واقعہ کربلا سے منسوب اصنافِ سخن

واقعہِ کربلا تاریخِ عالم میں رونما ہونے والے چند بڑے واقعات میں سے ایک ہے ۔ اگرچہ اس واقعے کو رونما ہوئے سینکڑوں برس گزر چکے ہیں لیکن ہر زمانے میں انسانی زندگی اور تہذیب پر اس واقعے کے اثرات مرتب ہوئے۔ اردو ادب اور باالخصوص اردو شاعری پر واقعہ کربلا کے نقوش نہایت واضح نظر آتے ہیں۔ اردو زبان کے پہلے صاحبِ دیوان شاعرقلی قطب شاہ سے لیکر دورِ حاضر کے نمائندہ شعراء تک ہر ایک نے اس جبرو استبداد کی داستان پر نوحہ گری کی ۔ واقعات ِ کربلا بیان کرنے کیلئے اردو شاعری میں جس صنف کوبہت زیادہ استعمال کیا گیا وہ مرثیہ ہے۔مرثیہ بلحاظ موضوع دو اقسا م کا ہوتا ہے۔ ایک شخصی مرثیہ جس میں کسی عزیز یا کسی بڑی شخصیت کے انتقال پر اس کے اوصاف بیان کر کے اظہارِ تاسف کیا جائے اور دوسری قسم میں واقعاتِ کربلا اور شہدائے کربلا کے اوصاف ، ان کی اسیری اور مصائب کابیان ہوتا ہے ۔ ذاتی مراثی میں اسد اﷲ خان غالب ؔکا اپنے عزیز زین العابدین عارف کی موت پر لکھا ہوا مرثیہ اور علامہ اقبال کا نواب مرزا داغ کی وفات پر لکھا گیا مرثیہ مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک مرثیے کی ہیت کا تعلق ہے تو دور ِ قدیم میں مراثی غزل کی ہیت میں لکھے جا تے تھے جیسا کہ قلی قطب شاہ اور دکن کے آخری فرمانروا میر عثمان علی خان کے مجموعہ ہائے کلام میں موجود مراثی سے پتہ چلتا ہے ۔ بعد ازاں مرثیہ کی ہیت تبدیل ہوتی چلی گئی۔ میر ضمیر کے زمانے تک مراثی مسمط کی مختلف اقسام ہیں لکھے جاتے تھے لیکن میر ضمیر نے مرثیہ کیلئے مسّدس کی ہیت کو مخصوص کیا اور اس میں اختراعات کیں۔ ان اختراعات میں چہرہ، جنگ کا بیان ، گھوڑے اور تلوار کی تعریف ، فن ِ سپاہ گری کے داؤ پیچ کا بیان شامل کیا گیا ۔ بعد ازاں انیس و دبیر جیسے مرثیہ نگاروں نے ان اختراعات کو اپنے زورِ بیان سے نیا رنگ دیا ۔اردو شاعری کی ابتدا دکن سے ہوئی اور ان ابتدائی کوششوں میں مرثیہ کی صنف شامل تھی۔شاہانِ گولکنڈہ و بیجاپور نہ صرف خود با کما ل شعراء تھے بلکہ انہوں نے اپنے مخصوص عقائد کی وجہ سے مرثیہ نگاری کی سر پرستی بھی کی ۔میر تقی میرؔ نے ’’نکات الشعراء‘‘ اور میر حسنؔ نے اپنے تذکرہ میں کہی ایسے شعراء کا حال لکھا ہے جو کمال کے مرثیہ گو تھے ۔ان اعلیٰ درجے کے مرثیہ نویسوں میں میر امانی ؔ، میر آلِ علی درخشاں ؔ، سکندرؔ، صبر، قادرؔ،گمانؔ اور ندیم ؔوغیرہ شامل تھے۔میر و سودا نے بھی مرثیہ نگاری کو اپنایا ۔میر ضاحک اور میر حسن نے بھی مراثی لکھے تا ہم انیس و دبیر کے زمانہ میں مرثیہ کو کمال حاصل ہوا ۔ جوش ملیح آبادی نے بھی اس صنف کی شکل و صورت سنوارنے میں اپنا حصہ ڈالا ۔انہوں مرثیہ کے چہرہ میں فلسفیانہ مضامین کو شامل کر کے اس کو جدّت سے آشنا کیا ۔ بعد میں آنے والوں میں محسن نقوی ؔ، ڈاکٹر شبیہ الحسنؔ اورڈاکٹر ہلال نقوی ؔ نے اس علم کو اُٹھائے رکھا۔مرثیہ گوئی اگرچہ ایک معروف صنفِ سخن کے طور پر اردو شاعری میں رواج پا چکی ہے لیکن بعض نقاد اسے مذہبی دستاویز سمجھ کر اس سے گریزاں نظر آتے ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کے مختلف نقادوں نے مرثیہ گوئی کے حق اور مخالفت میں اپنی آراء کا ا ظہار ۔محمد حسین آزادؔ، مولانا الطاف حسین حالیؔ اور مولاناشبلی نعمانیؔ نے مرثیے کے متعلق مثبت انداز میں بات کر کے اسے ادبی جامعیت عطا کی ۔ مولانا شبلی نعمانی کے خیال کے مطابق مرثیے میں جملہ اصنافِ سخن یعنی غزل ، قصیدہ اور مثنوی وغیرہ کا رنگ و آہنگ موجود ہے ۔ محمد حسین آزادؔ ، مولانا الطاف حسین حالیؔ اور مولانا شبلی نعمانیؔ کے حوالے سے پروفیسراحتشام حسین نے مرثیے کی صنف پر اظہار خیال کر تے ہوئے کہا ہے کہ’’اس دور کے تین بڑے اہم ترین نقادوں (آزاد ، حالی ، شبلی) میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں مرثیہ گوئی کے متعلق اظہار ِ خیال کر کے اس غلط فہمی کا پردہ چاک کیا ہے کہ ان کا تعلق صرف مذہبی ادب کے محدود دائرے سے ہے ‘‘ ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ ‘‘ میں مرثیے کو ’’پرزم‘‘ (Prism)سے نسبت دے کر مرثیے کے خلاف اُٹھنے والی آوازوں کو خاموش کر دیا ورنہ گیان چند جیسے معروف محقق نے اپنی کتاب ’’تحقیق کا فن ‘‘ میں یہ فتوی دے رکھا تھا کہ کچھ موضوعات جو سر ا سر مناظراتی ہیں ، محقق کو ان کی طرف رُخ نہیں کرنا چائیے اورگیان چند نے ان سات موضوعات میں ’’اردو میں مرثیہ نگاری‘‘ کا موضوع بھی شامل کر رکھا ہے ۔ معروف نقاد ڈاکٹر محمد آفتاب احمد نے ادبی مجلے ’’دریافت‘‘ اسلام آباد کے ستمبر ۲۰۰۴؁ء کے شمارے میں مرثیے کے متعلق درج ذیل رائے کا اظہار کیا ’’انیس و دبیر کا مقصد رونا اور رُلانا تھا ،خواہشوں کا ماتم کرنا تھا، وہ زندگی اور عمل سے فرار چاہتے تھے ۔ اُن کی شاعری میں افسردگی اور مایوسی ہے‘‘۔حالانکہ فیض احمد فیض جیسے قادر الکلام شاعر نے مرثیہ کی مقبولیت کے بارے میں ادبی جریدے’’ میزان‘‘ (۱۹۶۲؁ء) میں ایک جگہ لکھا تھا ’’مرثیہ نویسوں کا کلام اس لیے قابلِ قدر ہے کہ انہوں نے عوام کی طرف رجوع کیا ہے ‘‘۔ڈاکٹر طاہر تونسوی نے بھی اپنے تحقیقی مقالے میں یہ بات بہت واضح انداز میں کہی ہے کہ ’’انیس و دبیر کے دور کے مرثیے کا تعلق براہِ راست عوام سے ہوا اور اس طرح مرثیے کی جدید روایت کا بھی آغاز ہوا‘‘مثال کے طور پر انیس و دبیر کے مراثی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں جس میں صبحِ عاشور کا منظر بیان کیا گیا ہے ۔
وہ صبح اور چھاؤں ستاروں کی اور وہ نور
دیکھے ‘ تو غش کرے ارنی گوئے اَوجِ طور
پیدا گُلوں سے قدرت اﷲ کا ظہور
وہ جا بجا درختوں پہ تسبیح خواں طیور
گلشن خجل تھے وادی ِ مینو اساس سے
جنگل تھا سب بسا ہوا پھولوں کی باس سے
(میر انیس)

پیدا شعاعِ مہر کی مقراض جب ہوئی
پنہاں درازیِ پر طاؤس ِ شب ہوئی
اور قطع زلفِ لیلئیِ زہرہ لقب ہوئی
مجنوں صفت قبائے سحر چاک سب ہوئی
فکر ِ رفو تھی چرخِ ہنر مند کے لئے
دن چار ٹکڑے ہو گیا پیوند کے لئے
(مرزا دبیر)

واقعہ کربلا کے حوالے سے رواج پانے والی ایک اور صنفِ سخن ’’سلام‘‘ ہے ۔ ابتدا میں اس صنفِ سخن میں سلامی اور مجرئی کے الفاظ کاا لتزام ضروری رکھا گیا لیکن بعد میں یہ غزل کے مشابہ ہو گیا۔ آج سلا م کی ہیت اور تکنیک وہی ہے جو غزل کی ہے ۔ مطلع و مقطع کا اہتمام اور قافیہ و ردیف کاا لتزام ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ غزل کی طرح شاعرانہ تعلّی ، فخرو مباہات اور قطعہ بندی سلام میں بھی مستعمل ہے ۔ اشعار کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ تعداد بھی وہی ہے جو غزل کے اشعار کی ہوتی ہے ۔ سلام کی صنف کے موجد لکھنو کے مرثیہ گو ہیں جنہوں نے مرثیہ میں غزل کے اسلوب کی داغ بیل ڈالی۔ اس صنف کو رواج دینے والوں میں میر ضمیرؔ ، دلگیرؔ اور فصیحؔ کے نام قابل ِ ذکر ہیں۔دورِ حاضر کے تمام نمائندہ شعراء نے اس صنف ِ سخن میں طبع آزمائی کی ۔چند ایک شعراء کا نمونہ ٔکلام مثال کے طور پر حاضر ہے۔
لب پر شہداء کے تذکرے ہیں
لفظوں کے چراغ جل رہے ہیں
(احمد ندیم قاسمی)
علم ہوئے ہیں جہاں استخواں زمینوں میں
مجھے تلاش ِ زرِ حرف ان دفینوں میں
(اختر حسین جعفری)
یا رب دکھا دے ایک جھلک اس شہید کی
جس نے لہو پہن کے محرّم میں عید کی
(اقبال ساجد)
کچھ اس لئے بھی لٹائے تھے جا ن و تن اُس نے
کہ زندگی کو سکھانا تھا اک چلن اُس نے
(اعزاز احمد آذر)
پیاس میں بھی تھا جن کو احترام پانی کا
ان کو بھیج مشکیزہ صبح و شام پانی کا
(افضل گوہر)
کرب و بلا میں یاد ہے غربت حسینؑ کی
لازم ہے ہم پہ دوستو مدحت حسینؑ کی
(اوصاف شیخ)
جو کوئی جادۂ شبیرؑ سے ہٹ جاتا ہے
باخدا فکرِ پس و پیش میں بٹ جاتا ہے
(شہاب صفدر)
’’ نوحہ‘‘ واقعۂ کربلا کے حوالے سے شاعری کی ایک اور قسم ہے ۔ نوحہ بھی ہیت کے لحاظ سے غزل کی طرح لکھا جاتا ہے مگر سلام اور نوحے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سلام میں مدحت کے اشعار بھی شامل ہوتے ہیں جبکہ نوحہ میں یہ اہتمام نہیں ہوتا ۔ نوحہ کے تمام اشعار نہایت پُر درد ہوتے ہیں جس میں شہدائے کربلا کے مصائب اور تکالیف کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے ۔دورِ اولین کے شعرء میں منصورؔ اور واجد علی شاہؔ نے نوحے لکھے ۔دورِ حاضر میں بھی اس صنف پر کافی کام ہوا اور ہر نمائندہ شاعر نے اس صنف میں جی بھر کر لکھا ۔
بانو نے یہ اصغر سے کہا گود کے پالے‘ او گیسوؤں والے
یوں پڑ گیا تو شمر ستم گار کے پالے ‘ او گیسوؤں والے
(منصورؔ)

سکینہ کہتی تھی رو کر مرے بے سر مرے بھائی
علی اکبر علی اکبر مرے بے سر مرے بھائی
(واجد علی شاہ)

ایک اور صنف ِ سخن جو واقعہ کربلا کے حوالے سے مستعمل ہے وہ ’’ندبہ‘‘ ہے ، ’’ندبہ‘‘ نوحہ وشیون کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اصطلاح میں ’’ندبہ‘‘ وہ لفظ ہے جو مصرع کے آخرمیں آتا ہے اور بین کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔یہ صنف وقت کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتی چلی گئی تاہم اس کا نمونہ واجد علی شاہ اور چند دوسرے شعراء کے ہاں موجود ہے ۔
حضرتِ خیر ِ نسا کا جایا حسین حسین حسین حسین
پانی نہ اس نے دشت میں پایا حسین حسین حسین حسین
تیر لگے تلواریں پڑی ہیں برچھیاں غم کی دل میں گڑی ہیں
بھال سروہی نیزہ لگایا حسین حسین حسین حسین

درج بالا اصنافِ سخن کے علاوہ اردو شاعری کی دیگر اصناف میں بھی ہمیں کربلا کے استعارے اور علامتیں جا بجا نظر آتی ہیں۔مشکیزہ ، پیاس ،پانی، فرات ،ہجرت، دریا، ریت، علم اور اس جیسی اور کئی علامتیں ہماری اردو شاعری میں مستعمل ہیں۔واقعہ کربلا سے منسوب شاعری ہمارے ادب کا بیش قیمت اثاثہ ہے او ر اس نادر و نایاب رثائی اثاثے کو ہم نے سنبھال کر رکھنا ہے ۔
Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 22 Articles with 55994 views Actual Name. Khalid Mehmood
Literary Name. Khalid Mustafa
Qualification. MA Urdu , MSc Mass Comm
Publications. شعری مجموعہ : خواب لہلہانے لگے
تحق
.. View More