آپ کی پیدائش 95 سے 99ھ کے دوران
بصرہ، عراق میں ہوئی۔ آپ کی ابتدائی زندگی کی زیادہ تر تفصیلات شیخ
فریدالدین عطار کے حوالے سے ملتی ہیں۔ رابعہ بصری سے جڑی بے شمار روحانی
کرامات کے واقعات بھی ملتے ہیں، جن میں اگرچہ کچھ سچے ہیں لیکن کچھ خود
ساختہ اختراعات بھی ہیں۔ تاہم رابعہ بصری سے متعلق زیادہ تر معلومات و
حوالہ جات وہ مستند مانے جاتے ہیں جو کہ شیخ فریدالدین عطار نے بیان کئے
ہیں جو کہ رابعہ بصری کے بعد کے زمانے کے ولی اور صوفی شاعر ہیں کیونکہ
رابعہ بصری نے خود کوئی تحریری کام نہ کیا۔
رابعہ بصری اپنے والدین کی چوتھی بیٹی تھیں، اسی لئے آپ کا نام رابعہ یعنی
”چوتھی“ رکھا گیا۔ وہ ایک انتہائی غریب لیکن معزز گھرانے میں پیدا ہوئیں۔
رابعہ بصری کے والدین کی غربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جس شب
رابعہ بصری پیدا ہوئیں، آپ کے والدین کے پاس نہ تو دیا جلانے کے لئے تیل
تھا اور آپ کو لپیٹنے کے لئے کوئی کپڑا۔ آپ کی والدہ نے اپنے شوہر یعنی آپ
کے والد سے درخواست کی کہ پڑوس سے تھوڑا تیل ہی لے آئیں تاکہ دیا جلایا
جاسکے لیکن آپ کے والد نے پوری زندگی اپنے خالقِ حقیقی کے علاوہ کسی کے آگے
ہاتھ نہ پھیلایا تھا، لہٰذا وہ پڑوسی کے دروازے تک تو گئے لیکن خالی ہاتھ
واپس آگئے۔
رات کو رابعہ بصری کے والد کو خواب میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
کی زیارت ہوئی اور اُنہوں صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رابعہ کے والد کو
بتایاکہ ”تمہاری نومولود بیٹی، خداکی برگزیدہ بندی بنے گی اور مسلمانوں کو
صحیح راہ پر لے کر آئے گی۔ تم امیرِ بصرہ کے پاس جاؤ اور اُس کو ہمارا
پیغام دو کہ تم (امیرِ بصرہ) ہر روز رات کو سو(100)دفعہ اور جمعرات کو چار
سو (400) مرتبہ درود کا نذرانہ بھیجتے ہو لیکن پچھلی جمعرات کو تم نے درود
شریف نہ پڑھا، لہذٰا اس کے کفارہ کے طور پر چار سو (400) دینار بطور کفارہ
یہ پیغام پہنچانے والے کو دے دے۔
رابعہ بصری کے والد اُٹھے اور امیرِ بصرہ کے پاس پہنچے اس حال میں کہ خوشی
کے آنسو آپ کی آنکھوں سے جاری تھے۔ جب امیرِ بصرہ کو رابعہ بصری کے والد کے
ذریعے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا پیغام ملا تو یہ جان کر
انتہائی خوش ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نظروں میں ہے۔ اُس کے
شکرانے کے طور پر فوراً ایک ہزار (1,000) دینارغرباء میں تقسیم کرائے اور
چار سو (400)دینار رابعہ بصری کے والد کو ادا کئے اور اُن سے درخواست کے جب
بھی کسی چیز کی ضرورت ہو بلاجھجھک تشریف لائیں۔
کچھ عرصے بعد رابعہ بصری کے والد انتقال کر گئے اور بصرہ کو سخت قحط نے
اپنی لپیٹ میں لے لیا،اس قحط کے دوران آپ (رابعہ بصری) اپنی بہنوں سے بچھڑ
گئیں۔ ایک دفعہ رابعہ بصری ایک قافلے میں جارہی تھیں کہ قافلے کو ڈاکوؤں نے
لوٹ لیا اور ڈاکوؤں کے سرغنہ نے رابعہ بصری کو اپنی تحویل میں لے لیا اور
آپ کو لوٹ کے مال کی طرح بازار میں لونڈی بنا کر بیچ دیا۔ آپ کا آقا، آپ سے
انتہائی سخت محنت و مشقت کا کام لیتا تھا۔ اس کے باوجود آپ دن میں کام
کرتیں اور رات بھر عبادت کرتی رہتیں اور دن میں بھی زیادہ تر روزے رکھتیں۔
اتفاقاً ایک دفعہ رابعہ بصری کا آقا آدھی رات کو جاگ گیا اور کسی کی گریہ
وزاری کی آواز سُن کر دیکھنے چلا کہ رات کے اس پہر کون اس طرح گریہ وزاری
کررہا ہے۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ رابعہ بصری اللہ کے حضور سربسجود
ہیں اور نہایت عاجزی کے ساتھ کہہ رہی ہیں: ”اے اللہ! تو میری مجبوریوں سے
خوب واقف ہے۔ گھر کا کام کاج مجھے تیری طرف آنے سے روکتا ہے۔ تو مجھے اپنی
عبادت کیلئے پکارتا ہے مگر میں جب تک تیری بارگاہ میں حاضر ہوتی ہوں،
نمازوں کا وقت گزر جاتا ہے۔ اس لئے میری معذرت قبول فرما لے اور میرے
گناہوں کو معاف کردے۔ “
اپنی کنیز کا یہ کلام اور عبادت کا یہ منظر دیکھ کر رابعہ بصری کا مالک
خوفِ خدا سے لرز گیا اور یہ فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ ایسی اللہ والی
کنیز سے خدمت کرائی جائے بہتر یہ ہوگا کہ اس کی خدمت کی جائے۔ صبح ہوتے ہی
وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے فیصلے سے آپ کو آگاہ کیا اور کہا کہ
آج سے آپ میری طرف سے آزاد ہیں، اگر آپ اسی گھر میں قیام کریں تو میری خوش
نصیبی ہوگی وگرنہ آپ اپنی مرضی کی مالک ہیں لیکن اگر آپ یہ فیصلہ کرتی ہیں
کہ آپ یہاں نہ رہیں گی تو میری بس ایک درخواست ہے کہ میری طرف سے کی
جانیوالی تمام زیادتیوں کو اُس ذات کے صدقے معاف کردیں، جس کی آپ راتوں کو
جاگ جاگ کر عبادت کرتی ہیں۔
اس کے برعکس چند روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ رابعہ بصری کو اُن کی بہنوں
نے قحط کے زمانے میں عتیق نامی ایک ظالم و جابر تاجر کو چند سِکّوں کے عوض
فروخت کردیا تھا جبکہ یہ روایت بھی ملتی ہے کہ رابعہ بصری کی بہنوں نے آپ
کو ایک قافلے والوں کو فروخت کردیا تھا اور اُن قافلے والوں نے رابعہ بصری
کو ایک طوائفہ کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ طوائفہ نے آپ کو ایک کوٹھے پر بٹھا
دیا۔
رابعہ بصری نے گوشہ نشینی اور ترک دنیا کے شوق کے پیش نظر آزادی ملنے کے
بعد صحراؤں کا رخ کیا وہ دن رات معبودِ حقیقی کی یاد میں محو ہوگئیں۔ خواجہ
حسن بصری، رابعہ بصری کے مرشد تھے۔ غربت، نفی اور عشقِ الٰہی اُن کے ساتھی
تھے۔ اُن کی کل متاع حیات ایک ٹوٹا ہوا برتن، ایک پرانی دری اور ایک اینٹ
تھی، جس سے وہ تکیہ کا کام بھی لیتی تھیں۔ وہ تمام رات عبادت و ریاضت میں
گزار دیتی تھیں اور اس خوف سے نہیں سوتی تھیں کہ کہیں عشق الٰہی سے دور نہ
ہوجائیں۔ جیسے جیسے رابعہ بصری کی شہرت بڑھتی گئی، آپ کے معتقدین کی تعداد
میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آپ نے اپنے وقت کے جید علماء، محدثین و فقہا سے
مباحثوں میں حصہ لیا۔ رابعہ بصری کی بارگاہ میں بڑے بڑے علماء نیاز مندی کے
ساتھ حاضر ہوا کرتے تھے۔ ان بزرگوں اور علماء میں سرفہرست حضرت امام سفیان
ثوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے
ہم عصر تھے اور جنہیں امیرالمومنین فی الحدیث کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا
ہے۔ گو اُنہیں شادی کے لئے کئی پیغامات آئے، جن میں سے ایک پیغام امیرِ
بصرہ کا بھی تھا لیکن آپ نے تمام پیغامات کو رد کردیا کیونکہ آپ کے پاس
سوائے اپنے پروردگار کے اور کسی چیز کے لئے نہ تو وقت تھا اور نہ ہی طلب۔
رابعہ بصری کو کثرت رنج و الم اور حزن و ملال نے دنیا اور اس کی دلفریبیوں
سے بیگانہ کردیا۔ رابعہ بصری کے مسلک کی بنیاد”عشقِ الٰہی “ پر ہے۔
ایک مرتبہ لوگوں نے دیکھا کہ حضرت رابعہ بصری جذب کی حالت بصرہ کی گلیوں
میں ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے ہاتھ میں پانی لے کر جارہی ہیں، جب لوگوں
نے پوچھا کہ یہ آپ کیا کرنے جارہی ہیں تو رابعہ بصری نے جواب دیا کہ میں اس
آگ سے جنت کو جلانے اوراس پانی سے دوزخ کی آگ بجھانے جارہی ہوں تاکہ لوگ
اُس معبودِ حقیقی کی پرستش جنت کی لالچ یا دوزخ کے خوف سے نہ کریں بلکہ
لوگوں کی عبادت کا مقصد محض اللہ کی محبت بن جائے۔
ایک مرتبہ رابعہ بصری سے پوچھا گیا کہ کیا آپ شیطان سے نفرت کرتی ہیں؟
رابعہ بصری نے جواب دیا کہ خدا کی محبت نے میرے دل میں اتنی جگہ ہی نہیں
چھوڑی کہ اس میں کسی اور کی نفرت یا محبت سما سکے۔
وفات
رابعہ بصری نے تقریباً اٹھاسی (88) سال کی عمر پائی لیکن آخری سانس تک آپ
نے عشق الٰہی کی لذت و سرشاری کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں تک کہ اپنی
آخری سانس تک معبودِ حقیقی کی محبت کا دم بھرتی رہیں۔ آخری وقت آپ نے اپنے
ولی اور صوفی ساتھیوں کو بتایا کہ ”میرا محبوب و معبود ہمیشہ سے میرے ساتھ
ہے“ |