بہتا دریا

کھٹکے کی آواز پر انہوں نے سر اٹھا کر دروازے کی جانب دیکھا۔
"میں اندر آجاؤں؟" اس نے شائستگی سے سوال کیا۔
"تم اجازت کی بغیر بھی آسکتے ہو" ۔ انہوں نے فائل بند کی اور چشمہ اتار کر میز پر رکھا۔
"دروازے سے اندر آپ کا بیٹا ہوں باہر نہیں" ۔ وہ مسکرا کر چلتا ہوا میز کے سامنے آکھڑا ہوا۔
وہ دھیرے سے ہنسے "اب وقت بدل گیا ہے ۔ بیٹھو"
اس نے سیاہ کوٹ اتار کر کرسی پر پھینکا اور بیٹھ گیا۔ بالکل سامنے میز کی دوسری طرف بیٹھے اس کے والد اسے گھور رہے تھے۔
"بہت ہینڈسم لگ رہا ہوں کیا؟"
وہ دلکش سا مسکرایا۔ انہوں نے ایک نظر اس پر ڈالی۔ سیاہ پینٹ پر سفید شرٹ کے کف وہ موڑ رہا تھا۔
"ارے تم اور باپ سے شغل؟" ان کی بات پر اس نے مسکراہٹ دبائی۔
"بہت کچھ نہیں کہوں گا نہ ہی ضرورت ہے"۔ باپ سے لیے تیکھے نقوش اور وہ فخریہ اطمینان بھری مسکراہٹ۔۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائے۔

"یقین ہوگیا اب مجھے بابا! بہت ہینڈسم لگ رہا ہوں میں" ۔ اسکی بات پر ان کا قہقہہ ہوا میں گونج اٹھا۔
"یہ تبدیلی واقعی بہت اچھی ہے"۔ وہ کہے بنا نا رہ سکے۔ وہ مسکرایا اور سر کو خم دیتا کھڑا ہوا۔
"محترم سر! میری چھٹی کے دن آگئے ہیں۔ آپ سے بات ہوتی رہے گی لیکن ملاقات چند دنوں بعد۔۔"
انہوں نے اٹھ کر اسے گلے لگایا اور کہا "جاؤ اور خوب لطف اٹھاؤ"۔
"جی ضرور! اپنا خیال رکھیے گا"
"اور تم بھی"
اس نے کوٹ اٹھایا اور باہر کی جانب بڑھا۔

-----

"دانیال! اب تو کھیلنے آجاؤ ۔ ہر دفعہ تم کہتے ہو پڑھ رہا ہوں اور امتحان کے دوران تو نظر ہی نہیں آتے۔ اب تو ختم ہوگیا ہے سیشن۔ آؤ کھیلتے ہیں"۔ عاشر بلند آواز میں کہہ رہا تھا۔
"ہاں یار آجاؤ نا" ۔ انس بھی چشمہ ٹھیک کرتے ہوئے چینخا۔
"اوکے آتا ہوں"۔ وہ مسکراتا ہوا بالکونی سے ہٹا۔
اندر آتے ہی دانیال نے اپنی ماما کو جالیا۔
"ماما میں باہر جاؤں؟"
"باہر کہاں؟" انہوں نے مسکرا کر پوچھا۔
"ماما عاشر اور انس کھیلنے کے لیے بلا رہے ہیں"
"ٹھیک ہے جاؤ مگر جلدی آجانا"۔
وہ بھاگتا ہوا باہر کی طرف دوڑا لیکن دروازے تک پہنچتے ہی اسکے قدم رک گئے،
"کہاں جا رہے ہو؟" بارعب آواز۔۔۔
ایک نظر پینٹ کوٹ میں ملبوس اپنے والد کو دیکھ کر وہ بمشکل بولا
"باہر۔۔۔۔کھیلنے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔جاؤں؟" وہ جانتا تھا اس کے باپ کی ہامی کتنی معنی رکھتی ہے۔
"کیوں؟" جافری صاحب نے کوٹ اتارتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔ نظریں اب بھی دانیال پر گڑھی تھیں۔
"ڈیڈ میرے ایگزام ختم ہوگئے ہیں۔۔۔ تو بس اسی لیے"۔ دانیال دھیمے لہجے میں سرجھکائے بولا۔
"ایگزام ختم ہوئے ہیں پڑھائی نہیں۔ آرام سے گھر بیٹھو اور یہ لو ان کتابوں کو اندر بیٹھ کر پڑھو۔ Reading کرو اور Hardwords ماما سے اور مجھ سے پوچھو۔ کم آن۔ گو ان یور روم"۔
"لیکن بابا۔۔۔" وہ معصوم سی شکل بنائے احتجاجاً بولا۔
"دانیال جافری میں نے ابھی کیا کہا ہے؟ جسٹ گو" وہ بلند آواز میں کہتے ہوئے اندر کی جانب بڑھ گئے۔

وہ چوتھی جماعت کے امتحانات سے فارغ ہوا تھا۔ اٌسے پہلے امتحان کی وجہ سے باہر نہیں جانے دیا جاتا تھا لیکن اب؟ اب کیوں نہیں؟ وہ مرجھایے پھول کی طرح اپنے کمرے میں آیا۔
"آئی۔۔آئی ایم سوری میں نہیں آسکتا" بالکنی میں کھڑے ہوکر بمشکل اسکی آواز نکلی۔
اور کہتے ساتھ ہی وہ دروازہ بند کرکے وہاں سے ہٹ گیا۔
"دانیال" وہ دونوں نیچے کھڑے آوازیں دیتے رہ گئے۔

---

میرا نام دانیال جافری ہے۔ پیار سے لوگ مجھے "ڈینی" کہتے ہیں۔ لوگ نہیں صرف دوست۔۔۔
وہ بھی صرف دو۔۔۔۔۔ عاشر اور انس۔۔ان دونوں سے میری دوستی کچھ مہینے پہلے ہوئی تھی۔
تھوڑی سی میری کہانی سنئیے آپ لوگ۔۔۔
بابا،ماما،دادو جان ، چاچوں اور میں۔۔۔ہم سب ایک پیارے سے گھر میں رہتے تھے۔
میں ابھی سکول نہیں جاتا تھا اس لیے دادو جان کے ساتھ کھیلتا رہتا اور جب چاچوں کام سے آتے تو ان کے ساتھ مستیاں کرتا۔
پھر بابا نے میرا سکول میں ایڈمشن کروادیا۔ ماما مجھے ہوم ورک کرواتی اور جب میں کام ختم کرکے کھیلنے کے لیے دادوجان یا چاچوں کے پاس جاتا تو بابا آجاتے۔
اور پھر سارا ہوم ورک چیک کرتے اور مجھے دوبارہ یاد کرنے کو کہتے اور دوبارہ سنتے۔
پھر مجھے سونے کو کہتے۔ اگر میں منع کرتا یا احتجاج کرتا تو بابا کہتے "میرا بیٹا کبھی بابا کی بات سے انکار نہیں کرے گا۔ اچھا بیٹا ہمیشہ کہنا مانتا ہے۔ اوکے؟"
اور میں اچھے بیٹے کی طرح ان کا کہنا مانتا اور سوجاتا۔ اور پھر میری دادوجان اور چاچوں سے کم باتیں ہوتیں۔ زیادہ وقت کمرے میں گزرنے لگا تھا۔
میں ماما اور بابا اوپر والے پورشن میں ہوتے اور دادو جان اور چاچوں نیچے۔
تین سال یونہی خشک سے گزر گئے۔ لیکن ان تین سالوں میں میری اول سے کم پوزیشن کبھی نہیں آئی۔ اتنا سخت 'پہرا' جو تھا میرے گرد۔

بابا کہتے تھے سکول میں دوست مت بنایا کرو وہ تمہاری چیزیں لے لیں گے ( شاید وہ مجھے دوستی کے جھمیلوں سے دور رکھنا چاہتے تھے۔۔شاید۔۔معلوم نہیں) اور مجھے میرا بیگ، پنسل، جمیٹری باکس ، لنچ باکس غرض ہر چیز بہت عزیز تھی۔ اس لیے میں کسی سے بات نہ کرتا اور اپنی سیٹ پر بیٹھا رہتا (تاکہ کوئی میری چیزوں کی طرف دیکھے بھی نا)

میرا چوتھی جماعت کا سیشن شروع ہوا تھا جب ہمارا گھر چینج ہوا۔
بابا نے کہا کہ ہم دوسرے شہر جارہے ہیں وہاں انہیں اچھی نوکری مل رہی ہے۔
لیکن اُس گھر میں صرف میں ، ماما اور بابا جائیں گے۔ دادو جان اور چاچوں نہیں۔
میں بہت رویا تھا میں چاہتا تھا کہ دادوجان اور چاچوں بھی میرے ساتھ چلیں۔ لیکن بابا نے میری بات نہیں سنی اور بابا نے یہ کہہ کر چپ کروادیا کہ
‏"Good boys don't cry"
اب میں کیا کر سکتا تھا تھوڑا اور رو لیا اور خاموش ہوگیا۔

اور پھر ہم نئے گھر شفٹ ہوگئے۔ نیا شہر، نیا گھر، نیا سکول۔ اب تو میرا دھیان مکمل طور پر پڑھائی میں لگا رہتا۔ اس سکول میں بھی بابا نے مجھے وہی تلقین کی جو پچھلے سکول میں کیا کرتے تھے۔
میری عادت بن گئی تھی اب تو الگ تھلگ رہنے کی۔ سکول میں کوئی بات کرتا تو میں ہلکا پھلکا سا جواب دے کر خاموش ہوجاتا اور کچھ ہی عرصے میں مجھے "rude" کا خطاب مل گیا۔
دوست کیا ہوتے ہیں یہ مجھے معلوم نہیں تھا لیکن مجھے جلد معلوم ہوجائےگا اس بات کا مجھے علم نہیں تھا۔

وہ ہلکی سی سرد دوپہر تھی جب ہماری کلاس میں ایک لڑکا دوسری کلاس سے یہاں منتقل کیا گیا۔ اس کے والدین نے شکایت کی تھی کہ پچھلے سیکشن میں موجود لڑکے بدتمیز ہیں لہٰذا ان کے بچے کا سیکشن بدلا جائے۔
اس نے آتے ہی کلاس کا سماع بدل ڈالا تھا، کافی ہنسنے مسکرانے والا لڑکا تھا۔ اس کے تعرف میں ہماری ٹیچر نے یہ بھی بتایا کہ پڑھائی میں بھی کافی تیز ہے۔ عاشر!۔۔ ہاں یہی نام بتایا تھا اس نے اپنا۔ وہ ایک ایک بچے سے ملتا ہوا مجھ تک آیا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر "اسلام علیکم" کہا۔ میں نظرانداز کر دیتا لیکن سلام کا جواب دینا مجھ پر فرض تھا۔
"وعلیکم اسلام" میں نے ہاتھ نہیں بڑھایا۔
اس نے ہاتھ پیچھے کیا، مسکرایا اور شانے اچکا کر مجھ سے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
میرے بعد دوسرے نمبر پر کلاس کا نہایت کم گو اور چشماٹو بچا۔۔۔ انس!
اس کو پڑھنے ، مسکرانے اور چشمہ بار بار پیچھے کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا تھا۔
یہ بات مجھے تب پتا چلی جب وہ ایک دن غلطی سے میرے ساتھ بیٹھ گیا ورنہ میرے ساتھ والی نشست ہمیشہ خالی ہوتی تھی۔
عاشر پہلے دن انس کے ساتھ بیٹھا تھا اور مجھے مسلسل ہنسنے ، مسکرانے اور سرگوشیاں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
اگلے دن عاشر پوری جماعت میں چاکلیٹ بانٹتا پھر رہا تھا۔
"یہ کس لیے؟" انس نے چشمہ پیچھے سرکاتے ہوئے پوچھا۔
"میرے نئے کلاس فیلوز کے لیے" عاشر نے مسکرا کر جواب دیا۔
"تھینک یو" "شکریہ" سب مسکرا مسکرا کر کہتے اور ایک چاکلیٹ پکڑ لیتے۔

"دانیال چاکلیٹ لو نا" میں کتاب پکڑے بیٹھا تھا جب وہ آیا۔
"نو تھینکس" میں دوبارہ کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اس نے دو چاکلیٹز میرے ڈیسک پر رکھیں اور خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔
چاکلیٹ جہاں تھی وہی پڑی رہ گئی۔ میں نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ بابا کہتے تھے اپنا کھانا خود لے کر جایا کرو ، دوسروں کا دیا نا کھایا کرو۔
عاشر نے چاکلیٹوہی پڑی دیکھی یا نہیں یہ میں نہیں جانتا لیکن میں نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اسے اور اسکی چاکلیٹ کو۔

کچھ دنوں بعد کی بات ہے جب اسنے دوبارہ ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ آج انس نہیں آیا تھا۔ اس لیے عاشر میرے ساتھ آبیٹھا۔
بیٹھتے ہی اسنے سلام کیا لیکن ہاتھ نہیں بڑھایا۔ ( سچ کہوں تو مجھے عجیب سا لگا۔ وہ ہر کسی سے سلام لیتے وقت ہاتھ بڑھاتا تھا)۔ میں نے جواب دیا۔ناس کے بعد ہماری کوئی بات نا ہوئی۔نلیکن آج میں نے ایک نظر اسے دیکھا ضرور تھا کہ شاید وہ کوئی بات کرے لیکن وہ خاموش بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا۔
اگلے روز انس پھر غائب تھا اور عاشر دوبارہ میرے ساتھ آبیٹھا۔ آج انگلش کے سر نے ٹیسٹ دے رکھا تھا ہم سب کو جو پچھلے ہفتے انہوں نے ہمیں poem کروائی تھی۔ آج وہ زبانی لکھ کر دکھانی تھی۔
مجھے تو بابا نے پہلے ہی یاد کروا دی تھی۔ میں نے کاغذ پر اپنا نام لکھا اور بڑے آرام سے ساری نظم لکھ دی۔ عاشر خالی پرچہ پکڑے بیٹھا تھا۔ وہ نیو ایڈمشن تھا ۔ پچھلی کلاس میں اس نے صرف دو دن گزارے اور آج یہاں اس کا چوتھا دن تھا۔ اس کا کام مکمل نہیں ہوا تھا اس لیے اس کے والدین نے درخواست کی تھی کہ کچھ دن اس سے ٹیسٹ نہ لیا جائے۔ اسے ٹیسٹ نہیں دینا تھا لیکن پھر بھی وہ پرچہ پکڑے بیٹھا تھا اور کاغذ کا جہاز بنا رہا تھا۔
میں اپنا پرچہ دہرا رہا تھا ۔ کل سے مجھے کھانسے کی شکایت تھی اور اب پھر مجھے کھانسی آنے لگی۔ میں نے بیگ میں جھانکا " او نو! میں تو پانی کی بوتل لانا بھول گیا"
کھانسی کی شدت بڑھ گئی۔ عاشر نے فوراً میری طرف دیکھا اور اپنی پانی کی بوتل میری طرف بڑھائی۔ میں نے چپ چاپ بوتل تھامی اور پانی ہینے لگا۔
اشانک مجھے دوبارہ کھانسی آئی اور پانی چھلک کر میرے پیپر پر گرگیا۔ پانی اور نیلی سیاہی نے مل کر ایسا کھیل کھیلا کہ میرے لکھے گئے الفاظ بھیگ کر عجیب منظر دکھا رہے تھے۔
سر اب بچوں سے پیپر لے رہے تھے۔ عاشر فوراٌ اپنے پیپر پر جھکا۔ میں اتنا بوکھلا گیا تھا کہ حیران پریشان بس پیپر کو ہی دیکھتا رہا کہ کیا کروں؟
سر دوسری نشست تک پہنچ چکے تھے۔ میرے ذہن میں بابا کے ڈائلاگ گھوم رہے تھے۔
"میرا بیٹا پورے نمبر لائےگا ہانا!"
میں بس رو دینے کو تھا۔ بابا کتنا ناراض ہونگے۔۔۔
عاشر نے میرا پیپر پکڑ کر نیچے پھینک دیا اور اپنا پیپر میرے آگے رکھ دیا۔
"یہ کیا۔۔۔؟" میرا باقی سوال منہ میں ہی رہ گیا۔ سر میرے 'سر' پر کھڑے تھے۔
"دانیال اہنا پیپر دو" میں بس خاموشی سے انہیں دیکھتا رہا۔ عاشر چونکا بائیں جانب بیٹھا تھا اور سر اس کے نزدیک کھڑے تھے تو اس نے میرا پیپر آگے بڑھا دیا۔
وہ ساتھ ہی ساتھ چیک بھی کرتے جارہے تھے۔ میری تو بس جان ہی نکلنا باقی رہ گئی تھی۔ بابا مجھے ہر وقت پڑھنے کا کہتے تھے اور میں نے ہر چیز پر پانی بہا دیا تھا۔ میں سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ (اور کرتا بھی گیا۔۔)
"ویری گڈ دانیال" سر کی آواز پر میں نے انکی طرف دیکھا۔
انہوں نے مجھے پیپر تھمایا اور آگے بڑھ گئے۔
میں نے ایک نظر پیپر پر ڈالی تو وہاں مجھے پورے نمبر ملے تھے۔ دس بٹا دس۔۔
میں نے عاشر کی جانب دیکھا۔ مجھے اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ ہلکا سا مسکرایا۔ میں مسکرا بھی نا سکا۔
عاشر کی وجہ سے آج میں بچ گیا تھا۔ ورنہ بابا بےحد ناراض ہوتے۔ میں نے ایک نظر دوبارہ پیپر پر ڈالی اور اسے پڑھنے لگا۔
سب سے اوپر میرا نام لکھا تھا اور اس کے آگے میرے حاصل کردہ مارکس اور نیچے وہ نظم۔۔۔
‏Hold fast to dreams
‏For if dreams die
‏Life is a broken-winged bird
‏That cannot fly

‏Hold fast to dreams
‏For when dreams go
‏Life is a barren field
‏Frozen with snow

"عاشر" بالآخر میں نے اسے پکارا۔ وہ فوراً میری جانب مڑا۔
"تھینک یو عاشر" میں نے دل سے کہا تھا۔ اور مسکرانے کی کوشش بھی کی تھی۔
وہ کھلے دل سے مسکرایا۔
"تھینکس وینکس کی ضرورت نہیں۔۔ مجھ سے دوستی کروگے؟"
میری مسکراہٹ سمٹی۔
اس نے دوبارہ کہا
"مجھ سے دوستی کروگے دانیال؟" اس نے ہاتھ بڑھایا۔
"سوری عاشر میں دوست نہیں بناتا"۔ اس کا چہرہ بُجھا۔ میں نے کتاب کھول کر نظریں اس پر جما دیں۔ اس نے دھیرے سے ہاتھ پیچھے کیا اور سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

اگلے روز انس آگیا۔ وہ دونوں پچھلی نشست پر بیٹھے تھے۔ اور میرے ساتھ والی سیٹ خالی تھی۔ عجیب سا محسوس ہوا تھا۔ وہاں پر بیٹھنے والا پہلا انسان عاشر تھا جس کے بیٹھنے سے مجھے چڑ نہیں ہوئی۔

آج بریک کے دوران میں باہر آگیا۔ خاموشی سے بینچ پر بیٹھے میں سامنے کھیلتے کئی بچوں کو دیکھ رہا تھا۔
جب میں جماعت سے نکلا تھا تو عاشر کلاس ٹیچر سے کچھ باتیں کررہا تھا۔
میرے ذہن میں کل کا دن تازہ ہوگیا۔ کل میں نے بابا کو اپنا ٹیسٹ دکھایا تو انہوں نے میرا کندھا تھپک کر مجھے شاباشی دی (وہ رائٹنگ پر غور نہیں کرتے تھے صرف مارکس دیکھتے تھے) جب میں نے کہا کہ آج میں اور ماما کچھ کھیل لیں تو انہوں نے منع کردیا اور کہا کہ جاکر پڑھو۔
پچھلے گھر میں میری بہت سی گیمز اور کھلونے تھے لیکن اس گھر میں کھلونوں اور گیمز سے لے کر ٹی وی تک کچھ بھی نہیں ہے۔
بابا کہتے ہیں "دانیال تم کھیل کود میں پڑگئے تو انہی کے ہوکر رہ جاؤگے پھر پڑھ نہیں سکوگے۔ مذاق اڑایا جائےگا تمہارا"
اپنے سامنے لڑکوں کو کھیلتا دیکھ میرے ذہن میں یہی سوال آیا کہ ان کا مذاق تو نہیں اڑایا جا رہا۔۔؟
عاشر کب میرے ساتھ آکر بیٹھا مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ اس نے مجھے پکارا تو میں چونکا۔
"دانیال مجھ سے دوستی کروگے؟" اس نے مسکرا کر پوچھا۔
میں حیران ہوا کونکہ پہلے جس سے بھی میں نے کہا کہ "میں دوست نہیں بناتا" وہ کبھی لوٹ کر میرے پاس نہیں آیا۔
میں خاموش بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔
"میں جانتا ہوں رمہارے پیرنٹس نے دوست بنانے سے منع کیا ہے۔ میں ٹیچر سے سب معلوم کر چکا ہوں ۔ لیکن یقین کرو ہم صرف بریک میں باتیں کیا کریں گے"
میں ہکا بکا اسے تکتا رہ گیا۔ ہاں! بابا نے ٹیچر سے میرے دوستوں کے چکر میں نا پڑنے کی بات کی تھی۔
"میں میم سے کہہ چکا ہوں کہ وہ کسی کو نہ بتائیں"۔
میں اب بھی خاموش رہا لیکن شاید دیوار سے ایک ایک کرکے اینٹ گرنے لگی تھی ۔ وہ دیوار جو میرے اردگرد تھی یا شاید بنائی گئی دی تھی۔
یک دم عاشر کھڑا ہوگیا۔ مجھے لگا میری خاموشی کو انکار سمجھ کر وہ چلا جائے گا۔
لیکن اس نے کھڑے ہوکر ہاتھ میری طرف بڑھایا۔
"مجھ سے دوستی کرو گے دانیال؟"
ایک منٹ۔۔
دو منٹ۔۔۔۔۔
تین منٹ۔۔
منظر ویسا ہی تھا۔۔۔
میرا دل چاہا اٹھ کر چلا جاؤں لیکن وہ دوبارہ بولا۔
"میرا ہاتھ تھک گیا ہے جلدی اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ ڈینی"
دھڑاک سے ساری دیوار زمین بوس ہوگئی۔
میں نے کھڑے ہوکر اس کا ہاتھ تھاما۔ "ہاں" جانے کیسے۔۔۔
وہ فاتحانہ انداز میں ہنسا۔
"ایسے تھوڑی دوستی ہوگی"
"پھر؟" میں الجھا۔
"تعارف تو ہوگا نا۔ میں تمھارا نیا دوست۔۔۔ عاشر حسن" وہ مسکرایا۔ ہاتھ ابھی تک تھامے ہوئے کھڑا تھا۔
"اور میں تمہارا نیا دوست۔۔ دانیال جافری"۔ میں نے بھی اسی انداز میں بولا۔
وہ ہنسا اور فوراً میرے گلے لگ گیا۔ میرے لب اپنے آپ مسکرادیے۔
"فکر نہ کرو ہماری دوستی سکرٹ رہے گی"۔ اس کی بات پر میں نے سر ہلادیا۔

"اور میں انس ہوں" ہم ایک ساتھ پلٹے۔ وہ کھڑا اپنی گلاسس پیچھے سرکا رہا تھا۔
"ہیلو انس" میں نے خوش ہوکر کہا۔ عاشر کا دوست میرا دوست ہوا نا۔
"کچھ نہیں ہوگا دو دوست بنانے سے" میں نے خود کو سمجھایا۔
میں اس دوستی کو گھر سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا اور اسی لیے میں دوستوں کا ذکر گھر میں کبھی نا کرتا۔

میں عاشر اور انس ، ہم ہر روز بریک کے دوران کسی کم رش والی جگہ پر بیٹھ جاتے۔ مل کر کھاتے اور ڈھیر ساری باتیں کرتے۔ عاشر بہت عقل والی باتیں کرتا اور انس بےحد ہنسانے والی معصومانہ باتیں۔۔ ایک ساتھ مل بیٹھ کر ایسا ماحول بنتا کہ وہ چند منٹ بےحد قیمتی ہوجاتے۔
کلاس میں ہم اسی طرح بیٹھتے۔ عاشر اور انس میرے پیچھے بیٹھتے۔ کلاس کے دوران ہم زیادہ بات بھی نہین کرتے تھے۔ ہاں جس دن کوئی ایک غائب ہوتا تو انس یا عاشر میں سے کوئی ایک میرے ساتھ بیٹھ جاتا اور ہم منہ نیچے کرکے "کھسر پھسر" کرتے رہتے۔
عاشر بےحد خوش اخلاق اور کھلے دل کا مالک تھا۔ اور انس۔۔۔
اس کے بارے میں کیا کہوں ہم تو اسے "معصومیت کی دکان" کہتے تھے۔ دونوں کے ساتھ مجھے بےانتہا مزا آتا۔ عاشر خاص موقعوں پر کوئی گفٹ ضرور دیتا تھا جسے میں جاکر الماری میں سب سے نیچے رکھ کر چھپا دیتا۔
عاشر اور انس کا گھر میرے گھر سے تھوڑی ہی دور ہے یہ مجھے اس دن پتا چلا جب دونوں میرے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ (صد شکر خدا کا اس وقت بابا گھر پر نہیں تھے)

"کون آیا ہے ماما؟" میں نے ماما کو دروازے کے سامنے کھڑے دیکھا۔
"ارے دانیال ادھر آؤ یہ ہمارے ہمسائے ہیں"۔ ماما ان کے ہاتھ سے کوئی برتن لے کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔ بابا ہوتے یہاں تو ان "ہمسایوں" کو دروازے سے ہی بھیج دیتے۔
"تم دونوں؟" عاشر اور انس کو دیکھ کر میری چینخ نکلی۔
"اسلام علیکم بھائی جان۔ ہم آپ کے دور کے ہمسائے ہیں۔ کچھ گلیاں چھوڑ کر ہی ہمارا گھر ہے" انس نے معصومیت سے کہا۔
"حیران مت ہو زیادہ" ان کی نوٹنکی دیکھ کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ تبھی ماما آگئیں۔
"بیٹا امی کو تھینک یو کہنا ہماری طرف سے"
"جی آنٹی ضرور کہہ دوں گا" عاشر تابعدار بچہ بنا کھڑا تھا اور اس سے زیادہ انس۔۔
"اچھا دانیال بھائی آپ سے مل کر اچھا لگا۔ ہم آتے جاتے رہے گے"۔ اس نے عینک پیچھے سرکائی اور مجھے دیکھ کر مسکرایا۔ میری ہنسی بےقابو ہو رہی تھی۔۔انس کی معصومیت اف!
"اچھا اللہ حافظ" عاشر اور انس میری طرف لپکے۔ن"بائے ڈینی!" انہوں نے آہستہ سے میرے کان میں کہا اور بھاگ گئے۔
"کتنے اچھے بچے تھے نا" ماما نے کہا اور دروازہ بند کرنے لگیں۔ میں کمرے میں آکر بےتحاشا ہنسا۔
وہ میرے دوست کی حیثیت سے نہیں محلے کے بچوں کی طرح میرے گھر آئے تھے کس پر ماما،بابا میں سے کوئی اعتراض نہیں کر سکتا تھا۔
دو روز بعد اتوار کے دن دونوں پھر آگئے۔ میں شام کو کمرے سے باہر آیا تو وہ دونوں ڈرائینگ روم میں تشریف رکھے ہوئے تھے۔ ماما ان سے باتیں کر رہی تھیں۔ میں آیا تو وہ اٹھ کر کچن میں کچھ لینے چلی گئیں۔
تقریباً آدھا گھنٹہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ انس نے کہا باہر فٹ بال کھیلتے ہیں۔ ہم ابھی دروازے سے باہر نکلے ہی تھے کہ بابا آگئے۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے کھیلنے کی۔ ایک مہینے بعد تمہارے ایگزام ہیں نا چلو اندر چل کر پڑھو اور بچوں! تم دونوں بھی گھر جاؤ شاباش"
میں انہیں معذرت اور خدا حافظ کہتا اداس سا اپنے کمرے میں آگیا۔
"بابا میری بہتری کے لیے کہتے ہیں ڈونٹ مائنڈ"

اگلے دن میرے دوبارہ معذرت کرنے پر دونوں نے یقین دلایا کہ انہیں بالکل برا نہیں لگا۔
"ہم پیپرز کے بعد کھیل لیں گے" میں ہلکا پھلکا ہوگیا۔
پھر اس شام بابا میرے کمرے میں آئے۔ میں یونہی کتابیں پھیلائے بیٹھا تھا۔
"دانیال کیا کر رہے ہو؟" انہوں نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"کچھ نہیں بابا" میں نے فورا کتاب کھول کر پڑھنا شروع کردیا۔
"دانیال بیٹا تم جانتے ہو بابا تمہیں ہمیشہ پڑھنے کو کیوں کہتے ہیں؟"
میں نے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا۔ وہ نرم لہجے میں مخاطب تھے۔
"تاکہ تم پڑھے لکھے کامیاب انسان بن سکو میں نہیں چاہتا کہ میرا بیٹا کھیل کود میں مگن ہوکر پڑھائی سے دور ہوجائے"
میں نے سر ہلادیا۔
"پڑھو ہر وقت پڑھو۔ کامیاب ہوکر میرا نام روشن کرو، سب کہیں گے جافری کا بیٹا بہت قابل اور لائق ہے۔ تم اچھے سے پڑھوگے تو میں یہ سن سکوں گا نا۔ اور پھر تمہیں ایک قابل اور ہونہار business man بھی تو بننا ہے۔ جو میں محنت کررہا ہوں اسے آگے تم کو چلانا ہے"
اب ان کا لہجہ ذرا سنجیدہ ہوا۔
"تو اس لیے ضروری ہے کہ فضول چکروں میں مت پڑو ۔ کھیل کود ، ہلاّ گلاّ یہ سب دانیال جافری نہیں کرےگا کیونکہ وہ بابا کا مان رکھے گا۔ ہے نا؟"
اور ان کی بات سمجھ کرکے میں نے مسکرا کر ہاں میں سر ہلادیا۔ وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔
اور پھر س طرح بابا نے کہا میں نے ویسا ہی کیا۔
سکول میں عاشر اور انس سے بات چیت ہوجاتی۔ پھر امتحان آگئے اور ایسی مصروفیت چھاگئی کہ کسی اور چیز کا ہوش ہی نا رہا۔
اس دن میرا آخری پیپر تھا جو الحمداللہ بہت اچھا ہوگیا تھا۔
آج بہت زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ امتحان ختم اور میں فارغ۔۔ اب کچھ مستیاں ہوسکتی ہیں۔۔ میں بالکنی سے باہر جھانکا تو عاشر اور انس مجھے بلا رہے تھے۔ میں فورا باہر کو لپکا لیکن۔۔۔
"ایگزام ختم ہوئے ہیں پٹھائی نہین، آرام سے گھر بیٹھو اور اندر جاکر پڑھو۔۔
دانیال جافری میں نے ابھی کیا کہا ہے؟ جسٹ گو۔" بابا کی ڈانٹ سنتے ہی میں کمرے میں آیا۔ باہر منتظر اپنے دوستوں کو کہا کہ میں نہیں آسکتا اور دروازہ بند کرکے بیٹھ گیا۔

لیکن دنیا والے کیا جانے کہ اس رات دانیال جافری کا دل ٹاٹ کر کانچ کی کرچیوں کی طرح بکھر گیا تھا۔
اب تو وہ فارغ تھا تو پھر کیوں؟ کیوں اس کے لیے ممنوع تھا یہ سب؟ آخر کیوں؟
اس معصوم کم عمر کے دل پر کیا گزرے گی یہ کیوں نہیں سوچا کسی نے؟

اس رات کئی آنسوں میری آنکھوں سے بہے تھے اور میرے کمرے کی دیواریں میری ان سسکیوں سے واقف تھیں۔ مجھے یقین تھا کہ یہ غم ختم ہوجائے گا بس تھوڑا دکھ اور پھر سکھ۔۔ لیکن یہ میرا معمول بن جائےگا ایسا میں نے قطعاً نہیں سوچا تھا۔
میرا رزلٹ آگیا تھا اور میں ہمیشہ کی طرح اول آیا تھا۔ ماما بابا خوش تھے اور تحفے میں مجھے "سٹوری بکس" ملی تھیں۔ آہ! اس تحفے کا ذکر نا ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔

میں اس گھر کا اور یہاں کے ماحول کا عادی ہوگیا تھا لیکن ایک بار پھر مجھے یہاں سے دور جانا پڑا۔۔
جب دل لگا لیا تھ سے
دنیا نے کہا دور چلے جاؤ اس سے

بابا اپنے کام کو بڑھانے کے لیے بیرون ملک جا رہے تھے مجھے اور ماما کو بھی ساتھ ہی جانا تھا۔ ماما نے نا کبھی بابا کو انکار کیا ہے اور نا کبھی اپنے رائے رکھی وہ ہمیشہ ان کا حکم بجا لاتی تھیں۔ جب ماما نے کچھ نہیں کہا تو میں کس کھیت کی مولی ہوں جو کچھ کہہ سکوں۔ کچھ ہی دنوں میں ہم لندن شفٹ ہوگئے۔
ہمارا 'نیا گھر' دو کمروں اور ایک لاؤنج پر مشتمل تھا۔ دو ہفتے بعد ہی میر ایڈمیشن کروادیا گیا تھا۔ اور وہی ساری نصیحتیں سننے کو ملی جو مجھے ہمیشہ سے ملتی آرہی ہیں۔ (شاید مجھے اب بتانے کی ضرورت نہیں کہ کس قسم کی نصیحتیں۔۔۔)
یہاں ہم کسی کو نہیں جانتے تھے ۔ ماما کا تو سارا دن ہی گھر میں گزرتا تھا۔ البتہ میں سکول جاتے ہوئے باہر کی ہوا کھالیتا تھا، اوریہ واحد چیز تھی جو میری زندگی کو کچھ لمحوں کے لیے خوشگوار بنا دیتی تھی۔
بابا صبح جاتے اور دیر رات تک لوٹتے۔ اب وہ میرے پاس کم آتے تھے اور پڑھائی کا سارا ذمہ ماما کو دیا جاچکا تھا۔
میرا نیا سکول۔۔۔کیا مجھے بتانے کی ضرورت ہے کہ میرا نیا سکول کیسا جا رہا ہوگا؟ میرے کتنے دوست ہونگے؟ یا مجھے کن "القابات" سے نوازا گیا ہوگا۔؟
اس سکول میں میرا واحد ساتھی میری "خاموشی" تھی۔ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ میری زندگی کا واحد ساتھی "تنہائی" ہے۔ میں اور تنہائی۔۔۔بس۔۔۔
اگر میں یہ کہوں کہ میری پوری زندگی میں صرف دو دوست ہی بنے تو یہ درس ہوگا۔ عاشر اور انس۔۔
امجھے یہاں آکر شروع میں بہت یاد آتی تھی لیکن پھر وقت نے اس یاد کا درد بھی ختم کردیا۔
اپنے آپ میں رہنے کا میں عادی ہوگیا تھا۔ ہوتا چلا گیا تھا۔۔۔
ہوتا ہے نا جس چیز کی عادت ڈل جائے انسان اس عادت کا عادی ہوجاتا ہے اور اسی میں خوش رہتا ہے۔
میں اکثر راتوں کو اکیلے کمرے میں بیٹھ کر روتا تھا۔ کیا مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کیوں روتا تھا؟ کیا تنہائی انسان کو اندر سے نہیں کھا جاتی؟ کیا کبھی کسی کو لگاتار اکیلے بیٹھ کر رونا نہیں آیا؟ میں تو پھر عمر میں چھوٹا تھا۔۔کیا گزرتی ہوگی مجھ پر۔۔
ایک اور ایسی رات جس میں میں معمول سے زیادہ رویا تھا۔ تب تنہائی نے مجھے نہیں رکایا تھا۔۔۔سناؤں وہ واقعہ؟ تو سنیے۔۔۔

"دانیال وہاں جاکر اچھے طریقے سے بی ہیو کرنا" یہ بات بابا مجھے دسویں دفعہ بول رہے تھے۔ ہم بابا کے کسی نئے بزنس مین دوست کی طرف جارہے تھے۔
اور یہ ڈنو بابا کے بزنس کے کیے بہت قیمتی تھا۔
"اوکے بابا" اور ہمیشہ کی طرض میں نے سر ہلا دیا۔
ڈنر کافی اچھے سے ہوگیا۔ ان انکل کے تین بچے تھے جو مکھیوں کی طرح ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے۔
"ڈیڈی اس لڑکے سے کہو کے ہمارے ساتھ کھیلے" ان کے ایک بچے نے باپ سے انگریزی میں کہا۔
"شیور ہنی" دانیال جاؤ کھیلو انجوائے کرو" انہوں نے مجھ سے کہا۔
‏"No I'm fine" میں اخلاقاً مسکرایا۔ کیا کرتا میں ان کے ساتھ جاکر، جہاں اتنا وقت بغیر مستی کے گزار دیا وہاں تھوڑا اور سہی۔
انکل نے بابا کی طرف دیکھا اور بابا نے گھور کر میری طرف "دانیال جاؤ"
انہوں نے سنجیدہ ہوکر کہا۔ یہ ڈنر ان کے لیے بےحد معنی رکھتا تھا۔
"ج بابا" اور میں کہہ بھی کیا سکتا تھا۔ جب دل کرتا ہے تب کرنے نہیں دیا اور اب جب دل نہیں کرتا تو کرنے کو کہا جارہا ہے۔
ہم ٹی وہ کے سامنے بیٹھے ویڈیوگیم "دیکھ" رہے تھے۔ کھیل صرف دو لگ رہے تھے۔ میں لاتعلق سا بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا جہاں لڑائی ہورہی تھی۔
"ڈینی!" کچھ دیر بعد ان کے بڑے بیٹے نے مڑ کر کہا۔ میں نے چونک کر سر اٹھایا۔
ڈینی؟ مجھے عاشر اور انس شدت سے یاد آئے۔
اگلے ہی پل اس کا چھوٹا بھائی اس کے پاس جا بیٹھا۔ اس نے مجھے نہیں اپنے بھائی کو آواز دی تھی۔ میں سر جھٹک کر اپنے دوستوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ کیسے ہونگے؟ مجھے یاد کرتے ہونگے یا بھول چکے ہونگے؟ آخری دفعہ میں ان سے مل کر بھی نہیں آیا تھا۔
اللہ اللہ کرکے ہم گاڑی میں واپس جانےکے لیے بیٹھے۔ بابا کے موڈ سے لگ رہا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔میں نے موقع کو غنیمت جان کر اس چیز کی فرمائش کردی جس کی چاہت ابھی تھوڑی دیر پہلے جاگی تھی۔۔ویڈیوگیم۔۔

"بابا آپ مجھے ویڈیوگیم لے کر دیں گے؟" جواب میں وہ ایک لمحہ خاموش ہوئے اور پھر مجھے گھور کر ڈرائونگ کی طرف متوجہ ہوئے۔
گھر آکر ایک اور امتحان میرا منتظر تھا۔ ایک اور تاریک رات۔۔
ایک اور دکھوں کا طوفان۔۔۔

"دانیال تمہیں بابا اپنے کمرے میں بلا رہے ہیں" میں کچن میں کھڑا پانی پی رہا تھا جب ماما نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
کیوں؟ یہ سوال پوچھنا فضول تھا۔ جواب یہی آتا کہ "جاکر دیکھ لو چل جائےگا پتا"
میں سر ہلاتا باہر نکل گیا۔ ماما برتن دھونے کگیں جو صبح سے وہی پڑے تھے۔
میں نے گہری سانس لے کر دروازہ کھٹکایا۔
"آجاؤ" میں دروازہ کھول کر اندر داضل ہوا۔ وہ کرسی پر بیٹھے میرے ہی منتظر تھے۔
انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے آگے کو کہا۔ میں جھجکتے ہوئے دو قدم آگے بڑھائے۔
لیکن وہ تیزی سے اٹھے اور میری طرف بڑھے اور میرے قدم وہی ساکت ہوگئے۔۔
اگلے ہی لمحے ایک زوردار تھپڑ میرا گال سن کر گیا۔
بابا نے مجھے مارا؟
"یہ تمیز سکھائی ہے ہم نے تمہیں؟"
"یہ صلہ دے رہے ہو ہمارے پیار کا۔ یہ تمیز سکھائی تھی ہم نے تمہیں۔ کہاں سے سیکھی یہ بدتمیزی تم نے بولو؟" ان کی آواز بلند تھی۔۔ بےحد بلند۔۔
"اب تم دوسروں کے سامنے جاکر بدتمیزی کرکے باپ کا سر جھکاؤگے؟ کیا سوچ رہے ہونگے وہ کہ یہ تربیت کی ہے می نے اپنے بیٹے کہ کہ وہ کہنا نہیں مانتا کسی دوسرے کا۔ کہاں چلی گئی تھی تمہاری تمیز؟" ان کی آواز میرے اندر تک ہل چل پھیلا رہی تھی۔
"بابا میں نے۔۔" میں نے صفائی دینا ضروری سمجھا۔ اتنی ڈانٹ۔۔ میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
"شٹ اپ باپ کے ساتھ بحث کروگے؟" وہ دھاڑے۔
"آئی ایم سوری" آنسوں دخساروں پر بہہ گئے۔ بس اتنا برداشت کرسکتا تھا میں۔
وہ دوبارہ جاکر کرسی پر بیٹھ گئے۔ میں وہی کھڑا آنسو بہا رہا تھا۔
"اور خبردار آج مے بعد مجھے 'بابا' کہا تو۔ 'call me 'dad اوکے؟"
"لیکن بابا مجھے۔۔۔۔"
"ایک بات ایک بار میں سمجھ نہیں آتی؟ کل میں 'ڈیڈ'۔ اب جاؤ کمرے میں اپنے"
میں وہی کھڑا رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ کیا اور کیوں ہورہا ہے۔
آنسو تھمے تو فورا میں نے اپنے کمرے کی طرف دوڑ لگائی اور زور سے دروازہ بند کرکے لاک لگالیا۔ میں وہی بیٹھ کر رونے لگا۔
"دانیال بولو بابا۔۔۔۔با۔۔۔با۔۔۔بولونا۔۔۔بابا"
"بابا" یہ وہ پہلا لفظ تھا جو میں نے بولا تھا۔ مجھے دادو جان نے بتایا تھا۔ اور بابا کو بابا بولنا مجھے بےحد پسند تھا۔ لیکن آج یہ خوشی بھی چھین لی گئی۔ کیوں؟
کیا بابا بولنے سے ان پڑھ اور گوار کا امپریشن پڑتا ہے؟ نہیں۔۔ الفاظ معنی نہیں رکھتے ان میں چھپا پیار اور عزت معنی رکھتا ہے۔
اس رات میں بہت رویا۔ اور روتے روتے وہی سوگیا۔
مجھ پر کوئی نام نہاد ظلم نہیں ہوا تھا لیکن چھوٹی چھوٹی خوشیاں چھن جانا بھی انسان کو اندر سے توڑ دیتا ہے۔
آج زندگی میں پہلی بار بابا نے۔۔۔ڈیڈ نے مجھے تھپڑ مارا تھا۔ پہلی اور آخری بار۔۔۔

اور پھر دانیال جافری ہر چیز کا عادی ہوگیا۔ "ڈیڈ" بولنے کا بھی۔۔

پہلی مجھے ملنے جلنے سے منع کیا جاتا تھا لیکن اب میں اتنا عادی ہوگیا تھا کہ کسی دوسرے کو اپنے ساتھ برداشت نہیں کر پاتا تھا۔ بدتمیز، اکڑو ، نظر انداز کرنے والا۔۔ یہ الفاظ میرے لیے عام طور پر استعمال ہوتے تھے۔میرا دل کسی کے ساتھ نہیں لگتا تھا۔
میں اکیلے ہی خوش تھا۔ گزر رہی تھی زندگی بھی۔ ڈیڈ اور ماما کی بات میں اب نہیں ٹالتا تھا۔ لیکن ان کے ساتھ بھی کم اٹھتا بیٹھتا۔ اپنے کمرے میں رہتا۔
اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں ایک لائق شاگرد رہا۔
اسی طرح میری ساری پڑھائی مکمل ہوگئی۔ ڈیڈ کا بزنس ترقی کی بلندیوں پہ تھا۔ اب ہمیں واپس جانا تھا اپنے ملک۔
ڈیڈ نے لاہور میں ایک وسیع گھر خرید لیا۔ سارا بزنس اب لاہور میں شفٹ کرنا تھا۔ شاید وہ باہر رہ کر ، کام کرکے اب تھک چکے تھے۔
ہمارا بزنس یہاں بھی کامیاب ہی رہا۔ ہم سب لاہور آگئے اور میں ڈیڈ کے ساتھ بزنس سنبھالنے لگا۔
ایک لائق فائق بیٹا اور کامیاب انسان تو میں بن گیا تھا لیکن بہت کچھ کھو چکا تھا جسے واپس لانا اور پالینا اب لاحاصل لگتا تھا۔

-----

وہ بچپن تھا میرا جو قید ہوگیا
وہ مسکراہٹیں تھی میری جو آنسو بن گئے
میرا جینا میری ذات تک ہی رہ گیا
کچھ اس طرح جینا سکھایا تھا مجھے
دنیا مجھے اتنی خالی لگی
کہ مجھ سے شروع ہوکر مجھ ہی پہ ختم ہوئی
نکالا جب اس نے مجھے میری دنیا سے
تو اس کی دنیا مجھے حسین لگی۔۔

----

"مسٹر دانیال میرے آفس میں آئیے"
"اوکے ڈیڈ" وہ ان کے پیچھے چل دیا۔
"تم آفس کے باہر میرے بیٹے نہیں ہو۔ اندر ہو۔ ڈیڈ ڈیڈ باہر مت کیا کرو۔ لوگوں کو دکھاؤ کہ تم قابل اور کامیاب بزنس میں اپنے خود کے ہنر اور قابلیت کی وجہ سے بنے ہو۔ میرے کھڑے کیے ہوئے بزنس کو مزید تم نے بلندی تک پہنچایا ہے۔ سو! تم ایک بزنس میں کے بیٹے نہیں ہو۔۔۔خود ایک بزنس مین ہو"۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھے اپنائیت سے کہہ رہے تھے۔
"یس ڈیڈ"۔ دانیال یہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔
"آج تمہاری دادوجان ، چاچوں اور ان کی فیملی آرہی ہے۔ گھر جلدی جانا ہے۔ ضروری کام جلدی نہٹا لینا" ان کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔
"جی ڈیڈ" اس نے سر ہلایا اور باہر نکل گیا۔

دانیال واقعی اپنا کام پورے دل سے کرتا تھا اور ان تھک محنت میں مشغول رہتا۔ یہی تو ایک مقصد تھا اس کی زندگی کا۔
کبھی دیر رات تک لگا رہتا تو کبھی صبح سویرے آفس چلا جاتا۔
کام کے علاوہ اس کی کوئی مصروفیت نہیں تھی۔ جب کبھی وقت ملتا تو خود کو مصروف رکھنے کے لیے جم چلا جاتا۔
اپنے آفس کے سٹاف سے وہ مختصر اور ٹودی پوائینٹ بات کرتا۔ اس کے لقب "Rude" میں ایک لفظ کا اضافہ ہوگیا تھا۔ "Rude Boss"
اور لیڈیز سٹاف اس "Handsome Rude boss " سے کافی متاثر تھیں۔ لیکن یہ موصوف اپنے آپ میں خوش رہنے والی شخصیت تھی۔ کوئی لفٹ ہی نا کراتا۔
اکیلے ہوتا تو سکون میں رہتا۔ زیادہ لوگ ہوتے تو کڑوے کریلے والے انداز اپنا لیتا۔
----

لاؤنج میں سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ دادوجان اپنی خوشی سے نم آنکھیں بار بار پونچھتی۔ ان کا گھر 'پورا' ہوگیا تھا۔ گلے شکوے سب مٹ گئے تھے۔
اور جافری صاحب کا میٹھا شربتی لہجہ ان کا کوئی اور ہی روپ لگ رہا تھا۔

اس شام سب کے سونے کے بعد دانیال فائل لےکر لاؤنج میں آبیٹھا۔
"سوئے نہیں ابھی تک تم؟" اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔
"جی وہ بس فائل دیکھ رہا تھا۔ آپ کیوں جاگ رہے ہیں؟" اس نے فائل بند کردی۔ وہ ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئے۔
"دانیال تم کچھ دن کی چھٹی لےلو۔ آرام کرو ، گھوموں پھرو۔ کام ملتوی کردو ورنہ میں تو ہوں نا سنبھال لوں گا" وہ فکر مندی سے کہہ رہے تھے۔ جانے یہ خیال انہیں کیسے آیا۔
وہ کچھ دیر بےیقینی سے یہ بدلا انداز دیکھتا رہا۔ یہ بدلی بدلی سی شخصیت کون تھی؟
"نو ڈیڈ سب ٹھیک ہے۔ ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے" اسنے بغیر سوچے کہہ دیا۔
"میری آفر ابھی تک موجود ہے اور رہے گی۔ سوچ لینا"۔ وہ گہری سانس لے کر اٹھ گئے۔
وہ وہی بیٹھا رہا۔ سوچنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کی زندگی میں کام کے علاوہ کوئی اور مصروفیت ہے ہی نہیں۔۔ اچھا ہے نا کام میں دھیان بٹا رہتا ہے۔
وہ آہ بھرتا فائل اٹھا کر کمرے میں چلا گیا۔

---

آج لنچ ٹائمنگ کے دوران وہ آفس میں بیٹھنے کے بجائے اوپن ایریا کیفے میں آگیا۔ کافی عرصے بعد اسکا دل چاہا باہر اکیلے کسی سکون دہ جگہ پر بیٹھنے کو تو وہ یہاں آگیا۔
کیفے کے پچھلے حصے میں گھاس پر کرسی اور میز رکھے گئے تھے۔
اس نے کوٹ اتار کر ٹیبل پر رکھا اور کرسی پر براجمان ہوگیا۔ وہ اچھا محسوس کر رہا تھا۔ وہ اکیلے بیٹھ کر ہر مشکل سے خود کو دور محسوس کرتا تھا۔
ویٹر قریب آیا تو اسنے کافی کا آرڈر دیا۔ ایڈوانس پےمینٹ کی اور آنکھیں بند کرکے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر وہ یونہی آنکھ بند کیے بیٹھا رہا۔
کسی چیز کا احساس ہونے پر اس نے آنکھیں کھولیں اور ادھر ادھر دیکھا۔
ویٹر کافی لیے کھڑا تھا۔ "اوہ تھینک یو"۔ اس نے گرم کافی کا گھونٹ بھرا اور دوبارہ ٹیبل پر رکھ دی۔
کچھ تھا۔۔۔ کسی چیز کا احساس ہورہا تھا اسے۔۔۔۔۔
Hold fast to dreams
For when dreams go
Life is barren field
Frozen with snow

پچھلی میز سے یہ آواز ابھری۔ انجانی سی آواز رھی لیکن یہ نظم۔۔۔
اوہ یہ تو اس نے کئی دفعہ سکول میں پڑھی تھی۔ اور یہی نظم تو آغاز تھا اس دوستی کا۔۔۔
وہ فوراً بےچینی سے پلٹا۔
اور جو اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔اس نے اسے ساکت کردیا۔
"مجھ سے دوستی کروگے ڈینی؟" وہ پچھلی سیٹ سے اٹھ کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔
دانیال بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں ہر یقین نہیں آرہا تھا کہ۔۔۔
کہ سامنے عاشر کھڑا ہے۔
اس کی شکل بہت بدل گئی تھی۔ لیکن اسے دیکھ کر اتنا پہچان سکتے تھے کہ یہ وہی عاشر ہے جسے اسنے بچہن میں دیکھا تھا۔
"مجھ سے دوستی کروگے ڈینی؟"۔ وہ ماضی دہرا رہا تھا۔
حال کو خوشگوار کرنے کے لیے۔
عاشر نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ لیکن اس بار دانیال نے اسکا ہاتھ نہیں تھاما۔
دانیال اٹھا اور کے گلے لگ گیا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ اور ایسی ہی ہلکی سی نمی عاشر کی آنکھوں میں بھی تیر رہی تھی۔
"تم کہاں چلے گئے تھے ؟ ملے بغیر۔۔۔ میں نے تمہیں اتنا یاد کیا"
"میں نے بھی تمہیں ہر پل بے تہاشا یاد کیا۔ بہت یاد کیا" دانیال نے ہٹتے ہوئے کہا۔
"چھوڑو پرانی باتوں کو ورنہ آنسو بہہ جائیں گے" عاشر نے بیٹھتے ہوئے کہا تو دانیال بھی بیٹھ گیا۔
"کیسے ہو؟ یہاں کیسے؟"اس کے سوال پر دانیال مسکرایا اور اپنے یہاں ہونے کا بتایا۔
"ہیں سچی؟ اب تم یہی ہو؟ یہ ہوئی نا بات۔ اب ہم روز ملیں گے اور اتنے سالوں کی ڈھیروں باتیں کریں گے" عاشر اس کے یہاں رہنے کا سن کر بےحد خوش ہوا تھا۔
"ہاں بالکل" دانیال نے ایک آنکھ دبائی۔
"میں بہت خوش ہوں تمہیں دیکھ کر ڈینی"۔ وہ نا بھی کہتا تب بھی ان دونوں کی شکلیں دیکھ کر کوئی بھی بتا سکتا تھا کہ وہ کتنے خوش ہیں۔
"اور مجھے تو یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں ہے"۔ اور اسے واقعی یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔24/7 سنجیدہ رہنے والا انسان اس وقت اہنے چہرے پر لگاتار مسکراہٹ سجائے بیٹھا تھا۔
"اٹھو میرے گھر چلو" عاشر فوراً کھڑا ہوگیا۔
"ہیں؟" دانیال حیران ہوا۔
"ڈینی میرے ساتھ گھر چلو۔ ہمیں ابھی بہت سی باتیں کرنی ہیں"
"جی ضرور"۔ دانیال نے تابعداری دکھائی اور بنا کچھ اور سوچے فوراً اٹھ گیا۔
---

دراوازہ کھول کر اندر داخل ہوتے ہی وہ انہیں پکارنے لگا۔
"امی امی! کدھر ہیں آپ؟"
"امی!"
"یہاں ہوں عاشر کیوں چینخ رہے ہو؟" دائیں جانب بنے کچن سے آواز آئی۔
عاشر نے دانیال کا بازو پکڑا اور فورا کچن کےپی طرف بڑھا۔
"امی دیکھیں مجھے کون ملا"۔ عاشر تو اسے اپنی امی سے ملانے کے لیے اتاولا ہورہا تھا۔
زاہدہ بیگم سر پر میرون ڈوپٹہ اوڑھے سبزی کاٹ رہی تھیں۔ اس کی آواز پر کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
"کون؟" انہوں نے پہلے عاشر اور دیکھا اور پھر پیچھے کھڑے نوجوان کو۔
" اسلام علیکم" دانیال نے سلام کیا۔
"وعلیکم اسلام بیٹا" جواب دے کر انہوں نے عاشر کی طرف دیکھا۔
"امی۔۔ دانیال ہے" عاشر مسکرایا۔
زاہدی نے دماغ پر زور ڈالا۔ کون دانیال؟
اوہ اچھا۔۔
"ارے دانیال ہے یہ؟ ماشاءاللہ کیسے ہو بیٹا؟" انہوں نے آگے بڑھ کر اسکے سر پر ہاتھ پھیر پر پیار کیا۔
"جی آنٹی بالکل ٹھیک"
"میں نے کبھی دیکھا نہیں تھا تمہیں لیکن جب عاشر کی ایک دفعہ کلاس بدلووائی تھی بس تب سے یہ دانیال کے ہی گن گاتا رہتا تھا۔ امی ڈینی یہ۔۔امی ڈینی وہ۔۔۔ امی میری اور اسکی دوستی ہوگئی۔۔ بہت ذکر کرتا تھا تمہارا۔۔۔ بلکہ اب تک کرتا رہتا ہے"۔ انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا۔ ان کی باتوں پر وہ دونوں بھی ہنسنے لگے۔
"اچھا امی باتیں بعد میں کرلینا اس سے۔ آج کہیں نہیں جائے گا یہ۔ ہے نا ڈینی؟"
"جی بالکل"
"چلیں امی کچھ کھانے کا انتظام کردیں۔ اور کدھر ہیں آپی؟ ان سے کہیں کہ مزیدار سا پاستہ بنادیں پلیز"۔ اسکی امی کچن سے باہر نکل گئیں۔
"اور تم چلو میرے کمرے میں"۔ وہ اسے النے کمرے میں لے آیا۔
صاف ستھرا کمرا۔ بالکل اسکی پرسنیلٹی کی طرح ڈیسنٹ اور اچھا۔
دیوار پر دو تین قدرت کے خوبصورت مناظر لٹک رہے تھے۔ دانیال کھڑا سینری دیکھنے لگا۔عاشر اپنی الماری میں گھسا ہوا تھا سر نکال کر بولا
"اچھی ہے نا؟"
"بہت خوبصورت"۔ وہ اس برفیلے پہاڑ کی سینری کے سحر میں کھوسا گیا تھا۔

عاشر نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور کچھ سوچنے لگا۔ پھر سر جھٹک کر آگے آیا۔
"یہ کپڑے لو اور چینج کرلو تاکہ دیر تک ہم سکون سے مزے کرسکیں۔ اور جس کو فون کرنا ہے کرلو اور کہہ دو کہ آج تم نہیں آؤ گے"
"نہیں بھئی شام کو یا رات کو چلا جاؤں گا دادوجان کو ڈراپ کرنا ہے مجھے"۔ اسے اب یاد آیا تھا۔
"اچھا" عاشر نے اسے گھورا۔
"لیکن رات تک تو یہی ہو نا۔ لو چینج کرلو۔ سوٹ میں uncomfortable ہوگے"۔
گھڑی دوپہر کے اڑھائی بجا رہی تھی۔
عاشر نے شلوار قمیض اس کی طرف بڑھائی۔
جیسا گرم موسم لاہور میں ہوا تھا وہ واقعی سوٹ میں پگھل جاتا۔
وہ آرام سے کپڑے لےکر واشروم میں گھس گیا۔
وہ باہر آیا تو اسے دیکھ کر عاشر نے مسکراہٹ دبائی۔ وہ خود بھی چینج کرچکا تھا۔
"کیا ہوا؟" دانیال نے پہلے عاشر کو دیکھا اورپھر سر نیچے کرکے خود کو۔
"کچھ نہیں ڈینی اچھے لگ رہے ہو"۔ گرے قمیض اور بلیک شلوار میں وہ واقعی اجلا اجلا لگ رہا تھا۔ دانیال ہنس پڑا۔
"ویسے تم کیا کرتے ہو؟"
"میں معصوم سا بچہ ہوں یار۔ پچپن ہزار ماہانہ معمولی سی تنخواہ ہے میری الحمداللہ۔
بھائی کے ساتھ انہی کی کمپنی میں کام کرتا ہوں۔ اور سال میں ایک دفعہ ایک مہینے کی چھٹی ملتی ہے اور آج کل اسے ہی انجوائے کررہا ہوں"
وہ ایسا ہی تھا۔اپنی باتوں کو ہلکا سا مزاح میں بگھوتا اور کہہ دیتا۔ اور سامنے والا ہنسا دیتا۔
دانیال بھی اسکی معمولی سی تنخواہ اور معصوم سا بچہ پر ہنس رہا تھا۔
"واہ بہت اچھے"
"اور انس؟ وہ کہاں ہوتا ہے؟" دانیال نے یک دم اچھل کر پوچھا۔
"ڈاکٹر انس کہو انہیں تو۔ اسلام آباد میں ہوتا ہے وہ۔ کبھی کبار بات ہوجاتی ہے فون پر۔ اس کے یہاں سے جانے کے بعد ایک دو دفعہ ملے بھی تھے ہم"
"واہ زبردست"
"ڈینی اب تم بتاؤ کہا تھے؟ کیسے تھے؟ وغیرہ وغیرہ"۔ عاشر ٹھوڑی تلے مٹھی بند کرکے اسے بڑی توجہ سے دیکھا رہا تھا۔
دانیال نے گہری سانس کی اور شروع ہوگیا۔
جو انسان ہمارے ساتھ مخلص ہوتا ہے اس پر خودبخود یقین ہوجاتا ہے۔ اور یہ یقین اپنے دل کا حال اس کے ساتھ بانٹتا ہے۔
بچپن سے لے کر اب تک کے واقعات ، ہر قصہ سب کچھ سناتا گیا اور وہ سنتا رہا۔
بول بول کر گلا خشک ہوتا تو پانی کا گھونٹ بھرتا اور دوبارہ شروع ہوجاتا۔ عاشر نے کئی جگہ اپنے comments دیے۔
جب اسنے اختتام کرکے گہرا سانس لیا تو عاشر نے اٹھ کر اسے گلے لگایا۔
"ڈینی تم بہادر اور بہر اچھے ہو"۔ وہ بس اتنا کہہ سکا۔ دانیال بس مسکرا کر رہ گیا۔
اس نے اپنے ڈیڈ میں آنے والی تبدیلی کا بھی ذکر کیا۔ وہ دونوں ابھی تک "حالِ دانیال " پر تبصرہ کر رہے تھے۔
"جانتے ہو ڈینی انسان جو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے حاصل کرنے تک وہ بےچین رہتا ہے۔ اور جب وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ پرسکون ہوجاتا ہے۔نساری سختیاں ، ساری زنجیریں اپنے آپ ٹوٹ جاتی ہیں"۔ وہ بات کرتے کرتے رکا۔ اس کا چہرہ دیکھا جو اسکی توقع کے مطابق بلینک تھا۔
"انکل چاہتے تھے وہ کامیاب بزنس مین بنیں اور ان کا بیٹا بھی کامیاب ہو۔ تو ان کو اب سب مل گیا جو وہ چاہتے تھے اس لیے وہ مطمئین ہیں۔ اور وہ ڈیڈ ہیں تمہارے انہیں تم سے پیار ہے۔ تمہاری فکر ہے"۔
دانیال کچھ سوچنے لگا "بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم عاشر۔ ایسا ہی ہے شاید۔ خیر چھوڑو"
"ایک بات اور کہوں؟" عاشر کچھ سوچ رہا تھا۔
"ہاں کہو"
"انسان کا ہر سچویشن situation میں ایک الگ روپ ہوتا ہے۔ ہر جگہ اس کا رویہ ایک سا نہیں ہوتا۔ ہر کسی کے ساتھ اس کا سلوک ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اگر کسی انسان کا دوسرا روپ دیکھنا ہے تو اس کے اردگرد کا ماحول بدل دو"
"ہیں؟" دانیال نے تصدیق مانگی۔
"بالکل" اس نے یقین سے کہا۔
"ڈینی میرے ساتھ چلوگے؟" کچھ دیر بعد اس نے پوچھا۔
"کہاں؟"
"بہت دور۔۔۔ مزا کرنے۔۔ گھومنے پھرنے۔ ایک ہفتے کے لیے۔ آرام سے کل تک سوچ لو"
دانیال سوچنے لگا۔
" سوچ لو۔ اجازت مانگ لینا پھر بتادینا"۔
"ٹھیک ہے۔ " وہ اس بارے میں سوچے گا۔
"اب کچھ کھلا بھی دو۔ پچھلے تین گھنٹے سے بول بول کر تھکے نہیں کیا؟" اسے بھوک لگنے لگی۔
"او سوری" وہ ہنستا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
---

"ڈیڈ مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے"
"اندر آجاؤ" وہ بستر پر لیٹے بس سونے ہی والے تھے۔ اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھے۔
وہ دادوجان کو انکے گھر ڈراپ کرکے آیا تھا۔ اور واپسی پر سارا راستہ سوچتا رہا تھا اب سیدھا ان کے کمرے میں آیا تھا۔
وہ دروازہ کھلو چھوڑ کر اندر آیا اور سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور نظریں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ وہ بغور اسی کو دیکھ رہے تھے۔
"کہو"
"آ۔۔۔ڈیڈ مجھے آپ کی چھٹی والی آفر منظور ہے"۔ اس نے کچھ جھجک کر کہا۔ وہ شاید کبھی اس بارے میں سوچتا بھی نا لیکن اسے عاشر مل گیا تھا۔ عاشر اس کی زندگی کا چینج تھا۔جو بہت کچھ بدل دیتا تھا۔
"سچ؟" وہ شاید خوش ہوئے تھے۔
"جی میں فرینڈ کے ساتھ جارہا ہوں"
"بہت اچھہ بات ہے یہ تو۔ کہا جارہے ہو؟" وہ دوست والی بات ہر حیران ہوئے تھے لیکن ظاہر نہیں کیا۔
"یہ تو وہی طے کرے گا اور اس نے بتایا نہیں ابھی"۔ وہ فرش کو دیکھ کر کہہ رہا تھا۔
انہیں یقین تھا ان کا بیٹا سمجھدار ہے ٹھیک فیصلہ کیا ہوگا۔
"خوب انجوائے کرنا" انہوں نے مسکرا کر کہا۔ وہ سر ہلا کر اٹھ گیا۔
وہ اجازت لینے نہیں آیا تھا بتانے آیا تھا۔ وہ اب چھوٹا دانیال نہیں تھا جو اجازت لے کر قدم اٹھاتا۔ آج اس نے اپنا قد خود اٹھایا تھا۔
وہ اکیلے کمرے میں بیٹھے مسکراتے رہے۔
"کیا ہوا؟" دانیال کی ماما کمرے میں داخل ہوئیں تو ان کو مسکراتے دیکھا۔
"اس نے آفر قبول کرلی"
"سچ؟" وہ بھی خوش ہوئیں۔ انہوں نے سر ہلایا۔
(عاشر کے گھر رکنے کے بارے میں وہ انہیں فون پر بتا چکا تھا)

----
داناں آج دوپہر اسی کیفے میں بیٹھے کافی پی رہے تھے۔
موسم آج بی ویسا ہی تھا۔ سورج آگ برسا رہا تھا۔ لیکن اس کیفے کے پچھلے حصے مین ٹھنڈی گھاس اور میز کے اوپر لگی بڑی سی امبریلا گرمی کی تپش کو کم کر رہی تھی۔
"پھر کیا سوچا ڈینی چلوگے میرے ساتھ؟" عاشر نے کافی کا گھونٹ بھرا اور کپ میز پر رکھ کر دانیال کی طرف دیکھا۔
"جی ہاں" وہ مسکرایا۔
"واقعی؟ تم چلوگے؟"
"او یس! شکر خدا کا۔ ان دیکھنا کتنا مزا کرتے۔ اور تم یقین کرو وہاں ایک نئے دانیال سے ملوگے"
وہ خوشی کے مارے کیا کچھ بولتا گیا۔ دانیال ہنسنے لگا۔
"اب بتاؤ کہاں جانا کے اور کب؟"
"ہوں۔۔ کہاں جانا ہے یہ تو نہیں بتاؤں گا۔ لیکن کل رات کو ہم نکلیں گے ٹھیک دو بجے رات کے"
"رات کے دو بجے؟ کوئی ڈاکہ ڈالنا ہے کیا؟"
اس کے سوال پر پہلے عاشر نے منہ بنایا پھر ہنسا دیا۔
"ہم اپنا سفر رات میں شروع کریں گے اینڈ ڈونٹ وری ڈاکہ نہیں ڈالنے جارہے" پھر مسکراہٹ دبا کر بولا " بس ایک دو 'گولے' مارنے ہیں"۔
"واٹ؟ عاشر؟" دانیال چلایا۔
عاشر نے بلند قہقہہ نے اسے 'پریشان کن' سوال کرنے سے روک لیا۔
"ٹرسٹ می۔۔۔ یہ ہفتہ تماری زندگی کہ بہترین دنوں میں سے ایک ہوگا۔"
"آئی ٹرسٹ یو عاشر"
"ویری گڈ۔ اب تم اپنا بیگ پیک کرلینا چھوٹا سا۔ کچھ کپڑے، ضروری سامان اور ہاں کوئی جیکٹ اور ایک دو مفلر یا کوئی گرم کپڑے"۔
"ایسی کونسی جھہ ہے جہاں اتنی گرمی میں گرم کپڑے پہننے پڑیں؟" دانیال کو تجسس ہورہا تھا۔ عاشر فوراً بولا۔
‏"You never know کب کیا ہوجائے اس لیے پہلے سے تیاری کرلینی چاہئے۔ اور زیادہ دماغ لگانے کی ضرورت نہیں ہے بس آرام سے جاکر پیکنگ کرنا"
عاشر نے حکم صادر کیا تو وہ مسکراتا ہوا کافی خرم کرنے لگا۔
پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
"اوکے کل ملیں گے"
عاشر بھی کھڑا ہوگیا۔
"کل رات دو بجے شارپ۔ خدا حافظ"
"یس باس"۔ وہ اس سے مل کر نکلا گیا تو عاشر نے فون نکال کر ایک نمبر ملایا۔
تیسری گھنٹی پر فون اٹھالیا گیا۔
"ہیلو ہاں وہ راضی ہوگیا ہے"
دوسری جانب سے اونچی چینخ کی آواز اسکے کان میں زور سے پڑی۔
"ہاں سب کچھ پلین کے مطابق ہونا چاہئے۔ تم تیاری پکڑو۔۔ پرسوں ملیں گے"
"اوکے گریٹ" اس کی اگلی بات سن کر وہ ہنسا۔
"اللہ حافظ"
فون بند کرکے اسنے گہری سانس لے کر خود کو نارمل کیا۔ اسے ابھی بہت کام کرنے تھے۔ وہ کیفے سے نکل کر فارمیسی آگیا۔ ابھی اسے مارکیٹ بھی جانا تھا۔

----

اگلے دن دانیال الماری کا پٹ کھولے سامنے کھڑا تھا۔ بستر پر کھلا ہوا چھوٹا بیگ بھی اپنے اندر کچھ ڈلنے کا منتظر تھا۔ اس کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا رکھے اور کیا نہیں۔
"دانیال"
وہ پلٹا۔ "جی ماما" وہ دروازے میں کھڑیں اسے دیکھ رہی تھیں۔
"میں مدد کردوں؟"
"نہیں میں کرلوں گا" اس نے فوراً کہا۔ وہ خاموش ہوکر پلٹ گئیں۔
"انسان کا ایک روپ نہیں کوتا۔ ہر سچویشن میں ایک الگ روپ، ایک الگ انسان ہوتا ہے۔ انسان تو خود ایک ایڈوینچر ہے" ایسا عاشر نے کہا تھا۔
"ماما میرا بیگ پیک کردیں گی؟" اسنے دروازے میں کھڑے ہوکر کہا۔ کیا ہوا اگر بچپن میں انہوں نے وہ آنسو صاف نہیں کیے۔ تب کوئی اور سچویشن تھی اب کوئی اور۔۔
انہوں نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا اور اس کے ساتھ اندر آگئیں۔
"ماما عاشر نے کہا تھا ایک دو کپڑے، ضروری سامان اور ایک دو گرم چیزیں رکھ لوں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ کیا رکھوں؟" وہ فکر مند نظر آرہا تھا۔
وہ ہلکے سے ہنس دیں۔ "تم بیٹھو میں سب کردیتی ہوں"
"تھینک یو" وہ مسکرا کر بیڈ ہر بیٹھ گیا۔ وہ الماری کی طرف بڑھیں۔
ایک ٹراؤزر شرٹ نکالا اور بیگ میں رکھا۔
"ہیں؟" دانیال نے سوچا۔
پھر ایک جینز نکالی اور ساتھ میں دو شرٹ۔ اور بیگ میں ٹھیک سے تہہ لگا کر رکھ دی۔ پھر دوسری الماری کھولی اور ایک عدد جیکٹ نکالی اور ایک ہڈ نکال کر بیگ میں رکھ دی۔
پھر وہ کمرے سے باہر نکلیں۔ والس آئیں تو ان کے ہاتھ میں اور سامان تھا۔
"یہ ضروری سامان ہے" انہوں نے دانیال کی طرف دیکھ کر کہا اور سامان بیگ میں رکھنے لگیں۔ تولیہ برش، منی ٹوتھپیسٹ، ٹوتھ برش وغیرہ۔ پھر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آئیں اور ایک پرفیوم اٹھایا۔
"یہ اچھا لگتا ہے؟" دانیال نے سر ہلادیا۔ انہوں نے 'ضروری سامان' بیگ کی آگے والی زپ میں رکھا تھا۔ پرفیوم رکھ کر انہوں نے رومال رکھا اور بیگ کی ساری زپیں بند کردیں۔
"لو ہوگیا"
"تھینک یو ماما۔ یقین کریں میں کبھی بیگ نا پیک کر پاتا، تھینکس آلوٹ"۔
انہوں نے پیار سے اسکے بال سنوارے "اینی ٹائم بیٹا" وہ بس مسکرا کر رہ گیا۔
"اور یہ والا جاتے ہوئے پہن لینا ٹھیک ہے؟" انہوں نے ایک اشارہ الماری کی طرف کیا۔
"جی ضرور ماما" وہ باہر نکل گئیں۔
---

ڈنر کے بعد وہ سیدھا ان کے کمرے میں آگیا تھا۔
"ارے دانیال آؤ" دونوں نے ایک ساتھ کہا۔
"وہ میں نے سوچا آپ لوگ تو گیارہ بجے تک سوجائیں گے اور میں دیر سے نکلوں گا۔ اس لیے ابھی آگیا"
"بالکل ٹھیک کیا آجاؤ بیٹھو" ڈیڈ نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گیا۔ ورنہ تو وہ کھڑے کھڑے جانے کے ارادے سے آیا تھا۔
"دانیال بالکل بےفکر ہوکر جاؤ۔ کام کی ٹینشن نا لینا۔ میں ہوں نا۔ تم بس سب بھول کر انجوائے کرنا" وہ بےحد پیار سے کہہ رہے تھے۔
وہ بس سر ہلا رہا تھا۔
"اور ہمیں بھول نا جانا ۔ ایک آدھ فون کرلیا کرنا" اس بار ماما نے کہا۔ اس کے والد مسکرادیے تو وہ بھی ہلکا سا مسکرادیا۔

جی ضرور آپ لوگ آرام کریں۔ میں ذرا تیار ہوجاؤں۔ فون کرتا رہوں گا"
دانیال اٹھ کھڑا ہوا۔
"کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا" ماما بھی کھڑی ہوگئیں۔
"جی ضرور" انہوں نے آگے بڑھ کر اسے پیار کیا۔ جافری صاحب نے اسکا کندھا تھپکا۔
وہ باہر نکل آیا۔
اپنے کمرے میں آکر الارم لگا کر وہ ایک گھنٹہ سوگیا۔ پھر اٹھ کر نہایا اور وہ جینز شرٹ پہن لی جو ماما نے صبح نکالی تھی۔ ڈارک بلو جینز اوپر سفید شرٹ جس کی آستین اسنے کہنیوں تک موڑلیں۔ شیشے کے سامنے کھڑے ہوکے بالوں میں کنگی پھیری۔ پھر کنگی رکھ کر اہنی انگلیوں سے بال اوپر کو سنوارے۔ پھر خود کو شیشے میں دیکھ کر مطمئین کوا اور پرفیوم اٹھا کر سپرے کیا۔
وہ خوش نظر آرہا تھا۔ اسکی پوری زندگی میں یہ پہلی بار ہورہا تھا کہ وہ کسی دوست کے ساتھ کہیں جارہا ہے۔ گھڑی ڈیڈھ بجا رہی رھی۔ اسنے فون نکال کر عاشر کو ملایا۔
وہ آرہا تھا اور ٹھیک دو بجے وہ باہر کھڑا تھا۔ وہ بیگ اٹھا کر کمرے سے نکلا۔
ایک نظر بند دروازے کو دیکھا جو اس کے والدین کے کمرے کا تھا اور باہر نکل آیا۔
چوکیدار کو ٹھیک سے دروازہ بند کرنے کی تاکید کی اور قدم گیٹ کے باہر رکھا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ جب وہ واپس اس گھر میں قدم رکھے گا تو دانیال کوئی دوسرا ہوگا۔

اندھیرے میں ڈوبی رات میں سڑک کو سٹریٹ لائٹ نے کچھ حد تک روشن کیا ہوا تھا۔ گیٹ کے سامنے عاشر اپنی ہونڈا سوک Honda Civic سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ دانیال کو نکلتا دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔ جینز اور بلیک شرٹ میں ملبوس وہ ایک دم فریش لگ رہا تھا۔
اس کے ہاتھ سے بیگ لےکر ڈگی میں رکھا جہاں کچھ اور بھی سامان پڑا ہوا تھا۔
"میری دل و جان سے عزیز گاڑی آپ کی راہ دیکھ رہی ہے"۔ عاشر نے جھک کر دروازہ کھولا۔ دانیال ہنستا ہوا اندر بیٹھ گیا۔
گاڑی اےسی کی کولنگ سے ٹھنڈی ہوچکی تھی۔ عاشر بھی دروازہ کھول کر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
"کیسی ہے میری گاڑی؟" سیٹ بیلٹ پہنتے ہوئے اسنے سوال کیا۔
"بہت اچھی ہے۔ تمہیں بہت پسن ہے؟" دانیال نے گاڑی کا جائزہ لےکر جواب دیا۔ وہ بالکل صاف ستھری اور اچھے حال میں موجود تھی۔
"ہاں بہت کیونکہ اسے میں نے اپنے پیسوں سے خریدا تھا۔ مجھے تو بہت عزیز ہے۔ امی کہتی ہیں تمہارے لیے لڑکی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے اسے گاڑی سے شادی کردوں گی تمہاری" اپنی بات کہہ کر وہ خود ہی ہنس پڑا۔
"واہ بھابھی ہے اہنی یہ تو"۔ دانیال نے ہنسی روک کر کہا۔
"سب لے لیا نا؟ کچھ رہ تو نہیں گیا؟"
"جو رکھنا تھا سب رکھ لیا"
"اوکے بسم اللہ" عاشر نے سفر کی دعا پڑی اور گاڑی سٹارٹ کردی۔
"ہم کدھر جارہے ہیں؟" مین روڈ پر پہنچتے ہی دانیال نے سوال کیا۔
"تم یہ سوال پوچھ کر ستیاناس کروگے میرے سرپرائز کا" عاشر نے سامنے روڈ سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا۔
"اچھا سوری" اس نے فورا معذرت کی۔ "ویری گڈ"
"سفر لمبا ہے تھوڑا اتنا بتا دیتا ہو بس۔۔۔ سو دل کھول کر باتیں کرو"
"اچھا۔۔ ویسے ہم جا۔۔۔۔" عاشر کی گھوری پر اسنے سوال ادھورا چھوڑا اور ہنسنے لگا۔
وہ ڈرائیو کررہا تھا اس لیے وہ بور نا ہو تو دانیال ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ باتوں کا رخ اسکے گھر تک آگیا۔
وہ بتارہا تھا کہ وہ ڈنر کے بعد ہی ماما اور ڈیڈ سے مل کر کچھ دیر سوگیا تھا۔
"میں تو سارا دن سوتا رہا ہوں ورنہ ابھی تک پتا نہیں کیا حال ہوتا میرا" عاشر نے ہنس کر بتایا۔
"ویسے ایک بات کہوں ڈینی؟" عاشر نے سنجیدہ ہوکر پوچھا۔
"جی ضرور"
"جتنی اچھی طرح ہم خود اپنے آپ کو، اہنے دل کو سمجھا سکتے ہیں اتنا اچھا کوئی نہیں کرسکتا"
"اس بات کا مطلب؟" دانیال کچھ الجھا۔
عاشر نے گہرا سانس لیا۔ دانیال نے جتنا اسے اپنے بارے میں بتایا تھا وہ یہ سمجھنے کے لیے کافی تھا کہ وہ کیسی زندگی گزار رہا ہے وہ بھی اہنی مرضی سے۔
"ڈینی انکل آنٹی کے ساتھ گھلو ملو۔ لائف کو انجوائے کرو، جو ماضی میں ہوا اسے بھول جاؤ۔ جو حال میں ہے اسے ٹھیک کو۔ ورنہ یہ حال بھی جب ماضی بن جائےگا تو مستقبل میں اسے یاد کرکے تم رؤ گے"۔
"میں ہر کسی کے ساتھ فری نہیں ہوسکتا" دانیال کی آواز مدھم تھی۔
"ہر کسی سے فری ہونا بھی نہیں چاہئے۔ صرف ان سے جو تمہارے اپنے پیں۔ جو تمہارے ساتھ مخلص ہے یا جن سے تمہارا دل کرے گھلنے ملنے کو"۔
دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔
"دانیال رمہارے ڈیڈ جو چاہتے تھے وہ انہیں مل گیا ہے اور تمہاری ماما اپنے شوہر کی وجہ سے خاموش تھیں۔ لیکن اب سب بدل گیا ہے۔۔۔ اگر کچھ نہیں بدلا تو وہ تم ہو"۔ عاشر اپنے دوست کو بس اس جھنجھٹ سے آزاد کرنا چاہتا تھا۔

کتنا وقت ہوگیا تھا نا اسے پیار کی تھپکی نہیں ملی کتنا کم وقت گزارا تھا اس نے ماں باپ کے ساتھ۔
دنیا چاہے کتنی ہی بار کیوں نا کہہ دے "I don't care" لیکن وہ ہیار کی بھوکی ہے۔ پیار طرف کھینچی چلی جاتی ہے۔
دانیال کسی سوچ میں گم تھا۔ عاشر چپ شاپ ڈرائیو کر رہا تھا۔
"تو میں کیا کروں عاشر؟" وہ کافی دیر بعد بولا۔
عاشر نے اسکی طرف دیکھا۔ "منا لو خود کو ، کوشش کرکے دیکھ لو۔ ان سے گھلو ملو باتیں کرو۔ اب جب واپس جاؤ تو ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا۔۔ طریقے خود ڈھونڈو"
"میں کوشش کروں گا" اس کے کہنے پر عاشر مسکرایا۔
"یقین کرو کوئی دوسرا صرف مشورہ دے سکتا ہے یا ہمدردی کرسکتا ہے۔ عملی کام خود کرنا پڑتا ہے۔ خود پر کنٹرول حاصل کرو۔ کسی بھی سچیوشن کو ہینڈل کرنے کے لیے ہم اہنے آپ کو خود منا سکتے ہیں۔ ٹرائی کرو۔ اپنے نفس پہ قابو کرو۔
اب کوئی پرابلم ہے تو پہلے تم اسے مختلف نظریے سے دیکھو۔ negative ہوکر ، پھر positive ہوکر، کبھی اِس اینگل سے کبھی اُس اینگل سے۔ پھر خود ہی اپنے آپ سے بات کرکے خود کو سمجھاؤ اور کر ڈالو۔ ہوگیا مسئلہ حل"۔
وقت ہی وقت کا اسی لیے وہ تفصیل سے بات کر رہا تھا۔
گاڑی لاہور سے باہر نکل چکی تھی۔
دانیال سوچوں میں گم تھا۔
"صحیح کہہ رہے ہو۔ مشکل ہے but i think i can try and i will۔۔۔ بس کچھ وقت"
اس کی آواز اتنی ہلکی تھی جےسے خود سے کہہ رہا ہو لیکن عاشر نے سن لیا اور سکون کا سانس بھرا۔
عاشر نے ایک CD اٹھا کر لگائی۔ ایک مووی شروع ہورہی تھی۔
"اس سے ہم بور نہیں ہونگے" عاشر نے سامنے دیکھ کر کہا لیکن دھیان دانیال کی طرف تھا جو ابھی تک کچھ سوچ رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ اس کے چہرے کے زاویے بھی بدل رہے تھے۔
"ایسے بھی زندگی گزر رہی ہے اُس طرح بھی گزار کر دیکھ لیتے ہیں"۔ دانیال سوچ رہا تھا۔
"ڈینی پاپ کارن پکڑاؤ" عاشر نے اسکا دھیان ہٹایا۔
"ہیں؟"
"پچھلی سیٹ پر بہت کچھ ہے کھانے پینے کو وہاں سے نکالو۔مروکھی سوکھی مووی دیکھیں گے کیا؟"
"اوہ واہ" دانیال نے پیچھے مڑ کر شاپر میں سے پاپ کارن ڈھونڈ کر نکالے۔
"امی نے رکھا ہے یہ کھانا شانا شکر ہے۔ پیٹ پوجا بھی ہوتی رہے گی"۔ اس نے تھوڑے سے پاپ کارن منہ میں ڈالے۔
ڈرائیونگ کے دوران جب سامنے کوئی گاڑی نہ ہوتی تو وہ مووی پر نظر ڈال دیتا اور پاپ کارن کے پیکٹ میں ہاتھ۔ دانیال بھی سن بھول بھال کر فلم دیکھنے اور ساتھ ساتھ پاپ کارن کھانے میں مگن تھا۔
دو ڈھائی گھنٹے کی فلم ختم ہوچکی تھی۔ ایک ایک جوس کے ڈبے کے ساتھ بھی انصاف ہوچکا تھا۔
"جب دن چڑھے گا تو کسی دکان سے مووی اور گانے کی CDs لے لیں گے"۔ عاشر نے خالی جوس کا ڈبہ دانیال کو پکڑایا جو اسنے شاپر میں پھینک دیا جس میں وہ سارا کچرا ڈال رہے تھے۔
سڑک مکمل طور پر اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ روشنی کا واحد ذریعہ گاڑیوں کی ہیڈلائٹز تھیں جس سے سڑک واضح ہورہی تھی۔ انہیں سفر کرتے کچھ ہی گھنٹے ہوئے تھے۔
"کلر کہار؟" دانیال کو دائیں جانب ایک بورڈ لگا نظر آیا۔
"ہاں بہت پیاری جگہ ہے یہ بھی۔ اندھیرا ہے ورنہ تم دیکھ لیتے" عاشر نے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔
"اوہ اچھا"
دانیال نے دوبارہ وہی فلم پلے کردی۔ عاشر نے سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔
"اٹس اوکے ویلکم" دانیال نے کندھے اچکائے تو وہ ہنس پڑا۔
"ویسے ہی لگادی ہے ورنہ تم بور ہوتے" اس کے ہنسنے پر دانیال نے فوراً کہہ دیا۔
"اچھا جی۔ چلو ایک کام کرتے ہیں کمنٹ پاس کرتے ہیں فلم پر۔ ہر سین کو چاہے وہ سکھی ہو یا دکھی اسے ایک مزاحیہ رخ دیتے ہیں"۔
"ہیں؟کیسے؟" وہ سوچ رہا تھا کہ اب یہ کیسے ہوگا۔
تبھی فلم کا سین دیکھ کر عاشر شروع ہوگیا۔
میک اپ سے کٹورے چہرے کے ساتھ لڑکی آنسو بہا رہی تھی۔ جہاز بس اڑنے کو تھا۔
"چلو جی محترمہ یہاں کھڑی گلیسرین Glycerin بہا رہی ہیں اور وہاں جہاز اڑنے کو بےتاب ہے یہی اگر اصلی آنسو بہاتی تو بہتا میک اپ دیکھتے ہی جہاز ڈر کے مرے ٹیک آف کر لیتا"
عاشر نے بے حد لطف اٹھا کر ایموشنل سین کی ہوا نکال دی۔ دانیال کی ہنسی بے قابو ہوگئی۔
خود عاشر بھی اہنی بات پر ہنس پڑا تھا۔ کہاں وہ ڈیسنٹ سا بندہ لیکن موقع و محل دیکھ کر وہ اہنی زندگی میں ہنسی کے رنگ بھرنا نا بھولتا تھا۔
"ڈینی اب تمہاری باری" وہ بالکل بچوں والی حرکتیں کر رہے تھے۔ لیکن مزا کرنا تو ہر فرد کا حق ہے۔
"میں کیسے۔۔؟" اسکا سینس آف ہیومر سویا ہوا تھا۔
"ٹرائے کرو بھئی"۔
دانیال س ہلا کر غور سے فلم دیکھنے لگا۔ لڑکی جہاز میں بیٹھ چکی تھی۔ اور ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی۔ دانیال کو کچھ نا سوجا۔
جہاز رن وے پر چلنے لگا۔ اچانک دور۔۔۔بےحد دور۔۔۔ اسے کھڑکی سے ہیرو نظر آتا ہے اور وہ ٹپ ٹپ آنسو بہانے لگتی ہیں۔
"چلو جی آنکھیں ہیں یا دوربین۔ رن وے سے دور اسے کونسا فرشتہ نظر آگیا؟" دانیال کے دماغ میں جو آیا کہہ دیا۔
"دوربین نہیں 'مائکروسکوپ' کہو"۔ عاشر نے ہنس کر لقمہ دیا۔
"میں جب بھی کوئی فلم دیکھتا ہوں تو اداس سین کے دوران ایسے ہی کرتا ہوں"
"کیوں رونا آتا ہے؟" دانیال نے حیران ہوکر پوچھا۔
"رونا بےشک نہ آئے وقتی طور پر اداسی ضرور چھا جاتی ہے۔ چاہے کچھ منٹوں کی ہی کیوں نا ہو"
"واہ اسے یہ ٹرک اچھی لگی تھی۔
اور ہھر وہ اسے طرح باری باری کوئی بات کہہ دیتے اور ہنستے چلے جاتے۔ ان کا سینس آف ہیومر جاگ چکا تھا۔
گاڑی اسلام آباد کے طرف جاتے روڈ پر ڈل چکی تھی۔

----

دائیں اور بائیں طرف ہریالی ہر سو چھائی ہوئی تھی۔ سورج طلوع نہیں ہوا تھا لیکن روشنی پھیل چکی تھی۔
"واؤ" دانیال کی آواز پر عاشر نے ونڈسکرین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، عاشر نے اسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔
یوں لگ رہا تھا جیسے سبز رنگ کا بچھونا زمین پر بچھا دیا گیا ہو۔ سیدھے جاتے روڈ کے دائیں اور بائیں جانب دور تک درخت اور ہری بھری گھاس نظر آرہی تھی۔
‏"amazing " عاشر نے اےسے آف کرکے بٹن دبا کر دانیال کی جانب کا شیشہ نیچے کیا۔
تازہ ہوا پھڑپھڑا کر اندر آنے لگی۔ وہ اےسے کی ہوا کی طرح ٹھنڈی نہیں تھی لیکن وہ شفاف اور تازہ تھی۔
گاڑی آگے بڑھتی جارہی تھی۔ عاشر نے شیشہ اوپر چڑھا دیا۔
"بند کیوں کردیا؟" دانیال نے فوراً پوچھا۔
"ہم اسلام آباد میں داخل ہوچکے ہیں۔ ٹرک، ویگن اور مختلف قسم کی گاڑیوں کا دھواں آنا شروع ہوجائےگا ۔ ہمیں ہیلتھ کا بیی تو خیال رکھنا ہے۔ ورنہ دھواں سر کو چڑھ جائےگا۔
اور ابھی سے طبیعت کیسے خراب کرلیں ابھی تو آدھا راستہ بھی نہیں ہوا"
"آدھا راستہ؟" دانیال کا منہ کھل گیا۔ وہ اتنی دیر سے سفر کر رہے تھے اور عاشر کہہ رہا ہے کہ آدھا راستہ بھی نہیں ہوا۔
"ہم جا کہا رہے ہیں؟" اس نے پوچھ ہی لیا۔
"بس تھوڑی دیر میں جان جاؤگے" عاشر نے چٹکی بجائی۔ دانیال سر جھٹک کر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگا۔ رات میں تو باہر کچھ خاص نظر نہیں آیا تھا لیکن اب روشنی میں اسلام آباد کی خوبصورتی سے وہ سیر ہورہا تھا۔ عاشر بھی سامنے دیکھتے ہوئے اب بہتر محسوس کر رہا تھا ورنہ رات سے وہ بھی بورنگ سین دیکھ رہا تھا۔
"چلو یار تھوڑا فریش ہولیتے ہیں" تقریبا پانچ منٹ بعد عاشر بولا۔
اتنے گھنٹوں بعد گاڑی پہلی بار رکی تھی۔نعاشر نے روڈ کی ایک طرف ہوٹل کے پاس گاڑی روکی۔
دانیال نے نکل کر انگڑائی لی۔ وہ بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا تھا۔ اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر سو بھی نہیں سکتا تھا۔ عاشر نے بھی باہر نکل کر سکون کا سانس لیا۔ وہ اتنی لمبی ڈرائیو پہلی بار کر رہا تھا۔
"چلو" عاشر فٹ پاتھ سے گزر کر ہوٹل کی طرف بڑھا۔ دانیال بھی پیچھے پیچھے چل پڑا۔
دانیال ابھی ہوٹل میں گھسا بھی نہیں تھا کہ عاشر ہوٹل میں موجود کسی آدمی سے کچھ پوچھ کر باہر بھی آگیا۔
"واشرومز پچھلی طرف ہیں" عاشر اسے بتا کر پچھلی طرف چل پڑا۔
"منہ ہاتھ دھولو تھکن ہوگئی ہوگی، ہم زیادہ دیر نہیں رک سکتے"۔ عاشر اسے کہہ کر باتھ روم میں گھس گیا۔ اسے بہت جلدی تھی شاید۔
دانیال باہر نکل آیا ۔ اکا دکا لوگ ہی نظر آرہے تھے۔وہ ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگا۔ وہ یہاں پہلی بار آیا تھا۔
نیلا آسمان ، سبز درخت اور خوبصورت منظر۔ اس نے لمبی سانس اندر کھینچی۔
دور گھاس پر ایک عورت سیاہ لباس میں ملبوس ایک گائے کے ہیچھے پیچے چل رہی تھی۔
کتنا خوبصورت منظر تھا ۔۔۔سکون دہ۔۔ دانیال مسکراتے ہوئے اس طرف دیکھ رہا تھا۔
تصویر کھینچے جانے کی آواز پر وہ پلٹا۔ عاشر موبائل تھامے کھڑا مسکرا رہا تھا۔
اسے پتا ہی نہیں چلا وہ کب آیا۔ وہ اسکے پاس آیا۔
"اب تم فریش ہوجاؤ۔ یاد رکھنا جب ہاتھ دھؤگے تو پہلے ٹوٹی کھولنا پھر ٹوٹی دھونا ، پھر اہنے ہاتھ دھونا اور آخر میں ٹوٹی بند کرنا"
"ہیں؟"
"جی ہیں! یہ ہمارے گھر کا باتھروم نہیں ہے جو صاف ستھرا ہو۔ پبلک واش روم ہے ہزاروں لوگ استعمال کرتے ہونگے۔ باہر گھومنے پھرنے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔"
"تمہیں کس نے کہا؟" دانیال نیں ہنسی روکی۔
" واہ ایک گھنٹہ بیٹھ کر امی کا لیکچر سنا ہے میں نے کہ باہر صفائی کا اور اپنا خیال رکھنا ہے اور تم کہہ رہے ہو کس نے کہا؟" عاشر نے معصوم سی شکل بنائی۔
"جی ضرور ایسے ہی کروں گا" وہ ہنستا ہوا باتھ روم میں گھس گیا اور باہر نکل کر اسی طرح ہاتھ دھوئے۔
"صحیح بات ہے ورنہ ہاتھ دھو کر بھی نا دھونے کے برابر ہوتے" دانیال نے سوچا اور نکل آیا۔ عاشر فون پہ بات کررہا تھا۔
"دوبارہ بتاؤ۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔ تم تیار رہو۔۔ اوکے۔۔۔۔ بھاگو اب میرا وقت ضائع نا کرو" اسنے مسکرا کر فون کاٹ دیا۔ دانیال اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔
عاشر اسکی طرف مڑا۔
"تمہیں بھوک تو نہیں لگی؟"
"کچھ خاص نہیں"
"کیونکہ کھانا ہم منزلِ مقصود پر پہنچ کر ہی کھائیں گے اب، تک تک سنیکس زندہ باد"
"منظور ہے باس"
"چلو ہھر گاڑی میں"۔
وہ گاڑی میں چل کر بیٹھ گئے۔ دانیال نے اندر بیٹنے سے پہلے آسمان اور ہریالی کی طرف نظر ڈالی اور مسکرا کر گاڑی میں بیٹھ گیا، اور گاڑی چل پڑی۔
قدرت کے نظارے آپ کو مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں کونکہ وہ naturally اتنے حسین ہوتے ہیں کہ سیدھا دل کو چھولیتے ہیں۔
"یہ تو شروعات ہے ڈینی۔۔۔ صرف ٹریلر۔۔۔ فلم تو پوری دیکھنا ابھی باقی ہے میرے دوست"۔ عاشر نے گاڑی چلاتے ہوئے سوچا اور مسکرا کر موڑ کاٹا۔ دوسرا سٹاپ۔۔۔۔

-----

پندرہ منٹ بعد گاڑی کسی عمارت کے آگے آکر رکی۔ سورج کب کا طلوع ہوچکا تھا لیکن بادلوں میں چھپا ہوا تھا۔ صبح کے پونے سات ہورہے تھے۔
"پہنچ گئے؟" گاڑی کو رکتا دیکھ کر دانیال ہوچھ بیٹھا۔
"نہیں ابھی کہاں۔۔یہاں ہم کسی سے ملنے آئے ہیں چلو' عاشر دروازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ وہ گاڑی اے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔
دانیال بھی اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکل باہر نکلا۔ سامنے عمارت میں اتنی صبح بھی چند لوگ آتے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔
دانیال بھی عاشر کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا، دونوں کا رخ عمارت کی طرف تھا،
"آئی ایس ایل اسپتال" بڑے سے بورڈ پر لکھا ہوا تھا جو عمارت پر لگا ہوا تھا۔ دانیال کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ یہاں کیوں ہے۔ وہ کبھی عاشر کو دیکھتا تو کبھی اس کی نظروں کے تعاقب میں سامنے سیڑھیوں کی طرف جو داخلی راستہ تھا۔
کچھ ہی دیر بعد ایک لڑکا سامنے سے چلتا ہوا آیا، سفید کوٹ پہنے ، ہاتھوں میں بیگ تھامے وہ زینے اتر رہا تھا۔ عاشر اسے دیکھ کر مسکرایا۔ آخری زینے پر وہ رکا اور ان کی طرف دیکھا۔ بیگ زمین پر رکھ کر اس نے کوٹ اتارا کر ہاتھ میں پکڑا۔
"یہ کون ہے؟ ڈاکٹر؟" دانیال سوچ رہا تھا۔"انس ڈاکٹر ہے اور وہ اسلام آباد میں۔۔۔" اس کے دماغ میں ایک آواز آئی۔
سامنے کھڑے لڑکے نے سر جھکا کر اہنی عینک پیچھے سرکائی اور دلکش سا مسکرایا۔
دانیال کا منہ کھل گیا۔ اسی کھلے منہ کے ساتھ اس نے عاشر کی طرف دیکھا۔ اس نے ہنسی قابو کرتے ہوئے سرہلایا۔
"ڈینی" انس سیدھا آکر دانیال کے گلے لگا۔
"او مائی گاڈ انس یہ تم ہو؟" دانیال نے گلے لگتے ہی پوچھا۔ اسے اسکا دوسرا دوست اتنے سالوں بعد ملا تھا۔نکیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ کتنا خوش تھا؟
"ہاں ہاں میں ہی ہوں۔ انس۔۔۔اہم! ڈاکٹر انس"۔ انس نے کنکھار کر کہا اور ساتھ ہی آنکھ دبائی۔
جب حال چال اور دوچار باتیں ہوگئی تو عاشر نے مداخلت کی۔
"تم نے تو وقاعی زبردست entry ماری ہے"۔ عاشر ابھی تک وہی تھا۔
"تم ہی نے تو کہا تھا ایسے ایسے آنا اور ایسے ایسے کرنا تو دیکھو کرلیا۔ اور میرا سامان بھی تیار ہے"۔ اسنے پیچھے مڑ کر بیگ اٹھایا۔
وہ جوان ہوگیا تھا لیکن شکل کی معصومیت خوبصورتی سی گھل مل گئی تھی۔
‏"An apple a day keeps the doctor away" لیکن انس کے چکر میں لڑکیاں ایپل سےaway رہتی ہونگی۔
"اور تم اس کو کہہ رہے فون پر کہ تیاری کرلو؟" دانیال کے دماغ میں جو سوال آیا وہ زبان سے نکلا۔
"ہاں" جواب انس نے دیا۔ اس نے چشمہ اتارا اور کوٹ کے ساتھ بیگ میں رکھ دیا۔
"میری نائٹ ڈیوٹی تھی میں نے ساری تیاری کل سے کر رکھی ہے"
"او! تو یہ تھا سرپرائز؟" دانیال خوش ہوا۔ اسے لگا عاشر اسے یہاں انس سے ملوانے لایا ہے اور وہ کچھ دن یہاں رہیں گے۔
"آدھا سرپرائز باقی ہے۔ اب بتاتا ہوں میں۔ ہم پاکستان کے شمالی علاقوں میں جارہے ہیں گھومنے۔ دنیا کو بھول کر قدرت سے مکنے۔ یہ صاحب بھی ساتھ جائیں گے۔ ہم میں سے کوئی وہاں پہلے نہیں گیا اب ایک ساتھ جارہے ہیں دھماکہ کرنے"
"آہ" انس اور عاشر نے ایک ساتھ آہ بھری۔
دانیال یہ سن کر مزید خوش ہوگیا۔ اس سے رہا نہ گیا اور ان کا شکریہ ادا کردیا۔
"میں بہت لکی ہوں کہ مجھے تم دونوں دوست ملے۔ تھینک یو ویری مچ"
"چلو جی"۔ عاشر نے اسے گھورا۔
"یار ڈینی ہم جس سفر پر جارہے ہیں سب پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ نو شکریہ وکریہ۔ بس اب بات ہوگی تو وہاں کی ہوگی" انس نے چٹکی بجا کر بات ختم کردی۔
"باقی باتیں گاڑی میں کرتے رہنا اب چلو" عاشر نے انس کا بیگ بھی ڈگی میں رکھ دیا۔
‏"CDs تو نکالنے دو" انس نے عاشر کو روکا اور بیگ سے CD نکالی اور پچھلی نشست کا دروازہ کھولا۔
"انس تم آگے بیٹھ جاؤ میں آگے بیٹھ کر تھک گیا ہوں"۔ دانیال پیچھے بیٹھ گیا اور انس آگے۔ عاشر نے بھی سیٹ سنبھالی اور اللہ کا نام لےکر گاڑی سٹارٹ کی۔ انس اسے اسلام آباد سے باہر نکلنے کا راستہ بتا رہا تھا۔
اسلام آباد ایک بےحد خوبصورت شہر۔۔۔نہر طرف ہریالی، صاف اور کشادہ سڑکیں۔ گاڑی مناسب رفتار سے سڑک پر چل رہی تھی۔ چونکہ وہ ابھی شہر کے اندر تھے اس لیے ٹریفک تھی۔
کھڑکی سے باہر دیکھو تو نیلے آسمان تلے دور دور تم ہریالی جھوم رہی تھی۔
دانیال کا دل چاہا وہ شیشہ نیچے کرے اور اپنا سر باہر نکال لے، لیکن
"نہیں ہم شیشہ نہیں کھول سکتے۔ گاڑیوں کا دھواں اور دھول مٹی اندر آئے گی اور سر کو چڑھے گی۔ اور ہمیں کچھ دن تک کوئی درد اپنے سر نہیں لینا"۔ عاشر واقعی امّیوں کے طرح ہر چیز کا خیال رکھ رہا تھا۔ دانیال نے مسکرا کر خواہش دبائی۔
دوست کہیں مل بیٹھیں اور خاموش رہیں؟ ناممکن!
ساتھ ساتھ گپ شپ کا بھی سلسلہ جارہ تھا اور مناظر دیکھنے کا بھی۔
انس جو سی ڈیز لایا تھا اس میں سے ایک اس نے dvd پلیر میں ڈالی اور کشھ ہی لمحوں میں گاڑی میں گانی کے دھن بجنے لگی۔
راحت فتیح علی خان کی آواز گونج رہی تھی۔
"گم صم گم صم۔۔۔۔پیار کا موسم"
"واہ کیا گانا لگا ہے" یہ انس تھا۔ "موسم کوئی بھی ہو لیکن اس وقت سب بہت اچھا لگ رہا ہے"
مل کر دیوانے تین چلے حسین وادیوں کو۔
"بس روح افزا کی کمی ہے"
"کیا؟" دانیال اور عاشر دونوں نے ناسمجھی سے انس کو دیکھا۔
"ہاں روح افزا شربت۔ میں بنا کر لایا تھا نکلتے وقت ، بیگ میں ہے۔ اور ان صاحب نے میرا بیگ ڈگی میں رکھ دیا ہے"
اس کے انداز پر دانیال نے ہنسی روکی۔
"جب کہیں رکیں گے تو نکال لینا" عاشر نے اسکی طرف دیکھ کر کہا۔
"ہاں تک تب گرم ہوجائے تاکہ۔۔۔" وہ شر جھٹک کر گانا بدلنے لگا۔
کچھ ہی دیر بعد وہ پھر بولا۔ "واؤ" وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
"کیا منظر ہے!"
دانیال نے بھی اس جانب دیکھا، دور۔۔،بہت دور۔۔ دھندکے پہاڑ نظر آرہے تھے۔
"واؤ" دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
"میرا دل چاہ رہا ہے اسے کیپچر capture کرلوں لیکن میرا کیمرہ بیگ میں ہے اور میرا بیگ ان صاحب نے ڈگی میں رکھ دیا ہے"
عاشر اسے گھور کر رہ گیا۔ اس بار دانیال نے اپنی ہنسی نہیں روکی۔
کچھ آگے چل کر عاشر نے ایک طرف گاڑی خود ہی روک دی۔
"جاؤ اور اپنا بیگ شریف آگے لے آؤ"۔
وہ فوراً اترا اور بیگ آگے لے آیا۔
عاشر نے گاڑی چلادی۔ انس نے کیمرہ دانیال کو پکڑایا جو ہیچھے بیٹھا آرام سے اس منظر کو کلک کررہا تھا۔
"ہم بار بار نہیں رک سکتے کیونکہ میں نے جو پلین plan کیا ہے اس کے مطابق ہم راستے میں وقت ضائع نہیں کر سکتے" عاشر ونڈسکرین کے پار دیکھتا کہہ رہا تھا۔
"کیوں؟" انس جھک کر بیگ میں سے شربت کی بوتل نکالنے لگا۔
"کیونکہ وہاں کے راستے ہمیں روشنی میں ہی طے کرنے ہونگے۔ اندھیروں میں وہاں کا سفر مشکل ہے"

‏"By the way یہ سب planning ہوئی کیسے؟' دانیال نے انس سے روح افزا کا گلاس لیتے ہوئے عاشر سے پوچھا اور گھونٹ بھر اسکی طرف دیکھنے لگا۔
"یاد ہے ڈینی میرے کمرے میں لگی ہوئے سینری تم دیکھ رہے تھے؟" عاشر نے مسکرا کر پوچھا۔
دانیال سوچنے لگا کونسی؟ اوہ وہ برف سے ڈھکے پہاڑ والی۔۔
"ہاں ہاں"
"بس تبھی میرے دماغ میں گھنٹی بجی اور اسی رات میں نے سرچ کی بہت سی جگہیں ۔ وہ رات انہی سب پلین میں گزری میری کے کہاں جائیں اور کیسے ؟" وہ مزے سے بول رہا تھا۔
"پھر میں نے اپنے کچھ دوستوں سے انفارمیشنلی وہ ناران کاغان گئے تھے۔ اور ان کے منہ سے تعریفیں سن سن کر وہاں کی خوبصورتی کی میرے منہ میں پانی آرہا تھا" وہ اہنےپی بات پر ہنسا۔ انس نے گانا بند کردیا تاکہ آرام سے بات ہوسکے۔
"بس میں نے سب معلومات لے لیں ان سے اور فائنل کردیا۔ اگلے دن انس کو بھی کہہ دیا"
"اور میں تو ڈینی کا نام سن کر ہی اچھل پڑا۔ پتا نہیں کہاں سے ڈھونڈ نکالا اس نے تمہیں" انس کی بات پر دانیال عاشر کی طرف مڑا۔
"تم نے مجھے پہچانا کیسے؟ میں تو تمہیں ایک منٹ دیکھتا رہا اور اس poem کا شکریہ ورنہ میں تمہیں پہلی نظر مین کبھی نا پہچان پاتا"۔ دانیال نے اپنے snickers اتارے اور آرام سے اوپر کو ہوکر بیٹھ گیا۔
انس بھی تعجب سے اسے دیکھ رہا تھا۔ دونوں جواب کے منتظر تھے لیکن وہ ونڈ سکرین کے پار دیکھ رہا تھا۔ کوئی اناج کا ٹرک گزر رہا تھا اور وہ اس کو آگے گزرنے کا راستہ دے رہا تھا۔ ٹرک آگے گزرا تو عاشر کی گاڑی میں سے عجیب سی آوازیں آئی۔ وہ بےاختیار آگے کو ہوا۔ دانیال اور انس بھی سیدھے ہوئے۔
یہ کیا ہورہا تھا؟۔ گاڑی میں ایک لمحے کے کیے سناٹا چھاگیا۔ آواز آرہی تھی تو صرف "شر شر" کی۔ عاشر نے فورا گاڑی کی سپیڈ کم کی اور ایک طرف ہوگیا۔
"الٰہی خیر کیا ہوا ہے؟" سب سے پہلے انس نے پوچھا۔
پیچھے بیٹھا دانیال بھی حیران پریشان سا انہیں دیکھ رہا تھا۔ ابھی سب ٹھیک جارہا تھا یہ کیا ہوگیا؟ کہیں گاڑی خراب؟۔۔۔۔
‏"Relax Relax کچھ نہیں ہوا" عاشر سنبھلتے ہی بولا۔
"کچھ نہیں ہوا بس سامنے چلتے ٹرک سے اناج گرگیا تھا ہماری گاڑی کے بونٹ پر"۔ وہ ٹرک سے آگے نکل آیا تھا۔
"اف شکر" دانیال کے منہ سے نکلا اور وہ آرام سے بیٹھ گیا۔
"بندہ پوچھے ان سے کہ دیکھ بھی لیا کریں ٹھیک سے رکھا ہے کہ نہیں" اور اگلے پانچ منٹ تک انس ٹرک والے کو کوس رہا تھا۔ اور اسکا انداز ایسا تھا کہ وہ دونوں ہنسنے لگے۔
"آدھا اناج تو اس نے سڑکوں پر بہا دیا ہے۔ ہوگیا نا نقصان۔۔خیر دفع کرو"
انس کا بس چلتا تو وہ ٹرک والے کر کھری کھری سناتا اور اپنی موجودگی میں سڑک سے اناج اٹھواتا۔
"خیر ہم کہاں تھے؟ ہاں عاشر بتاؤ پھر؟ کیسے پہچانا؟" انس کو تھوڑی دیر پہلے ہونے والی گفتگو کا موضوع یاد آیا۔
"میں نے بتایا تھا نا اپنے بھائی کا تمہیں ڈینی؟ علی بھائی ایک دفعہ کسی میٹنگ میں گئے تھے۔ تب میں کسی دوسرے کام کی وجہ سے ان کے ساتھ نہ جاسکا۔ میٹنگ میں انہوں نے کچھ تصاویر لی تھیں۔ وہ مجھے انہوں نے دکھائیں۔ میں ایک لڑکے کی تصویر پر ٹھٹک گیا۔ کچھ جانا پہچانا سا لگا تھا وہ۔ میں نے بھائی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ جافری انکل کا بیٹا ہے۔ بھائی کا ایک کانٹریکٹ تھا انکل کے ساتھ"
وہ بتا رہا تھا اور دانیال سوچ رہا تھا کہ کونسی میٹنگ؟ کیونکہ اتنی میٹینگز ہوتی تھی اور وہ کام سے کام کے علاوہ ہر چی سے لاتعلق بیٹھا ہوتا تھا۔
"پھر پتا چلا کہ انکا نام دانیال جافری ہے اور ہیہ ہمارے ڈینی صاحب ہیں۔ اور میں اتنی دیر حیران سا اس تصویر کو دیکھتا رہا۔
سچ ڈینی اس دن مجھے اتنی خوشی ہوئی تھی یہ سن کر کہ تم یہاں آگئے ہو اور میں تم تک پہنچ سکتا ہوں" وہ خود بھی مسکرا رہا تھا اور دانیال بھی۔ انس دلچسپی سے سن رہا تھا۔
"پھر میں سوچنے لگا کہ ملا کیسے جائے؟ مجھے وہ پوئم یاد تھی جس کی بنا پر ہماری دوستی شروع ہوئی۔ اور یقین کرو دو دن بعد ہی یہ مجھے کیفے میں نظر آگیا۔ دس منٹ تو میں بے یقینی سے دیکھتا رہا کہ یہ ڈینی ہی ہے؟"
وہ اپنی ہی بات پر ہنس پڑا۔
"اتنا سیریس بندہ مائی گاڈ"
"سیریس؟" انس نے حیران ہوکرگردن موڑی اور اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جو اب مدھم ہوگئ تھی۔
"اتنا سیریس کہ مجھے یوں لگا کہ یہ کبھی مسکرایا ہی نہیں"۔عاشر کہہ رہا تھا۔
دانیال کی مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی۔ وہ اتنی دیر سے ہنس اور مسکرا رہا تھا؟
کیا یہ وہی تھا جس کو کبھی لطف اور ہنسی مزاق سے کوئی مطلب نہیں تھا؟
جس کی ماں باپ سے کام کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی تھی؟ جس نے کبھی رسماً مسکرا لیا ورنہ وہی rude انداز۔۔ جس کا کبھی خوش ہونے کا دل نہیں چاہا۔۔ وہ انسان جس کا ساتھی سنجیدگی کو بنادیا گیا تھا۔
اسکی نظروں کے سامنے اس کی زندگی کے مناظر چل رہے تھے۔
وہ تینوں کھانے کی میز پر بیٹھے تھے۔ ماما نے کوئی جوک سنایا تھا۔ نہیں جوک نہیں انہوں نے کسی آنٹی کی مزاحیہ بات بتائی تھی جس پر اس کے ڈیدڈی اور ماما دونوں ہنس رہے تھے اور وہ خاموش بیٹھا کھانے کی طرف متوجہ تھے۔
فیڈ نے ہنستے ہوئے دانیال کی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش بیٹھا کھانا کھا رہا تھا اسے دیکھ کر ماما بھی چپ ہوگئیں۔
لیکن وہ ہنستا کیسے جس کو ہنسنا بھول گیا۔ اس کے اردگرد کتنا ہی خوشگوار ماحول کیوں نہ ہو سنجیدہ ہی رہتا اور کبھےپی کبار۔۔
‏Once in a blue koon وہ جبراً مسکرا دیتا۔
اسے وہ راتیں یاد آتی جو اس نے تنہا رو رو کر گزاری تھی۔
'ہنس' کر گزارے پل تو سب بھول جاتے ہیں 'روئے' ہوئے پل ہمیشہ ذہن کے کسی کونے پر رہ جاتے ہیں۔
پھر اب وہ کیوں مسکرارہا تھا؟ اس نے خود سے پوچھا۔
اسے وہ وقت یاد آیا جو اس نے عاشر اور انس کے ساتھ ہنس کر گزارا تھا۔ اور پھر رو کر وہ وقت بھی چلا گیا۔
لیکن آج اسے لگ رہا تھا کہ اس کی زندگی اس وقت سو دوبارہ شروع ہوئی ہے جب اسکی دوستی عاشر اور انس سے ہوئی تھی۔
وہ النے دھیان سے چونکا، انس نے کوئی گانا لگا دیا تھا جو باتوں کے دوران بند کردیا تھا۔
دانیال کی بےحد سنجیدہ شکل وہ دونوں دیکھ چکے تھت۔ گاڑی میں صرف گانا بجنے کی آواز گونج رہی تھی۔
"تم تھکے تو نہیں؟" انس نے ماحول میں خاموشی دور کرنے کی کوشش کی۔ یہ سوال عاشر سے تھا۔
دانیال بھی النی سوچوں سے نکلا۔ بمشکل ہی سہی۔۔۔
"ہاں تم ڈرائیو کرکے تھک گئے ہوگے کافی ٹائم سے؟" ڈینی نے بھی سوال کیا۔
"ارے نہیں میں نے فارمیسی سے وٹامن کی ٹیبلٹ لی تھی اور ایک اور گولی بھی لی تھی۔ مجھے نیند نہیں آئے گی اس سے" عاشر نے انہیں مطمئین کیا۔
"پکا؟" دانیال نے ہھر پوچھا۔ وہ اسے ڈرائیو کرتا دیکھا تھک رہا تھا۔ حلانکہ ڈرائیو وہ کر رہا تھا لیکن اسے دیکھ دیکھ کر تھک وہ خود گیا تھا۔
"ہاں ڈینی پکا" اس نے ہنس کر کہا۔
اور وہ سب دوبارہ باتوں میں مشغول ہوگئے۔
اور آہستہ آہستہ دانیال کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ اس نے انس کی بات سنتے سنتے پیچھے ٹیک لگائی اور آنکھیں موند لیں۔ ہلکا ہلکا میوزک اسکی سماعتوں سے ٹکرارہا تھا۔

-----
وہ گہری سانس لیتا چلتا جارہا تھا۔ روڈ خالی تھا لیکن اردگرد بہت خوبصورت جگی تھی۔ جانے کون سی جگہ تھی یہ۔۔۔ وہ ابھی غور سے اردگرد دیکھنے ہی لگا تھا کہ اسے اپنا آپ ہلتا ہوا محسوس ہوا اور پھر کوئی شور سا سنائی دیا۔
اس نے ایک دم آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔اوہ!
وہ تو گاڑی میں تھا اور پرہ نہیں کب اسکی آنکھ لگ گئی۔ اور شور عاشر اور انس کی آواز تھی۔ وہ آنکھیں ملتا ہوا سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔
پوری بات تو سمجھ نہیں آئی لیکن ایک لفظ دانیال نے سن ہی لیا تھا۔
"جہلم؟" اس نے منہ سے نکلا تو انس فوراً گھوما۔
"ڈینی اٹھ گئے تم؟ تم نے مس کعدیا دریائے جہلم۔ ابھی پیچھے ہی گزرا ہے"
انس کی بات پر وہ فورا کھڑکی کی طرف ہوا اور دیکھنے لگا۔
وہ کسی شہر یا آبادی والے علاقے سے گزر رہے تھے کیونکہ گاڑیوں کا رش اور لوگ نظر آرہے تھے۔
دانیال کو لورا دریا تو نہیں لیکن پانی کی تھوڑی سی جھلک ضرور نظر آگئی تھی۔
"دریائے جہلم یہاں؟" دانیال حیران تھا۔ کہاں لاہور کہاں دریائے جہلم۔ تھوڑا بہت تو وہ پاکستان کے بارے میں جانتا تھا۔
"ہاں ڈینی یہاں۔ ہم اس سے بھی آگے جارہے ہیں" عاشر نے بیک ویو مرر میں دیکھ کر کہا۔
"اچھا" وہ لاجواب ہوگیا۔
"چلو یار کوئی مووی دیکھ لیتے ہیں" انس تو شاید گانوں اور فلموں کا شوقین تھا یا شاید وہ ماحول بنائے رکھنے کے کیےو سی ڈی پلیر میں کچھ لگاتا رہتا۔
جانے کونسی بورنگ مووی تھی جس کو انس مگن ہوکر دیکھ رہا تھا، عاشر تو ویسے بھی ڈرائیو کررہا تھا اور رہ گیا دانیال۔۔ تو وہ بورنگ سی مووی سے نظریں ہٹا کر باہر دیکھنے لگا۔ جب سے اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے تب سے لے کر اب تک باہر کے مناظر بے حد حسین اور لش تھے۔

----

"ڈینی ڈینی اٹھو" انس نے اسے ہلکا سا ہلایا تو اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں اور ادھر ادھر دیکھا۔
"کیا ہوا؟" اسے ابھی بھی نیند آرہی تھی۔
"کچھ نہیں مانسہرہ آگیا ہے دیکھو" دانیال نے نظریں باہر گھمائیں ہی تھیں کہ گاڑی کو بریک لگا۔
"چلو اترو" عاشر دروازہ کھول کر اتر چکا تھا اور انس اتر رہا تھا۔
دانیال بھی انہیں دیکھ کر اترا۔ لیکن سامنے دیکھ کر اس کی نیند غائب ہوگئی۔
آنکھوں سے اب بھی لگ رہا تھا کہ وہ سو کر اٹھا ہے اور بال بکھرے ہوئے تھے۔
وہ شاید کسی اونچی جگہ پر تھے اور نیچے اور سامنے دور دور دیکھنے پر بہت سے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ ہریالی سے ڈھکے پہاڑ۔۔
"یہاں سے مانسہرہ کا سارا شہر نظر آتا ہے" عاشر ہاتھ باندھے سامنے دیکھ رہا تھا۔
"واؤ"
"واؤ بیوٹیفل" انس اور دانیال بھی بنا پلک جھپکے سامنے دیکھ رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہریالی سے ڈھکے پہاڑوں پر لوگوں نے گھر بنا کر بسیرا کیا ہوا تھا۔ بلاشبہ مو منظر آنکھوں کو بھاگیا تھا۔
انس فوراً واپس گاڑی کی طرف مڑا اور بیگ سے canon کیمرہ نکال لایا۔
"رم دونوں ادھر دیکھو" دانیال اور عاشر جو سامنے مانسہرہ کو دیکھ رہے تھے فوراً کیمرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔
تصویر کچھ یوں آئی تھی کہ ان کے پیچھے ہریالی اور نیچے کئی گھر نظر آرہے تھے۔
وہ ہورے سفر کے دوران پہلی بار کہیں رکے تھے خاص طور پر کچھ دیکھنے لے لیے۔ دانیال اور عاشر کی ایک ساتھ دو تین تصاویر لے کر کیمرہ عاشر نے تھاما اور دونوں کی تصویر لی۔ اور ہھر دانیال نے کیمرہ پکڑ کر ان کی کچھ تصاویر کھینچیں۔
محض دس پندرہ منٹ وہ وہاں رکے تھے۔ چاروں اطراف کا جائزہ لر کر اور 'لطف اندوز' ہوکر وہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھ گئے۔
بیٹھنے سے پہلے دانیال نے نظر بھر کر اس منظر کو دیکھا تھا، یوں جیسے وہ اپنی آنکھوں میں اس منظر کو محفوظ کرلینا چاہتا ہو۔

---

گاڑی سڑک پر چل رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ سڑک کو اٹھا کر پہاڑ پر لِٹا دیا ہوا۔ جب سے وہ مانسہرہ سے آگے چلے تھے انہیں اپنے ایک طرف بہتا ہوا پانی نظر آرہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ مانسہرہ سے آگے سفر تک ان کے ساتھ بہتا چلا آئے گا۔
جبکہ دوسری برف پتلے تنے والے لمبے لمبے درخت نظر آرہے تھے۔
دانیال کھڑکی کی طرف ہوکر بیٹھا تھا اور اس کی نظر اس پانی پر تھی جو کئی پتھروں سے ٹکراتا شور پیدا کرتا تیزی سے گزر رہا تھا۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے اس بہتے پانی کو دیکھ رہا تھا۔
"کتنا زبردست ہے نا؟"
تیز پانی پتھر سے ٹکراتا ، شور مچاتا، اچھلتا، جھاگ بناتا اور دوبارہ آگے بڑھ جاتا۔ کتنی لہریں یہی عمل سر انجام دے رہی تھی۔
"کیا؟ دریائے کنہار؟" عاشر نے بیک ویو مرر سے ایک نظر پیچھے دیکھا۔
"اوہ یہ دریائے کنہار ہے؟" وہ اس نام سے بےخبر تھا۔
"ہاں دریائے کنہار" اس دفعہ انس بولا جو درختوں کو دیکھنے میں مگن تھا۔
"بہت زبردست" اسنے دوبارہ نظریں کنہار پر جما دیں۔

----

"اوئے وہ دیکھو" وہ اس قدر جوش سے چلایا تھا کہ دانیال فوراً آگے کو ہوکر بیٹھا۔
"کیا؟" اسے نظر نہیں آیا وہ کیا دکھا رہا تھا۔
"آپ شار" انس اور عاشر ایک ساتھ بولے۔
"آب شار؟" یہ کیا چیز تھی۔ دانیال الجھ سا گیا۔
‏"Waterfall Dany" انس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
وہ ایک پل سے گزر رہے تھے۔ دریائے کنہار اسی طرح بہہ رہا تھا۔
دانیال نے سامنے دیکھا وہاں کچھ لوگ آبشار کے نیچے کھڑے اچھل رہے تھے۔
"ہم بھی رکیں؟"
"ہاں عاشر پلیز روکو گاڑی" ان دونوں کا انداز بچوں والا تھا۔
عاشر نے ہنس کر گاڑی ایک طرف روک دی۔ وہ دونوں فورا نکلے اور بھاگ کر آبشار کے نیچے آگئے۔ تھا تو یہ چھوٹا سا لیکن وہ اسی میں ہی بہت خوش تھے۔
اوپر پہاڑی سے آتا ٹھنڈا پانی انس نے اہنی ہتھیلی میں جمع کیا اور پی گیا۔
دانیال نے بھی اسے دیکھ کر ایسے ہی کیا، دانیال کو تو یوں لگا اس نے فریزر سے پانی کی بوتل نکال کر پر پانی پی لیا ہے۔ اندر تک پہنچتی ٹھنڈک۔۔
"ڈینی!" انس نے اسے پکارا۔ اسنے چہرہ اوپر اٹھایا ہی تھا کہ ٹھنڈے پانی کی پھوار اس کا چہرہ گیلا کر گئی۔ آہ!
"انس کے بچے" اس نے بھی ہنستے ہوئے ہتھیلی میں پانی بھرا اور انس کی طرف اچھالا لیکن اسے تو مزا آیا تھا۔
"عاشر" دونوں ساتھ چلّائے۔ وہ تین چھلیاں پکڑے اسی طرف آرہا تھا۔
دونوں نے ہنستے ہوئے پانی بھرا اور عاشر کے اوپر 'آپشار' برسا دیا۔

"تم لوگ۔۔۔۔۔ اف چھلیاں گیلی ہوگئیں"۔ وہ دور ہٹ کر چینخا۔
دونوں ہنستے ہوئے آگے بڑھے اور ایک ایک گرم و تازہ بھنی ہوئی چھلی پکڑلی۔
وہ گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔
اور انس پتا نہیں کس مکھی کا دوست تھا جو بن بناتا پھرتا رہتا تھا۔نفوراً کیمرہ نکال کر بٹھے والے کے پاس پہنچا اور اسے کچھ سمجھا کر النی اور ان کی تصویر کھینچنے کو کہا۔
وہ کچھ یوں کھڑے تھے کہ پیچھے دریا بھی نظر آرہا تھا۔وہ تینوں ساتھ کھڑے ہوئے تو اس بٹھے والے نے بٹن دبا کر یہ منظر قید کرلیا۔
اگلی تصویر کچھ یوں آئی تھی کہ عاشر اور دانیال بٹھہ کھاتے نظر آئے جبکہ انس کا ہاتھ ہوا میں تھا اور چھلی کا بقیا حصہ دریا کی طرف اچھلا تھا۔
بٹھے والے نے کیمرہ انہیں تھامایا اور چلا گیا۔ تصویر دیکھتے کی عاشر نے انس کے کندھے پر مکّا رسید کیا۔
"شرو کرو پاکستا کو گندہ نہ کرو"
""سوری" وہ کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔
آبشار سے ہاتھ ، منہ دھو کر تازہ دم ہوکر وہ دوبارہ چل پڑے۔ منزل قریب ہی تھی۔

-----
عاشر نے ایک جگہ گاڑی روکی۔ یہاں چند فیملیز کنہار کے پاس کھڑی فوٹوشوٹ کر رہی تھیں۔ اور چند پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھے تھے۔
وہ بھی کچھ فاصلے پر آگئے۔
"بیٹا ہماری چند تصاویر کھینچ دو"۔ ایک انکل اور آنٹی کا جوڑا کھڑا تھا جنہوں نے انہیں دیکھ کر کہا۔
"شیور" انس نے فوراً کیمرہ پکڑا اور انکی کئی تصاویر کھینچ دیں۔ پھر کیمرہ پکڑا کر واپس ان کی طرف آگیا۔
"ہم پانی کے اندر بھی جائینگے" پانی زیادہ گہرا نہیں تھا اس لیے اسے دیکھتے ہی دانیال نے فرمائش کی۔
"تم دس منٹ کھڑے رہنا، میں تمہیں انعام دوں گا" عاشر نے چیلنج کیا۔
"بس دس منٹ؟ ٹھیک ہے" وہ فوراً مان گیا۔
کیمرہ انس نے پکڑا ہوا تھا۔ کنہار میں جانے کے لیے تھوڑی ڈھلوان سی تھی۔ وہ جوتیں اتار کر ننگے پاؤں پانی کی طرف بڑھے۔ اور اندر قدم رکھتے ہی انکی چینخ نکلی۔
"اوئی اللہ"۔
"اف اف "
"ہاہا کیا ہوا؟" عاشر نے ہنستے ہوئے سوال کیا۔
"پانی حد سے زیادہ ٹھنڈا ہے۔ برف سے بھی زیادہ"۔ دانیال کی دو منٹ میں بس ہوگئی تھی۔
ان کے پاؤں سردی سے برف ہونے کو تھے۔
"اف میری تو کلفی بن جائے گی"۔انس پھدکتا ہوا پانی کے درمیان ہی موجود پتھروں کے ڈھیر پر جا کر کھڑا ہوگیا۔
دانیال بھی پتھروں پر کھڑا ہوا تو پاؤں کو کچھ سکون ملا۔
"ہاں پھر ڈینی؟ بس دو منٹ میں ہی بس ہوگئی"۔ عاشر بھی ان کے پاس کھڑا ہوگیا۔
"توبہ کرو۔ میرے پاؤں کی آئسکریم بن جائے گی"۔ دانیال نے ہاتھ جوڑے۔
"یہ تو برف سے بھی ٹھنڈی کوئی چیز ہے"۔
"انس یہ پانی سیدھا پہاڑوں سے آتا ہے۔ پہاڑ کی برف پگھل کر"۔ عاشر نے تو ساری انفو گھول کر پی ہوئی تھی۔
پہاڑ کے اوپر برف ایسے چمک رہی تھی جیسے بقول انس "لگ رہا ہے بڑا سا جگ دودھ کا لے کر پہاڑوں کے اوپر گرایا ہے جس سے دودھ ادھر ادھر سے نیچے پہنچنے سے پہلے ہی جم گیا ہے"۔
انس اپنے کیمرے سے وہی کھڑے کھڑے کنہار کے پانی کی تصویر لے رہا تھا۔ اس سے فارغ ہوکر پہاڑوں کا منظر کیمرہ میں قید کرلیا۔
"ہم کہیں رکیں اور اپنی تصویر نا لیں ۔ ہاؤسیڈ"۔ جیسے وہ پتھر پر کھڑے تھے اپنی تصویر نہیں کھینچ سکتے تھے۔
"لاؤ دو کیمرہ" عاشر نے اسکے ہاتھ سے کیمرہ لیا اور ٹھنڈے پانے میں سے چلتا ہوا اوپر چڑھا اور چند قدم چل کر ان کے انکل کے پاس پہنچ گیا۔ کچھ کہہ کر وہ واپس آیا۔
"چلو ریڈی؟" وہ دونوں منہ کھولے عاشر کو دیکھ رہے تھے۔ 'ریڈی' پر فوراً مسکرائے۔
انکل نے وہی کھڑے کھڑے ان کی تصویریں لےلیں۔
"بیٹا کچھ پوز چینج بھی کرلو" انکل نے وہی سے اونچی آواز میں کہا۔
وہ تینوں ہنسے اور ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر تصویر کھنچوائی۔ پھر انس آکتی پالتی مار کر پتھر پر بیٹھا تو وہ دونوں ہنستے ہوئے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر دوزانو بیٹھ گئے۔
انکل نے ہاتھ سے اشارہ کیا گویا "بس فوٹوشوٹ ختم"۔
"چلو چلیں" عاشر جلدی جلدی قدم اٹھاتا کچھ ہی سیکنڈز میں اوپر پہنچ گیا اور کیمرہ لے لیا۔
وہ دونوں وہی کھڑے دیکھ رہے تھے کہ یہ 'ٹھنڈاپل سراط' کیسے پار کریں۔
جیسے تیسے او باہر آئے جوتے ہاتھوں میں پکڑے اور سیدھا گاڑی میں جاکر بیٹھ گئے۔
ان کے پاؤں سن ہوچکے تھے۔ آدھے گھنٹے بعد ان کے پاؤں نارمل ہوئے تھے۔
---

اےسی بند ہوچکا تھا اور گاڑی کے شیشے نیچے کیے جا چکے تھے۔
گزرت ہوئے ایک خیمے میں آلو کے بیسن لگے چپس بک رہے تھے۔ عاشر نے گاڑی میں بیٹھے بیتھے ہی وہ چپس لیے اور درمیان میں رکھے۔
"یمی!"
"بہت مزے کے ہیں"۔
"ویسے ساتھ کوک ہوتی تو مزا دوبالا ہوجاتا"۔ انس آلو کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہوئی بولا۔
"سنئے کوک وغیرہ ہوگی آپ کے پاس؟" عاشر نے کھڑکی سے سر نکال کر پوچھا۔
"جی ہے"۔ آدمی اندرخیمے سے ہی بولا۔
"تین کوک لا دیں پھر"۔
"اچھا"۔ وہ اٹھ کر خیمے سے نکلا۔
"ویسے یہاں فریج نہیں ہوگا اس لیے ٹھنڈی نہیں ہوگی۔ تمہارا ہاتھ کیوں رک گیا؟" انس نے دانیال کو نا کھاتے دیکھ کر پوچھا۔
"وہ۔۔۔" دانیال کی نظریں وہاں جمی تھیں جہاں وہ آدمی گیاتھا۔
ایک کنٹینر میں کوک اور پیپسی رکھی ہوئی تھی اور۔۔۔ آپشار کا پانی سیدھا اس میں آکر گر رہا تھا۔
وہ تینوں حیران سے دیکھ رہے تھے۔ اور جب انہوں نے کوک تھامی اور پی تو مزید حیران ہوگئے۔ وہ حد سے زیادہ ٹھنڈی تھی۔ یوں جیسے سیدھا فریزر سے نکالی ہو۔
اور پھر یہی نہیں انہوں نے آگے جاکر لوگوں کو برف کے تودے میں حصہ بنا کر اس میں مشروب رکھے دیکھا تھا۔ واہ! دنیا میں ہر چیز کا متبادل لوگ ڈھونڈ ہی نکالتے ہیں۔

-----

راستے میں سب سے زیادہ چیز جو انہوں نے نوٹ کی تھی وہ کسی جگہ کی دیوار یا پتھروں پر کئی ہوٹلز کے نام تھے۔ جن میں سے "moon restaurant " کا نام تو انہیں رٹ گیا تھا۔
دوسری چیز جگہ جگہ نیلے رنگ کے ڈبوں کے ڈھیر تھے۔ عاشر نے بتایا کہ یہاں خاص چھوٹی مکھی کا شہر نکالا جاتا ہے۔
راستے میں ایک دو بار انہوں نے پہاڑی بکروں کا ریوڑ دیکھا تھا۔ جو بڑے مزے سے سڑک پر 'ٹہلتا' ہوا جا رہا تھا۔ اور کسی گاڑی کے گزرنے پر ان کا چرواہا ڈنڈا دکھا کر انہیں ایک طرف کرتا۔
انس گزرتے ہوئے (شیشہ کھلا ہونے کے باعث) انہیں شکلیں بنا بنا کر دکھاتا اور مقابل بکرا ایسے دیکھتا جیسے کوئی چیونگ چباتے ہوئے مووی دیکھ رہا ہو۔ اور اس کی حرکتوں پر گاڑی میں قہقہے گونج اٹھتے۔

ہر طرف برف کی چادر لپیٹے پہاڑ کھڑے آسمان میں چھپے بادلوں سے باتیں کر رہے تھے۔ کنہار اب بھی ساتھ ہی بہہ رہا تھا۔
پہاڑوں پر موجود برف چمک رہی تھی۔ دور دور اونچے پہاڑ تھے لیکن قریب پہاڑیاں اونچائی میں چھوٹی تھی۔
اور چمکتی برف کے ڈھیر۔۔۔گلیشئر۔۔۔ جس کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتی تھی۔ جس کے قریب سے گزرتے ہوئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے تھے۔

اگلا سٹاپ انکا کنہار کے ساتھ چلتی ایک سڑک پر ہوا جہاں چند خیمے لگے تھے۔ وادی ناران پانچ منٹ ڈرائیو کے فاصلے پر تھی۔
سڑک کے ایک طرف کنہار جبکہ دوسری طرف چھوٹی چھوٹی برف سے ڈھکی پہاڑیاں تھیں۔
عاشر خیمے والے کے پاس گیا جو شہر بیچ رہا تھا۔ اسے وادی کے بارے میں 'کچھ معلومات' لینی تھی۔ ون انس اور دانیال کو یہ کہہ کر گاڑی سے نکلا کہ وہ یہی تھوڑی دیر گھوم لیں۔
وہ دونوں ایک پہاڑی کی طرف آگئے۔ انس کا کیمرہ اسے ساتھ تھا۔
دونوں پہاڑی پر اوپر چڑھنے لگے۔
انس تو کچھ ہی لمحوں میں بن بناتی مکھی کی طرح یہ جا وہ جا۔
"یہ ضرور پچھلے جنم میں مکھی ہوگا" دانیال نے اسے سیکھتے ہوئے سوچا۔ وہ ابھی چار پانچ قدم ہی اوپر چڑھا تھا کہ انس دو تین میٹر کی اونچائی تک پہنچ بھی گیا۔
اور وہاں سے تصاویر لے رہا تھا۔ پہاڑوں کی۔۔۔اونچے برف سے ڈھکے پہاڑوں کی۔۔۔
"ڈینی ابھی تک وہی ہو؟ جلدی چڑھو اوپر۔ یار بہت اچھا ویوview ہے۔" انس وہی سے چینخ کر بولا۔
"آرہا ہوں"۔ وہ بھی چینخ کر بولا اور سنبھل سنبھل کو اوپر چڑھنے لگا۔ ہر قدم برف میں دھنستا ، پھر نکلتا اور اپنا نشان چھوڑ جاتا۔
دانیال تقریباً دو میٹر اوپر پہنچ چکا تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو کنہار پر نظر گئی۔
یعنی اگر وہ یہاں سے پھسلا تو سیدھا گرتا ہوا جا کر کنہار میں۔۔۔دھڑام۔۔۔۔ اللہ!
اپنی سوچ پر اسنے سر جھٹکا۔
"ڈینی!" انس اوپر سے چینخا۔ وہ کیمرہ آنکھ سے لگائے اسکی تصویر کھینچ رہا تھا۔ دانیال فورا سیدھا ہوگیا۔ تصویروں کے معاملے وہ تینوں بہت 'سیدھے' تھے۔
کچھ ہی دیر میں عاشر بھی خیمے سے نکلتا ہوا آیا اور انکو یہاں دیکھ کر اس طرف آگیا۔
اس کے دوسرے قدم پہ ہی دانیال اور انس کی ہنسی بےساختہ تھی۔
اسکا جاتا برف پہ پسلا تھا اور وہ لڑکھڑا گیا تھا۔ ان کو ہنستا دیکھ کر سنبھلا اور ہنستے ہوئے اوپر کی طرف آہستہ آہستہ قدم اٹھائے۔ وہ دانیال کے قریب پہنچنے والا تھا لیکن اس سے پہلے ہی انس اتنی اوپر سے چند لمحوں میں ان تک آپہنچا۔
"بن بناتی مکھی"۔ دانیال بڑبڑایا۔ لیکن اسنے شاید سنا نہیں۔
"لے لی انفو؟"
"ہاں"
"ویسے یار یہاں لوگوں نے اتنے سویٹر اور جیکٹ ایسے پہن رکھے ہیں جیسے بہت برف باری ہو رہی ہوں۔ اتنی ڈھنڈ نہیں ہے" انس نے اکا دکا لوگوں پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
"ہاں میں بھی ہیہ کہنے والا تھا۔" دانیال کی بات پر انس نے ہتھیلی آگے کی اور دانیال نے اس پہ ہاتھ مارا۔ دونوں ہنس دیے۔
"چلو یار اوپر چلو تھوڑا۔ بہت اچھی ہوا ہے اوپر اور وادی بھی نظر آرہی ہے" انس نے اوپر کے طرف اشارہ کیا۔
"اچھا اپنا پاؤں مضبوطی سے جمانا اور پھر اگلا قدم اٹھانا۔ نہیں گروگے"۔ انس کی 'رہنمائی' میں وہ تھوڑا اوپر پہنچے۔
"جھولا لیں گے؟"۔ آواز پر وہ تینوں پلٹے۔
دو سفید و سرخ رنگت والے بچے گرم کپڑے پہنے ہاتھ میں جانے کیا پکڑے کھڑے تھے۔
"جھولا؟"۔
"ہاں جی جھولا۔ دس روپے کا"۔ ایک بچہ معصومیت سے بولا۔
"کیسے؟" ان نے دلچسپی سے پوچھا۔
"ایسے"۔ اسنے ہاتھ میں پکڑا چپڑا یا لیدر نما چیز کو نیچے رکھا اور اس پر بیٹھا۔ پاؤں سے آگے کو جھٹکا دیا اور۔۔۔۔۔ سلائڈ کی طرح نیچے تک پہنچ گیا اور پہنچتے ہی پاؤں زمین میں دھنسا دیے۔
"اوئے واہ" انس کی آنکھیں چمکی تھی۔
"یہ لو دس روپے میں تو لوں گا"۔ وہ بڑے مزے سے دوسرے بچے کو پیسے تھما کر بولا۔
"نیچے اترنے سے پہلے پاؤں زمین میں گاڑ لینا"۔ بچہ پیسے قمیض کی جیب میں رکھتے ہوئے بولا۔
اور اگلے ہی لمحے انس کی پرجوش چینخ کی آواز سنائی دی اور وہ نیچے کو سلائڈ کرگیا۔
"یاہوووو" اور نیچے رک کر اپنے پاؤں زمین میں گاڑ کر رک گیا۔
پھر پلٹا اور ہنستا ہوا چند ہی لمحوں میں اوپر پہنچ گیا۔
"ہائے کیا ایڈونچر تھا"۔ اس کی شکل سے ظاہر تھا کہ اسے کتنا مزا آیا۔
"تم لوگے ڈینی؟" عاشر نے اس سے پوچھا۔
"نو وے! اگر میں لاسٹ میں نا روک پایا تو سیدھا پھسلتا ہوا۔۔۔۔کنہار میں"۔ اسنے نیچے کنہار کی طرف دیکھ کر وقفے سے کہا۔
اس کی بات پر ان دونوں کے قہقہے بےساختہ تھے۔
"چلو پھر چلتے ہیں"۔ ہنستے ہوئے وہ نیچے اترنے لگے۔

------

وہ وادی ناران پہنچ چکے تھے۔ گھر ، خیمے، ہوٹل ، بازار اور لوگ۔۔۔ ہر طرف رونق نظر آرہی تھی۔ انہیں ہوٹل ڈھونڈتے ایک گھنٹہ ہونے کو تھا۔ گھڑی دوپہر کے ساڑھے تین بجا رہی تھی۔ وہ جس بھی ہوٹل میں جاتے ناکام ہی لوٹتے۔ "نہیں بھائی صاحب۔ موسم گرما ہے ۔ کافی رش ہوتا ہے تو سارے کمرے بوک ہیں"
عاشر ہر ہوٹل کے آگے گاڑی روکتا، اندر جاتا اور واپس آکر آگے بڑھ جاتا۔
"پتا نہیں سب کو تبھی آنا تھا جب ہم آئیں ہیں" انس چڑ کر بولا تھا۔ بیچارہ عاشر بھی تو تھک گیا ہوگا۔
وہ ایک اور ہوٹل کے آگے روکا۔ سفید عمارت جس کے آگے وسیع لان۔ اس کے بارے میں اسے خیمے والے نے بتایا تھا۔
"تم لوگ لان میں کرسیاں ہیں وہاں بیٹھ جاؤ میں پتا کرکے آتا ہو کمرے کا۔ ویسے بھی گاڑی میں بیٹھ بیٹھ کر تھک گئے ہوگے" عاشر اندر چلا گیا تو وہ دونوں کرسیوں پر بیٹھنے کی بجائے گھاس پر ہی بیٹھ گئے۔
"واؤ" دور دور تک اونچے اونچے پہاڑ آسمان سے باتیں کرتےنظر آرہے تھے۔ برف کی شال لپیٹے وہ وادی میں موجود آبادی کو دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔
"واؤ یار" وہ دونوں ایک دوسرے کو ہر دل کو چھوتا منظر دکھاتے اور 'واہ واہ' کرتے تھک نہیں رہے تھے۔
"کیا ہوا؟" عاشر کو آتا دیکھ کر وہ کھٹے ہوگئے۔
"نہیں ملا یار۔ بس جو خالی تھا وہ فیملی کے لئے تھا۔ میں نے اصرار کیا وہی دی دیں تو کہنے لگے لوگوں نے پہلے سے بوکنگ کروا رکھی ہے"
"اوہو!"
"چلو کوئی بات نہیں ۔ میں نے ان سے مزید ہوٹلز کا پوچھا ہے" عاشر مایوس ہونے والوں میں سے نہیں تھا۔
عاشر نے اپنی گاڑی ساتھ کھڑی دو چار گاڑیوں کے ساتھ روک دی۔ وہ تینوں ہی گاڑی سے اتر گئے۔
شاید بارش ہوچکی تھی اس لیے نیچے کیچڑ سا تھا۔
اور آخر کار انہیں کمرہ مل ہی گیا۔ وہ سامان لے کر اندر پہنچے۔ انس سیدھا باتھ روم میں گھسا اور دانیال سیدھا بستر پر۔
"اف یارا بہت ٹھنڈا پانی آرہا ہے"
"یہاں سیدھا کنہار سے کیا ہوتا ہے پانی اٹیچ" عاشر بھی اپنے بستر پر گرا۔
کمرے میں تین بستر لگے تھے، اور دو کرسیاں ایک میز کے گرد پڑی تھیں۔ اس کے علاوہ ایک ننھا سا ٹو وی جو شاید 'ڈیکوریشن' کے لیے لگا تھا۔
کمرے میں ایک کھڑکی تھی جس سے دور دور تک اونچے برفیلی پہاڑ ، بادل اور بہتا ہوا کنہار نظر آرہا تھا۔ گو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کھڑکی سے دنیا کا حسین ترین منظر نظر آرہا تھا۔
"چلو یار فریش ہو جاؤ پھر کچھ پیٹ پوجا کرتے ہیں"۔ عاشر کہتے ہوئے خود ہی باتھروم میں گھس گیا، انس کھڑکی کے پاس کھڑا باہر جھونک رہا تھا۔
"واؤ۔ ڈینی کم ہئر"۔ دانیال اٹھ کر اس کے پاس کھڑا ہوا اور سر کھڑکی سے باہر نکالا۔
"واؤ ڈیم ۔ سو بیوٹیفل" وہ منہ کھولے دیکھ رہا تھا۔
"پتا ہے باتھروپ میں اوپر سائڈ پر ایک روشن دان ہے جس میں سے پہاڑ نظر آتے ہیں" وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"ہاں میں نے بھی دیکھے" عاشر بھی ہنستا ہوا باہر نکلا۔
"میں دیکھ کر آتا ہوں" دانیال فریش ہونے گھسا۔
پندرہ منٹ بعد وہ کمرے سے باہر نکلے اور گاڑی کی بجائے پیدل ہی چل پڑے۔
ہونہی چلتے پھرتے وہ ایک وسیع ریستوران پہنچے۔ وہ ایک خالی جگہ پر بیٹھ گئے۔ یہاں ٹیبل اور کرسیاں نہیں لگی تھی بلکہ میز کے گرد چارپائیاں لگا رکھی تھی۔ درمیان میں ایک فوراہ لگا تھا جو ریستوران کو تازگی بخش رہا تھا۔
وہ چارپائی پر آرام دہ ہوکر بیٹھے اور کھانے کا آرڈر کیا۔
کھانا اس قدر لذیذ تھا کہ ان کا ہاتھ پیچھے ہی نہیں ہٹ رہا تھا اور خاص طور پر وہ نرم گرم خستہ تنور کی روٹیاں۔ جو وہ کل ملا کر آٹھ نو کھا چکے تھے اور اس پر حیران تھے۔
بہرحال جو بھی تھا کھانا بےحد ذائقہ دار اور عمدہ تھا۔ 'اچھی طرح' کئی گھنٹوں کی بھوک مٹا کر وہ باہر نکلے۔ انہوں نے کس ریستوران میں کھانا کھایا تھا اسکا نام پہلے انہوں نے نہیں پڑھا تھا۔ لیکن اب جب نظر گئی تو سب سے پہلا اونچہ قہقہہ دانیال کا تھا۔'مون ریستوران' ۔ یہ نام تو انس کو بھی یاد ہو چکا تھا۔
"کیا اتفاق ہے" انس ہنس کر بولا۔
"بائے دا وے! تعریف کا حقدار ہے یہ ریستوران۔"
"ایسا ٹیسٹی کھانا واہ" عاشر نے دانیال کی تائید کی۔
"ویسے ابھی تو شام ہونے والی ہے اس لئے کہیں دور نہیں جا سکیں گے گھومنے۔ اس لیے یہی گھوم لیتے ہیں" عاشر آگے چلتے ہوئے بولا تو وہ بھی ساتھ چل پڑے۔
"اپنی پہاڑی پر چلیں؟" انس نے اپنی پہاڑی پر زور دیا۔
"تم نے کونسی پہاڑی یہاں اپنے نام کی ہے؟" عاشر 'اپنی پہاڑی' پر ہنسا تھا۔
"وہی جس پر ہم صبح گئے تھے" اس نے یاد دلایا۔
"دوپہر کو" دانیال نے تصحیح کی۔
"ہاں ہاں دوپہر کو"
"آ۔۔۔اچھا چلو پھر ہوٹل وہاں سے گاڑی لے کر چلتے ہیں پانچ دس منٹ دور ہے بس" ۔ اوپر ڈھلوان سے اترتے ہوئے کوئی دقت نہیں ہوئی تھی لیکن اوپر چڑھنا تھوڑا سا مشکل تھا لیکن وہ جوان خون تھا تھکنے والوں میں سے نہیں تھا۔
اور اس جوان خون کی آدھا خون 'اپنی پہاڑی' پر ہی نچڑ گیا تھا۔ پہلے جب وہ ادھر آئے تھے تو دوپہر تھی لیکن اب شام ڈھل چکی تھی اور سرد ہوا زور و شور سے چل رہی تھی۔
وہ دونوں جو صبح لوگوں پر ہنس رہے تھے اب خود پر ہنس رہے تھے۔
"نہیں ہنسنا چاہئے تھا ہمیں" وہ ہاتھ پر ہاتھ مر کر ہنس دیے۔ وہ کسی بھی گرم کپڑے کے بغیر یہاں کھڑے تھے۔
دس منٹ میں ہی ان کی 'بس' ہوگئی تھی۔
"چلو یار نیچے اترو ۔ ہم ہتھیار کے بغیر لڑنے آگئے ہیں۔ اگلی دفع جیکٹ وغیرہ پہن کر آئیں گے" انس کی 'شغلی' باتوں پر ہنستے کانپتے وہ اترے فوراً گاڑی میں بیٹھ گئے۔ عاشر نے بیٹھتے ہی ہیٹر آن کیا اور وہ ہوٹل واپس آگئے۔ "باقی گھومنا پھرنا کل۔۔۔"
اپنے کمرے میں پہنچے تو آٹھ بجنے کو تھے۔
"اب بس سو جاؤ۔ آرام ٹائم اون ہے" عاشر اپنے بستر پر بیٹھا تھا جبکہ وہ دونوں 'گرے' تھے۔
"تم ٹھیک سے سوجاؤ ۔ ہم دونوں تو آرام سے آئیں ہیں ڈرائیو اور بھاگ دوڑ تم نے کی ہے" انس کمبل میں گھس چکا تھا۔
"اوکے گڈ نائٹ"
"شب بخیر"
اور تھکاوٹ کی وجہ سے اگلے پانچ منٹ میں ہی وہ نیند کی وادیوں میں اتر چکے تھے۔
-----

"انس!ڈینی! اٹھو"۔
"اٹھ بھی جاؤ اب۔۔۔" عاشر کی آواز پر بمشکل دانیال نے آنکھیں کھولیں، دل تا چاہ رہا تھا اس نرم و گرم بستر میں ایک آدھ دن یوں ہی سوتا رہے۔
"عاشر انسان ہے یا۔۔۔۔ جو اٹھ بھی گیا اتنی تھکاوٹ کے باوجود" وہ اسے گھورتے ہوئے سوچ رہا تھا۔
"انس تم بھی اٹھو جلدی"۔ اس نے مدہوش پڑے انس کا کمبل کھینچا تو وہ چینخ اٹھا۔"امی دس منٹ سونے دیں پلیز" ۔
دانیال بیٹھتے ہوئے ہنس پڑا۔
"امی نہیں ہوں میں تمہاری" اس نے دوبارہ کمبل کھینچا۔
"عاشر؟" وہ آنکھیں ملتا اٹھ بیٹھا "کیا ہے؟ ابھی تو۔۔۔۔ صبح کے چھ بھی نہیں بجے اور تم۔۔"
"میں ابھی باہر سے ہوکر آیا تھا۔ ہم گاڑی میں سیاحتی مقامات پر نہیں جا سکتے اس لیے جیپ کا بندوبست کیا ہے۔ آٹھ بجے نکلنا ہے"۔
"تم کوئی مرغے ہو؟ یا کوئی جن بھوت؟ بندہ آرام کرلیتا ہے ٹھیک سے تم تو مرغوں کی طرح صبح سویرے ہی اٹھ بیٹھے"۔ انس کا لہجہ متفکر اور طنزیہ تھا۔
"ہاہا۔ میری آنکھ پانچ بجے ہی کھل گئی تھی۔ ہم یہاں سونے تو نہیں آئے"
"چلو نہالو ، فریش ہوجاؤ پھر راستے میں ہی ناشتہ کرلینگے"۔ عاشر اپنے کپڑے نکالنے لگا۔
انس باتھروم میں گھس گیا اور دانیال کا دل گرم کمبل میں گھس جانے کا تھا۔
"آج جیکٹ وغیرہ پہن لینا۔ کونکہ وہاں ٹھنڈ ہوگی"۔
"اچھا" دانیال ننگے پاؤں ہی اپنے بیگ کی طرف بڑھا۔
"ڈینی جوتا کہاں ہیں؟ جوتا پہن کر چلو۔" اور اسکا لیکچر شروع ہوگیا۔ یہی کہ قالین پر کیا کچھ ہو، صاف بھی ہوگا یا نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ اس تقریر سے بچنے کے لیے اسنے فوراً اپنا جوتا پہن لیا۔
"اوئی ماں!" انس سیدھا کمبل میں آگھسا۔"پانی بہت ٹھنڈا ہے یار نہاؤں کیسے ؟ میں بس منہ ہاتھ دھو کر باہر نکل آیا ہوں"
"اوہ سوری میں بتانا بھول گیا۔ سات بجے گیزر آن کرینگے تب نہا لینا"۔
"گیزر؟"
"ہاں میں نے پوچھا تھا۔ کوئلوں سے چلائنگے " پھر گھڑی دیکھی اور بولا" بس تھوڑی دیر میں چل جائے گا" ۔
پھر جب گیزر چلا تو وہ نہا دھو کر گرم کپڑے جیکٹ وغیرہ پہن کر تیار ہوگئے۔ یہاں کا گرم پانی ایسا تھا جیسے لاہور کا ٹھنڈا پانی۔ لیکن وہ بھی ان کے لیے نعمت بن کہ اترا تھا۔

باہر نکل کر وہ جیپ میں بیٹھے۔ جیپ کا سفر ان تینوں کے لیے نیا تھا۔
جیپ والے نے چادر اوڑھ رکھی تھی۔
"عاشر خالہ گاڑی چلائیں گی؟" عاشر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا جبکہ وہ دونوں پیچھے بیٹھ گیے تھے۔
انس کی بات پر 'خالی' نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ شرمندہ سا ہوگیا۔ اس آدمی نے نیلی چادر زنانہ سٹائل میں اوڑھ رکھی تھی تاکہ سردی سے بچ سکے۔
"اوپس!"
جیپ نے اپنا نام امجد بتایا اور اب وہ عاشر کو اس 'تفریحی سفر' کے بارے میں بتا رہا تھا۔
زیادہ تفصیلاً تو وہ دونوں نہیں جانتے لیکن عاشر نے بس اتنا بتایا تھا کہ یہاں آگے اپنی گاڑی میں جانا عقلمندی نہیں ہے۔ اس لیے جیپ بک کرلی۔ اب جیپ والا انہیں 'گھومائے' گا۔
جیپ تھی یا کوئی جھولا۔۔۔ بقول انس "جیپ کا سفر بھی ایک ایڈونچر ہی ہے" اور انہیں حقیقتاً جیپ میں بیٹھ کر مزا آرہا تھا۔ امجد بھائی نے جیپ کی کھڑکیاں کور نہیں کی تھی اس لیے ٹھنڈی ہوا اور ہر منظر وہ با آسانی دیکھ سکتے تھے۔
وہ تینوں ایک دوسرے کو ہر خوبصورت نظر آنے والا منظر دکھاتے اور اپنی 'واؤ' واؤ والی حرکت پر ہنستے۔
جب جیپ کا گزر کسے گلیشئر سے ہوتا تو دونوں اطراف سے ٹھنڈی ہوا آتی اور وہ آنکھیں بند کرکے اس ٹھنڈک کو اندر تک کھینچ لیتے۔ اور ہر چیز پر انس کا تبصرہ عروج پر تھا۔ "ایسے لگ رہا ہے اےسی کے سامنے منہ رکھ دیا ہو"۔ اس کی بات سن کر سب ہنستے۔
یہ ہلاگلا مسلسل چل رہا تھا۔ آج انہوں نے جیکٹ وغیرہ پہن رکھی تھی اس لیے وہ سردی کا مزہ لے رہے تھے۔
وہ گھر سے بغیر کچھ کھائے نکلے تھے اس لئے ناشتے کہ لیے کہیں رکنے کو عاشر پہلے ہی امجد بھائی سے کہہ چکا تھا۔
امجد بھائی نے جیپ تقریباً دو تین گھنٹے چلنے کے بعد 'جلکھڈ' آکر روکی۔
جلکھڈ وسیع، لمبا اور ساف ستھرا روڈ تھا جو پہاڑوں کو چیرتا ہوا سیدھا جاتا دو منزلوں کی طرف نکلتا تھا۔
اس مقام کو دیکھ کر انس اور دانیال کی 'واؤ' واؤ پھر شروع ہوچکی تھی۔
"آپ لوگ ناشتہ کرلیں میں جیپ میں ہی بیٹھا ہوں" امجد نے چھوٹے سے ڈھابے نما ہوٹل کی طرف اشارہ کیا۔
"آپ بھی آجائے امجد بھائی" عاشر نے انہیں بھی آفر کی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
وہ جیپ سے نیچے اترے۔ سامنے میز، کرسیاں اور چارپائیاں بچھی تھیں۔ اور ان کے پیچھے کنہار۔۔۔۔
وہ کرسیوں کی بجائے چارپائی پر بیٹھ گئے۔ عاشر ناشتہ لینے چلا گیا۔
انس کیمرہ لانا نہیں بھولا تھا اس لئے فوراً جلکھڈ کی تصویریں لینے لگا۔
عاشر کے ہاتھ میں ٹرے تھی جسے وہ میز پر رکھ کر دوبارہ واپس گیا اور پانی لے آیا۔
لذیذ پراٹھے اور انڈے اے انصاف کرکے وہ اس قدر عمدہ کھانے کے شان میں قصیدے پڑھنے بیٹھ گئے۔
"پیچھے واشرومز بھی ہیں۔ ہونو ہے تو ہولو۔ بعد میں جانے کہیں واش روم ہو یا نا ہو"۔ عاشر ٹرے واپس لےگیا تو وہ دونو واشروم آگئے۔
عاشر بھی ادھر آیا تو انکو واشروم کے سامنی کھڑا دیکھ کر حیران ہوا۔
"کیا ہوا؟"
"یار عاشر! 'اوپن واش روم' ہے" انس سے ہنسی روکنا مشکل ہورہا تھا۔
"تو کیا ہوا یار ۔ آسمان سے یا کسی پہاڑی پر چڑھ کوئی تھوڑی نا دیکھے گا تمہیں"
"پوائینٹ ہے" دانیال تو ایک باتھروم میں گھس گیا۔ اس کے بعد عاشر اور آخر میں انس۔
اور انس کی باری میں آسمان نے بارش برسا دی۔
"میں نہانے کے ارادے سے تو نہیں گیا تھا" وہ انتہائی معصومیت سے بولا تھا۔ عاشر اور دانیال کھڑے بارش انجوائے کر رہے تھے۔
دانیال نے اپنی سیاہ ہوڈ سر پر لے لی۔ "چلو جیپ میں بیٹھو میں چائے لے آتا ہوں"
وہ جیپ میں آئے تو امجد بھائی کھڑکیاں کور کر چکے تھے۔ اب باہر کا منظر نظر نہیں آرہا تھا ۔
"یہ لو گرما گرم چائے" عاشر امجد بھائی کے کیے چائے لے آیا تھا۔
کہاں وہ اتنی گرمی میں چائے کے تصور سے بھاگتے تھے اور کہاں آج اتنے مزے سے چائے پی رہے تھے۔
"ویسے پاکستان میں ذائقہ بہت ہے" انس نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہی تعریف کی۔
"اور خوبصورتی بھی" دانیال کے ذہن میں تو یہ خوبصورتی قید سی ہوگئی تھی۔ عاشر ان کی بات پر مسکراتا چائے پینے لگا۔ گرما گرم چائے پینے میں انہیں دو منٹ بھی نہیں لگے تھے۔
عاشر کپ دے کر آیا تو 'پیاز کے پکوڑے' لے آیا۔
"میں نے کبھی نہیں کھائے" دانیال نے انکار کردیا۔
"اچھا ابھی پیچھے رکھو بعد میں کھا لیں گے" عاشر کے ہاتھ سے اخبار میں لپٹے پکوڑے پکڑ کر اس نے انس کو پکڑا دیے۔
انس نے فوراً ایک پکوڑا پکڑ کر چکھا تھا۔ "یار پاکستان میں بہت ذائقہ ہے" اسنے دانیال کو بھی پکوڑا تھامایا۔ "ڈینی چکھو تو سہی" اس کے زور دینے پر دانیال نے چکھ ہی لیا۔
"یمی!" اس نے ایک دو پکوڑے عاشر کو بھی پکڑائے جو امجد بھائی سے گپے لگانے میں مصروف تھا۔
جب باتوں سے فارغ ہوا تو پیچھے مڑا "ذرا دکھاؤ تو مجھے بھی پکوڑے"
"کیا چیز؟" انس کی معصومیت عروج پر تھی۔
"پیاز والے پکوڑے یار" اس کی گردن پیچھے ہی تھی۔
"وہ۔۔۔وہ تو ہم نے کھالیے" دانیال نے بھی انس چیزی شکل بنائی۔
عاشر آنکھیں پھاڑے دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
"ابھی تو کہہ رہے تھے۔۔۔۔ " وہ حیران تھا آدھا کلو پکوڑے چٹ کیسے ہوگئے۔
"یار وہ اتنے مزے کے تھے کہ ہاتھ ہی نہیں رکا"
"ہاں بالکل " دانیال نے ہاں میں ہاں ملائی۔
"شرم کرو میرے بغیر ٹھونس لیے سارے۔ میں نے جب سنا ہوٹل میں کہ بہت مزے کے پکوڑے ہیں میں فوراً لے آیا اور تم دونوں نے۔۔۔" عاشر حیرانی اور دکھ میں گھرا سیدھا ہو بیٹھا تو ان کی دبی دبی ہنسی پر پیچھے مڑ کر انہیں گھورنے لگا۔
"اوکے سوری سوری" دونوں نے ہنسی روکی۔
"ہوں! اگلی بار پہلے خود کھاؤں گا پھر تم لوگوں کو دوں گا۔ "
"اوکے" انہوں نے سر ہلایا۔
پھر امجد بھائی انہیں یہاں کے بارے میں کچھ بتانے لگے تو وہ تینوں دلچسپی سے سننے لگے۔ وہ انہیں بتا رہے تھے کہ ہمیں کرنی بلندی پر جانا ہے اور زیادہ تر لوگ یہاں جیپ پریفر کرتے ہیں کیونکہ اپنی گاڑی پر سفر کرنا اپنی گاڑی کا خسارہ کرنے کے مترادف تھا۔ اور جیپ والے ویسے بھی ان راستوں سے واقف تھے۔
---
ان کی 'واہ واہ' کو بریک لگا ہوا تھا کیونکہ کھڑکی ڈھکی ہوئی تھی۔ جانے باتیں کرتے ، سفر کرتے کتنا وقت گزرا تھا کہ امجد بھائی بولے "چلیں جی! آپ لوگ گھوم پھر لیں۔ ایک ڈیڈھ گھنٹا کافی ہے؟"
"اچھا" وہ تینوں نیچے اتر گئے۔ انس نے اپنا کیمرہ سنبھالا اور عاشر نے شولڈر بیگ۔
اور نیچے اتر کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
جہاں انکی جیپ رکی تھی وہاںدیگر کئی جیپ اور بھی کھڑی تھی اور کئی لوگ ادھر ادھر خوشباش سے گھومتے نظر آرہے تھے۔
وہ آگے بڑھ آئے۔ ان کی آنکھیں اس منظر کو دیکھ کر سیر ہوگئی تھیں۔ اس جگہ کی خوبصورتی ان کی آنکھوں سے ہوتی ہوئی جسم کے ہر حصے کو سکون عطا کر رہی تھی۔
"برف کا صحرا"
"بابوسر ٹوپ"
برف سے ڈھکی پہاڑیاں۔ غرض یہ کہ یہاں سے انہیں ہر طرف صرف اور صرف برف سے ڈھکے پہاڑ ہی نظر آرہے تھے۔ انہیں یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کسی برف کی وادی میں اتر گئے ہوں۔
وہ تقریباً ایک ہزار میٹر کی بلندی پر پہاڑوں کے درمیان کھڑے تھے۔ یہاں سے کئی اونچے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ اور بادل۔۔۔ وہ تو ان پہاڑوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے تھے۔

ان کی واؤ واؤ شروع ہو چکی تھی۔ اور اتنی ٹھنڈ کے بائث دانت تھرتھرا رہے تھے۔ سفید۔۔بالکل سفید برف کی روشنی ان کی آنکھوں کو چندھیانے پر مجبور کر رہی تھی۔
عاشر نے بیگ سے سن گلاسس نکالے جو اس نے کمرے میں ان سے لے کر بیگ میں رکھ لیے تھے۔ سن گلاسس آنکھوں پر چڑھا کر روشنی کم ہوئی تو وہ سکون سے ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگے۔
کچھ ٹھنڈ اور کچھ بلندی کی وجہ سے پہلے کچھ لمحات انہیں سانس لینے میں دشواری ہوئی تھی۔
بڑے تو بڑے یہاں بچے بھی تفریح کرنے میں 'مصروف' تھے۔
انس اس 'برف کے صحرا' کی تصویریں لے رہا تھا۔ تینوں آگے بڑھتے جاتے ہنسی ،شغل اور مزے میں مصروف ہوگئے تھے۔ اور اپنا کیمرہ کبھی کسی کو پکڑاتے تو کبھی کسی کو پکڑا کر مختلف اور فنی پوز بنا کر تصویریں لیتے۔ کبھی اپنی پشت کیمرے کی طرف کرتے اور پہاڑوں کو دیکھتے، کبھی کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہوتے، کبھی برف پر بیٹھ جاتے اور اپنی ہی پوز پر ہنستے ہوئے یہ یادیں اور منظر کیمرے میں قید کرواتے۔۔۔۔

------
وہ دونوں کھانے کی میز پر خاموش بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ ناشتہ تو خیر سامنے پڑا ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ جافری صاحب اخبار پر نظریں جمائے کسی سوچوں میں گم تھے اور ان کی بیوی دانیال کی کرسی پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
میز پر تو ویسے بھی ہمیشہ خاموشی ہی چھائی ہوتی تھی ، کبھی کبار کوئی کام کی سرسری سی بات ہوجاتی لیکن آج یہ خاموشی زہر گھول رہی تھی۔ ایسا زہر جو انسان اور اسکی سوچ کو گہرائی تک جنجھوڑ دے۔
اسے گئے ہوئے ایک دن ہی ہوا تھا لیکن گھر ایسے خالی لگ رہا تھا جیسے یہاں کوئی رہتا ہی نہیں۔ وہ ہوتا تب بھی یہاں خاموشی ہی چھائی ہوتی لیکن وہ خاموشی بھی بری نا لگتی۔ کیوں ہوگیا تھا انکا گھر ایسا؟ اتنے سالوں سے خاموش اور مصروف؟
اور ان کا بیٹا؟ ایک خاموش کتاب۔۔۔ جو بند ہی رہتی تھی۔
لوگوں کے گھروں میں رونق اولاد سے ہوتی تھی لیکن یہاں ایسا کچھ نا تھا۔ کون تھا اس سب کا ذمہ دار۔۔؟
----
ناشتے سے فارغ ہوکر ملازمہ کو برتن اٹھانے کا کہہ کر میں اپنے کمرے میں آگئی۔ وہ آفس جا چکے تھے۔ ناجانے آج دل اتنا اداس سا کیوں ہو رہا تھا۔
میں اپنے کمرے سے نکل کر دانیال کے کمرے کے آگے آکھڑی ہوئی۔ ایک گہری سانس لے کر میں اندر داخل ہوگئی۔
ایک خوشبو نے کمرہ معطر کر رکھا تھا۔ یہ اسکا پسندیدہ پرفیوم تھا۔
اندر داخل ہوکر ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا بیٹا میرے پاس ہو۔۔۔ وہ بیٹا جس کو پیار کرنے میں مجھ سے کوئی کمی رہ گئی تھی۔ میں اپنے شوہر کے کہے کی خاطر اپنے بیٹے کی خوشی نظرانداز کرتی رہی تھی۔
میں نے بہت سوچا کہ اپنے شوہر سے بات کروں اور اہنے بیٹے کو ہر چھوٹی چھوٹی خوشی دوں لیکن وہ کہتے کہ "کامیاب انسان بنانا ہے میں نے اسے۔ تم دخل مت دو یہی بہتر ہوگا" اور میں نے دخل نہیں دیا۔ وہ کامیاب انسان تو بن گیا لیکن خاموش ہوگیا۔
میں نے کیوں غور نا کیا کہ جو سلوک بچوں کے ساتھ بچپن میں کیا جاتا ہے وہ انکے ذہن پر اپنا رنگ چھوڑ جاتا ہے۔ اور میرے بیٹے پر کتنا اثر چھوڑا ہوگا یہ اب نظر آتا ہے۔ چہل پہل اور خوشی سے وہ دور دور رہتا ہے۔ وہ بس وہی رہتا ہے جو ہم نے اسے بنانا چاہا۔
لیکن اولاد کو خوش دیکھ کر ہی والدین کو خوشی ملتی ہے۔ کیا میرے دانیال کو خوشی رہنے کا حق نہیں۔ اسکا بچپن چھین لیا ہم نے اس سے۔۔۔۔ اسکی خوشی بھی چھین لی۔
کیا تھا اگر دونوں چیزیں ساتھ مینیج کرلیتے۔۔۔ لیکن نہیں کیا نا۔۔۔ اب بھگت رہی ہوں۔
اس کو خاموش الگ تھلگ دیکھ کر ایک ماں پر کیا گزرتی ہے کون جانے۔۔۔۔
ہاں جانتی ہوں یہ ماں کہاں تھی جب وہ بچپن میں اکیلا تھا۔ ہنسی آتی ہے اب خود پر۔۔۔
کیا کروں میں؟ پیار بھرے لمحات بھی نہیں دے پائے ہم اسے۔۔ کیوں؟
کامیاب انسان تو بنا لیا لیکن اپنا بیٹا کھو دیا میں نے۔۔۔ "مجھے معاف کردو دانیال۔۔ معاف کردو"

اسکے بستر پر بیٹھ کر وہ بری طرح رو دیں۔
------
"عاشر" انس کی چلاتی آواز پر وہ مڑا تو 'آہ' کر اٹھا۔ برف کا گولا بنا کر انس نے سیدھا اس کے سر پر مارا تھا۔
"انس کے بچے" عاشر فوراً نیچے جھکا اور برف ہاتھ میں لی اور سیدھا انس کی طرف پھینکی جو اسکی جیکٹ سے ٹکر کھا کر نیچے گرگئی۔
"ہاہاہا" انس نے اسے چڑایا اور اگلا گولو بنا کر دانیال کی طرف دے مارا۔
"اوئے" دانیال بھی 'جوابی کاروائی' کے لیے برف کا گولا بنانے کو جھکا لیکن اس سے پہلے ہی 'برف بلاسٹ' ہوگیا۔
"عاشر!" وہ عاشر کی طرف دیکھ کر چینخا وہ پہلے ہی ہنس رہا تھا۔
"صبر کرو ذرا" اسنے دونوں مٹھیوں میں برف اٹھائی اور دونوں کی طرف پھینکی۔
وہ ایک دوسرے پر 'حمل' کرتے اردگرد سے انجان اپنی مستیوں میں مصروف تھے۔ ٹھنڈ کا زور بھی اب وہ بھول گئے تھے۔
انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ انہیں کوئی دیکھ رہا ہے یا نہیں۔
‏"Enjoy when you have a moment. Chill and don't care" انس نے کہتے ہوئے گولا بنایا اور اسے اچھلانے سے پہلے ہی بیک وقت دو گولے کھائے۔۔ ایک عاشر کی طرف سے اور دوسرا دانیال کی طرف سے۔
"جی ضرور! چل ناؤ" دانیال نے عاشر کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔
"بات سنو ایک منٹ" انس بہت سنجیدہ ہوکر ان تک آیا۔
"کیا؟"
" یار لوگوں پر بھی حملہ کرو ۔ کیا بس ہم ہی لطف اٹھائیں" وہ بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
"لوگ یہاں 'لطف' اٹھانے ہی آئے ہیں۔۔" عاشر نے زور دے کر بولا۔لیکن وہ سنجیدہ مکھی ان پر برف گرا کر آگے بھاگ گیا تھا۔
"انس" دونوں چلاتے ہوئے اسکے پیچھے بھاگے ۔" اپنی خیر منالے انس"
اور وہ ہنستا ہوا آگے بھاگتا جارہا تھا۔
-----

اپنے آفس میں بیٹھے وہ بہت تھکے تھکے سے لگ رہے تھے۔ انہوں نے کسی کو بھی اندر آنے سے منع کیا تھا۔
وہ بس ایک انسان کو سوچ رہے تھے۔۔۔۔ دانیال۔۔۔
ان کے دماغ میں بھی وہی سوچیں آرہی تھی جو ان کی بیوی کو رلا کر رکھ چکی تھیں۔
وہ اسے جو بنتا دیکھنا چاہتے تھے وہ بن چکا تھا۔
اب وہ اسے خوش دیکھنا چاہتے تھے ۔ لیکن کیا یہ اب ممکن تھا؟
کیا یہ ناممکن ہے؟ اس کا خیال آتے ہی انہوں نے فیصلہ کر لیا۔ بس اب انہیں دانیال کو خوش دیکھنا ہے۔ وہ خاموش رہے گا تا کیا ہوا وہ خود اپنے بیٹے سے ڈھیر ساری باتیں کرینگے ، اپنا رویہ درست کرینگے۔ انہیں امید تھی کہ اب سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔ ہو جانا چاہئے۔ اس ندامت کے ساتھ جینے سے بہتر ہے کہ سب سدھار لینا چاہیے۔
"ہیلو" انہوں نے بیوی کو فون ملایا۔
"جی؟" ان کی بوجھل سی آواز آئی۔
"میں نے بہت غلط کیا ہے۔" وہ کافی دیر بعد بولے۔ لیکن دوسرے طرف تو آنسوؤں کا ریلا بہہ نکلا۔
"ہم نے اپنا بیٹا کھو دیا جافری صاحب۔ ہم نے اسکی خوشیاں چھین لیں"۔ انہوں نے گہری سانس لی۔
"مجھے احساس ہے"۔
"لیکن بہت دیر سے"۔
"اب ہمیں سب درست کرنا ہے"
"کیا یہ ممکن ہے"
"نا ممکن بھی نہیں"۔ کال کاٹ کر وہ کھڑے ہوگئے اور ادھر ادھر ٹہل کر کچھ سوچنے لگے۔
--------

ان کی ہنسی کو بریک لگا۔ انس کے مشورے پر عمل کرکے انہوں نے ایک لڑکے کو گولا مارا تھا لیکن وہ انہیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ تینوں ایلین ہو۔
"سوری" وہ تینوں کہتے ساتھ ہی پلٹ گئے۔ لیکن۔۔
"آوچ" انس فوراً واپس پلٹا۔
لڑکا کھڑا ہنس رہا۔ اسنے ہی انس کو گولا مارا تھا۔ دانیال اور عاشر بھی ہنسنے لگے۔
پھر وہ ادھر ادھر بھاگتے گولے مار رہے تھے۔ کوئی انہیں گھورتا، کوئی بس دیکھتا ، کوئی ہنستا تو کوئی ہنس کر انہیں بھی برف کا گولا بنا کر مارتا۔ ایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہوگیا تھا لیکن انہیں واپس جانے کا خیال ہی نہیں آیا۔
اب انہیں ایک اور تفریحی 'چیز' مل گئی تھی۔ تھوڑا آگے آئے تو برف کی ڈھلوان تھی جو اوپر سی نیچے تک برف سے ہی ڈھکی تھی۔
انس کا دماغ چلا۔ اسنے دانیال نے کان میں سرگوشی کی۔ اور دونوں مسکراہٹ دباتے عاشر کی طرف بڑھے۔ عاشر کے کچھ سمجھنے سے پہلے ہی انہوں نے اسے دکھا دیا اور نیچے گرایا۔ ایک ٹانگ دانیال نے پکڑی اور دوسری انس نے اور اسے برف پر گھسیٹتے ہوئے تھوڑا نیچے لے گئے۔ عاشر پہلے تو چلایا پھر اسکی ہنسی بےاختیار تھی۔
اسکو گھسیٹتے انس گرگیا تو عاشر فوراً اٹھا اور اس کو گھسیٹنا لگا۔ دانیال نے بھی اسکی خوب مدد کی۔ اور آخر میں توپوں کا رخ دانیال کی طرف ہوا تو وہ فوراً پیچھے ہٹا۔ لیکن مقابل بھی اسکے دوست تھے۔ گھسیٹ لے گئے اسے۔ اور جب رکے تو وہیں برف پر بیٹھ کر اپنی حرکتوں پر ہنسنے لگے۔
"کیسا تجربہ تھا ڈینی؟"
" یار میری شرٹ میں برف چلی گئی تھی ۔۔۔اف " اسکی بات پر ان کے قہقہے دوبارہ شروع ہوگئے۔
"چلو اوپرکی طرف" انس پینٹ جھاڑ کر کھڑا ہوا اور تینوں تھوڑا اوپر آگئے۔
"جیسے میں کروں ویسے کرنا اوکے"
انس نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور آنکھیں بند کی۔
"ہوا کو فیل کروں اینڈ انجوائے" اسنے آنکھیں بند کرکے سر اوپر کر لیا۔
"ہم کسی بولیووڈ فلم کا سین نہیں کر رہے جو۔۔۔"
"شش! جسٹ ڈو اٹ" انس نے اسے پوزیشن میں کھڑے بات کاٹی۔
دانیال نی بھی تائید کی تو وہ بھی اسی طرح کھڑا ہوگیا۔

دانیال نے آنکھیں بند کی تو سرد ہوا اس کے چہرے کو چھو گئی ۔
اسکا دھیان گھر کی برف چلا گیا۔ ڈیڈ اور ماما۔۔ اسنے فون بھی نہیں کیا ایک بار۔۔
اسکا دھیان خود کی طرف چلاگیا۔ اسکا دل چاہا یونہی کھڑا رہے۔۔۔تنہا۔۔۔اکیلا۔۔۔۔
"مزا آرہا ہے؟" انس بند آنکھوں سے بولا۔
"ہوں بہت" عاشر بھی سکون سے بولا۔ماسے اچھا محسوس ہو رہا تھا۔
دانیال نے اپنی سوچوں کو جھٹکا۔۔۔ وہ یہاں انجوائے کرنے آیا ہے۔۔ تو بس انجوائے کرےگا۔
"اور تمہیں ڈینی؟"
"جی بالکل۔۔۔ بہت" سرد ہوا اسکے جسم سے ہوتی روح کو بھی سکون دے گئی۔ کتنے پل گزر گئے۔ وہ بہت اچھا محسوس کر رہا تھا۔
"اوئے دو گھنٹے ہوگئے" عاشر چینخا تو انکی آنکھ کھلی۔
"تو؟"
"امجد بھائی نے ڈیڈھ گھنٹا کہا تھا چلو اب"
"اوہو۔۔۔اوکے"۔واپس جانے کا دل کسکا کرےگا ایسی جگہ سے لیکن جانا بھی تو تھا۔
وہ واپس اپنی جیپ کی طرف آئے تو امجد بھائی کو دوسری جیپ والے سے محو گفتگو پایا۔ انکو دیکھ کر فوراً جیپ میں آبیٹھا۔
"آگئے آپ لوگ؟ ٹائم لگا دیا بہت۔۔ مزا آیا؟"
"ایسا ویسا" وہ بیٹھتے ہوئے بولے۔ امجد بھائی نے چیپ سٹارٹ کردی۔
کھڑکیاں کھل چکی تھی اور باہر کا منظر اب واضح تھا۔ ان کی 'واؤ واؤ' اور 'وہ دیکھو یہ دیکھو' شروع ہوچکی تھی۔
جیپ اگلی منزل کی طرف جا رہی تھی۔
-----
راستے میں ایک جگہ ٹرک پھسا ہونے کی وجہ سے جیپ روک دی گئی۔ ان کی جیپ کے پیچھے بھی ایک دو مزید جیپ کھڑی تھیں۔ امجد بھائی نکل کر ٹرک کی طرف بڑھ گئے جہاں کچھ لوگ مل کر اسے نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
بائیں جانب ایک جھیل تھی۔ خوبصورت جھیل۔۔۔۔ جس کی سطح پر ایک جگہ تھوڑی سی برف تیر رہی تھی۔
"لولوسر جھیل" (lulusar lake)
وہ کچی پکی سڑک پر تھے اور یہاں سے اتر کر جھیل کی طرف کوئی راستہ نہیں جا رہا تھا اس لیے وہ جیپ میں سے ہی جھانک کر دیکھ رہے تھے۔
بلاشبہ پاکستان کے ہر کونے کی طرح یہ جھیل بھی بےحد خوبصورت تھی۔
انس نے جھیل کی کئی تصاویر کھینچ لیں۔ پھر اسکے ذہن میں گھنٹی بجی کی جیپ میں انہوں نے کوئی تصویر نہیں لی۔ تو یہ 'نیک' کام بھی پورا کرلیا۔
امجد بھائی واپس آگئے۔ ٹرک ہٹ چکا تھا اور وہ اگلی منزل کی طرف بڑھ گئے۔۔۔
لیکن اگلی منزل کی طرف جاتا اتنا 'دل دہلا' لینے والا ہوگا یہ انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔
صرف ایک بل کھاتی کچی سڑک اس منزل کو جاتی تھی۔ بلکہ لوگ اسی راستے جا رہے تھے اور اسی راستے آرہے تھے۔ کوئی جیپ اوپر چڑھ رہی تھی تو کوئی واپس لوٹ رہی تھی۔
سڑک پہاڑ کی اونچائی کے ساتھ خود بھی اوپر جا رہی تھی۔ اور جیپ کھلی ہونے کے باعث وہ نیچے گہرائی 'صاف' دیکھ سکتے تھے اور یہی گہرائی دیکھ کر ان کے چہرے دیکھنے والے تھے۔ لیکن انہی چہروں کے رنگ تب اڑے جب زیادہ اونچائی ہوئی اور فقط ایک جیپ ہی کے گزرنے کا راستہ بنا۔ وہ ایک طرف پہاڑ جبکہ دوسری طرف گہرائی۔
جب بھی کوئی موڑ آتا تو کھڑکی کے پاس جو بھی ہوتا وہ تو چینخ ہی اٹھتا۔ یوں لگتا بس وہ تو گیا۔
وہ تینوں زور سے جیپ میں لگا روڈ پکڑے بیٹھے تھے جبکہ پاؤں زور سے نیچے دبا رکھے تھے تاکہ وہ نا ہلے اور نا گرے۔
"مجھے پتا ہوتا ایسا راستہ ہے تو میں تو پیدل ہی اوپر آجاتا"۔ انس جو کھڑکی کے ساتھ جڑا بیٹھا تھا ہر موڑ پر 'یا اللة ' 'ہائے' 'اوئی ماں' کرکے بمشکل چینخنے سے روکتا خود کو۔
دانیال تو چپ چاپ روڈ کو زور ست تھامے بیٹھا سوچ رہا تھا کہ وہ پہنچے گے کب اور یہی حال عاشر کا تھا۔ مانا کہ وہ بڑے ہوگئے تھے لیکن ان اتنے بھی بہادر نہیں تھے کہ ایسی جگہ پر 'اس طرح' ری ایکٹ نا کرتے۔
البتہ امجد بھائی ایسے سکون سے ڈرائیو کر رہے تھے جیسے موٹروے پر گاڑی چلا رہے ہو۔ ہاں وہ تو روز یہاں آتے ہونگے۔ انکا کام یہی تھا تو عادی ہوچکے ہونگے۔
"آپ کو پتا ہے یہاں کی کہانی کیا ہے؟" امجد بھائی ان کا دھیان ہٹا رہے تھے۔
"کس کی کہانی؟" انس آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا ایک آنکھ کھول کر انکی طرف دیکھ کر بولا۔
"سیف الملوک کی"۔
"ہیں؟"۔
وہ بتانے لگے کہ سیف الملوک پہاڑوں کے درمیان میں ایک جھیل ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پریاں اترتی ہیں۔
"پریاں؟" ان تینوں کا منہ کھل گیا۔
" جی پریاں۔ چودھویں کے چاند کی رات وہ یہاں آتی ہیں"
"آپ نے دیکھی ہیں؟" انس بے یقینی سے پوچھا۔
"نہیں جی مجھے تو نظر نہیں آئی۔ لیکن میں نے بہت سنا ہے کہ پریاں اترتی ہے اور اس جھیل پر سے ہوکر چلی جاتی ہیں۔"
"اچھا؟ چلیں پھر ہم بھی اوپر پہنچ کے پریاں دیکھیں گے"۔
"اوپر پہنچ کر نہیں۔۔۔ سیف الملوک پہنچ کر"۔ عاشر نے انس کی بات کی اصلاح کی۔
"ہاں ہاں وہی"۔
بہرحال جیسے تیسے وہ پہنچ ہی گئے۔ جیپ ایک جگہ روکی۔ امجد بھائی نے انہیں بتایا کہ یہاں سے نیچے اتر کر وہ گھوم لیں ۔
وہ تینوں اتر گئے۔
اور وہ تینوں 'سیف الملوک' کو دیکھ کر مبہوت رہ گئے۔ پہاڑوں کے درمیان جھیل۔۔۔۔
برفیلی پہاڑ اور اوپر نیلا آسمان جس پر سفید بادل کھڑے اپنا عکس جھیل میں دیکھ رہے تھے۔
"واؤ" چھوٹا لفظ تھا۔ اس جگہ کی تعریف کے لیے بہت چھوٹا لفظ تھا۔۔۔
انہیں پریوں والی بات یاد آئی۔۔۔ اوہ شاید یہ جگہ اس قدر حسین تھی کہ اس کے لیے پریوں کے اترنے کی تشبیہ استعمال کی ہو۔
"اتنی حسین جگہ کے لیے ایسا خطرناک راستہ ہی ہونا چاہیے تھا" انس سراہے بغیر نا رہ سکا۔ واقعی ایسا سفر طے کرنے کے بعد اس کا پھل اتنا میٹھا ہی ملنا چاہیے تھا۔
"واقعی یار"۔
وہ نیچے اترتے ہوئے اس جگہ کی بےانتہا تعریفیں کر رہے تھے۔ وہ واقعی اس جگہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔
ٹھنڈ تو یہاں بھی بہت تھی لیکن وہ ٹھنڈ کو محسوس کرکے اس جگہ کا مزا کم نہیں کرنا چاہتے تھے۔
ایک چھوٹا سا پل تھا جس کے نیچے سے جھیل کا پانی بہہ رہا تھا۔ وہ پل سے گزر کر آگے آگئے۔ جھیل کے پاس۔۔۔
"سبحان اللة یار! بہت زبردست جگہ ہے"۔ دانیال جھیل نظریں جمائے بولا۔ اسے یاد آیا یہاں لانے والا اور یہ سب سرپرائز وغیرہ عاشر نے سوچا تھا۔۔۔اس کے لیے۔
وہ اس کی طرف مڑا۔ وہ اور انس بھی جھیل کو تک رہے تھے۔ شفاف۔۔۔بےحد شفاف پانی۔۔۔۔۔
نیلا پانی جس پر سفید بادلوں اور پہاڑوں کا عکس صاف نظر آرہا تھا۔
دانیال نے آگے بڑھ کر عاشر کو زور سے گلے لگایا تو وہ چونکا۔
"تھینک یوں سو مچ عاشر۔۔۔۔ تھینک یو سو مچ فور ایوری تھنگ"۔
عاشر اور انس دونوں چونکے تھے لیکن پھر مسکرا دیے۔
"میرے لیے یہ ایک اونر (honour) ہے تم دونوں میرے دوست ہو۔
‏Thank You both of you for being in my life" ۔ وہ جذباتی ہورہا تھا۔
"کم آن ڈینی! یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم خوش ہو اور ہمارے ساتھ ہو یہی ہمارے لیے بہت ہے"۔ عاشر الگ ہو کر بولا۔
"میں بہت خوش ہوں۔ اتنا خوش میں زندگی میں کبھی نہیں ہوا"
"بس بس سیف الملوک کی پریاں کہے گیں کہ ہم اپنا ہی ڈرامہ لے بیٹھے ہیں" عاشر اپنی ہی بات پر ہنسنے لگا۔وہ دونوں بھی ہنس دیے۔
وہ آگے چل دیے۔ لوگ جھیل کے دوسرے کونے تک ٹہلتے ہوئے جارہے تھے۔ لیکن وہ ایک ہی طرف سے مزے لے رہے تھے۔
انس نے کیمرہ نکالا اور سیف الملوک کی ڈھیر ساری تصاویر کھینچ لی۔
پھر عاشر اور دانیال کی۔ کبھی وہ کھڑے ہوتے کبھی ایک طرف پڑے بڑے سے پتھ پر بیٹھ جاتے۔
"ایکسکیوز می!" انس نے پاس سے گزرتے ایک لڑکے سے بولا۔
"جی؟" وہ فوراً رکا۔
"آپ ہماری کچھ پکچرز کھینچ دیں گے پلیز"۔
"اوہ شیور" اس نے کیمرہ پکڑ لیا۔ وہ تینوں ساتھ کھڑے ہوگئے اور دو منٹ میں کئی تصاویر لے لیں۔
"اب تھوڑا پوز چینج کرلیں۔ تھوڑا ہنسی مذاق"۔ لڑکا کیمرہ آنکھ سے ہٹا کر بولا۔
اس کی بات وہ تینوں ہنسے اور ایسے ہی ہنستے مسکراتے کئی اور تصاویر لیں۔ دانیال بیچ میں کھڑا تھا اور آخری تصویر میں عاشر اور انس نے ہنستے ہوئے اسکا ایک ایک کان پکڑ لیا اور ۔۔۔کلک۔۔۔ تصویریں قید ہوگئی۔
"یہ لیں۔ بہت اچھی آئیں ہے"۔ اسنے کیمرہ انس کو پکڑایا۔
"بہت شکریہ آپ کا"۔
"ارے شکریہ کس بات کا اب آپ بھی ہماری چند پکس کھینچ دیں" اسنے پیچھے اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا اسی شغل میں مصروف تھا۔
"ارے کیوں نہیں"۔ وہ تینوں ہی اس کے ساتھ چل پڑے۔ انس نے ان کی پکچرز لینے مین دس منٹ لگا دیے۔ وہ اتنے پوز چینج کر رہے تھے کہ دانیال اور عاشر بمشکل ہنسی روکے کھڑے تھے۔ وہ آپس میں کزن تھے اور اس لڑکے نے اپنا نام علی بتایا تھا۔ وہ کچھ دیر علی کے اسرار پر ان کے پاس رک کر 'گپیں' لگا کر پلٹ گئے۔
"اوئے گھوڑے پر بیٹھیں؟" انس نے سامنے گھوڑے کو دیکھتے ہی پوچھا۔
"نا بابا نا! اگر میں گر گیا تو سیدھا سیف الملوک میں جاؤں گا" دانیال ہاتھ اٹھا کر بولا۔ لیکن عاشر اور انس نے ہنسی میں بات اڑانے کی بجائے زبردستی اپنے ساتھ اٹھے بھی بٹھایا۔ تینوں ایک ہی گھوڑے پر بیٹھ گئے تو گھوڑے کے مالک نے لگام پکڑی اور انہیں سیف الملوک کا ایک طواف کروایا۔
"ایک اور ایڈونچر ہوگیا" انس اترے ہی بولا۔
سامنے ایک آدمی کچھ لگائے کھڑا تھا تو وہ اس کی طرف آگئے۔
"بھائی صاحب یہ کیا ہی؟" انس نے تھرمس کی طرف اشارہ کیا۔
"پشاوری چائے۔ دوں جی؟"۔ اسنے فوراً کپ پکڑے۔
انس نے سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھا ۔
"اوکے"
"چلیں تین دے دیں"۔
چائے؟ ارے نہیں یہ تو قہوہ سا تھا۔ لیکن گرم اور خوش ڈائقہ۔
اس ٹھنڈی جگہ میں یہ قہوہ دل کو بھایا تھا۔
کچھ دیر وہاں رک کر 'موج مستی' کرکے وہ جیپ کی طرف آگئے۔

"یار میں سوچ رہا ہوں پیدل ہی چل پڑوں کبھی نا کبھی نیچے پہنچ ہی جاؤں گا"۔ انس کو واپس اسی راستے سے جانے کا خیال ہی ڈرا گیا تھا۔
"آرام سے بیٹھو۔ جیسے آگئے ہیں ویسے اتر بھی جائینگے"۔ عاشر نے تسلی دی۔
امجدبھائی نے ایک اور آدمی کو وہاں سے نیچے تک کی لفٹ دی۔ وہ آدمی یہاں 'سیف الملوک' کی کہانی لوگوں کو سناتا تھا۔
وہ نیچے پہنچنے تک بدر جمیلہ، دیو اور سیف صاحب کی کوئی کہانی سنارہے تھے۔ لیکن وہ تینوں پیچھے کان اور آنکھیں بند کرکے بیٹھے تھے۔ اس لیے کہانی پر توجہ ہی نہیں دی۔
عاشر نے صحیح کہا تھا جیسے آئے تھے ویسے نیچے بھی پہنچ جائیں گے۔ اور وہ پہنچ گئے تھے ۔
اردگرد وہی خوبصورت مناظر کی فمل چل رہی تھی۔ اب وہ سکون کا سانس لے کر 'مناظر' سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
چونکہ وہ تینوں پیچھے بیٹھے تھے اس لیے جہاں کوئی 'انسان' نظر آتا ، وہ جیپ میں بیٹھے بیٹھے ہی چھیڑچھاڑ کرلیتے۔ یا محض تعریف کرتے اور جیپ کے آگے گزرتے ہے ہنسنے لگتے۔
"چاچا جی! آپ کی ٹوپی بہت اچھی ہے"
"ارے لڑکے! لالی پاپ کھاؤگے؟"
"بہت خراب تصویر آرہی ہے"
اور جواب ملنے سے پہلے ہی جیپ وہاں سے گزر چکی ہوتی۔ یہ 'لوفر' حرکتوں کا خیال انہیں تب آیا جب وہ خود اسکا شکار بنے تھے۔
ایک دو گھنٹے بعد جیپ انکے ہوٹل کے آگے آرکی تھی۔ آج کا تفریحی سفر اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ جن جگہوں پر جانے کا عاشر نے سوچا تھا وہ تمام مقامات وہ دیکھ چکے تھے۔
-----
---

واپس آکر کھانا کھا کر وہ کمرے میں آئے بستر پر گرے اور سوگئے۔
کل انہیں یہاں سے نکلنا تھا۔ یہ آخری نیند تھی انکی یہاں۔۔
----

روشنی کھڑکی سے اندر آکر سیدھا اسکے منہ پر پڑ رہی تھی۔ وہ کبھی ہاتھ رکھتا آنکھوں پر تو کبھی کمبل۔ بلآخر اسنے آنکھیں کھول ہی دیں اور اٹھ بیٹھا۔
انس کمبل منہ تک لیے سو رہا تھا اور دانیال۔۔۔ دانیال بستر پر نہیں تھا۔۔
اسنے کمرے میں لگی گھڑی کی طرف دیکھا۔ وہ صبح کے سات بجا رہی تھی۔
وہ فورا اٹھا اور باتھروم کی طرف بڑھا ۔ دروازہ بند تھا۔
وہ مطمئین ہوکر واپس بستر پر آبیٹھا۔ کمبل میں گھس کر اسنے فون اٹھایا۔
دانیال کا میسج؟۔۔۔ اس نے میسج کھولا۔
"عاشر میری آنکھ جلدی کھل گئی تو میں یونہی باہر گھومنے نکل آیا۔ ڈونٹ وری جلدی آجاؤں گا" پندرہ منٹ پہلے کا میسج تھا۔
واٹ؟ وہ فورا اٹھا اور جاکر باتھروم کا دروازہ کھولا۔ وہ خالی تھا۔
اس افراتفری پر انس کی آنکھ بھی کھل گئی۔
"کیا ہوا؟" اس نے منہ کمبل سے نکال پر پوچھا۔
"ڈینی نہیں ہے۔"
"واٹ؟ کہاں گیا؟" وہ اٹھ بیٹھا۔
"اس کا میسج آیا ہے کہ باہر گھومنے گیا ہے"۔ عاشر کافی فکرمند نظر آرہا تھا۔
"اچھا۔ ڈونٹ وری اسکا دل کر رہا ہوگا تو چلا گیا ہوگا۔بچہ نہیں ہے وہ" انس اسکی فکر دور کر رہا تھا۔
"ہوں!" وہ فریش ہونے چلا گیا۔ انس بھی جاگ ہی گیا تھا۔ عاشر کے نکلنے کے بعد وہ فریش ہونے چلا گیا۔
"عاشر ڈونٹ وری اسکو تھوڑا دو۔ اسے اپنی طریقے سے دیکھنے دو یہ جگہ"۔
"اوکے۔ ڈینی آجائے پھر ناشتہ ساتھ ہی کرلینگے"۔
"ٹھیک ہے" انس نے اپنا کیمرہ بیگ اٹھایا۔
"اچھا مجھے ایک کام ہے ۔ تب تک ڈینی بھی آجائے گا۔ میں آتا ہوں"
"اچھا" عاشر اس کام سے باخبر تھا۔ اسنے سر ہلایا تو انس باہر نکل گیا۔
اسکے جانے کے بعد عاشر نے اپنی جیکٹ پہنی اور کمرے سے باہر نکل آیا۔
اسکا ارادہ دانیال کو ڈھونڈنے کا تھا۔ وہ اس کے لیے متفکر تھا۔
دس پندرہ منٹ چلنے کے بعد ہی اسے وہ نظر آگیا۔

-----
اس کی آنکھ ایک دم ہی کھل گئی۔ یہ جگہ ہی ایسی تھی کہ بستر پر لیٹوں تو نیند آجائے اور اٹھوں تو نیند بھاگ جاتی ہے۔ بہرحال اسکے ساتھ تو کچھ ایسا ہی حال تھا۔
اسنے لیٹے لیٹے ہی انکی طرف دیکھا۔ دونوں سو رہے تھے۔
دانیال نے اپنا فون اٹھا کر ٹائم دیکھا۔ صبح جے چھ بج رہے تھے۔ آج انہیں یہاں سے نکلنا تھا۔ اور یہ آخری کچھ وقت وہ یونہی بیٹھ کر ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسکا دل چاہا کہ وہ اکیلا اس وادی میں نکل جائے۔ اور اسنے دل کہ ہی سنی۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا باتھروم کی طرف بڑھا۔ فریش ہوکر باہر نکلا۔ اپنی سیاہ ہوڈ پہنی اور سر پر اسکی ہوڈ لی۔
فون اٹھا کر جیب میں ڈالا اور آہستہ آہستہ بغیر کوئی شور مچائے کمرے سے نکل گیا۔
صبح کی روشنی اور تازگی نے وادی کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ اسنے گہری سانس کھینچتے ہوئے تازہ ہوا اندر کھینچی۔
ہونہی چلتا چلتا وہ بازار سے نکل آیا۔ کچھ دور کنہار اسی جوش اور ولولے سے بہہ رہا تھا۔ وہ چلتا ہوا اس تک آیا اور وہی پڑے کسی بڑے پتھر پر بیٹھ گیا۔
وہ ایک دم ہی پرانا 'ریوڈ rude دانیال' بن چکا تھا۔ اسکے چہرے پر سنجیدگی پھیل چکی تھی۔
اسکا دھیان گھر کی طرف گیا۔ ماما اور ڈیڈ کی طرف۔۔۔
ان سے ہوتے ہوئے اسکا دھیان اپنے بچپن کی طرف چلا گیا۔ جب بھی وہ اکیلا ہوتا ان لمحوں کو یاد کرتا جو اسنے اکیلے گزارے تھے۔ اور انہیں یاد کرتے ہی اسے 'تنہائی اور اداسی' اسکے ساتھی اسے آگھیرتے۔
اور جب بھی وہ خود کو اداس ہونے سے روکتا ، ان یادوں کو جھٹکتا تو سنجیدہ ہوجاتا۔ اب بھی سنجیدہ ہی ہوگیا تھا۔ اور یہی سنجیدگی اسکے رویے کو ریوڈ بناتی تھی۔
کتنے ہی لمحے وہ بیٹھ کر اپنے ماضی ہر سنجیدگی سے سوچتا رہا۔ اسکی زندگی بس گزر رہی تھی۔ جیسے ایک روبوٹ کی زندگی ہو۔ اپنائیت اور خوشی اس سے کوسوں دور تھی۔ جو اسے اسکے والدین سے ہی نہیں ملی تھی۔
اسکے سامنے سے کوئی گزرا تو اسکا دھیان ہٹا۔ وہ اپنی سوچوں سے نکلا۔
اسے یاد آیا وہ کسی کو بتائے بغیر یہاں آیا ہے اور پیچھے وہ اٹھ گئے تو پریشان ہونگے۔ اسنے فون نکالا اور عاشر کو میسج کردیا۔
اب دوبارہ اسکا چہرہ سنجیدگی لیے ہوئے تھا۔ وہ دوبارہ اپنے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اپنے ماں باپ کے بارے میں۔۔۔ اپنی زندگی کے بارے میں۔
کیا اسکی ساری زندگی یونہی گزر جائےگی؟ بغیر کسی رونق کے؟ بغیر کسی اپنائیت اور پیار کے؟ بغیر والدین کے اس پیار بھری باتوں کے؟
ہر قسم کی منفی سوچ اس کے دماغ میں گھر کر رہی تھی۔ وہ پرسکون ہونا چاہتا۔ گزشتہ دو دنوں کی طرح۔
اسنے آنکھیں بند کرلیں۔ ٹھنڈی ہوا اسکو شھو کر گزر رہی تھی۔ کانوں میں بس کنہار کے بہتے اور پتھروں سے ٹکرا کر آگے گزرتے پانی کی آواز آرہی تھی۔
"میں نے کہا تھا نا جتنی اچھی طرح ہم خود اپنے آپ کو سمجھا سکتے ہیں اتنا اچھا کوئی نہیں کرسکتا"۔ آواز بےحد قریب سے آئی تھی۔ لیکن اسنے آنکھیں نہیں کھولیں۔ اسے لگا وہ آنکھیں کھولیں گا تو بےسکون ہوجائےگا۔
"خود کو خوش اور ناخوش رکھنے کا اختیار بھی ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے" ۔ شاید عاشر پاس ہی پڑے پتھر پر بیٹھا تھا اسی لیے اسکی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
"ڈینی جو گزر چکا ہو اسکو سوچ کر اور اس پر اداس ہو کر ہم آج کے خوشگوار ہونے کے لمحے بھی ہاتھ سے گوا دیتے ہیں"۔

"وقت تو بہتے ہوئے دریا کی مانند ہے۔ جس کا پانی آگے ہی آگے بہتا ہے۔اس کی لہریں کبھی پیچھے نہیں آتیں۔ اور ہر آنے والی لمحےکیا کچھ نیا ہوجائے کوئی نہیں جانتا"۔
کنہار کو پانی کسے پتھر سے ٹکرایا تھا اور اسکا شور اسکے کانوں تک آیا تھا۔
"جو ہوگیا سو ہوگیا ۔ اب تم ان لمحوب کو یاد کرکے آگے کی لائف کیوں آکورڈ بنا رہے ہو۔ کب تک ہونہی گزارو گے زندگی۔ خود کو سمجھا کر ہی ہم سچویشن کا سامنا کر سکتے ہیں۔ اپنی سوچ سے ہی تبدیلی لا سکتے ہیں۔" وہ سانس لینے کو رکا۔
"اگر 'انہوں' نے تمہاری طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا تو کیا تم نے کبھی ان کی طرف کوئی قدم اٹھایا؟ کبھی ان سے اچھے سے بات کی؟ اب سمجھا لو خود کو۔ بدل لو زندگی۔ پرسکون کرلو خود کو۔ سمجھا لو خود کو، منا لو خود کو"۔ دانیال 'انہوں' سے سمجھ گیا تھا کہ وہ کس کی بات کر رہا ہے۔ اسکی سمجھ میں آگیا تھا۔
دانیال نے فورا آنکھیں کھولیں اور ادھر ادھر دیکھا۔ وہ نہیں تھا۔
اس نے مڑ کر دیکھا وہ اسے دور جاتا ہوا نظر آیا۔ دانیال نے اسے جانے دیا۔ اسنے روکنے کی کوشش نہیں کی۔
اسے ابھی خود کو سمجھانا تھا۔ اسے سکون دہ زندگی چاہئے تھی۔
وہ یہ بےرخی اور لیا دیا سا رویہ زندگی کا برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اسے لگا تھا اسنے گزرے دو دنوں میں 'زندگی جی لی' تھی۔
"ٹھیک کہہ رہا ہے عاشر اگر انہوں نے میری طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا تو میں نے کونسا بہت پیار سے بات کرلی۔۔۔۔۔
اوکے فائین بھول جاؤ دانیال جو ہوا سو ہوا۔
اب ایک نئی شروعات کرنی ہے۔
اپنی ذہن سے سب نکال دو دانیال سب کچھ۔
ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔
ایسے جیسے سب ہمیشہ سی پرفیکٹ ہو۔ ایسے جیسے ہم آپس میں بہت اتفاق سے رہتے ہو۔
ایسے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں میرے ساتھ۔۔ ایسے جیسے ماضی تھا ہی نہیں لائف میں۔۔۔
اچھا اچھا امیجن کرنے میں کیا حرج ہے"۔ وہ خود سے باتیں کرتے کرتے کھڑا ہوگیا اور آگے پیچھے چلنے لگا۔
"ٹھیک ہے اب میں بہت اچھے سے بات کروں گا۔ ان کے لیے کچھ کروں گا۔ انہیں بھی خوش رکھوں گا۔ پیرنٹس ہیں وہ میرے۔۔
عاشر کہتا ہے ہر چیز کو پہلے پوزیٹیو ہوکر سوچو پھر نیگیٹیو ہوکر اور پھر کوئی فیصلہ کرو۔۔
ہوں! تو میں ایک قدم اٹھاؤں گا انکی طرف اگر نتیجہ مثبت نکلا تو بہت اچھا ہوجائےگا۔ لائف ہیپی ہیپی ہوجائے فی اور اگر منفی نکلا تو۔۔۔ تو وہی سنجیدہ دانیال۔۔۔
اف یہ تو گھاٹا ہوجائےگا۔۔ " اسے یہ سنجیدہ رویہ ناگوار گزرا تھا۔
"ہاں تو دانیال تم اب وہی کروگے جو تم نے سوچا ہے"
"اوکے؟اوکے" وہ مسکرایا۔ وہ فیصلہ کر چکا تھا۔ وہ خود کو منا چکا تھا۔
وہ کنہار کو دیکھ کر مسرایا۔ وہ اپنا ماضی اور ساری فضول سوچ اس میں بہا چکا تھا۔ وہ پرسکون محسوس کرہا تھا۔

------
"ہوگیا کام؟" انس ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا۔
"ہاں بہت مشکلوں سے۔" وہ دھڑام سے بستر پر گرا۔
"کوئی شاپ نہیں مل رہی تھی۔ لیکن خیر ہوگیا" انس نے مسکرا کر جیب سے یو ایس بی نکالی۔
"واہ۔ شاباش"
"ڈینی نہیں آیا؟"
"آنے والا ہوگا" عاشر نے کہا ہی تھا کہ دروازہ کھلا۔
"گڈمارننگ" وہ مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا اور سر سے ہوڈ اتاری۔
"گڈ مارننگ" انہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا۔
"کیسا رہا ایڈونچر؟" عاشر نے پوچھا۔
"بہت زبردست۔۔تتتت" وہ دیسھا عاشر کے گلے لگا۔ عاشر اسکے انداز پر ہنسا۔
"شکر ہے تم آگئے میرے تو پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں" انس نے بےپناہ معصومیت سے کہا۔
"اوپس چلو چلیں" بھوک تو اسے بھی شدید لگ رہی تھی۔
وہ تینوں اپنے آخری ناشتے کے لیے کمرے سے نکل گئے۔
------

پیٹ بھر کر لذیذ ترین ناشتہ کرکے وہ آخری واک کے لیے نکل پڑے۔ گھروں پر اطلاع دے چکے تھے کہ آج ہم نکلیں گے۔
بازار سے نکل کر وہ چلتے چلتے کنہار کے پاس آگئے۔ اور ساتھ چلتے چلتے باتیں کرتے 'اپنی پہاڑی' تک پہنچ گئے۔ کنہار کے پاس بیٹھ کر وہ کتنی دیر باتیں کرتے رہے۔ یہاں کی خوبصورتی کی اور یہاں اپنی تفریح کی۔
‏"I will miss this place so much" ناچاہتے ہوئے بھی انس اداس ہوگیا
"می ٹو" دانیال بھی۔
"می تھری" اور عاشر بھی۔
"ایسا لگ رہا پے اپنا دل و دماغ یہی چھوڑ کر جارہا ہوں"
"میں بھی"
"اور میں بھی"
"اب اداس نا ہو ہم اگلی چھٹیوں میں آئیں گے یہاں یا کہیں اور" عاشر نے تسلی دی۔
"سچ؟" دونوں ساتھ چہکے۔
"مچ۔ اور اسکے لیے علاوہ چھوٹی موٹی پکنکز بھی جو ہر مہینے ہم ساتھ پلین کریں گے" اسکی بات پر دونوں نے خوشی کا نعرہ لگایا۔
"یاہوووووو"
"ہم سردیوں میں آئیں یہاں؟" دانیال نے پوچھا۔
"ارے نہیں۔ سردیوں میں کے لوگ خود مائگریٹ کرکے دوسری علاقوں میں جاتے ہیں کیونکہ یہاں نظامِزندگی درہم برہم بلکہ جم جاتا ہے۔"
"اوہ"
"ویسے میرا اسلام آباد بھی بہت خوبصورت ہے۔ سب سے پہلے تم لوگ جو پلین بناؤ وہاں آنا بس۔ کیوں ڈینی؟"
"ارے جی ضرور" دانیال نے آنکھ دبائی۔ اسکے جی ضرور پر وہ دونوں ہنس پڑے۔
کئی پلین بنا کر ، ہنسی مذاق کرکے وہ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
"تمہیں سب سے اچھی جگہ کونسے لگی ڈینی؟" کمرے کے طرف جاتے ہوئے راستے میں عاشر نے پوچھا۔
وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا "ہر جگہ۔ ہر جگہ بہت خوبصورت اور بےانتہا اچھی ہے۔۔۔ لیکن میرے لیے سرِفہرست کنہار ہے" وہ کنہار کے بہتے پانی کو دیکھ کر مسکرایا۔
"آہاں! نائس۔۔ اور تمہاری انس؟"
"مون ریستوران"۔ اسنے ہنستے ہوئے کہا اور وہ دونوں بھی ہنس دیے۔
ان کے قہقہوں پر بادل، پہاڑ اور کنہار بھی مسکرادیے۔
------
اپنا سامان گاڑی میں رکھ کر وہ چابی ہوٹل والوں کو دے کر واپس آیا تو انس دانیال کو کچھ دے رہا تھا۔
"ڈینی! یہ میری طرف سے تمہارے لیے خوبصورت یادوں کا ایک چھوٹا سا تحفہ ۔ اسے قبول کرلو" انس نے مسکرا کر یو ایس بی دانیال کو دی۔
دانیال نے ناسمجھی سے دیکھا لیکن جب سمجھ آیا تو فوراً اسکے گلے لگا۔
"تھینکس یار۔ تم لوگوں نے مجھے میری زندگی کے بہترین دن دیے ہیں۔ تھینکس آلوٹ"۔
"ہم ہمیشہ حاضر ہیں۔۔۔اب بار بار تھینکس مت بولو اچھا؟" انس نے خفگی سے کہا۔
"ایک تو تم دونوں شکریہ بھی ادا نہیں ادا کرنے دیتے ڈھنگ سے"۔ وہ بھی ناراضگی سے بولا۔
"ہاں تو ٹھیک ہے نا۔ ہمیں نہیں چاہئے کوئی تھینکس وینکس۔ " اس دفعہ عاشر بولا تھا۔
"ہاں جی ضرور" وہ خفگی سے کہتا دروازہ کھول کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
جبکہ وہ دونوں 'جی ضرور' پر کھڑے ہنس رہے تھے۔



واپسی کا سفر بھی یونہی ہنسی مذاق میں کٹ گیا۔ کھڑکی سے باہر چلتا منظر آہستہ آہستہ خوبصورت مناظر سے ہوتا ہوا ہریالی اور ہریالی سے ہوتا ہوا عام شہری منظر ہوتا گیا۔
ان کا سفر واؤ واؤ سے شروع ہوا تھا ، پھر باہر کے مناظر کا ذکر ختم ہوگیا۔
وہ ایبٹ آباد رکے تھے اور اسکے بعد نتھیاگلی بھی رکے تھے۔ پھر انس کو اسلام آباد اتار کر وہ لاہور کی طرف چل پڑے۔
اب کھڑکی سے باہر نظر پڑتی تو گاڑیاں ٹرک اور شہر کی افراتفری ہی نظر آتی۔
وہ آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والے منظر بہت پیچھے رہ گئے تھے۔
اور دل؟ وہ تو وہیں اس خوبصورت جنت میں رہ گیا تھا۔ دنیا میں اتنی خوبصورت جگہ ہے تو جانے جنت کتنے گنا زیادہ حسین ہوگی۔ اس کو دیکھ کر ان آنکھوں اور اس دل کا کیا حال ہوگا۔
خدا کی قدرت دیکھ کر ان کے دلوں کو سکون ملا تھا۔ جو اس سے دور جا کر بےچین ہورہا تھا۔
لیکن وہ اتنے خوبصورت 'ایڈونچر' پر بےحد خوش تھے۔ خاص طور پر دانیال۔۔۔ وہ تو کوئی نیا دانیال لگ رہا تھا۔ چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت۔۔۔ ہر لمحے کو جینے کا جذبہ۔۔ سب کچھ بھول کر زندگی کو خوشگوار بنانا اور دوسروں کی زندگی میں دھنگ کے رنگ بھرنا۔۔۔
عاشر ڈرائیو کرتے ہوئے اسکی باتوں پر ہنس رہا تھا۔ اسے یقین ہوگیا تھا کہ دانیال خود کو سمجھا چکا ہے۔ اس کا ٹرپ کامیاب رہا ہے۔
دوست تو ہر کسی کی زندگی میں بہت ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ بہت خاص ہوتے ہیں۔ وہ دل کو خاص لگتے ہیں اور ان کے لیے کچھ خاص کیا جاتا ہے۔
عاشر کے بہت دوست تھے لیکن دانیال خاص تھا۔۔۔ دل کو خاص لگتا تھا۔ اسکی طرف دوستی کا ہاتھ اس نے خود بڑھایا تھا تو پیچھے کیسے ہٹ جاتا؟
انس ان سے وعدہ لے کر گیا تھا کہ "تم دونوں میرے عزیز و عزیز دوست ہو۔ اگلا ٹرپ فائنل کرو اور اسلام آباد پہنچو۔ ڈاکٹر انس تمہیں اسلام آباد کی سیر کروائینگے"۔ اس کی بات پر وہ دونوں ہنسے تھے اور وعدہ کیا تھا کہ اسلام آباد ضرور آئینگے چاہے ایک دن کے لیے ہی سہی۔

-–--
لاہور اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ سٹریٹ لائٹ نے شہر کو روشن کیا ہوا تھا۔ رات کے اس پہر رش قدرے کم تھا۔
گاڑی دانیال کی گھر کے آگے رکی۔
"چلو تم بھی آؤ اندر"۔
"نہیں یار پھر کسی دن۔ امی انتظار کر رہی ہونگی۔ دو بجنے والے ہیں"۔ اسنے گھڑی دیکھ کر کہا۔
"لیکن۔۔۔ اچھا پھر ضرور آنا کسی دن اوکے۔ "۔ دانیال نے اسکی بات سمجھ کر کہا۔

"جی ضرور! میں فون کروں گا۔ ویسے بھی ایک ہی شہر میں ہیں ملتے رہینگے۔ اور بزنس کے معاملے میں بھی ہوجایا کرےگی ملاقات"۔ عاشر نے اسی کے انداز میں کہا تو وہ مسکرایا۔
"فکر مت کرو میں روز تمہارا سر کھایا کروں گا۔"
"چھوڑنے والا میں بھی نہیں ہوں ڈینی"۔ وہ ہنستے ہوئے گاڑی سے اترا اور اسکا بیگ نکال کر پکڑایا۔
"اللہ حافظ"۔ دانیال نے بیگ پکڑا اور دروازہ بجایا۔ چوکیدار تو جاگ رہا ہوگا۔ ماما ڈیڈ تو سو چکے ہونگے۔
عاشر "اللہ حافظ" کہہ کر دروازہ کھول کر بھیٹنے ہی والا تھا کہ دانیال نے اسے پکارا۔
"ہاں؟"۔ وہ کھڑے کھڑے ہی بولا۔
"دل سے تھینک یوں۔ اور ایک لفظ بھی مت بولنا۔ جاؤ اور دھیان سے جانا اور اچھے سے ریسٹ کرنا"۔
اس کی بات پر عاشر مسکرایا اور خاموشی سے اندر بیٹھ گیا۔ دروازہ کھلا تو اسنے گاڑی آگے بڑھا دی۔
"صاحب جی"۔ چوکیدار نے اس کا بیگ تھاما۔
اس نے اندر قدم رکھا اور مسکرایا۔ وہ تین دن بعد لوٹا تھا۔
"اسلام علیکم کیسے ہو؟ نیند تو نہیں خراب کی میں نے آپ کی؟" اس کی بات پر چوکیدار ہکا بکا کھڑا رہا۔ یہ اسکے چھوٹے صاحب جی اس سے مسکرا کر کوئی بات کر رہے ہیں؟۔
"نہیں جی۔ آ۔۔۔آپ آجائیں اندر"۔ وہ بمشکل بول پایا تھا۔
وہ مسکرا کر سر جھٹکتا اندر آیا۔
اسکا ارادہ اپنے کمرے میں جانے کا تھا۔ وہ کل اپنا پہلا قدم بڑھانا چاہتا تھا۔
لیکن لاؤنج سے گزرتے ہوئے اس کے پاؤں بے اختیار تھم گئے۔ اس کے سامنے اسکی ماما کھڑی تھی۔ بے حد خوشی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے وہ اس کی طرف آئیں۔
"دانیال؟ آگئے تم؟ خیریت سے پہنچ گئے؟ ٹھیک ہو؟"۔ انہوں نے اسکے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک ساتھ کئی سوال کر دیے۔
وہ مسکرایا۔ "میں بالکل ٹھیک ہوں اور آپ کے سامنے ہوں"۔ اس کی نظر صوفے پر پڑی۔
ڈیڈ؟ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ دونوں سو چکے ہونگے۔ اتنی رات ہو چکی تھی۔ لیکن وہ دونوں جاگ رہے تھے۔ کیوں؟ کیا اس کے لیے۔۔۔۔
"ارے اس کو بیٹھنے تو دو۔ آؤ بیٹا بیٹھو"۔ وہ آگے بڑھے اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھایا۔
وہ حیران سا انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ خود ان کی طرف قدم بڑھانا چاہتا لیکن وہ دونوں خود کی طرف بڑھ رہے تھے؟ اس کا دل بلیوں کی طرح اچھلا تھا۔

"کیسا رہا ٹرپ؟" وہ اسکی طرف دیکھ کر پوچھ رہے تھے۔
اس سے پہلے کے وہ جواب دیتا اس کی ماما بول اٹھی۔
"کھانا لگاؤں؟ جب تم نے بتایا تم آرہے ہو تو میں نے اندازہ لگایا رات تک آؤ گے۔ جانے کھانا کھایا ہو یا نا۔ اس لیے میں آسیہ سے کہہ کر تمہاری پسند کا کھانا بنوایا"۔
انہوں نے کام والی کا نام لیا۔
اسکا دل تو نہیں تھا کھانے کا لیکن ان کے اتنے پیار سے پوچھنے پر سر اثبات میں ہلا دیا۔
پھر وہ ڈیڈ کو اپنے ٹرپ کا بتانے لگا۔ وہ کچھ جھجکا تھا لیکن پھر خود کو سمجھایا اور مسکراہٹ کے ساتھ انہیں مزے لےلے کر اپنے 'ایڈونچر' کا بتایا۔
وہ کھانا یہی لے آئی تھیں۔ واپس آئیں تو وہ لیپٹاپ میں یو ایس بی لگارہا تھا۔
پھر سلائڈشو میں ساری تصویریں چلنے لگی۔
وہ کھانا کھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ انہیں ہر جگہ اور وہاں انہوں نے کیا کیا کِیا سکے بارے میں بتاتا۔
اسکی آنکھوں میں چمک واضح تھی۔ اس کے لبوں سے مسکراہٹ ہٹ نہیں رہی تھی۔
وہ دونوں پوری توجہ سے اسے سن رہے تھے۔
ان کے 'کارناموں' پر وہ دونوں ہنستے۔ اور ان کی ہنسی پر وہ کھو جاتا۔ دل کو اچھا لگتا۔ پھر دوبارہ انہیں بتانے لگتا۔
ان کے پوز پر وہ دونوں مسکراتے اور جب وہ انہیں انس کی باتیں بتاتا تو انکا قہقہہ بےساختہ ہوتا۔
وہ دیکھ رہے تھے کے ان کا بیٹا کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا ہے۔
"بیٹا باقی کہانیاں صبح سنا لینا۔ اب آرام کرلو" ۔ اسکی ماما نے برتن سمیٹتے ہوئے کہا۔
اسنے وقت دیکھا۔ تین بج رہے تھے۔
"اوہ سوری۔ آپ دونوں کا جگائے رکھا۔ آپ لوگ سوجائیں باقی کل سہی"۔ اس نے یوایس بی نکالی اور لیپ ٹاپ بند کیا۔
"نہیں۔ ڈونٹ بی سوری۔ یہ جاگنا بہت اچھا تھا"۔ اسکے ڈیڈ نے اسکا کندھا تھپکا اور کھڑے ہوگئے۔ وہ حیران سا منہ کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ کمرے میں جا رہے تھے۔
"چلا دانیال جاکر سوجاؤ۔ ٹھیک سے آرام کرنا"۔ ماما کے کہنے پر وہ مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔ وہ بھی اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔

اپنے کمرے میں آکر اسے اپنے پن کا احساس ہوا۔ بندہ کہیں بھی چلا جائے اپنے کمرے میں واپس آکر الگ ہی سکون ملتا ہے۔
وہ چینج کرکے بستر پر آیا۔ اسے ناران کا بستر یاد آیا۔
ابھی کچھ دیر پہلے جو ہوا وہ اس پر مسکرایا۔ وہ سوچ رہا تھا سب بہت مشکل ہوگا لیکن اس کے قدم اٹھانے سے پہلے ہی وہ دونوں اس کی طرف بڑھے تھے۔
یہ سب اچھا لگا تھا۔ اب اسے یہ سب برقرار رکھنا تھا۔
اس کے ڈیڈ اور ماما اس طرح کتنے اچھے لگے تھے۔
انہیں سوچوں میں وہ جانے کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا۔ اسے لگ رہا تھا وہ اب بھی حالتِ سفر میں ہے۔ اور ہر طرف پہاڑ نظر آرہے ہیں۔

-----

اس کی آنکھ کھلی تو نظر سیدھا سائڈ ٹیبل پر پڑے کلاک پر پڑی۔ دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔
او گاڈ! وہ اتنی دیر سوتا رہا؟ ڈیڈ اکیلے آفس جاچکے ہونگے۔
وہ اپنے کمرے میں تھا۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ اٹھتا تھا تو کمبل سے باہر نکل کر سردی اپنی لپیٹ میں لے لیتی تھی۔ کمرا اےسی چلنے کی وجہ سے ٹھنڈا تھا ورنہ لاہور کی گرمی ۔۔الامان!
نہا کر کپڑے بدل کر وہ بال سنوارنے لگا۔ اسے یاد آیا وہ ناران میں ایک دفعہ نہائے تھے بس۔۔ پانی اتنا ٹھنڈا ہوتا تھا کہ نہانا تو دور کی بات ہاتھ منہ دھونا ہی بڑی بات ہوتی۔
اس بات کو یاد کرکے مسکراتے ہوئے وہ کمرے سے باہر نکلا۔

ماما لاؤنج میں بیٹھی آسیہ کو کسی کام کی ہدایت دے رہی تھیں۔ اسے دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"اٹھ گئے بیٹا؟ نیند ٹھیک سے آئی؟"۔
"جی تبھی تو اتنی دیر سوتا رہا ہوں"۔ وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔
"اچھا ہے نا۔ کھانالگواؤں؟"
"جی لگوادیں"۔ اسے تھوڑی بہت بھوک لگ رہی تھی۔
وہ کچن میں چلی گئیں تو وہ بھی وہی آگیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
پچھلے دو دنوں سے وہ ناشتے میں پراٹھا کھا رہے تھے۔ یہاں عموماً وہ ناشتہ نہیں کرتا تھا اور کرتا تو بریڈ وغیرہ یا کوئی جوس یا شیک۔

"ماما"۔ وہ انہیں پکار اٹھا۔
"جی بیٹے؟"۔ وہ خود کھانا نکال رہی تھی۔ آسیہ دوسرے کام میں مصروف تھی۔
"آپ کو پراٹھا بنانا آتا ہے؟"۔ پچھلے کچھ عرصے سے کھانا آسیہ ہی بناتی تھی اس لیے اس نے پوچھ لیا۔
"ہاں آتا ہے۔ کھانا ہے؟"۔ وہ پوری اسکی طرف پلٹیں۔
"جی بہت دل کر رہا ہے پلیز بنادیں۔ آپ کے ہاتھوں کا بنا کھانا ہے"۔
"بس پانچ منٹ رکو ابھی بناتی ہوں"۔ ان کے چہرے پر خوشی صاف صاف نظر آرہی تھی۔ ان کے بیٹے نے فرمائش کی ہے۔۔وہ کیسے رد کرتیں۔
وہ مسکراتا ہوا انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ ہاتھ دھو کر آٹا نکال رہی تھیں۔ اب اس کا پیڑا بنا کر بیل رہی تھیں۔
"ماما"
"ہوں!" وہ روٹی توے لر ڈال رہی تھیں۔
"کیا خوش رہنا اتنا آسان ہوتا ہے؟"
وہ نجانے کیا سوچ کر کہہ رہا تھا لیکن انہوں نے پلٹ کر اسے ایک نظر دیکھا تھا۔ وہ انہیں کو دیکھ رہا تھا۔
"ہاں بھی اور نہیں بھی۔ بس خود کو سمجھانا پڑتا ہے، دوسروں کی جو بات ہمیں نہیں پسند وہ اگنور کرنی ہوتی ہے۔ اگر دوسروں کا رویہ برا ہے تو اسکی فکر کرنے کی بجائے اپنے رویے کو اچھا کرکے انہیں بھی خوش کرنا چاہئے"۔ وہ پراٹھا پلٹتے ہوئے بولیں۔

وہ انہیں ہی دیکھ رہا تھا لیکن ان کی بات پر چونکا۔ یعنی اب اسے وہ چیزیں اگنور کرنی ہے جو اسے نہیں پسند۔۔ اس پر برا ری ایکٹ کرنے کی بجائے ، اچھا رویہ رکھنا ہے۔۔۔
ہوں! مشکل ہے بھی اور نہیں بھی۔۔۔۔
لیکن وہ ٹھان چکا ہے پیچھے کیسے ہٹے گا۔

"ساتھ کیا لوگے؟" وہ سوچوں سے نکلا۔
"آملیٹ"۔
"اچھا" وہ فریج سے انڈے نکال کر آمیلٹ بنانے لگیں۔

"یہ لو" انہوں نے ناشتہ ارف دوپہر کا کھانا اس کے سامنے رکھا۔
"تھینک یو سو مچ ماما"۔ اسنے مسکرا کر نوالا توڑا۔
"یمی ماما۔ بہت مزے کا ہے۔ کافی ذائقہ ہے آپ کے ہاتھ میں." اس نے آنکھ دبائی۔
وہ ہنس پڑیں۔
"آپ بھی کھائیں" اس نے ایک نوالا توڑا ، آملیٹ لگایا اور ہاتھ ان کی طرف بڑھایا۔
انہوں نے منہ کھولا تو اسنے مسکرا کر ان کے منہ میں نوالا ڈالا۔
کتنا اچھا لگ رہا تھا نا؟ جیسے سب ہمیشہ سے پرفیکٹ ہی ہو۔

ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی اتر رہی تھی۔
"دانیال ہمیشہ ایسے ہی خوش رہا کرو"۔ ان کی بات پر وہ مسکرایا اور انکی طرف دیکھا۔
ان کی پلکیں گیلی ہو رہی تھیں۔
اس کو خوش دیکھ کر وہ خوش ہو رہی تھیں۔ واہ!
" اور آپ بھی خوش رہا کریں اور مجھے پیار کیا کریں"۔ ان کی آنکھوں کا گیلا پن اسے اپنی آنکھوں میں محسوس ہورہا تھا۔
انہوں نے ہنستے ہوئے اپنی آنکھیں پونچھی تو وہ بھی ہنس دیا۔
------


آج وہ چار دنوں بعد آفس آیا تھا۔
حسبِ معمول اسے دیکھ کر سب سیدھے اور خاموش ہوکر بیٹھ گئے اور اپنے کام میں مگن ہوگئے۔
اپنے آفس میں بیٹھ کر وہ فائلز دیکھنے لگا۔
ہوں! ڈیڈ نے سارا کام سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ ہلکی سی بھی اونچ نیچ نہیں ہوئی تھی۔
وہ آج نارمل انداز میں آفس نہیں آیا تھا بلکہ خوش باش نظر آہا تھا۔ نارمل ہوتا تو سنجیدگی سے کام کرتا۔۔۔
لیکن وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ہر کام خوشی سے کر کے کیسا لگتا ہے۔

‏"?Sir may i come in"۔ دروازے پر کھٹکا ہوا اور کامران کا چہرہ نظر آیا۔
‏"Yes yes come in Kamran"۔ وہ پہلے حیران ہوا پھر اندر قدم رکھا۔

‏("?Sir may i come in"۔ وہ ہر فائل پر سائین کروانے کے لیے جب بھی آتا دروازہ ناک کرتا۔
"ہوں!" اس کی مصروف سی آواز کمرے میں گونجتی۔)

"وہ سر یہ فائل دیکھ لیں تیار ہے پوری بس آپ کے دستخط چاہئے"۔ وہ اس کی ٹیبل کے سامنے آکھڑا ہوا اور ہاتھ بڑھا کر فائل اسکے آگے رکھی۔
"اچھا۔ بیٹھ جاؤ میں دیکھتا ہوں"۔ دانیال نے فائل اٹھالی۔
"ج۔۔جی؟" وہ حیران ہوا۔
"بیٹھ جاؤ کامران میں دیکھ رہا ہوں فائل تب تک"۔ اب کی بار وہ مسکرا کر بولا۔
وہ حیران پریشان سا کرسی پر ٹک گیا۔ اور انہی حیران نظروں سے اسکی طرف دیکھنے لگا۔
وہ فائل دیکھ رہا تھا۔

("سر یہ فائل دیکھ لیں۔ آپ کے سائن چاہئے"۔
اور وہ خاموش سی نظر اس پر ڈالتا اور فائل دیکھ کر سائن کردیتا۔ کامران فائل پکڑ کے باہر آجاتا۔ بس یہ چند لمحوں کی خاموش سی ملاقات ہوتی تھی ان کے درمیان۔ وہ اس سے ایک دو سال چھوٹا تھا)

اور آج وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا۔
"کامران"۔
"ج۔۔جی؟" وہ ہکلایا۔ کہیں کوئی غلطی تو نہیں نکل آئی؟
"تم اچھا کام کرتے ہو۔ یہ لو"۔ دانیال نے مسکرا فائل پکڑائی تو وہ اپنی تعریف پر مسکرادیا۔ پہلی دفعہ تعریف سن کے کیسا لگتا ہے وہ اس کی شکل بتارہی تھی۔
"تھینک یو سر"۔ اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر دانیال بھی بےاختیار مسکرا دیا۔



اور خوشگوار زندگی گزارنے کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ ہر وقت بتیسی کی نمائش لگی رہے یا 'لپ گلاس' کا اشتہار سینے کے لیے چوپیس گھنٹے مسکراتے رہو۔
نہیں نا! کبھ کبار خاموش رہنا اور سنجیدہ سی شکل بنالینے میں ہی سکون سا ملتا ہے۔ کیونکہ دل چاہتا ہے کہ کچھ ایسے بھی رہ لیا جائے۔
ایسے ہی سکون میں وہ ڈرائیو کر رہا تھا۔ آج ڈیڈ آفس نہیں آئے تھے۔ اسے کئی میٹنگز اٹینڈ کرنی پڑی تھی۔ بزنس کے معاملوں میں عاشر اور اسکے بھائی سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ ورنہ انس اور عاشر سے دون پر بات ہوتی ہی تھی اور بعض اوقات عاشر گروپ کال کرتا اور تینوں مل کر باتیں کرتے۔
اسلام آباد یا کہیں اور جانے کا اور پکنک کرنے کا پروگرام بہرحال نہیں بنا تھا۔ ایک ڈیڈھ ہفتہ ہی تو ہوا تھا ابھی۔

گھر پہنچتے ہوئے آج دیر ہوگئی تھی۔ وہ تھوڑا سا تھک گیا تھا اسکا ارادہ سیدھا کمرے میں جانے کا تھا۔
ماما کا فون آنے پر وہ اسنے بتایا کہ وہ کھانا کھا چکا ہے وہ لوگ کھانا کھالیں۔

لاؤنج سے گزرتے ہوئے اسے اس کے ڈیڈ بیٹھے نظر آئے تو وہی رک گیا۔
"اسلام علیکم ڈیڈ"
"وعلیکم اسلام۔ کیسی رہیں میٹنگز؟" وہ کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اس سے نظریں ہٹا کر پوچھا اور کتاب ایک طرف رکھ دی۔
"بہت اچھی"۔ وہ ذرا سا مسکرایا۔
‏"I knew it" وہ ہنسے تھے۔ بھر پور یقین کے ساتھ۔ پھر اسکی طرف دیکھا۔
"تھکے ہوئے لگ رہے ہو؟"
"نہیں ڈیڈ بس۔۔۔تھوڑا سا فریش ہو جاؤں تو ٹھیک ہوجائے گا"۔
"جاؤ فریش ہوجاؤ"۔ انہوں نے کتاب اٹھائی۔ ان کے چہرے کے تاثر وہ دیکھ نا سکا تھا۔
وہ سر ہلا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔ اس کا کمرہ اوپر تھا۔
اسنے ابھی آدھی سیڑھیاں ہی عبور کی تھیں کہ۔۔۔
"دانیال"
وہ صوفے سے اٹھ کر سیڑھیوں سے کچھ فاصلے پر آکھڑے ہوئے تھے۔
اسنے گردن گھمائی اور سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکھا۔
ان کے درمیان فاصلہ تھا۔۔۔
نیچے کھڑی شخصیت کے اگر کوئی قریب کھڑا ہوتا ان کی شکل کا آضطراب بہت غور سے دیکھ سکتا۔ بلکہ وہ اضطرابی اپنے اندر منتقل ہتی محسوس کرتا۔
"جی؟"
وہ اسی کو دیکھ رہے تھے لیکن خاموش تھے اسی لیے وہ بول پڑا۔
"دانیال۔۔۔۔ تم۔۔"
انہوں نے گہری سانس لی۔
"تم مجھے 'بابا' کہا کرو پلیز!" آخر کار وہ کہہ ہی چکے۔
اس نے بے تہاشا حیرت سے انہیں دیکھا۔ بغیر پلک جھپکے۔۔۔۔
"نہیں یہ حکم نہیں ہے۔۔۔۔
یہ۔۔۔یہ۔۔ ایک رکوسٹ ہے۔ ایک باپ کی اپنے بیٹے سے"۔
ان کا خیال تھا کہ اس کی جواب میں وہ سر ہلائے اور کہے گا۔۔
"جی ضرور"۔ سر کو خم دے گا اور کمرے میں چلا جائے گا۔

وہ وہیں کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ اگر وہ وہی دانیال ہوتا تو یہ سوچتا کہ کیا اس پر ایسے ہی حکم مسلط کیے جائینگے؟ لیکن نہیں۔۔۔ نا اسنے ایسا سوچا نا ہی ان کے خیال پر اترا۔۔۔۔
اسکا دل اس بچپن کے دن کی طرح نہیں ٹوٹا تھا۔
وہ تھکی تھکی نظروں سے اسکو دیکھ رہے تھے۔
وہ ایک باری میں دو تین زینے ایک ساتھ پھلانگتا نیچے اترا اور سیدھا ان کے گلے لگا۔
انہوں نے بھی جواباً اپنے ہاتھ اس کے گرد حمائل کیا۔
"بابا" اس کی آواز دھیمی تھی مگر مضبوط۔۔۔ ہلکی سی نمی لیے ہوئے۔
اسے بابا کہنا اچھا لگتا تھا۔۔۔اگر یہ حکم بھی ہوتا تو وہ پورا کرتا۔ لیکن یہ درخواست تھی۔
"تھینک یو بیٹا۔ دل خوش کردیا۔ بہت اچھا لگر رہا ہے سن کے"۔
"بابا آپ کے لیے سب کچھ حاضر ہے"۔
والدین جیسے بھی ہو ، یہ رشتہ ایسا ہوتا ہے کہ محبت خودبخود آجاتی ہے۔
کوئی معذرت، کوئی شکوہ کیے بغیر وہ ایک دوسرے کے گلے لگے سب ٹھیک کر رہے تھے۔۔
خوشگوار بنا رہے تھے۔۔۔

کچن سے نکلتی اسکی ماما اس منظر کر دیکھ رک گئیں۔
آنکھوں میں نمی اور چہرے پر مسکراہٹ۔۔۔۔۔ سب سے خوبصورت منظر۔۔۔
وہ بےاختیار مسکرائیں۔
اللہ ان کے گھر اور گھر میں موجود مکینوں کو خوش اخلاقی سے رکھے۔
وہی کھڑے کھڑے انہوں نے دعا مانگی۔




"واہ ڈینی ماشااللٰہ اب لگ رہے ہو نا کِھلے ہوئے پھول کی طرح"۔ دانیال عاشر کو life updates دے رہا تھا۔
عاشر کی بات پر وہ ہنسا۔
"واٹ؟ کھلا ہوا پھول؟ توبہ کرو"
"خیر اس سے کچھ بھی نہیں لگ رہے۔ ویسے اب بتاؤ زندگی پہلے اچھی تھی یا اب؟"
دانیال نے سوچنے کے لیے ایک منٹ بھی نا لیا۔
"اب۔۔۔۔۔ بہت بہت اچھی ہے اب"
دوسری جانب فون پر عاشر کا قہقہہ گونجا۔
اس کا قہقہہ سنتے ہوئے دانیال کی نظر اپنے کمرے میں دیوار پر لگے بڑے سے فریم پر پڑی۔ یہ کل ہی اس نے لگایا تھا۔
وہ ان کی لارج سائز تصویر تھی۔ ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھے مسکراتے چہرے، پیچھے بہتا کنہار اور پہاڑ۔۔۔
"یار میں سوچ رہا ہوں ماما بابا کو کہیں ڈنر پر لے جاؤں۔ کوئی آئڈیا تو دو"۔
"ہوں گریٹ"۔ عاشر کچھ لمحے خاموش رہا۔ شاید سوچ رہا تھا کچھ۔
"مونال!۔۔۔۔ مونال لے جاؤ ڈینی" وہ یک دم چینخا۔
"مونال؟"
"ہاں مونال۔ اسلام آباد میں ہے۔ بیلیو می بہت مزا آئے گا تم لوگوں کو۔ میں خود بھی گیا تھا امی کو لے کر"
"ٹھیک ہے تم بھی چلو ساتھ پھر"۔
"میں کیوں چلوں؟ ایویں؟ تمہیں ساری انفو وغیرہ دیتا ہوں تم خود جاؤگے"
پھر وہ اسے سب کچھ سمجھاتا رہا، وہ نوٹ کرتا رہا۔ راستہ، ٹائمنگ، ڈرائیونگ وغیرہ۔

کل ویک انڈ تھا۔ اسکا ارادہ بنا کہ وہ کل جائےگا اور گاڑی خود ڈرائیو کرےگا۔
اپنے کمرے سے نکل کر وہ ان کے کمرے میں آیا تاکہ انہیں راضی کر سکے۔

-------


گاڑی کی فضا میں ہنسی گونج رہی تھی اور باتوں کی شیرینی سے فضا مزید حسین ہوگئی تھی۔
سکرین پر ان کے ٹرپ کی تصاویر چل رہی تھیں۔ جو خاص اسنے ماما بابا کی فرمائش پر لگائی تھی۔
وہ اسلام آباد کے لیے نکل چکے تھے۔ by air جانا تو بالکل مشکل نہیں تھا لیکن دانیال نے یہ بائے ائر جانے کا ارادہ مسترد کردیا کہ اس میں 'مزا' کم آئےگا۔
سو آج وہ گاڑی میں بیٹھے اسلام آباد جارہے تھے۔
ماما بابا تو فوراً مان گئے تھے اس فیملی پکنک کے لیے۔
زیادہ سفر وہ کر نہیں سکتے تھے اس لیے پکنک پلین چھوٹا ہی رکھا تھا۔
اس کا ارادہ انہیں مونال سے کھانا کھلوانے کا تھا۔ اور بس وہی ایک دو گھنٹے گھومنے کا تھا۔ پکنک چھوٹی تھی لیکن وہ اسے یادگار اور مزے سے بھرپور بنانا چاہتا تھا۔

"تم لوگوں نے تو صحیح تماشے لگائے ہونگے وہاں" اسکی ماما پچھلی نشست پر بیٹھی تھیں اور بابا آگے۔
ماما نے تصویر دیکھتے ہوئے ہنس کر کہا۔
"ماما بیلیو میں۔۔۔ ہم ادھر ادھر دیکھے بغیر اپنے آپ میں مصروف تھے"
"مجھے تو تصویریں دیکھ دیکھ کر ہی مزا آگیا ہے"۔
"سوچیں پھر ہمیں کتنا مزا آیا ہوگا" وہ ڈرائیو کرتے ہوئے بولا۔ سفر بہت لمبا نہیں تھا اس لیے وہ مسلسل آپس میں باتوں میں مصروف تھے۔
"سوچنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ان تصویروں سے زیادہ آپ لوگوں کی شکل بتاچکی ہے کتنا مزا آیا ہوگا" وہ مسکرا کر بولیں۔
"آپ دونوں چلیں گے وہاں؟" اس نے فوراً پوچھا۔ پہلے ماما کو دیکھا اور پھر بابا کو۔
بابا تو خاموش بیٹھے تھے کہ شاید ان کی پرسنیلٹی ایسی تھی کہ وہ بہت بولتے نہیں تھے لیکن خلافِ معمول وہ ان دونوں کی باتوں میں مسکرا کر کوئی کمنٹ پاس کر دیتے۔

"میری تو آدھی راستے میں بس ہوجائے گی۔ ہم چھوٹی چھوٹی پکنک سے بہت خوش ہیں۔ یہی بہت کچھ ہے ہمارے لیے"۔ ماما نے ہاتھ جھاڑے اور قصہ تمام۔۔۔
"نو وے! اب یہ کوئی عمر ہے گھومنے کی" بابا نے کہا۔
پھر شاید انہیں کچھ یاد آیا تو ان کے لب مسکرا دیے۔
"جب میں تمہارے جتنا تھا تو اپنے دوستوں کے ساتھ ہم ایسے بہت سے 'کارنامے' کیا کرتے تھے۔ بہت منتیں کرکے آوارہ گردی کیا کرتے تھے"۔ ان کے ذہن میں کوئی فلم چلی تھی جسے دیکھ کر وہ ہنسے۔
اور ان کو ہنستا دیکھ کر وہ دونوں حیران سے انہیں دیکھ رہے تھے۔
یہ اس کے بابا ہیں؟ رئیلی؟ وہ ڈیسنٹ سے بابا؟ ہاہا! وہ انکا یادوں سے مسکراتا چہرہ دیکھ کر خود بھی مسکرایا۔

پھر وہ اپنی 'جوانی' کے بہترین قصے جو انہیں یاد تھے سنانے لگے۔
گاڑی کی فضا معطر ہوتی جارہی تھی۔

-----

وہ اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔
یہ شہر اب بھی ویسا ہی تھا۔ تر و تازہ، مہکتا ہوا اور حسین۔۔۔ اپنی تازگی دوسروں کی آنکھوں میں اتارتا۔۔۔
"یہ تو لاہور سے بھی پیارا شہر ہے" ماما نے تبصرہ کیا۔
"کافی خوبصورت شہر ہے" بابا کی ہلکی سی سرگوشی سنائی دی۔
"انس بھی یہی رہتا ہے۔۔ اسلام آباد میں۔ عاشر اور میں اگلے ویک اینڈ پر جائینگے اسکی طرف"۔
"مجھے تو بہت اچھا لگا انس اسکی باتیں سن کر ۔ خوش باش سا بچہ ہے ماشا اللہ"۔ ماما اسکی کوئی پچاسویں دفعہ تعریف کر رہی تھی۔
"ہاں اچھا بچہ ہے بہت۔ مجھے تو عاشر بہت اچھا لگا۔ انٹیلیجنٹ اور سلجھا ہوا۔ ہر ایک کے ساتھ اچھا۔ میرے بیٹے پر بھی جادو کی چھڑی چلادی"۔
بابا کی ہنسی پر وہ بھی ہنسنے لگا۔ عاشر جتنا اچھا ہے اس سے بہتر اور کون جان سکتا ہے۔ جسنے اسکی سوچ کو نیا رخ دکھایا۔

مونال کا راستہ کافی ڈراؤنا قسم تھا۔ یہ تبصرہ اسکی ماما نے کیا تھا۔
اور وہ آگے سے ہنسا تھا کہ سیف الملوک کا راستہ اس سے زیادہ ڈراؤنا قسم کا ہے۔
اونچائی پر بنے اس ہوٹل پر کھڑے ہوکر اسلام آباد کا خوبصورت منظر نظر آرہا تھا۔

یہ منظر دیکھ کر اسکے ماما بابا مسکرائے تھے۔
ہاں یہی تو وہ چاہتا تھا۔ یہی دیکھنا چاہتا تھا انکے چہرے پر۔۔۔۔
اسکا یہ قدم کامیاب رہا تھا۔
وہ بھرپور دل سے مسکرایا تھا۔

وہاں ان کے پاس کھڑے ہوکر اسنے ہاتھ بلند کیا اور سیلفی لی۔
ان تینوں کے مسکراتے چہرے اور پیچھے اسلام آباد کی خوبصورتی۔۔۔۔
"پرفیکٹ فیملی"
وہ مسکرایا۔
یہ تصویر اسکے کمرے میں لگی تصویر (بہتے کنہار میں کھڑے وہ تینوں) کے ساتھ لگے گی۔

کھانا کھا کر اور تھوڑا گھوم کر وہ واپسی کے سفر پر چل پڑے۔
واپسی پر اندھیرے میں ڈوبے پہاڑوں پر موجود گھر کچھ ایسے لگ رہے تھے تھے جیسے سیاہ اور بھورے دھندلے منظر پر جگنو بیٹھے چمک رہے ہو۔
رات کے نو بجے وہ گھر میں تھے۔
انہیں سونے کا کہہ کر وہ خود بھی کمرے میں آگیا۔
آج اسنے پہلی بار ان کے لیے کچھ کیا تھا۔۔۔۔ خود۔۔
عاشر کو "تھینک یو" کا میسج کیا اور وہ تصویر بھیجی۔
اور واش روم کی طرف چلا گیا۔


----

‏"?May i come in sir" وہ دروازہ کھٹکا کر اندر داخل ہوا۔
"تمہیں اجازت کی ضرورت نہیں ہے آجاؤ"۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔

اپنا کوٹ کرسی پر لٹکا کر وہ بیٹھا اور انکی طرف دیکھا۔ وہ اسی کو دیکھ رہے تھے۔
"کیا بہت پیارا لگ رہا ہوں؟" اس نے شرارت سے کہا۔
انہوں نے قہقہہ لگایا۔
وہ مسکراہٹ دباتا آستین اوپر موڑنے لگا۔ وو انکی نظریں خود پر محسوس کر سکتا تھا۔
"مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں بہت ہینڈسم لگ رہا ہوں"۔ دانیال نے کہنے میز پر جمائی اور انکی برف دیکھ کر بولا۔
"ارے تم اور باپ سے شغل؟" وہ ہنسے۔
"بیٹا ہوں آپ کا۔ بہت کچھ نہیں کہوں گا ۔ آپ تو مجھے جانتے ہیں" اس نے آنکھ دبائی۔
وہ مسکراتے رہے۔
اس کے رویے میں یہ تبدیلی پچھلے سال انہی دنوں میں آئی تھی۔
"اوکے بابا۔۔اوپس سر۔۔اب مجھے ایک ویک چھٹی عنایت کریں"
"جاؤ بھئی جیو اپنی زندگی"۔
"جی ضرور شکریہ۔ اللہ حافظ فون کرتا رہوں گا"۔ دانیال ان سے گلے مل کر باہر نکل گیا۔

اس بار وہ تین نہیں بلکہ پانچ لوگ جارہے تھے۔ انکی دوستی کا دائرہ وسیع ہوگیا تھا۔
ایک تو انس کا کزن تھا جو انس سے بھی دو ہاتھ آگے تھا۔ وہ جب بھی اسلام آباد جاتے اس کی کمپنی بھرپور انجوائے کرتے۔
دوسرا عاشر اور دانیال دونوں کا دوست تھا جس سے دوستی لاہور میں ہی ہوئی تھی۔
دوست تو کئی تھے لیکن 'خاص' دوست کوئی کوئی ہوتا ہے۔ جن کے لیے دل میں خاص مقام ہوتا ہے۔ جن کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ جن کے ساتھ رویہ سب سے مختلف ہوتا ہے۔ کوئی تکلف نہیں ہوتا۔
وہ کہا جارہے تھے یہ پلین عاشر طے کرچکا تھا۔ اور اس دفعہ ساری ذمہ داری اس پر اکیلے نہیں ڈالی بلکہ ان چاروں نے بھی ہر برح سے کنٹریبیوٹ کیا تھا۔

اور اس ایک سال کو دانیال نے مختلف انداز میں گزارا تھا۔ اسے گزشتہ کئی سال اور اس ایک سال کا فرق باآسانی محسوس ہوا تھا۔
ہر وقت نا سہی لیکن وہ خوش رہتا تھا اور "خوش رکھنے کی کوشش کرتا تھا"۔

----
اسلام علیکم میرا نام دانیال جافری ہے۔ اور کئی لوگوں کے لیے" ڈینی"۔ امید ہے آپ کو میری لائف پر بنی کہانی بورنگ نہیں لگی ہوگی۔ اور مجھے امید نہیں یقین ہے کہ میرے ساتھ سفر کرتے ہوئے آپ کو بھی مزا آیا ہوگا۔
مجھے تو اب اپنی لائف کچھ زیادہ ہی پسند ہے۔ اس کو اچھا یا برا بنانا بھی بعض اوقات ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
تو کیا آپ نے کبھی خود کو سمجھایا ہے؟
چلیں وہ آپ کی مرضی۔ مجھے ابھی جانا ہے۔ ورنہ اپنے دوستوں کے 'کارنامے' میں 'مِس' کردوں گا۔ خوش رہیں اور مزا کریں۔ اللہ حافظ۔۔!
※※※ ختم شد ※※※
Amna Shafiq
About the Author: Amna Shafiq Read More Articles by Amna Shafiq: 14 Articles with 19739 views I'm a Student. I love to read novels . And i like to write too just so i can share my words with world... View More