چُھٹّی سے چُھٹّی تک

اس لطیفے نما کہانی سے تو سب ہی واقف ہوں گے کہ کسی گاؤں میں معمر ترین بزرگ کا انتقال ہوگیا تو سوگ میں گاؤں کے اکلوتے اسکول میں چُھٹّی کا اعلان کردیا گیا۔ ایک بچے نے اپنے استاد سے پوچھا کہ یہ چُھٹّی کیوں کی گئی ہے؟ تو انہوں نے سمجھایا کہ بیٹا! جب گاؤں کی کوئی بزرگ ہستی انتقال کر جاتی ہے تو اس کے سوگ میں چُھٹّی کی جاتی ہے۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ کچھ دنوں بعد وہی بچہ اپنے کسی دوست کے ساتھ گلی میں کھیل رہا تھا کہ سامنے سے دو بزرگ آتے نظرآئے۔ بچے نے اپنے دوست کو کہنی سے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا، ’’سامنے دیکھ! دو چُھٹّیاں آرہی ہیں۔‘‘

عشرت کدے کا صاحبِ اختیار مکین چودہ برس سے شطرنج کی بساط بچھائے سیڑھی اور سانپ کا کھیل کھیل رہا تھا۔ وہ اپنے انتہائی مستعد پیادوں کے ساتھ حریف کی ہر چال کو مسکرا مسکرا کے ناکام بنا دیتا تھا۔ صاحبِ اختیار ہونے کے ناتے جب جی چاہتا، علاج تیرگی کے بہانے آگ بھی لگا دیتا۔ گھوڑوں کی ڈھائی گھر والی چال ہو، فِیل ہو یا بادشاہ، وہ کبھی انہیں آگے بڑھنے کے لیے اپنے کاندھوں کی سیڑھی پیش کردیتا۔ ان کے مفادات کا پور اپورا خیال رکھتا ساتھ اپنے مفادات پر بھی زد نہ آنے دیتا۔ لیکن وقت آنے پر اس کے پیادے سانپ کا کردار بھی بخوبی ادا کرتے۔ اچانک کسی بِل سے نکلتے اور اپنے ہدف کو ڈس کر واپس بل میں گھس جاتے۔ سرکاری اہل کار سر ٹکراتے رہ جاتے، بڑکیں مارتے رہتے کہ لاقانونیت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ (گویا لاقانونیت کا ارتکاب کرنے والے اُن سے اجازت مانگ رہے ہوں۔) قاتلوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، ہم قاتلوں تک پہنچ گئے ہیں۔ سانپوں کے بلوں کا پتا چلا لیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔

مزے کی بات یہ کہ وہ سانپ دودھ کہاں سے حاصل کرتے اور کام لینے کے بعد انہیں کہاں پناہ دی جاتی؟ یہ ایک کھلا راز تھا پھر بھی مصلحت کے مارے شہر اقتدار کے لٹیرے چشم پوشی اور عشرت کدے کے مکین کی سرپرستی پر مجبور تھے کیوں کہ وہ ان کے حصے بھی بڑی دیانت داری سے ادا کیا کرتا تھا۔

البتہ کبھی کبھی لوگوں کو بے وقوف بنانے اور مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے وہ جھوٹ موٹ اپنے لاڈلے سے ناراضی اور اسے عشرت کدے سے بے دخل کرنے کی دھمکیاں بھی دے دیتے۔

عشرت کدے کا صاحبِ اختیار مکین بھی کچھ کم سیانا نہ تھا۔ وہ بھی جب شہر اقتدار کے لٹیروں کے ماتھے پر کوئی شکن دیکھتا تو فوراً اپنی شطرنج کی بساط سمیٹ، بغل میں داب، پردیس کی راہ لیتا۔ اس کے لیے تو وہ اپنے باپ کی بھی پروا نہیں کرتا تھا جس نے اسے نہ صرف زمانے کے سرد وگرم سے بچایا بلکہ اس عشرت کدے کا مکین بناکے ایک محفوظ پناہ گاہ بھی دی تھی۔

واقفِ حال راوی بتاتے ہیں کہ عشرت کدے کا یہ مکین چار مرتبہ اپنا استعفیٰ بھی پیش کرچکا تھا لیکن ہر مرتبہ شہر اقتدار کے لٹیروں نے خوشامد کر کے اور پردیس میں بیٹھے باپ نے کبھی بہلا پھسلا کر تو کبھی ڈانٹ کر استعفیٰ واپس لینے پر مجبور کردیا۔

پھر یوں ہوا کہ جانے کب اور کیسے اس کی بساط پر موجود کچھ سانپ اس کی آستینوں میں گھس گئے اور عشرت کدے کے اس مکین کو خبر ہی نہ ہوسکی۔ چناں چہ وہی ہوا جو آستین کے سانپ کیا کرتے ہیں۔ عشرت کدے کے اس مکین کی من مانی اتنی بڑھی کہ اس کے والد بزرگوار بھی پریشان ہوگئے۔ آخر تنگ آکر ایک روز انہوں نے اس سے اپنی بریت کا اعلان کرتے ہوئے عاق کردیا۔ عشرت کدے کے مکین کے لیے یہ عاق نامہ نئی بات تو نہ تھی کہ اس کے والد یہ فرمان آئے روز اپنی دوسری اولادوں کے لیے بھی جاری کرتے رہتے تھے بلکہ خود بھی انہیں چھوڑ جانے کی دھمکی دیتے تھے، لیکن ہوتا یہ تھا کہ وہ ایک سانس میں خود انہیں چھوڑنے یا کسی دوسری اولاد کو گھرسے نکالنے کی دھمکی دیتے اور فوراً دوسری ہی سانس میں اپنا فرمان واپس لے لیتے کہ اولادوں کی طرف سے ’’ نہیں__ نہیں__ ایسا نہ کریں۔ ہم آ پ کے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘ وغیرہ کی صدائیں اٹھنے لگتیں۔

شہر اقتدار کے موجودہ لٹیرے جب سے مسندِ اقتدار پر قابض ہوئے تھے، عشرت کدے کے اس مکین کو بے دخل کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے۔ انہیں بھی اب سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل سمجھ میں آنے لگا تھا۔ لیکن وہ کسی مناسب موقعے کی تاک میں تھے۔ آخر تین ساڑھے تین برس بعد انہیں یہ موقع مل ہی گیا جب آستین کے ایک سانپ نے عشرت کدے کے اس مکین کو ڈس لیا اور اس کے کچھ راز فاش کردیے۔ اگرچہ اس نے اپنے دفاع میں فوراً ہی آستین کے اس سانپ پر خاصے کاری جوابی وار کیے لیکن شاید اب قسمت کی دیوی بھی اس سے روٹھ چکی تھی۔ اس نے شہر اقتدار کے اپنے دوستوں کو بھی پکارا لیکن انہوں نے کہا کہ یہ تم بھائیوں کا آپس کا معاملہ ہے۔ خود ہی نمٹاؤ، ہم بہرحال تمہارے ساتھ ہیں۔ عشرت کدے کا مکین مطمئن ہوگیا۔ ویسے بھی اتنے طویل عرصے میں اسے اس عشرت کدے کی ایسی عادت ہوگئی تھی کہ وہ جانتا تھا، یہاں سے ’’اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے۔‘‘ والا معاملہ ہوگیا۔ اس کا تو پورے ملک میں اس عشرت کدے کے سوا کوئی ٹھکانا بھی نہیں تھا جہاں وہ چند گھنٹوں کے لیے سہی، وقت گزار سکے۔ اس نے اپنے سارے ’’غریب خانے‘‘ بیرونی ممالک میں بنوا رکھے تھے۔ آخر کوئے یار سے نکل کر دیارِ غیر ہی جانا تھا۔

ادھر شہر اقتدار کے چند سیانے لٹیرے سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنے بادشاہ سلامت کو مشورہ دیا کہ عشرت کدے کے مکین کو بے دخل کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ وہ آستین کے سانپوں سے نبردآزما ہے تو کیوں نہ ٹرپل ’’ون‘‘ بریگیڈ بھیج دی جائے۔ مشورہ تو بادشاہ سلامت کے جی کو لگا لیکن مشکل یہ تھی کہ اس کی جگہ دوسرا مکین کون ہو؟ کیوں کہ ازروئے قانون، عشرت کدے کی کنجی صرف اس شخص کو مل سکتی تھی جو ایک مخصوص زبان بولتا ہو۔ جلدی جلدی اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو وہ ایک پیرِ تسمہ پا جنہیں، بزرگ بھی کہا جسکتا ہے، پر جا کر ٹک گئیں۔ اُس سے انہیں کسی قسم کی ہینکی پینکی یا سانپ سیڑھی کے کھیل کی امید بھی نہیں تھی بلکہ یہ اطمینان تھا کہ پرانی وابستگی کی بِناء پر وہ بہترین ’’جی حضوریا‘‘ ثابت ہوگا۔ چناں چہ ایک فون اُدھر گیا اور بتایا گیا کہ آپ کے سر پر ہما بٹھایا جا رہا ہے۔ ہم آپ کو عشرت کدے کا نیا مکین بنانا چاہتے ہیں، کیا آپ تیار ہیں؟ بزرگ کو اوّل تو نہ کہنے کی عادت نہیں تھی دوسرے انہوں نے سوچا کہ آخری عمر میں اگر مزید عیش وعشرت سے گزارنے کا موقع مل رہا ہے تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔ چناں چہ اپنی صحت کی پروا کیے بغیر جھٹ ہاں کردی۔ بس پھر کیا تھا۔ بادشاہ سلامت نے فوراً منادی کرا دی کہ عشرت کدے کے موجودہ مکین کی چُھٹّی کردی گئی ہے اور ان کی جگہ مذکورہ بزرگوار کو دی جا رہی ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل رات ساڑھے دس بجے عشرت کدے ہی میں عمل میں آئے گا۔ آن کی آن میں بادشاہ سلامت کا فیصلہ ملک کے سارے بھونپوؤں پر گونجنے لگا ۔ خود عشرت کدے کے مکین کو اپنی بے دخلی یا چُھٹّی ہونے کی خبر انہی بھونپوؤں کے ذریعے ملی۔ وہ حیران رہ گیا۔ اس نے بادشاہ سلامت سے رابطہ کرکے شکوہ کرنا چاہا کہ حضور! ٹرپل ’’ون‘‘ بریگیڈ بھیجنے کی کیا ضرورت تھی، ہم سے کہہ کر تو دیکھا ہوتا۔ ہم خود اپنا استعفیٰ رکابی میں رکھ کے بھجوا دیتے مگر وہاں تو درباریوں نے بادشاہ سلامت تک رسائی ہی نہ ہونے دی اور اسے شام سے پہلے پہلے عشرت کدہ خالی کرنے کا حکم سنا دیا۔ آخر بڑی خوشامد کے بعد اتنی مہلت دی کہ وہ شام کی بجائے رات تک خالی کردیں کیوں کہ صبح ہر حال میں نئے مکین کو آنا ہے۔
عشرت کدے کے مکین نے اپنی بساط کی گٹھڑی باندھ کے بغل میں دبائی اور حسرت بھری نظروں سے عشرت کدے کو دیکھتا ہوا یوں باہر نکلا گویا زبان حال سے کہہ رہا ہو۔
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

سیدھا بابا کے مزار پر گیا کہ اب دوبارہ یہاں آنا نصیب ہوکہ نہ ہو۔ حاضری دی اور وہاں سے ایئر پورٹ کی راہ لی۔ پردیس جانے کے لیے۔ رام نے سیتا کے لیے چودہ برس کا بن باس کاٹا تھا اور عشرت کدے کے اس مکین کے دور میں اس کی قوم بن باس کاٹتی رہی۔

دوسری صبح ملک بھر کے لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ عشرت کدے کا نیا مکین تنہا نہیں ہے بلکہ یہ ذمے داری بیک وقت تین لوگوں کو سونپی گئی ہے۔ آئین تو اس کی اجازت نہیں دیتا چناں چہ حلف تو بزرگوار ہی نے اٹھایا، لیکن اپنے دونوں بغل بچوں کی مدد سے، جو انہیں دونوں طرف سے سہارا دیتے ہوئے حلف برداری کے اسٹیج تک لائے تھے۔ اب یہ ایک غیرتحریری معاہدہ ہے کہ عشرت کدے کے اس مکین کے ساتھ دو بغل بچے بھی ہوں گے جو نہ صرف ان کے آگے فائلیں کھولیں اور بند کریں گے بلکہ ان کا ہاتھ پکڑ کر دستخط بھی کروائیں گے۔

کسی نے بادشاہ سلامت نے دریافت کیا، یہ آپ نے کیا کیا؟ آپ کو معلوم ہے اس عشرت کدے کے مکین کی ذمے داریاں دوسروں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ بادشاہ سلامت سے پہلے ان کے کسی مصاحب نے جواب دیا۔
’’یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں‘‘

شنید ہے کہ عشرت کدے کے نئے مکین کی خرابیِ صحت کے پیش نظر شہر اقتدار کے اس محل میں غور کیا جا رہا ہے کہ اس غلطی کا ازالہ کیوں کر کیا جائے۔

اب اس بارے میں کب اور کیا فیصلہ ہوتا ہے؟ یہ تو وقت بتائے گا۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ گاؤں کے بچے اس بات پر خوش ہیں کہ انہیں جلد ہی ایک اور چُھٹّی ملنے والی ہے۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ عشرت کدے کے پاس پڑوس میں واقع ہسپتالوں کی آمدنی میں یک بہ یک بہت زیادہ اضافہ بھی ہوگیا ہے کہ اس کے نئے مکین اپنا زیادہ وقت استراحت میں گزارنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
Humaira Ather
About the Author: Humaira Ather Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.