دبستانِ نعت کا گلِ خوش رنگ: شاہ احمد رضاؔخاں بریلوی
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
شعر و ادب کے حوالے سے سر زمین ہندوستان
ہر دور میں ایسے گہر آب دار اور یکتاے رزگار ہستیوں کو پیدا کرتی رہی ہے جن
کی خدمات اور سخن آرائی سے بزم ادب میں رعنائی و رونق ہے۔ غالب ؔ و اقبالؔ
اور میرؔ و امیرؔ، محسنؔ و ناسخ کے سخن دل نواز اور فکری ارتکاز کی جھنکار
اب بھی مرتعش ہے۔ شعر و سخن کے دبستاں سے فکر و نظر کی تربیت کا کام ہر دور
میں لیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کی ابتدا سے ہی صحت مند سخن کی کار فرمائی
صاف جھلکتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بامقصد اشعار کے توسط سے ایک طرف اﷲ رحمن و
رحیم و رسول کریم کی شان باعظمت میں اظہار قلبی اور سوغات دلی پیش کرنے کی
روایت رہی ہے اور دوسری طرف ادب کے دامن کو سخن آرائی کے نئے جواہر سے مالا
مال کیا گیا ہے۔
یہ روایت کچھ ایسی قائم ہوئی کہ عربی سے فارسی، پھر فارسی سے اردو کے
دبستاں تک کا اس کا سفر خوش گوار ماحول میں جاری رہا ہے۔ اور ادب کا پاکیزہ
مزاج ’’نعت‘‘ کے حوالے سے مقبول بھی ہوا اور عقیدہ و عقیدت کی جِلا کا سبب
بھی بنا۔ملک عزیز کو اس خصوص میں جو مقام امتیاز حاصل ہے وہ پوشیدہ نہیں
بلکہ اردو کی گیسوئے منت پذیر نعت میں آکے سنور گئی ہے۔ سخن کی ہر بزم میں
’’نعت‘‘ کے جلوے بکھرے نظر آتے ہیں۔ غزل کا ادبی مقام اپنی جگہ۔ لیکن حقایق
کے بیاں اور صداقت کے سوزِ نہاں کی یک جائی ’’نعت‘‘ میں نمایاں ہوتی
ہے۔گذری صدی میں بزم نعت میں جو سخن داں منبرِ مرصع پر فائز نظر آتے ہیں وہ
مولانا احمد رضاخاں بریلوی (۱۸۵۶ء۱۹۲۱-ء) ہیں۔ جن کے اشعار میں سوز و گداز
کی جلوہ گری ہے تو افکار میں اسلاف کی پاکیزگی نہاں ہے۔یہ اشعار سے راقم کے
موقف کے مؤید معلوم ہوتے ہیں:
طوبیٰ میں جو سب سے اونچی نازک سیدھی نکلی شاخ
مانگوں نعت نبی لکھنے کو روحِ قدس سے ایسی شاخ
مولیٰ گلبن رحمت زہرا سبطین اس کی کلیاں پھول
صدیق و فاروق و عثماں ، حیدر ہر اک اس کی شاخ
شاخِ قامت شہ میں زلف و چشم و رخسار و لب ہیں
سنبل نرگس گل پنکھڑیاں قدرت کی کیا پھولی شاخ
اپنے ان باغوں کا صدقہ وہ رحمت کا پانی دے
جس سے نخلِ دل میں ہو پید اپیارے تیری ولا کی شاخ
یاد رخ میں آہیں کر کے بن میں مَیں رویا آئی بہار
جھومیں نسیمیں نیساں برسا کلیاں چٹکیں مہکی شاخ
ظاہر وباطن اول و آخر زیب فروع و زین اصول
باغِ رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ جڑ پتی شاخ
آل احمد خذبیدی یا سیّد حمزہ کن مددی
وقت خزان عمرِ رضاؔ ہو برگ ہدیٰ سے نہ عاری شاخ
فکر و نظر کی جولانی، عقیدہ و عقیدت کی یک جائی اور فکر و نظر کا وہ توازن
کہ زبان سبحان اﷲ کہتی ہے اور دل مسرور ہو اٹھتے ہیں۔ پھر سلاست و روانی
اور پاکیزہ بیانی مستزاد۔ کیا معاصر شعرا کے یہاں نعت کے حوالے سے اس قدر
وارفتگی و فریفتگی کی فضا ملتی ہے؟ جواب نفی میں ہو گا۔ گو کہ اس سے ہمارا
مقصود ان معاصر شعرا کی بلندیِ فکر کا انکار نہیں لیکن انفرادیت کی بزم میں
تنہا مولانا احمد رضا خاں کی ذات ہی نظر آتی ہے اور کیفیت یوں ہے کہ :
وہ آئے بزم میں تو میرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گذرا ایک آواز بڑی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہے،
کانوں میں رس گھول رہی ہے، میزانِ عدل و انصاف کا فیصلہ کیا رہے گا اس
پاکیزہ سلام سے متعلق، اس کے اشعار دل افروز سے متعلق ادب کے خوشہ چینوں کا
فیصلہ کیا ہوگا؟
مصطفےٰ جان رحمت پہ لاکھوں سلام
شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام
شہریار ارم ، تاجدار حرم
نو بہار شفاعت پہ لاکھوں سلام
عرش کی زیب و زینت پہ عرشی درود
فرش کی طیب و نزہت پہ لاکھوں سلام
عرش تا فرش ہے جس کے زیرنگیں
اس کی قاہر ریاست پہ لاکھوں سلام
فتح باب نبوت پہ بے حد درود
ختم دور رسالت پہ لاکھوں سلام
پرتو اسم ذات احد پر درود
نسخۂ جامعیت پہ لاکھوں سلام
مطلع ہر سعادت پہ اسعد درود
مقطع ہر سیادت پہ لاکھوں سلام
رب اعلیٰ کی نعمت پہ اعلیٰ درود
حق تعالیٰ کی منت پہ لاکھوں سلام
ایک معاصر ادیب ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کا اس سلام کی بابت خصوصیات کے باب
میں تبصرہ یوں ہے:
(۱) اس سلام کی اہم ترین بات اس کی ترتیب او رتعمیری حسن ہے ۔
(۲) اس میں جذباتی رنگ کے ساتھ فکری گہرائی ہے ۔
(۳) پورے کا پورا قصیدہ ایک فنی و حدت کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہے ۔
(۴) یہ سلام ایک عظیم فن پارہ ہے ۔ وغیرہ وغیرہ !(سال نامہ یادگار رضا۲۰۰۷ء
ممبئی،ص۶۱)
دبستانِ ادب میں سراپا نگاری کی روایت قدیم رہی ہے بلکہ ابتدائی اردو شاعری
کے نمونوں میں بھی اس کی فضا استوار ہے گو کہ بعد کو اس کی فنی حیثیت عود
کر آئی۔ نعتیہ ادب کے حوالے سے سراپا نگاری کی نادر نمونے تسلسل کے ساتھ
منظم انداز میں کہیں جلوہ آرا دکھائی دیتے ہیں تو وہ اردو کے اسی مایۂ سلام
اور کلامِ دل نواز میں ہیں، چند اشعار دیکھیں، پڑھیں، سمجھیں اور ادب کی
کسوٹی پر پرکھیں ساتھ ہی محبت کے شفاف جذبات کام میں لائیں تو جبیں تعظٰیم
جھکتی ہے اور عقیدت معراج پاتی ہے۔ محسوسات کی دنیا میں انقلاب کی دھمک صاف
محسوس ہوتی ہے، سراپاے دل نواز کی ایک جھلک دیکھیں:
طائران قدس جس کی ہیں قمریاں
اس سہی سرو قامت پہ لاکھوں سلام
لَیْلَۃُ الْقَدْر میں مَطْلَعِ الْفَجْرِ حق
مانگ کی استقامت پہ لاکھوں سلام
معنی قَدْرَأیٰ مقصد مَاطغیٰ
نرگس باغ قدرت پہ لاکھوں سلام
وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
کھائی قرآں نے خاک گزر کی قسم
اس کف پا کی حرمت پہ لاکھوں سلام
مولانا احمد رضاخاں کی شعری و ادبی خدمات نے دبستانِ بریلی کو اردو کے
منفرد دبستاں کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ان کے فکر و خیال کی بلندی اور
اشعار کی چاشنی نے دلوں کی دنیا کو زبر کیا۔ ادبا نے بھی حظ اٹھایا، شعرانے
بھی مٹھاس محسوس کی، خواص کی بات الگ رہی عوام کی زباں پر بھی آپ کے اشعار
رقص کرتے ہیں۔ کم ہی ہوں گے جنھیں حضرت رضاؔ کے دوچار اشعار حفظ نہ ہوں۔
فکر کی جالانی اور کردار کی تابانی جب نعت کی صورت میں ظہور پذیر ہوتی ہے
تو ایسے اشعار بھی حیطۂ تحریر میں آتے اور سلکِ عقیدت میں پروئے جاتے ہیں:
نہ رکھی گل کے جوش حسن نے گلشن میں جا باقی
چٹکتا پھر کہاں غنچہ کوئی باغ رسالت کا
طیبہ کے سوا سب باغ پامال فنا ہوں گے
دیکھو گے چمن والو! جب عہد خزاں آیا
جب چمن سے لے چلا صیاد کر کے ہم کو قید
دور تک مڑ مڑ کے کوئے گلستاں دیکھا کیے
چمن طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبل شیدا ہوکر
ہمارے اس شاعر کی فکری عظمت اور ادبی بصیرت کے قائل ناقدین ادب بھی ہیں
اور نعت گویانِ عصر بھی ہیں کہ آپ کی شعری حرکیات نے ۲۰؍ویں صدی میں ایک
انقلاب برپا کیا ہے۔ جسے صالح انقلاب قرار دیا جائے تو بجا ہے۔ ایسے دور
میں جب کہ انگریز کی تحریکات نے مسلم کے تنِ زندہ کو عشق رسول صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم نکال کر مردہ کرنے کی اشد کوشش کی دلوں میں عشق و محبت کی
حرارت دوڑا دینا ایک لازوال کارنامہ تھا اس حوالے سے بھی حضرت رضاؔ بریلوی
ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے، ادب کے طالبانِ علم آپ کی شاعری سے استفادہ کر
کے اثاثۂ ادب میں خوب صورت و مفید اضافہ کرتے رہیں گے اور مسلمانوں میں
محبت و عشق کا انقلاب برپا کرتے رہیں گے، محبوب رب العالمین کی محبت سے
دلوں کی کسک اور روح کی تڑپ بڑھاتے رہیں گے اور یہی حیات کا لازمہ اور فکر
مسلم کا مدعا ہے:
تجھ سے اے گل میں ستم دیدۂ دشتِ حرماں
خلش دل کی کہوں یا غم خارِ دامن |
|