موجودہ حکومت کا طریقۂ کار یہ ہے کہ وہ جب
مسئلہ میں الجھ جاتی ہےتو اس پر قابو پانےکے بجائےکوئی نیا مسئلہ کھڑا کرکے
اس کی آڑمیں چھپنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس حکمت عملی کو کسی لکیر کو چھوٹا
کرنے کی خاطر اس کے بغل میں اس سے بڑاخط کھینچ دینا کہتے ہیں لیکن اس دوران
نت نئی لکیروں کی تعداداتنی کثیراور اونچائی اس قدر زیادہ ہوگئی ہے کہ ان
کےبیچ سرکار نظر ہی نہیں آتی۔ ۱۰۰۰ اور ۵۰۰ کی نوٹ میں چنگاری لگا کر
وزیراعظم جاپان کی جانب اس خیال سے نکل گئے تھے کہ لوگوں کا غم ان کی یاترا
سے غلط ہوجائیگا اور جب وہ لوٹ کر آئیں گے تو سارا کچھ معمول پر آچکا
ہوگا لیکن ہوا یہ کہ ملک کا بچہ بچہ وزیراعظم کو ایک زبان میں برا بھلا
کہنے لگا۔اب تو عوام کا یہ حال ہے کہ اگر انہیں نوٹ کے ساتھ وزیراعظم کو
بدلنے کا موقع میسر آ جائے تو وہ نوٹ بدلوانے سے قبل پہلے مودی جی کی چھٹی
کردیں گے ۔ اس مرتبہ پہلی بار بی جے پی کی حلیف شیوسینا نے بھی ممتا بنرجی
کے زیر قیادت صدرِمملکت سے ملاقات کرکےاپنی ہی حکومت کے خلاف شکایت کرائی
اور یرقانی قلعہ کے اندر پائے جانے والی بے چینی پر مہر لگا دی ۔
مودی جی نے اس بارنفسِ مسئلہ سے توجہ سے ہٹانے کی خاطر ڈاکٹر ذاکر نائک کے
اسلامک ریسرچ فاونڈیشن پر پابندی لگا دی ۔انہیں یہ خوش فہمی تھی کہ اس سے
برپا ہونے والے سیلاب میں ان کے سارے پاپ بہہ جائیں گے لیکن عوام کی
پریشانی کا یہ عالم تھا کہ کسی نے اس جانب پھٹک کر دیکھنا تک گوارہ نہیں
کیا ۔ کسی اردو یا انگریزی اخبار اس خبر کو شاہ سرخی میں جگہ نہیں دی ۔ بہت
سوں نے تو اسے نظر انداز ہی کردیا ۔جس وقت آئی آرایف پر اوٹ پٹانگ
الزامات لگا کر پابندی لگائی جا رہی تھیمودی جی کی ناک کے نیچے دہلی میں
اروند کیجریوال ان پر برلا گروپ سے ۲۵ کروڈ رشوت لینے کےشواہد پیش کر رہے
تھے ۔ سہارا گروپ سے رشوت لینے کا سنگین الزام بھی مودی پرلگایا گیا اور اس
کے ثبوت جلد ہی طشت ازبام کرنے کا وعدہ کیا گیا۔
مغربی جمہوریت میں رشوت ستانی سیاستدانوں کی مجبوری ہے لیکن ایک ایسے وقت
میں جبکہ وزیراعظم نےکالے دھن کے خلاف دھرم یدھ چھیڑرکھا ہے اور عوام کو
بلی کا بکرہ بنایا جارہا ہے یہ الزامات غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوجاتے
ہیں ۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق نوٹ تبدیلی فیصلے کے بعد ۳۳ لوگایک ہفتہ کے
اندر اس کے سبب ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ محض قیاس آرائی نہیں ہے۔ اخبار نے
مہلوکین کے نام اور علاقہ کے علاوہ موت کی تفصیل بھی درج کردی ہے کہ کس کی
موت حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب ہوئی ، کس نے مایوسی کے عالم میں خودکشی
کرلی اور کون قطار میں کھڑے کھڑے پرلوک سدھار گیا۔ ہندوستان جیسے وسیع و
عریض ملک میں ذرائع ابلاغ کی رسائی بڑے شہروں اور ان کے قرب و جوار تک
محدود ہے اور یہ لوگ انہیں علاقوں میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ دوردراز کےعلاقوں
میں غربت اور سہولیات کی کمی کے باعث حالات بہت خراب ہیں ۔ دیہاتوں میں اس
فتنے کا شکار ہونے والوں کی کمیت اور کیفیت کا اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے۔
بقول شاعر ؎
نوٹ کھو دینے کا احساس تو کم باقی ہے
جو ہوا وہ نہ ہوا ہوتا،یہ غم باقی ہے
جے این یو کے طالبعلم نجیب احمد کے اغواء کو سنگھ پریوار نے دبا دیا۔ اب
سنا ہے پولس نے کسی آٹو رکشا ڈرائیور کا سراغ لگا لیا ہے جو اسے جامعہ کی
جانب لے کر آیا تھا۔ بھوپال کے اندرجعلی انکاونٹر میں ۶ معصوموں کو شہید
کرکے اس معاملے کو گھما دیا گیا اب یہ پتہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ
جیل کے حفاظتی انتظامات میں کیا کمی ہے لیکن نوٹ کی خاطر ہلاک ہونے والوں
کا الزام تو مودی جی کو اپنے سر لینا ہی ہوگا ۔گوا کے اندر وزیراعظم کی
جذباتی تقریر اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں اپنی حماقت کا احساس ہوگیا ہے اسی
لئے اپنے بچپن کی کڑک چائے یاد آگئی مگر کمال ڈھٹائی سے اس بیہودہ فیصلے
کو انہوں نے کڑک فیصلہ قرار دےدیا ۔ اس مماثلت سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ
مودی جی کڑک چائے کس قدر بدمزہ رہی ہوگی اور کیوں انہیں اپنی چائے کی دوکان
بند کرکے سنگھ پریوار کا رخ کرنا پڑا ہوگا؟ لیکن اب وہ دن دور نہیں جب
انہیں چھٹی کا دودھ یاد آجائیگا اور سیاسی دوکان بھی بند ہوجائیگی ۔گواکے
اندروزیراعظم کا ا گھڑیالی آنسووں کے ساتھ ۵۰ دن کا وقت مانگنا اور حالات
نہ سدھرنے کی صورت میں کسی بھی چوراہے پر سزا کیلئے اپےکا ٓپ کو پیش کرنا
دراصل شکست فاش کیکھلی علامت ہے ۔ ۵۰ دن بعد مودی جی کتنی ہلاکتوں کی سزا
بھگتیں گے اور جو گجرات میں مارے گئے کیا ان کا حساب کتاب نہیں ہوگا؟ مودی
جی کی موجودہ حالت زار پر مشتاق عاجز کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
اب تک شکست فاش کی خفت نہیں مٹی
اک جنگ اپنے آپ سے ہارا تھا میں کبھی
مودی جی کی گوا والی تقریر کے بارے میں راہل گاندھی نے کہا کہ کل تک جو
صاحب ہنستے تھے آج وہ رورہے ہیں ۔ مودی جی کے رونے پر کسی کو افسوس نہیں
ہے اس لئے کہ یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے لیکن فی الحال تو سارا ملک
رورہا ہے ۔ عام لوگوں کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور بڑے سرمایہ داروں کے
ہونٹوں پر ہنسی ہے جن کا۷ ہزار کروڈ کا قرض اسٹیٹ بنک آف انڈیا نے چپکے
سےمعاف کردیا۔ ان خوش نصیب لوگوں میں وجئے ملیا بھی شامل ہے جس کا ایک ہزار
۲۰ کروڈ کا بھلا ہوگیا ۔ یہ وہی وجئے ملیا ہے جو بی جے پی کی مدد سے راجیہ
سبھا کا رکن بنا۔ جو وارنٹ کے باوجوددن دہاڑے دہلی سے لندن فرار ہوگیا اور
کھلے عام عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتاہے لیکن سرکار اسے واپس لاکر
ملزمین کی قطار میں کھڑا کرنے کی جرأت نہیں رکھتی ۔ سرمایہ داروں پر نظر
کرم کا یہ سلسلہ پرانا ہے ۲۰۱۳ سے ۲۰۱۵ کے درمیان ۲۹ سرکاری بنکوں نے
ایک لاکھ ۱۴ ہزار کروڈعمداً واپس نہ ہونے والوں کے قرضہ جات معاف کردیئے۔
اس اقدام کو سپریم کورٹ نے بہت بڑا فراڈ قرار دیا اس کے باوجود کسی کا بال
بیکا نہیں ہوا۔
ایک طرف نوٹوں کی تبدیلی سے عوام پریشان ہیں دوسری جانب کالے دھن پر قابو
پانے کادعویٰ کرنے والی بی جے پی کے رہنما جناردھن ریڈی کی بیٹی کی شادی اس
دعویٰ کومنہ چڑھا رہی ہے۔ اس شادی پر خرچ کا تخمینہ ۵۵۰ کروڈ روپئے ہے جس
میں سے ۵ کروڈ تو صرف دعوت دینے پر خرچ کئے گئے ۔ کیا یہ ساری رقم ٹیکس ادا
کرنے بعد بچائی گئی ہے ؟ اگر یہ کالا دھن ہے تو اس کے خلاف لڑنے والی سرکار
کے دیش بھکت جماعت کے سابق وزارائے اعلیٰ یدورپاّ اور شطاران ۵۰ ہزار
مہمانوں میں کیوں شامل ہیں جن کی تفریح کیلئے برازیل سے ناچنے گانے والیوں
کو بلایا گیا ہے۔ سی بی آئی نے غیر قانونی کان کنی کرنے والےسابق بی جے پی
ایم ایل اے کے کالے دھن کا اندازہ ۵ ہزار کروڈ لگایا تھا۔ اس کی زیادہ تر
املاک کو ضبط کرلیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ۴۰ ماہ جیل میں رہنے کے باوجود
اس کے پاس اپنی بیٹی کی شادی پر خرچ کرنے کیلئے ایسی خطیر رقم کہاں سے
آگئی؟ کیا ریڈی کے گھر کا چکر لگانے والے وزیرخزانہ ارون جیٹلی ان سے یہ
سوال کرسکتے ہیں؟ یا ان کی خاص معتمد سشما سوراج اس کا جواب دے سکتی ہیں؟
کالا دھن ختم کرنے والی سرکار کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے؟ بی جے پی کے
مرکزی وزیر سدانند گوڑا بھی اپنے بیٹے کی شادی پر ایک کروڈ ۳۰ لاکھ خرچ
کرچکے ہیں کیا وہ جائز کمائی تھی؟
نوٹوں کی تبدیلی سے رشوت خوری میں کمی کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے اس کی
حقیقت مودی جی کی اپنی کرم بھومی احمدآباد کے اندر منظر عام پر آنے والے
ایک واقعہ کی روشنی میں دیکھیں ۔ کانڈلا پورٹ کے ایک افسر نے کسی کمپنی سے
بجلی کے بل کی ادائیگی کے عوض ۴ لاکھ ۴ ہزار روپئے رشوت طلب کی۔ اس میں سے
۲ لاکھ ۹۰ ہزار کی رقم ۲ ہزار کے نوٹوں کی شکل میں ادا کی گئی ۔ سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ جب ایک کھاتے سے ایک ہفتہ کے اندر صرف ۲۴ ہزار نکالے
جاسکتے ہیں تو رشوت دینے کیلئے یہ رقم کیسے مہیا ہوگئی ؟ اس کا مطلب صاف ہے
بنکوں کے دروازے پر عوام لائن لگا کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کیلئے وقتاً
فوقتاً نئے نوٹختم ہوجاتے ہیں مگر پچھلے دروازے سے یہ ۲۰۰۰ کے نوٹ رشوت
دینے والوں کے ذریعہ لینے والوں تک پہنچا دئیے جاتے ہیں ۔ کیا یہی وہ
بدعنوانی کا خاتمہ ہے جس کیلئے عوام کو قربانی دینے پر ابھارا جارہا ہے؟
پہلے رشوت لینے والوں کو دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں یہ نوٹ نقلی نہ ہوں
لیکن چونکہ ۲۰۰۰ نوٹوں کی نقل اتارنا مشکل ہے اس لئے وہ بلا خوف و خطر
اطمینان کے ساتھ رشوت کا لین دین کرتے ہیں ۔
اروند کیجریوال نے دہلی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں یہاں تک کہہ دیا کہ مودی
جی نے اپنی نااہلی اور ناعاقبت اندیشی کے سبب ۸۰ سالہ ماں ہیرا بین کو لائن
میں لگوادیا اور انہیں اپنے خوشحال ہونے کا احساس دلا دیا ۔ آج کل کی
حکومت حقیقت میں کچھ نہیں کرتی صرف لوگوں کوخالی خولی احساس دلاتی ہیں
مثلاً اچھے دنوں کے آنے کا نقلی گمان اور مہنگائی کے کم ہونے کی جعلی
اشتہار بازی وغیر ہ ۔ مودی جی پر ماں کی ممتا کے استحصال کا الزام کئی بار
لگ چکا ہے۔ وہ اپنی سالگرہ کے دن جب گاوں میں والدہ کا آشیرواد لینے کیلئے
جاتے ہیں تو کیمرے کی جانب زیادہ دیکھتے ہیں۔ کیجریوال نے یہ بھی کہہ دیا
کہ اگر مودی کی جگہ وہ خود ہوتے تو اپنی ماں کے قطار میں جانے سے قبل خود
جاکر کھڑے ہوجاتے۔
ہیرا بین کو نوٹ بدلوا نے کی خاطر بنک میں لے جاکر اور ان کی تصاویر کی
تشہیر کے ذریعہ جو دیش بھکتی کا تمغہ دینے کی اوچھی حرکت کی گئی اس پر سب
اچھا تبصرہ راہل گاندھی نے کیا ۔ انہوں نے صرف یہ کہا کہ جو بات مودی جی نے
میری ماں کے بارے میں کہی میں ان کی والدہ کے بارے میں نہیں کہوں گا۔ اس
طرح گویا راہل نے کچھ نہ کہہ کر بھی بہت کچھ کہہ دیا۔ مودی جی نے راہل پر
چوٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنی ماں کی کالی دولت کو سفید بنانے کیلئے وہ
بنک کی قطار میں کھڑے ہیں ۔ مودی جی نہیں جانتے تھے کل جب خود ان کی اپنی
ماں قطار میں کھڑی ہوگی تو یہ جملہ ان کے گلےکی ہڈی بن جائیگا اس لئے کہ
ماں کی دولت کیلئے بیٹے کے لائن میں لگنے سے بدتر یہ ہے کہ بیٹے کی خاطر
خود ماں کو قطار میں کھڑا ہونا پڑے اور اس ماں کو جس کا بیٹا گائے کو تک
ماں کا درجہ دیتا ہے اور دھرتی کو ماتا کہتا ہے ۔ منور رانا نے شاید یہ شعر
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے؎
سر پھرے لوگ ہمیں دشمن جاں کہتے ہیں
ہم جو اس ملک کی مٹی کو بھی ماں کہتے ہیں
اس سے قبل مودی جی نے عوام کی توجہات کو ہٹانے کیلئے مختلف طریقے اختیار
کئے مثلاً کشمیر کا احتجاج اڑی حملے میں دب گیا اور جب اس پر سوال اٹھے تو
سرجیکل اسٹرائیک کا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ سرحد پار سرجیکل اسٹرائیک کی حد تک
تو معاملہ ٹھیک تھا لیکن اپنے ہی ملک کی عوام کے جیب پر جو حملہ ہوا اس کو
تو عدالت عالیہ نے کارپیٹ بامبنگ سے تشبیہ دے کر ظاہر کردیا کہ یہ کس قدر
ہولناک کارروائی تھی۔ مودی جی نے اس کی جانب سےتوجہ ہٹانے کیلئے آئی
آرایف پر پابندی لگاکر بھول کی اس لئے کہ وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت
ہوا۔ مودی جی اگر سناتن سنستھا پر پابندی لگوادیتے تو اس دہشت گرد تنظیم کے
لوگ ایسا بڑا ہنگامہ کھڑا کرتے کہ ذرائع ابلاغ کو اس کی جانب متوجہ ہونے پر
مجبور ہونا پڑتا اور سرکار کی مصیبت کسی حدتک کم ہوجاتی۔
سناتن سنستھا اور آئی آریف میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک صرف
زبانی دعوت و تبلیغ میں یقین رکھتے ہیں جبکہ سناتن پر تھانے اور گوا میں بم
دھماکوں کے الزامات ہیں ۔ گوا کے اندر تو اس کا ایک کارکن بم لے جاتے ہوئے
ہلاک بھی ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ سناتن سنستھا کے ایک کارکن کی گووند پانسرے
کے قتل میں گرفتاری عمل میں آچکی ہے۔ نریندر دابھولکر نے قتل سے قبل سناتن
کے ذریعہ دھمکی کی شکایت کی تھی اور اب نکھل واگلے کو شکوہ ہے ۔ اس کے
باوجود سناتن جیسی خطرناک تنظیم کو امیت شاہ کی مانند کلین چٹ دے دی گئی
ہے۔ ۲۰۱۱ میں اس تنظیم پر پابندی لگانے کیلئے پرتھوی راج چوہان نے ۱۰۰۰
صفحات پر مشتمل تجویز اپنی ہی جماعت کی مرکزی حکومت کو روانہ کی تھی۔ اس
وقت مہاراشٹر ہی کے سشیل کمار شندے وزیرداخلہ تھے اس کے باوجود کوئی
کارروائی نہیں ہوئی ۔ سابق وزیراعلیٰ چوہان کا خیال ہے کہ اگر ان کی تجویز
پر پابندی لگا دی جاتی تو دابھولکر، پانسرے اور کالبرگی کا قتل ٹل سکتا
تھا۔
ہندو رائے دہندگان کی ناراضگی کے خوف سے جس تنظیم پر کانگریس ہاتھ ڈالنے کی
ہمت نہ کرسکی اس کے اچھے دن بی جے پی کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد
آگئے۔ماہِ اکتوبر کی ابتداء میں گووند پانسرے کے قتل میں سناتن سنستھا کا
کارکن سمیر گائیکواڑ گرفتار ہوا اور اس کے بعد وزیراعلیٰ فردنویس سے پوچھا
گیا کہ کیا وہ سناتن پر پابندی لگائیں گے تو ان کا جواب تھا ۔ اس سے قبل
کانگریس کی مرکزی حکومت نے پابندی لگانے سے انکار کیا تھا اس لئے کہ اس کے
خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا ۔ یہ گمراہ کن بیان تھا کانگریس نے انتخاب کے پیش
نظرپابندی لگانے سے احتراز کیا تھالیکن یہ نہیں کہا کہ ثبوت نہیں ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا اگر اب بھی سنستھا کے خلاف ثبوت نکل آئے تو وہ بلاخوف و
خطر پابندی لگائیں گے بصورتِ دیگر کسی دباو میں نہیں آئیں گے۔
اس بیان کے ۲۶ دن بعد ہی وزیراعلیٰ کے بیان کی قلعی کھل گئی جب ان کی پولس
نے عدالت سے کہہ دیا کہ اس کے پاس سناتن کے خلاف شواہد نہیں ہیں ۔ حیرت کی
بات یہ ہے جس پولس کو سناتن کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اس کو آئی آرایف
کے خلاف بے شمار شواہد مل گئے اور جو مرکزی حکومتیں ۵ سالوں تک سناتن پر
پابندی نہیں لگا سکیں اس نے پلک جھپکتے آئی آرایف کو ممنوع قراردے دیا۔
جمہوری تماشے میں بلاتفریق نظریہ و جماعت اکثریت پر ہاتھ ڈالنے سے قبل ۱۰۰
بار سوچا جاتا ہے مگر اقلیت کی بابت بلاتوقف فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح
کے بھید بھاوکا فائدہ تو ہوتا ہے لیکن نوٹ تبدیلی کے فیصلے نے اقلیت و
اکثریت کے فرق کو مٹا کر سوادِ اعظم کو حکومت سے متنفر کردیا ہے۔ اس کے
باوجودعوام الناس کے تئیں وزیراعظم کی بے حسی ندافاضلی کے اس شعر کی مصداق
ہے ؎
خودکشی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی سب میں
اور کچھ دن یونہی اوروں کو ستایا جائے
|