں حریتِ ضمیر سے جینے کے لیے سدا اسوۂ شبیرؓ کوپیشِ نظر ر کھا۔ حریت ِ فکر و عمل،حریتِ ضمیر اور جرأتِ اظہار کیا ہے اور مصلحت کے تقاضے کیا ہوتے ہیں ۔اس کے بارے میں عرصہ دراز تک ناطقہ سر بہ گریباں اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے۔حریت ِ فکر و عمل کے اعجازسے اقوام عالم خود اپنی نظروں میں معززو مفتخر ہو جاتی ہیں۔ بادی النظر میں یہ بات واضح ہے کہ زندگی کی اقدار ِعالیہ کے نشیب و فراز میں خیر ،شر، خلوص ،منافقت،محبت،نفرت،وفا ،جفا،ہوس ،ایثار،بہادری ،بُزدلی،حب الوطنی اور غداری سب کی سب مجرد کیفیات ہیں۔ حریت ِ فکر و عمل،حریتِ ضمیر اور جرأتِ اظہاربھی ایس ہی مجرد کیفیات ہیں جنھیں قلب اور روح یقیناًمحسوس کرتے ہیں مگر انھیں کوئی نام دینا ممکن نہیں۔یہی وہ معجز نماکیفیات ہیں جو انسانی شخصیت کو رنگ ،خوشبو،حسن ،خوبی اور دل آویزی کے پُر کیف استعاروں سے مزین کرکے جریدہ ٔ عالم پر اُس کا دوام ثبت کرنے کا موثر وسیلہ ثابت ہوتی ہیں۔ضمیر کی للکار،سچے جذبوں کی پیکار ،حریت فکر و عمل اور جبر کے سامنے جرأتِ اظہار ایک قلبی احساس ،روحانی و وجدانی کیف و سر مستی اور جذبِ دروں کا نام ہے جس کا انسانی زندگی کے تمام معمولات یہاں تک کہ خواب اور خیال میں بھی معاملہ چلتا رہتا ہے۔چشمِ بینا پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ستاروں کی چمک ، پائل کی دھمک ، گیت کی لے ، بانسری کی نے ، نسیم سحر کے جھونکے ، گل ہائے رنگ رنگ کی عطربیزی ، ثمر نورس کی مہک ، بُلبل کی چہک، چشم غزال کے تیرنیم کش کی خلش ، عارض ولب کی سرخی ، کڑی کمان جیسی چال، صبیح چہرہ ، سیاہ زلفیں دیکھ کر لوگ دل تھا م لیتے ہیں ۔ اس ردِ عمل کا سبب کیا ہے ؟ اس کا جواب نہایت واضح ہے کہ یہ طلسمی کیفیات اسرارِ شش جہات ہیں ۔روشنیٔ چشم ان سے گہرے اثرات قبول کرتی ہے اور اس طرح فکر و خیال کو ایسی تحریک ملتی ہے کہ ہر با شعور انسان ان کا گروید ہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح حریت ِ فکر و عمل،حریتِ ضمیر اور جرأتِ اظہارکی ہمہ گیری کا ایک عالم معترف ہے۔ اسی کو زادِ راہ بنا کر سقراط اور منصور اپنے لیے ابدی زندگی کا منشور اور حریت فکر و عمل کے مجاہدوں کے لیے دستور کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعداس خطے کے باشندوں کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرنے میں حریت فکر کے علم بردار ادیبوں نے جو کردار ادا کیا وہ تاریخ ادب کا منور باب ہے۔ان سطو ر میں بر طانوی سامراج کے خاتمے کے بعد پاکستان کی نو آزاد مملکت کے ابتدائی گیارہ برسوں کے ادب پر نظر ڈالی گئی ہے ۔اس کے بعد جب پاکستان میں سلطانی ٔ جمہور کا خاتمہ ہوا اور ملک میں پہلی بار مارشل لا نافذ کیا گیا تو حالات کی کایا پلٹ گئی۔وہ قوم جس نے آزادی کے بعد اوج ثریا پر پہنچنے کی تمنا کی تھی گردشِ آسماں کے اس کے تمام عزائم تشنہ ٔ تکمیل رہ گئے اور اُس کی پستی اس قدر حد سے گزر گئی کہ زندگی کے سب معائر تحت الثرٰی میں جا گرے۔ سلطانی ٔجمہور کے سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ،قومی ترقی اور خوش حالی کی تمام اُمیدیں خیال و خواب بن کر رہ گئیں۔ پس نو آبادیاتی دور کا یہ ایک ایسا المیہ تھا جسے کوئی نام دینا بھی ممکن نہیں۔ بر طانوی سامراج کے رخصت ہونے کے بعد پس نو آبادیاتی دور کے ابتدائی گیارہ برس(1947-1958) پاکستان کی نو آزاد مملکت کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوئے۔ پاکستان کے قیام کے بعد یہ ابتدائی گیارہ برس اس قدر مصائب و آلام سے لبریز ہیں کہ ان کا تصور ہی قاری کو خون کے آنسو رُلادیتاہے ۔یہی وہ ابتدائی دور ہے جس نے اس قوم کو خود اپنا پتا بتایا اور کانٹوں میں اُلجھ کر زندگی بسر کرنے کی خُو پیدا کی۔ ہوائے جورو ستم میں حریتِ فکر ،حب الوطنی اور سلطانی ٔ جمہور کی جدو جہد میں شامل ہو کر اردو زبان کے ادیبوں نے حالات کارخ بد ل دیا۔اس عرصے میں اُردو کے جن ممتاز ادیبوں نے پاکستان میں حرفِ صداقت لکھنا اپناشعار بنایا ان کے نام درج ذیل ہیں:
آغا نو بہار علی خان ، آغاز برنی، احسان اکبر، احسن سلیم، امیر اختر بھٹی،اسیرعابد، احمد تنویر ، اسحاق ساقی ،ارشادگرامی، اصغر سودائی ، انور شعور ، انور سدید ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ ، بشیر سیفی، بیدل پانی پتی، بیدل حیدری، تابش صدیقی، تقی الدین انجم، حفیظ جونپوری، حفیظ تائب، حبیب جالب ، حکمت ادیب ، خادم مگھیانوی ، خادم رزمی ، خضر تمیمی ،دیوان احمد الیاس نصیب، ذکیہ بدر، رام ریاض ، رب نواز مائل، رفعت سلطان ،زہرہ نگاہ ، سیف زلفی ، سجاد بخاری ،شبنم شکیل ، شفیع عقیل ، شہزاد احمد ، شبنم رومانی ، شورش کا شمیری ، صوفی غلام مصطفی تبسم ، صابر آفاقی ، صابر کلوروی ،صہبا اختر،صہبا لکھنوی ، صدیق کلیم، ضیا جالندھری ، طٰحہ خان، ظفر تر مذی ، عاصی کرنالی، عطا شاد،عندلیب شادانی ، عر ش صدیقی ، عبیر ابو ذری ، عابد علی عابدؔ ، غفار بابر،غلام علی چین ، غلام محمدقاصر، غلام بھیک نیرنگ ، فاطمہ حسن، فاطمہ ثریا بجیا، فضل بانو، فہمیدہ ریاض ، کبیر انور جعفری، کشور ناہید، محمد فیروز شاہ، قدیر قیس، قمر عثمانی ،مظفر علی ظفر، مظفر وارثی ،معین تابش، ممتاز شیریں،منصور قیصر، نثار احمدقریشی ،نواز ایمن ،وارث میر
بر طانوی سامراج کے انجام کے بعد اُس کی نو آبادیات کے انتظام و انصرام اور ان سابق نو آبادیات کے با شندوں کی زندگی کے مہ وسال کی سر گزشت پر ابلقِ ایام کے سموں کی گرد اور ابہام کی دُھندپڑنے لگی ہے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ قیام پاکستان کے بعداس خطے کے ادیبوں نے تہذیبی و ثقافتی اور سیاسی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز کے بارے میں کسی بھی امر کو مبہم نہیں رہنے دیا اوراپنا موقف ڈنکے کی چوٹ بیان کیا۔اس عبوری دور میں تخلیقی ادب کے ساتھ ساتھ تراجم پر بھی توجہ دی گئی تا کہ مختلف تہذیبوں کے امتزاج سے فکر و خیال کی نئی شمعیں فروزاں کی جا سکیں۔اس عہد کے ادیبوں کے اسالیب اور ڈسکورس کو ان کی ذہنی اُپج اور ذاتی اختراع سمجھا جاتا ہے ۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعدسلطانیٔ جمہور کو جن کٹھن مسائل کا سامنا رہا ان کا پرتو اس عہد کے پاکستانی ادیبوں کی تخلیقات میں موجود ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ تخلیقات اُس دور کے تیزی سے بگڑتے ہوئے سیاسی اور معاشرتی حالات کے باعث تخلیق کاروں کی تشویش اور اضطراب سے معمور ہیں۔ پاکستان میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد اور دوسرے مارشل لا کے نفاذ تک اُردو زبان کے تخلیق کاروں کے دِل پہ کیا گزری اور اُنھوں نے اپنے جذبات و احساسات کو زیبِ قرطاس کرتے وقت کیسی طرزِ فغاں اختراع کی ۔اس اسلوب اور ڈسکورس کا مطالعہ بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ معاشرتی زندگی کے روزمرہ کے معمولات کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ یہاں ہر شخص حاجت مند ہے۔ ظاہر ہے کہ حاجت مند کی حاجت روائی ایک اخلاقی فریضہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کہ کِس کِس کی حاجت روائی کی جائے۔اقتدار اور جاہ و منصب کی حاجت روائی کے لیے قانون خود ہی راستہ دیتا ہے۔ آسٹریلیا کے قانون دان ہینز کیلسن(HANS KELSEN) نے اپنے مضمون قانون اور سائنس (LAW AND SCIENCE) میں مثالوں کے ذریعے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بے تاب تمناؤں اور ضروریات سے نڈھال شخص کی مدد کو پہنچنا اخلاقی ذمہ داری ہے۔
"Morals command that if someone is in need he ought to be helped; if someone obeys this command ,his behavior ought to be approved ,if he disobeys ,his behavior ought to be disapproved.The sanctions of approval and disapproval are imputed to their immediate condition--- the commanded aid and the prohibited nonaid;the commanded aid is imputed to the fact whose immediate condition it is: namely that somebody is in need.This fact is the mediate condition of the approval(functioning as sanction)of rendering aid and of the disapproval of not rendering it."(31)
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ضرورت ہر ایجاد اور اختراع کو تحریک دیتی ہے ۔دیکھنایہ ہے کہ پاکستانی ادیبوں نے حبس اور جبر کے ماحول میں وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کون سی طرزِ فغاں ایجاد کی۔پاکستانی ادیبوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جبر کے خلاف جس جرأت اور بے باکی سے قلم اُٹھایا وہ تاریخِ ادب کا درخشاں باب ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حریتِ فکر و عمل کے ان مجاہدوں کی حب الوطنی کی مظہر تخلیقی فعالیت ،علمی و ادبی کامرانیوں اور قومی خدمات کا اعتراف کرنے میں تامل نہ کیاجائے۔زندہ اقوم اپنے مشاہیر کے کا رہائے نمایاں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ان کی تقلید کر کے اپنا مستقبل سنوارتی ہیں۔ 1958میں سلطانیٔ جمہور کا دور ختم ہونے کے بعدجب ارض ِ وطن پر آمریت کے سیاہ بادل چھا گئے تو حبس کے ماحول میں وقت کی ضرورت کے عین مطابق ممتاز ادیب احمد ندیم قاسمی کی یہ دعاہر محبِ وطن پاکستانی کے دِل کی دھڑکن سے ہم آ ہنگ رہی:
خدا کر ے کہ مری اَرضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے َاندیشہ ٔ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خداکرے کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فر د ہو تہذیب و فن کا اَوجِ کمال
کوئی مَلُول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خداکرے کہ مرے اِک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جُرم نہ ہو زِندگی وَبال نہ ہو
------------------------------------------
مآخذ
1 ۔علی سفیان آفاقی : سیاسی باتیں ، سردار شوکت حیات سے ملاقات ، مقبول اکیڈمی ، لاہور 1990 ، صفحہ 22
2 ۔حمید رضا صدیقی : نظریہ پاکستان ، کاروان ادب ملتان صدر ، اشاعت اول ، 1989 ، صفحہ133
3 ۔زاہد چوہد ری : پاکستان کی سیاسی تاریخ، جلد دوم ، ادارہ مطالعہ تاریخ، لاہور 1989 ، صفحہ 445
4۔عطش درانی : پاکستان ایک نظریہ ایک تحریک ، مکتبہ عالیہ ، لاہور ، اشاعت اول 1987 ، صفحہ 252
5 ۔حمید رضاصدیقی : نظریہ پاکستان ، کاروانِ ادب،ملتان،اشاعت اول، 1989 صفحہ 135
6۔احمد سعید : حصول پاکستان ، الفیصل ناشران ، لاہور ، ستمبر1992 صفحہ 246
7 ۔صفدر محمود (ڈاکٹر) مسلم لیگ کا دور حکومت ، غالب پبلشر ز ، لاہور ، دسمبر 1982 صفحہ 47
8۔وکیل انجم : شمع جمہوریت ، جنگ پبلشرز ، لاہور ، اشاعت اول ، 1993 صفحہ14
9 ۔ولی مظہر : عظمتوں کے چراغ ، مجلس کارکنان تحریک پاکستان ، ملتان ، بار اول ، 1990 صفحہ24
10 ۔ہیکڑ بولائتھو: محمد علی جناح ، مترجم زہیر صد یقی ، مرکزی اردو بورڈ ، لاہور، 1990 صفحہ22
11۔امیر عبداﷲ خاں روکڑی :میں اور میرا پاکستان ، جنگ پبلشرز ، لاہور ، اشاعت اول 1991 صفحہ 90
12 ۔جی۔ الانا : قائد اعظم ایک قوم کی سرگزشت ، اردو ترجمہ رئیس امروہوی ، فیروزسنز ، لاہور ، پہلی بار 1967 صفحہ 627
13 ۔احمد سیلم : ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں ، جنگ پبلشرز، لاہور، اشاعت اول ، 1990 ، صفحہ170
14۔محمد عزیز (سردار): سرگذشت پاکستان ، سنگ میل پبلی کیشنز ، لاہور ، 1990 صفحہ148
15۔علی حسن:پاکستان ،جرنیل اور سیاست،وین گارڈ بُکس،لاہور،اشاعت،1991،صفحہ، 293
Neocolonialism, Translated by A Haddour, Routledge,London ,2001,Page,81. 16.Jean-Paul Sartre:Colonialism and
17 ۔لزلی وولف فلپس: قانون ضرورت کا ایک مطالعہ ، مضمون مشمولہ تیسری دنیاوسائل اور مسائل، مرتب الطاف گوہر ، یونائیٹڈ ایڈورٹائنزز، کراچی ، 1980 ، صفحہ 155
18۔ صفدر محمود(ڈاکٹر): پاکستان مسلم لیگ کا دور حکومت، صفحہ 325
19۔احمد سلیم :ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں ، صفحہ240
20 ۔محمد ایوب خان : جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی ، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ، کراچی، صفحہ92
21۔احمد سلیم :ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں ، صفحہ 247
22 ۔قدرت اﷲ شہاب : شہاب نامہ ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور صفحہ 692
23 ۔قدرت اﷲ شہاب : شہاب نامہ صفحہ 691
24۔قدرت اﷲ شہاب : شہاب نامہ صفحہ 694
25۔احمد سلیم :ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں ، صفحہ 256
26۔محمد ایوب خان:جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی، صفحہ 98
27.Edward Said:Orientalism,Penguine ,London,1973, Page,76
28.Edward W Said:Culture and ImperialismVintage Books,New York,1993, Page 7
29. Edward W Said:Culture and Imperialism, Page 18
30. Edward W Said:Representation of the Intellectual,Vintage Books,New York,1996,Page,50
31.Hans Kelsen:Pure Theory of Law,Translated by:Max Knight,University of California Press,1967,Page,93
Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 609312 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.