امریکی میڈیاحواس باختہ ہے کہ ان کے حالیہ
انتخاب پرسارے عوامی سروے یکسر مستردہوکران کامنہ چڑارہے ہیں لیکن امریکی
عوام نے گدھے پرمہرلگا کر گدھے کوسرخروکردیاہےلیکن کیانئے امریکی
صدراسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں یکسر تبدیل کرنے اورعوام سے کئے گئے وعدے شرمندۂ
تعبیرہوں گے؟اگر قارئین کویادہوتواوبامانے بھی قصرسفیدپہنچنے کیلئے اپنی
انتخابی مہم میں انہوں نے(خاکم بدہن)کعبتہ اللہ پربھی حملے کاعندیہ دیا تھا
لیکن کامیاب ہونے کے بعد انہوں نے عالم اسلام سے خطاب کیلئے اپنے خاص
کارندے مصری صدر حسنی مبارک کے آستانے کواستعمال کرتےہوئے اپنی نیک
خواہشات کااظہار کرتے ہوئے تعاون طلب کیاتھا۔ نئے صدرٹرمپ نےاپنی انتخابی
جارحانہ مہم میں اپنی جن پالیسیوں کااظہارکیاہے اس کے ردّعمل میں ہلیری
کلنٹن نے شکست قبول کرتے ہوئے اپنے پیغام میں ایک انتہائی اہم اعتراف کیاہے
کہ’’ وہ امریکاکے نئے بدلتے ہوئے حالات کوسمجھنے سے قاصر رہیں کہ امریکااس
قدرتبدیل ہوگیاہے‘‘۔ نئے منتخب صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں یہ وعدہ
بھی کیاہے کہ وہ دنیا کے دیگرممالک سے امریکی افواج کو واپس بلانے پرپوری
توجہ دیں گے جب کہ امریکی فوج جولائی کے اختتام پراوکی ناوامیں ۴۰ مربع
کلومیٹرکاعلاقہ جاپانی حکومت کے قبضہ میں واپس دینے کااعلان کرچکی ہے ۔جاپان
میں اس وقت ۳۰ہزارامریکی فوجی تعینات ہیں ۔۱۹۷۲ء میں جاپان پرامریکا کاقبضہ
ختم ہونے کے بعد سے اب تک واپس کی جانے والی زمین میں یہ سب سے بڑا رقبہ
ہے۔یہ فیصلہ جون میں مقامی خاتون کی عصمت دری اورقتل کے بعد ہونے والے
امریکا مخالف احتجاج کے نتیجے میں سامنے آیا۔حالیہ دنوں میں ترکی میں بھی
امریکی اڈوں کی مخالفت دیکھنے میں آئی ہے۔جولائی میں ہونے والی ناکام فوجی
بغاوت کے بعد سے بہت سے ترک یہ الزام لگاتے ہیں کہ انکریلک ائربیس پرتعینات
امریکی فوجی بھی منصوبہ سازو ں میں شامل ہیں۔بغاوت کے تین دن بعد حکومت کے
حامی صحافی یوسف کپلان نے ٹویٹ کیا:امریکا!تم جانتے ہوکہ تم سب سے بڑے دہشت
گردہو،ہم بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس بغاوت کے پیچھے تمہارا ہاتھ
ہے،ہم بیوقوف نہیں ہیں۔
امریکا کے غیرملکی فوجی اڈے دنیابھرمیں کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں،امریکا کے
ستر سے زائد ممالک میں تقریبا۸۰۰کے قریب فوجی اڈے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق
ڈیڑھ لاکھ امریکی فوجی دوسرے ممالک میں تعینات ہیں۔جس میں سے۴۹۰۰۰ا جاپان
میں، ۲۸۰۰۰جنوبی کوریا میں اور۳۸۰۰۰جرمنی میں ہیں۔جنگ زدہ علاقوں کے علاوہ
تعینات فوجیوں کے سالانہ سوارب ڈالر کے اخراجات امریکی حکومت کو برداشت
کرنا پڑتے ہیں۔بیسویں صدی کے بیشتر عرصے میں غیر ملکی فوجی اڈوں کے لیے
سوویت یونین کے خطرے کو جواز بنایا گیا،اور اس جواز کے خاتمے کے بعد وقت کے
ساتھ ساتھ نئے جواز سامنے آتے چلے گئے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سے مشرق وسطی میں
ہونے والی جنگوں نے چند ممالک کی تزویراتی اہمیت میں اضافہ کر دیا جیسا کہ
ترکی اور بحرین (داعش کے خلاف امریکی فضائی کاروائی کے لیے ترکی کی انکریلک
کا فضائی اڈہ استعما ل کیا جاتا ہے)۔دوسری طرف حالیہ عرصے میں چین کی بڑھتی
ہوئی طاقت نے امریکا کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ بحرالکاہل میں اپنی
موجودگی کو مستحکم بنائے۔نائن الیون کے حملوں کے بعد غیر ملکی فوجی اڈوں کی
اندرون ملک حمایت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔۴۸ فیصد امریکیوں کاخیال تھا کہ
فوجی طاقت میں اضافے سے دہشت گردی کم کرنے میں مدد ملے گی۔اب بھی اتنے ہی
لوگ اس بات کی حمایت کرتے ہیں،لیکن ۴۷ فیصد لوگ ایسے بھی ہیں جن کا کہنا ہے
کہ غیر ملکی فوجی اڈے ملک کے خلاف نفرت میں اضافہ کرتے ہیں، جس سے دہشت
گردی بڑھتی ہے۔امریکی یونیورسٹی کے شعبہ بشریات کے پروفیسرڈیوڈ وائن کاکہنا
ہے کہ جہاں تک غیرملکی فوجی اڈوں کاتعلق ہے،بیشترامریکیوں کو ان اڈوں کے
بارے میں زیادہ معلومات ہیں ہی نہیں اوراگروہ کچھ جانتے بھی ہیں توامریکی
فوج کے بارے میں بیشترلوگوں کاتاثرمثبت ہی ہے،اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ فوج
جہاں بھی ہوگی ٹھیک ہی کر رہی ہوگی۔صدارتی مہم کے دوران صرف ٹرمپ نے دوسرے
ممالک میں فوج کی تعیناتی کی ضرورت اور اس پر آنے والے اخراجات پرسوال
اٹھایاتھا،ان کے علاوہ کسی نے اس بارے میں سوال تک نہیں کیا۔
بیرون ملک تعینات امریکی فوج پرآنے والے اخراجات کے بارے میں قائم جھوٹے
مفروضات بھی عوام کی عدم دلچسپی کاواضح ثبوت ہیں۔ پروفیسروائن کا کہنا ہے
کہ ہمارے نام نہاد دفاعی ماہرین بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ان بیرون ممالک اڈوں
پرامریکا کے زیادہ اخراجات نہیں ہوتے،کیوں کہ ان اخراجات کابڑاحصہ مہمان
ممالک خودبرداشت کرتے ہیں،حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی
تفصیلات بتاتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ۲۰۱۳ء میں رینڈ کارپوریشن کے لگائے گئے
تخمینے کے مطابق،فوج کے ایک سپاہی کی بیرون ملک تعیناتی پر دس ہزار سے
چالیس ہزار ڈالر تک اضافی اخراجات ہوتے ہیں۔مسلح افواج میں بیرون ملک
تعیناتی کواب بھی ستائشی نظروں سے دیکھاجاتاہے، اوریہی وجہ ہے کہ ہرکوئی
بیرون ملک تعیناتی چاہتاہے۔لاس اینجلس سے تعلق رکھنے والے اسٹاف سارجنٹ
مارکولوپیزکاکہناتھاکہ میں نے جن لوگوں سے گفتگو کی ان میں سے ۷۵ فیصد
بیرون ملک تعیناتی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ٹینیسی کے ایک اور اسٹاف سارجنٹ
اینڈریومرے کاکہنا تھاکہ نئے بھرتی ہونے والے تقریباً تمام سپاہی اس چھوٹے
سے قصبے سے باہرتعینات ہوناچاہتے ہیں۔ جب میں ان کویورپ میں اپنی تعیناتی
کے قصے سناتاہوں تووہ مزیدخوشی کااظہارکرتے ہیں۔ یورپ، بالخصوص جرمنی،آرمی
رنگروٹوں میں سب سے زیادہ مقبول جگہ ہے۔ سارجنٹ کاکہناتھاکہ جرمنی کے لوگ
دوستانہ مزاج کے حامل ہیں اوربہت اچھابرتاؤکرتے ہیں۔دوسرے سارجنٹ
کاکہناتھا کہ یورپ اس لیے بھی پسندیدہ ہے کیوں کہ وہاں سیرو تفریح کے بہت
سے مقامات ہیں۔
امریکی فوجی دستوں کوبیرون ملک روانگی سے قبل تفصیلی بریفنگ دی جاتی ہے کہ
انھیں وہاں جاکرکیسے حالات کاسامناکرناپڑسکتاہے اوروہاں کس طرح کا
برتاؤرکھناہے۔ سارجنٹ مرے کاکہنا ہے کہ مجھے بتایاگیاتھا کہ جرمن قطار میں
لگنے سے کتراتے ہیں۔ سارجنٹ لوپیزکہتے ہیں کہ انھیں سیول میں تعیناتی سے
پہلے بتایا گیاکہ ان علاقوں میں جانے سے گریزکریں جن کی وجہ شہرت جسم فروشی
ہولیکن اوکی ناوامیں ہونے والے واقعہ نے یہ واضح کر دیا کہ بیرون ملک
تعینات ہونے والے تمام فوجی اس بریفنگ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔سام انکل
کے’’پے چیک ‘‘ان علاقوں کی معیشت میں اہم کردارادا کرتے ہیں،جہاں فوجی اڈے
موجودہیں لیکن فوجیوں کی تنخواہوں کازیادہ تر حصہ نائٹ کلب اور شراب خانوں
میں ہی خرچ ہوتاہے، جوکہ زیادہ ترمسائل کی وجہ بنتے ہیں۔پینٹا گون نے گزشتہ
پندرہ بیس سالوں میں سمندرپارتعینات فوجیوں اوروہاں کی مقامی آبادیوں کے
درمیان تعلقات کوبہتربنانے کے لیے۲۰۰۶ء میں امریکاکے ملٹری کوڈ آف جسٹس
میں انسداد جسم فروشی کا قانون متعارف کروایا(جس پر جرمنی میں تعینات
فوجیوں نے غصے کااظہاربھی کیا،کیوںکہ وہاں جسم فروشی غیر قانونی نہیں)۔
وزارت دفاع کے مطابق فوجی عدالتوں میں جنسی حملوں کے مقدمات ۲۰۰۹ء میں۴۲
فیصد تھے جو کہ ۲۰۱۲ء میں بڑھ کر ۶۸ فیصد ہو گئے تھے لیکن جاپان اس لحاظ سے
نمایاں ہے کہ وہاں تعینات فوجیوں پر۲۰۱۲ء تک کے اعدادو شمار کے مطابق جنسی
حملوں کے مقدمات میں سے صرف ۲۴فیصد کا کورٹ مارشل ہوا۔
جاپان میں امریکا کی۸۵فیصد فوجی تنصیبات ہیں،جو ملک بھر میں پھیلی ہوئی
ہیں۔یہ دوسری جنگ عظیم میں امریکی قبضے کی میراث ہے۔چھوٹے چھوٹے جزائر پر
مشتمل اوکی ناوا کا تین چوتھائی حصہ امریکی فوج کے قبضہ میں ہے،جہاں۴۹۰۰۰
فوجی تعینات ہیں۔اوکی ناوا کی آبادی امریکیوں کی موجودگی پر سخت غصہ کا
اظہار کرتی ہے،خاص کر ان کی وجہ سے قائم قحبہ خانوں پر ان کے شدید تحفظات
تھے۔یہ قحبہ خانے خاص طور پر امریکی فوجیوں کے لیے بنوائے گئے تھے اور بقیہ
ملک میں پابندی کے۱۲سال بعد یعنی۱۹۷۲ء تک کھلے رہے ۔یہاں امریکا مخالف
احتجاج کی ایک تاریخ ہے،جون میں ہونے والے عصمت دری کے واقعہ پر احتجا ج اس
سلسلے کی تازہ کڑی ہے۔ سب سے بڑا احتجاج۱۹۹۵ء میں کیا گیاجب تین امریکی
فوجیوں نے ۱۲ سالہ معصوم لڑکی کا گینگ ریپ کیا،جس پر شہریوں نے امریکا
مخالف احتجاج میں حصہ لیا۔
ماضی میں بھی امریکی فوج کی موجودگی احتجاج کا باعث بنتی رہی ہے۔ایک اندازے
کے مطابق سرد جنگ کے دوران مغربی جرمنی میں امریکی تنصیبات کی تعداد۹۰۰ تھی،
جس میں فوج کے زیر نگرانی چلنے والے اسپتال، اسکول، شاپنگ سینٹر اور کھیلوں
کے اسٹیڈیم بھی شامل تھے۔یہ کسی بھی ملک میں امریکی تنصیبات کی سب سے بڑی
تعداد تھی۔ مقامی آبادیاں فوجی مشقوں کے باعث ہونے والے شور اور کھڑی کی
جانے والی رکاوٹوں کے خلاف احتجاج کیا کرتی تھیں۔ ۸۰ء کی دہائی میں حزب
اختلاف نے اس احتجاجی مہم میں تیزی پیدا کر دی۔ نیوکلئیر مخالف جذبات نے اس
احتجاج کو مزید غذا فراہم کی۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے ملک
میں امریکی فوج کی موجودگی کے خلاف ان پر پرتشدد حملے شروع کر دئیے،امریکی
فوج کے مرکزی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا اور فوجیوں کے اغوا کے واقعات بھی
رونما ہوئے۔آج اس احتجاجی مہم کے تقریبا تیس سال بعد ۲۰۱۰ء سے امریکی فوج
کا جرمنی سے انخلا جاری ہے،جس کے تحت ۲۳ فوجی تنصیبات جرمن حکومت کو واپس
کی جانی ہیں۔ہین شنابلجو جوشین فرٹ شہر میں جاری ایک ترقیاتی پرگرام کے
سربراہ اور بزنس ڈیولپمنٹ منیجر کے مطابق وہ پرانے امریکی فوجی اڈوں کو
تبدیل کر رہے ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ان کی یاد نہیں ستائے گی،لیکن ہم
یہ بھی نہیں چاہتے کہ یہ چلے جائیں(اس شہر میں ستمبر۲۰۱۴ء سے پہلے بارہ
ہزار امریکی فوجی اوران کے اہل و عیال رہا کرتے تھے،ستمبر میں اس اڈے کو
بند کر دیا گیا)۔ سرد جنگ کے بعد عوام میں امریکی فوجی اڈوں کے حوالے سے غم
و غصہ پایا جاتا تھا، جس کی وجہ سے وہاں موجود امریکی فوجی دباؤ میں رہتے
تھے۔ اور ایسی جگہوں پر امریکا کے خلاف مختلف احتجاجوں کا سلسلہ چلتا رہتا
ہے جیسا کہ ابھی جون میں ریمسٹن بیس کے باہر دیکھنے میں آیا، اس اڈے کے
بارے میں مشہور ہے کہ یہاں سے ڈرون آپریشن کیے جاتے ہیں۔ شنابل کا کہنا ہے
کہ شین فرٹ کے لوگوں کی یادیں اب بھی ان اڈوں سے وابستہ ہیں۔ یہاں(جہاں
پہلے امریکی بیس ہوا کرتی تھی)رہائشی کالونی کی تعمیرات کے دوران بھی لوگوں
نے ایک گھر کو امریکن ہاؤس کانام دیا ہے،اسی طرح اس کالونی میں مختلف سڑکو
ں کے نام بھی امریکی ریاستوں پر رکھے گئے ہیں، جیسے کیلی فورنیا وغیرہ۔
اس کے برعکس ترکی میں امریکی فوج کی موجودگی بھی امریکا مخا لف جذبات کو
ابھارنے کا ایک ذریعہ بن چکی ہے۔ترکی کے ساتھ اس نوعیت کے تعلقات کا آغاز
۱۹۴۶ء میں ہواجب امریکی جہازمیسوری استنبول میں لنگراندازہوا۔اس جہاز
کاپرتپاک استقبال کیاگیا۔ یہی امریکی موجودگی چھ سال بعد ترکی کی نیٹو میں
شمولیت کاپیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں امریکی فوجی
پھیل گئے۔ انقرہ میں امریکی رہائشی کالونیاں،ازمیراوراستنبول میں امریکی
فوج کی عیاشیاں بھی مقامی لوگوں کے خیالات بدلنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔۷۰ء
کی دہائی میں جرمنی کی طرح بائیں بازو کے انقلابیوں نے یہاں بھی امریکی
سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے لیے خطرناک طریقے اختیار کرنا شروع کر دیے۔
مارچ میں ترکش انقلابی آرمی نامی تنظیم نے چار امریکی فوجی اغواء کر لیے
اور اس سے اگلے سال تین نیٹوانجینئربھی اغوا کیے گئے۔اس کے بعد سے ترکی کی
اکثریت، ملک میں امریکی فوج کی موجودگی کو اپنی آزادی میں ایک رکاوٹ
سمجھتی ہے۔۲۰۰۳ء میں ترکی کے لوگوں نے عراق جنگ اور مرسین کی نیول بیس پر
امریکی فوج کی تعیناتی کی تجویز پر سخت احتجا ج کیا۔۲۰۱۱ء میں جب امریکی
بحری جہاز سٹاٹ بودروم کی بندرگاہ پر آیا تو ترک کمیونسٹ پارٹی کے لوگ
ساحل پر کھڑے امریکا مخالف نعرے لگا رہے تھے۔تین سال بعد دو مختلف واقعات
میں ترکش یوتھ یونین کے ارکان نے امریکی اورنیٹواہلکاروں کونشانہ
بنایا۔استنبول میں ان پر مٹی کے تھیلے اورلال رنگ پھینکاگیا۔ اسی طرح کا
ایک واقعہ اس سال انکریلک کے اڈے پر پیش آیا۔ ۲۰۰۹ء میں جب اوباما نے ترکی
کا دورہ کیاتوہزاروں شہریوں نے احتجاج کیاجس میں ہمارے ملک سے’’نکل جا
ؤ‘‘کے نعرے لگائے گئے۔
تاہم امریکی فوج کی ترکی میں موجودگی کے خلاف ہونے والے حملے پالیسی کی
تبدیلی کا مظہرہیں۔جب سے شام کی جنگ شروع ہوئی ہے،امریکی فوج انکریلک کے
فوجی اڈے کو کردوں(وائی پی جی) کی مدد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ جس کا
مطلب ہے کہ بالواسطہ طور پر وہ ترکی کے کچھ حصے کو شامل کر کے ’’کرد
ریاست‘‘ بنانے میں مدد کر رہی ہے۔ امریکا اوراس کی فوج کو یہاں بہت سی
سازشوں میں ملوث سمجھا جاتا ہے۔خاص کر فتح اللہ گولین جو امریکامیں رہائش
پزیر ہیں،ترکوں کی کثیرتعدادملک میں بڑھتی تخریبی سرگرمیوں اورحالیہ بغاوت
کوامریکا،گولین اتحاد کا ذمہ دارسمجھتی ہے۔بغاوت کے بعد انکریلک ایئربیس کے
بند ہونے نے ان سازشوں کو مزید ہوادی۔امریکا کے لیے انکریلک ائر بیس کی
تزویراتی اہمیت یہ ہے کہ وہ داعش کے خلاف کاروائی کے بہانے ترکی کی سرزمین
پر اپنی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے اور یہ موجودگی ترکی سے زیادہ امریکی
مفادات کے لیے اہم ہے۔ اب امریکا مخالفت نے ترک قوم کو متحد کردیاہے۔ اس
بات کا قوی امکان ہے کہ اندرونی کشیدگی میں اضافہ ہونے کے بعدبالآخر
امریکاکوبسترگول کرناپڑے گا۔ اوکی ناوا میں۱۹۹۵ء کے احتجاج کے بعد امریکی
اور جاپانی حکومت اس بات پر راضی ہو گئیں کہ گنجان آباد
شہر’’گینووان‘‘میں’’ فینما‘‘کے ہوائی اڈے کوبندکرکے اڈے کوبند کر کے
نیافوجی اڈہ ماہی گیروں کے گاں ہی نوکومیں تعمیر کیا جائے گا۔ لیکن یہ
منصوبہ بھی مقامی آبادی کے غم و غصہ کو کم کرنے میں ناکام ہو گیا، جس کا
ثبوت فضائی اڈے کی تعمیر کے مخالف سیاستدانوں کی جون میں ہونے والے بلدیاتی
انتخابات میں کامیابی ہے لیکن جاپان کے وزیراعظم ہر حال میں اس منصوبے پر
کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کشیدگی کم کرنے کے لیے کی جانے والی
کوششوں کی ایک ٹھوس وجہ ہے۔ شمالی کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں کی بنیاد پر
دھمکیاں اور جنوبی چین کے سمندر میں چین کی بڑھتی ہوئی جارحیت انہیں اس بات
پر مجبور کیے ہوئے ہیں کہ وہ جاپان کے دفاع کو مضبوط کریں لیکن یہ بات طے
ہے کہ جلدہی امریکاکوعالمی تھانیدار کا کردارختم کرناہوگا۔ |