زندگی

تحریر :اعجاز بٹالوی ................ انتخاب : ایم اے لودھی

ڈوبتے ہوئے جہاز نے ایک آخری سنبھالا لیا۔ اس کا انتہائی بلند حصہ ایک لمحے کے لیے دکھائی دیا اور پھر سمندر میں ڈوب گیا۔ وہ جہاز پر کھڑا شاید اسی وقت کا منتظر تھا۔ جہاز کے ڈوبتے ہی وہ سمندر کی کف آلود لہروں میں کود پڑا۔ طوفانی سمندر کی چیخیں اسے سنائی دے رہی تھیں۔ سمندر ایک بپھرے ہوئے شیر کی طرح غرا رہا تھا۔لہریں آپس میں ٹکرا ٹکرا کر ایک راگ سا پیدا کر رہی تھیں اور وہ راگ اسے یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے فرشتہ موت کے پاؤں کے مرتعش گھنگرؤوں کی جھنکار۔ ڈوبے ہوئے جہاز اور ٹوٹی ہوئی کشتیوں کے تختے جابجا تیرتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس نے کئی دفعہ بڑھ کر تختوں کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن ہر بار تختہ اس کے ہاتھ سے یوں چھوٹ جاتا تھا جیسے قدرت کو اس سے کوئی انتقام لینا ہو۔

تاریکی پھیلتی جا رہی تھی لیکن ساحل کی روشنی اسے ابھی تک دکھائی دے رہی تھی ابلتے ہوئے سمندر کے پار چٹانی ساحل اسے ماں کی گود کی طرح محفوظ معلوم ہوتا تھا، وہاں پہنچ جانے کے خیال نے ہی اس کے جسم کا رواں رواں خوشی سے لبریز کر دیا۔ اس نے تیرنا شروع کیا اسے معلوم ہوا کہ کوئی برقی طاقت اسے ساحل کی طرف لیے جارہی ہے۔ وہ ایک آزمودہ کار ملاح اور ایک کامیاب سمندری انسان تھا۔ جس نے گذشتہ چھ سال سمندر کے انہیں سرکش پانیوں میں بسر کیے تھے۔ وہ سمندر کی تباہ کاریوں سے خوب واقف تھا۔ دیو قامت لہریں اس کی مرضی کے خلاف اسے جس طرف چاہتی دھکیل دیتیں۔ تیز رفتار ریلے اسے تنکے کی طرح بہا رہے تھے لیکن وہ اپنے بازؤوں کو یوں ہلا رہا تھا گویا پانی کو چیر دے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانی کی ایک دیوار اب اس کی طرف بڑھی اس نے سر کو نیچے جھکا لیا، اس کے باوجود وہ لہر کی مضبوط گرفت میں آچکا تھا۔ اس نے یوں محسوس کیا جیسے اس کے کان بہرے ہو چکے ہیں۔ اب اسے لہروں کا شوروغل بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کی امید اس کی آنکھوں میں آگئی تھی اور اس کی کھلی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں دور ساحل کی روشنی کو گھور رہی تھیں اس کے بازویوں ہل رہے تھے گویا وہ ساحل کو قریب آنے کے اشارے کر رہے ہیں۔

معاً اسے جہاز کے مسافروں کا خیال آیا۔ جہاز کا کپتان، کتنا ہنس مکھ اور مہربان انسان تھا۔ وہ جہازکو خطرے میں پاکر اس نے سب مسافروں کو کشتیوں میں اتر جانے کا حکم دے دیا تھا۔ کشتیاں؟ اس نے اپنی آنکھوں سے ان کو الٹتے اور ٹوٹتے دیکھا تھا۔ مسافروں کا کیابنا ہو گا؟ جانے وہ سب ڈوب گئے ہوں لیکن اسے کیا وہ اس وقت ان کے متعلق کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا۔ میرے اﷲ! اس کے منہ سے نکلا اور اس نے پھر اپنے ہاتھوں سے پانی کو پیٹنا شروع کر دیا، تھپ۔۔۔۔تھپ۔۔۔۔۔تھپ۔۔۔۔۔۔ وہ متواتر ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ طوفانی سمندر نے اس کے جہاز کو ڈبو دیاتھا۔ اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ اس کے جسم کو زخمی کر دیا تھا لیکن اس کے ارادے اس مضبوط چٹان کی طرح تھے جس سے سمندر کی تیز و تند لہریں ٹکرا ٹکرا کر مایوس ہوجایا کرتی ہیں۔ اس نے تیرتے ہوئے ہنسنے کی کوشش کی کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ سچ مچ ساحل کے قریب ہوا جارہا ہے۔ خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات نے اس پر قابو پا لیا تھا۔ خون اس کی رگوں میں جوش مار رہا تھا اور وہ ایک ایک انچ آگے بڑھنے کے لیے اپنی انتہائی طاقت استعمال میں کر رہا تھا۔ ہر بار جب موجوں کے تھپیڑے اس سے ٹکرا کر ایک لمحے کے لیے اسے بے حس کر دیتے تو وہ دل کو تسلی دینے کے لیے ہنسنے کی کوشش کرتا لیکن اس کی ہنسی لبوں میں اٹک کر رہ جاتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ ان تھپیڑوں پر غالب آئے گا۔ لیکن ’’آب زندہ‘‘ اس کے ارادوں سے بے پرواہ اپنے اتار چڑھاؤ میں مصروف تھا۔ ساحل دکھائی دے رہا تھا اور ساحل کی روشنی بھی۔ اس کا خیال تھا کہ صحت اور سلامتی کے فرشتے مشعل زندگی ہاتھ میں لیے اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

سطح سمندر پر پانی کے زور سے اچھلتا کودتا وہ ہاتھ پاؤں مارنے میں مصروف تھا اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ ایک ہی وقت میں کسی پہاڑ کی فلک بوس چوٹیوں اور زمین کے دل تک دھنسی ہوئی چٹانوں کی سیر کر رہا ہے۔ سمندر کی موجیں ڈوبے ہوئے جہاز کی اس آخری نشانی کو بھی ہضم کر لینا چاہتی تھیں۔ لیکن وہ پانی کو چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ خود تیزی سے تیر رہا ہے یا سمندر میں ہی کچھ سکون ہو گیا ہے۔ گاہے گاہے پر ہول طوفان اور ہیبت ناک تنہائی سے اس کا دل بیٹھ جاتا تھا لیکن جو اپنے جہاز کا کامیاب ترین ملاح سمجھا جاتا تھا۔ کسی صورت بھی اپنی ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔ ا س نے لمحے بھر کے لیے رک کر اطمینان کا ایک لمبا سانس کھینچا اور آنے والی مصیبتوں کے لیے تیار ہو کر پھر تیرنا شروع کر دیا۔ جذبات کی کثرت نے اس کے دل میں ایک طوفان برپا کر رکھا تھا اور وہ سمندر کے طوفان سے ٹکرا کر اس پر فتح پا لینا چاہتا تھا۔ اس نے کلمہ شکر پڑھا۔ اسے پھر مینار روشنی کی جھلک دکھائی دینے لگی تھی۔ پانی کی سطح سے کچھ بلند ساحل صاف نظر آرہا تھا۔ روشنی کی ایک لکیر پانی میں کانپ رہی تھی اور وہ تھرتھراتی ہوئی لکیر پر تیرتا جا رہا تھا۔ دم توڑتی ہوئی امیدیں پھر جی اٹھیں اور زندگی کی خواہش پھر انگڑائیاں لینے لگی۔ اس نے اپنے جسم میں پھر وہی ہمت اور تروتازگی محسوس کی جو سمندر میں کودتے وقت اس کے جسم میں موجود تھی۔ ساحل قریب ہوتا جارہا تھا ’’ممکن ہے ساحل پر کوئی موجود ہو‘‘ اس نے سوچا اور قدرت اس کے دل میں ایک ڈوبتے ہوئے انسان کو بچانے کا خیال پیدا کر دے۔ اس خیال کے آتے ہی اس نے زیادہ تیزی سے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے۔ چٹانی ساحل پر پہنچ جانے کے خیال نے ہی اس کے جسم میں خوشی کی ایک لہر دوڑا دی تھی کہ کوئی غیبی طاقت اسے ساحل کی طرف دھکیل رہی تھی۔ اپنی کامیابی کی امید نے اس کے دل میں خیالات کی ایک ندی جاری کردی تھی اور وہ اس ندی میں ڈبکیاں کھاتا، تصورات میں مگن زور زور سے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ یکبارگی اسے اپنے قریب کسی سرسراتی ہوئی چیز کا احساس اور اس کے ساتھ اسے کچھ اس قسم کی آوازیں سنائی دیں ’’رسہ۔۔۔۔ بہادر تیراک ۔۔۔۔۔ یہ رہا رسہ، ذرا ہمت کرو اسے تھام لو۔۔۔۔۔‘‘ اسے اپنے کانوں پر اعتبار نہیں آرہا تھا لیکن اسے متواتر ایسی ہی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔

سمندر کے کنارے پر لوگوں کا ایک ہجوم اس کے کی بہادری کی داد دے رہا تھا۔ بعض اپنے ہاتھوں میں تیز روشنی کی لالٹینیں لٹکائے ہوئے تھے جو گرد وپیش کے ایک محدود حصے کو روشن کر رہی تھیں اور باقیوں کے ہاتھ بے بسی کی حالت میں وہ اس کی سلامتی کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے۔ ایک انسانی سر ایک ثانیے کے لیے دکھائی دیتا اور پھر پرشور لہروں کی دودھ جیسی سفید جھاگ میں گم ہو جاتا۔ وہ بے باک بازو اٹھتے اور گرتے ہوئے دکھا ئی دے رہے تھے قدرت نے طوفانوں کا منہ کھول رکھا تھا اور اس کی زندگی کی ناؤ ڈانواں ڈول تھی۔ ساحل پر کھڑے ہوئے ایک ڈوبتے ہوئے انسان کے لیے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کر سکتے تھے کہ اپنی موجودگی سے اس کی امیدوں میں ایک نئی زندگی، اس کے ارادوں میں مضبوطی اور اس کی ہمتوں میں اضافہ کرتے رہیں۔ ان کے جذبات ہمدردی اس بے بس تیراک تک پہنچ رہے تھے اور وہ بھی اپنی ہستی کو ان سے جدا نہ سمجھتے ہوئے ہر لمحہ ان کے قریب تر ہو جانا چاہتا تھا۔ شاباش کی پہیم صدائیں اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھی لیکن وہ ان کے جواب میں لب کشائی کرنے سے معذور تھا۔ اسے محسوس ہواکہ اس کی زبان نے سوج کر اس کا گلہ بند کر دیا ہے۔ اب اسے سانس لینے میں بھی دقت ہو رہی تھی۔ اس کے بس میں البتہ ایک چیز ضرور تھی ۔۔۔۔۔ پیراکی ۔۔۔۔۔ اور وہ ہمہ تن اس میں مصروف تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا اس کی دھک دھک اسے صاف سنائی دے رہی تھی۔چٹان اس سے صرف تیس گز کے فاصلے پر رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ صرف تیس گز، کامیابی اس کی گرفت میں آچکی تھی کہ ہوا پھر تیز ہو گئی۔ موجیں پھر تند ہوئیں اور پانی میں ابال آگیا۔ شاید سمندر کے بے رحم دیوتاؤں کو معلوم ہو گیا تھا کہ شکار ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ بل کھاتی ہوئی موجوں پر تیرتا ہوا رسہ ایک بار پھر اس کے قریب آیا لیکن اس کے ہاتھوں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اسے تھام سکے۔

ساحل پر کھڑے ہوئے لوگوں میں سے ایک پانی میں اتر آیااور اس تھکے ہوئے تیراک کی طرف ہولے ہولے بڑھنے لگا۔ پانی کی ایک لہر اٹھی اور لوگوں نے اسے پیچھے کی طرف گرتے ہوئے دیکھا۔ اس نے پھر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن پانی اسے پیچھے دھکیل رہا تھا۔ سمندر آج ناقابل تسخیر معلوم ہوتا تھا لیکن وہ ابھی تک اس سے برسر پیکار تھا۔ اپنی گردن کی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اس نے اپنے سر کو ذرا اوپر اٹھایا اور دیکھا کہ ایک آدمی کنارے سے اتر کر اس کی طرف آ رہا ہے۔ اس نے بھی اس کی طرف کا رخ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان میں فاصلہ اتنا کم رہ گیا کہ وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام سکیں۔ ساحل کی لالٹینوں کو جنبش ہوئی اور ان کے تھامنے والوں نے زور زور سے خوشی کے نعرے لگائے لیکن کون جانتا تھا کہ اگلے ہی لمحے میں ایک بے رحم موج ان کو ایک دوسرے سے بہت دور کر دے گی۔ سمندر میں یک لخت ایک تلاطم پیدا ہوا۔ غل مچاتے ہوئے ساحلی لوگ کنارے پر جھکے اور اپنے ساتھی کو کھینچ کر باہر لے گئے۔ دوسرے طرف ڈولتا ہوا انسانی جسم غائب ہوچکا تھا

’’خدایا! رات کتنی بھیانک ہے اور سمندر کس قدر متلاطم!!!!‘‘ان کے سر یوں جھک گئے جیسے ان کی گردنیں ٹوٹ گئی ہوں۔ ’’قدرت کے قانون اٹل ہوتے ہیں‘‘ انہوں نے سوچا۔ بیچارہ تیراک کتنی مدت سے طوفانی سمندر کا مقابلہ کرتا رہا لیکن ۔۔۔۔۔۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہے تھے کہ ان کی نگاہیں پھر سمندر کی سطح پر جم کر رہ گئیں۔ کیا ڈوبتا ہوا تیراک پھر نمودار ہو گیا تھا۔ یقینا وہی ڈولتا جسم اور یہ سب کچھ ایک معجزہ معلوم ہوتا تھا۔کچھ دھیمی سی آوازیں سنائی دیں، شاید انہوں نے یک زبان ہو کر اس کی سلامتی کے لیے خدا کا شکریہ ادا کیا۔ اب وہ لمحہ بہ لمحہ ساحل کے قریب ہوتا جا رہا تھا۔ پانی کی سطح پر اپنے بازؤوں کو پھیلائے وہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی آبی جانور موجوں کے ساتھ کھیل رہا ہو۔ لیکن اب اسے تیرنے میں خاصی دقت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کا دماغ ماؤف ہوتا جارہا تھا اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے اس کے جسم کا تمام رس نچوڑ لیا ہو، اس کے ہاتھ بے جان ہوتے جارہے تھے او رپاؤں تو یوں تھے جیسے لوہے کے ہوگئے ہوں۔ اس نے زور سے چلانا چاہا لیکن زبان اس کے ارادوں کا ساتھ چوڑتی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ ساحل والوں میں سے ایک اور آگے بڑھا اور اس کی مددکے لیے پانی میں اتر آیا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی اور کائنات ایک پردہ ظلمت میں لپٹی ہوئی تھی۔ وہ متواتر کئی گھنٹوں سے ان سرکش پانیوں سے جنگ کر رہا تھا اور اب اس کا بند بند دکھنے لگا۔

یک لخت اس کے دکھتے ہوئے جسم کو انسانی ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔ اس کے بدن کو جو سردی کی شدت سے سن ہوچکا تھا ہاتھوں کی حرارت یوں محسوس ہوئی جیسے کسی نے اس کے قریب ہلکی ہلکی آنچ سلگا دی۔ ایک شخص اسے زور سے تھامے کنارے کی طرف کھینچ رہاتھا۔ ساحل والوں کی زور زور کی تالیوں سے فضا گونج رہی تھی۔ وہ دونوں ساحل کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ ساحلی انسانوں میں سے چند ایک اس ہانپتے ساتھی کی مدد کے لیے آگے بڑھے جو ایک تیراک کے بے سکت جسم کو کھینچتا ہوا ساحل کی طرف لا رہا تھا۔

چٹانی ساحل پر اس کا تھکا ہوا، ہارا ہوا جسم یوں بے جنبش پڑا تھا جیسے کوئی بچی دن بھر کی کھیل کود کے بعد شام کے وقت میٹھی نیند سو رہی ہو۔ ’’ملاح معلوم ہوتا ہے‘‘ ایک نے کہا۔ کوئی بھی ہو لیکن اس طوفانی سمندر میں ڈیڑھ دو میل تیر لینا کس قدر حیرت انگیز ہے۔ اس کا تصور ہی بدن کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ بڑی ہمت کی بیچارے نے۔ وہ اس کے گرد اس کی بہادری کی تعریفیں کر رہے تھے ۔ یک لخت اس نے ایک ہچکی لی اور اس کا سارا بدن تن کر رہ گیا۔ ایک نے بڑھ کر اس کی نبض پر ہاتھ رکھ دیا۔ کیوں؟ انہوں نے بے صبری سے پوچھا ’’ختم ہو چکا بیچارا‘‘ کہتے ہوئے اس نے اپنا سر یوں جھکا لیا گویاوہ اسے اس کے سینے پر ٹیک دے گا۔

ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی۔ ایک زردروپتہ درخت کی چوٹی پر سے ٹوٹا اور سرسراتا ہوا سمندر میں جا گرا۔ دور ۔۔۔۔۔۔ بہت دور کچھ اپنی جھلملاتی ہوئی لالٹینوں کو تھامے ایک وزنی نعش اٹھائے آنکھوں سے اوجھل ہوتے جارہے تھے۔
(شکریہ راوی: نومبر 1941)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 662445 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.