بھارت کی اپیل ،پاکستان کے اتفاق اور اقوام متحدہ کی رضامندی سے
مسئلہ کشمیر کے حل کے پہلے اقدام کے طور پر 1949ء میں قائم کردہ سیز فائر لائین پہ
ان دنوں ایک بار پھر تسلسل سے فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔دونوں ملکوں
کے درمیان حالیہ کشیدگی کوعالمی سطح پر ایک معمول کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔بھارتی
وزارت خارجہ گزشتہ دنوں ہی یورپی یونین کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے موقف اور
سرگرمیوں پر اپنی تشویش ظاہر کر چکی ہے۔یہ حقیقت واضح ہے کہ مغرب کی قربت کے باوجود
بھارت عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہونے والی سنجیدہ سرگرمیوں سے پریشانی
کا شکار ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی سماجی،انسانی اور ثقافتی امو کی کمیٹی نے
اتفاق رائے سے پاکستان کی پیش کردہ قرار داد منظور کی ہے جس کے مطابق عالمگیر سطح
پر لوگوں کا حق خود ارادیت، حقوق انسانی کی ضمانت اور پیروی کے لئے بنیادی شرط کی
حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان 1981سے مسلسل یہ قرار داد پیش کرتا چلا آ رہا ہے جس میں حق
خود ارادیت کے لئے جدوجہد کو عوام کا اہم حق تصور کیا گیا ہے۔یہ قرار داد اگلے ماہ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جائے گی۔بھارت کی حکومت عالمی سطح پہ تواتر
سے یہ بات کہتی ہے کہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی معاملہ ہے اور
اسے بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ لیکن بھارت یہ بات نظر انداز کر رہا ہے کہ
مسئلہ کشمیر سے متعلق پاکستان کے ساتھ اس کا عالمی عہد مسئلہ کشمیر کو باہمی طور پر
مزاکرات سے حل کرنے کا ہے ، کشمیریوں کی ہلاکتوں،ان پر ظلم وجبر جاری رکھنے پر ہر
گز نہیں۔
بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لئے تقریبا ساڑھے چار ماہ سے
جاری عوامی مزاحمت کی تحریک بدستور جاری ہے۔گزشتہ دنوں سینئر حریت رہنمائوں سید علی
شاہ گیلانی ،میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے باہمی اتفاق کے بعد مختلف
عوامی شعبوں،سول سوسائٹی اور سیاسی نمائندوں کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کیا جس میں
عوامی جدوجہد اور مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔اجلاس کے شرکاء
نے بھارت کے خلاف آزادی کی جدوجہد سے متعلق فیصلوں کا اختیار تینوں حریت رہنمائوں
کو تفویض کیا۔اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں کے لئے جاری شیڈول
میں ایک ہفتے میں دو دن مظاہرے نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ عوامی مظاہروں اور
بھارتی فورسز،انتظامیہ کے مظالم ،جبر کے واقعات کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں آئے روز
کشمیری فریڈم فائٹر نوجوانوں کی بھارتی فورسز سے مسلح جھڑپیں بھی ہو رہی ہیں۔ان
مسلح جھڑپوں میں شہید ہونے والے نوجوانوں کے جنازوں میں بہت بڑی تعداد میں لوگ پورے
جوش و جذبے سے شرکت کرتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر،ُپاکستان اور مغربی دنیا میں مقیم کشمیری حلقوں میں اب یہ سوچ پیدا ہو
رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں عوامی جدوجہد،قربانیوں،پاکستان اور عالمی سطح پر مسئلہ
کشمیر اجاگر کرنے کے عمل کو مزید موثر بنانے کی حکمت عملی اپنائی جائے تا کہ کشمیر
کے سنگین مسئلے کے منصفانہ حل کی طرف پیش رفت کو ممکن بنایا جا سکے۔مقبوضہ کشمیر
میں کئی آزادی پسند رہنمائوں کی طرف سے بھی اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ حریت
کانفرنس اور اس سے باہر کی آزادی پسند تنظیمیں،جدوجہد آزادی کو فیصلہ کن انداز دینے
کے لئے تنظیموں کی انفرادی حیثیت ختم کر کے ،آزادی کی رہنمائی کا ایک ایسا ڈھانچہ
تشکیل دیں جس میںکشمیر کاز سے اخلاص کی بنیاد پر کام کرنے والے افراد کو ایک سلسلے
میں جوڑ دیا جائے۔کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی رہنمائی کے اس ڈھانچے میںمقبوضہ
کشمیر کے علاوہ پاکستان اور مغربی دنیا کی کشمیری شخصیات کے ساتھ ایک ہی سلسلے میں
نظم و ضبط اور اشتراک عمل کو وجود میں لانے کے فیصلے اور اقدامات کئے جائیں۔
حریت کانفرنس آزاد کشمیر و پاکستان میں اصلاحاتی تبدیلیاں لانا ایک اہم معاملہ ہے
کیونکہ پاکستان کی کشمیر سے متعلق پالیسیوں میں کشمیریوں کی مشاورت شامل نہ ہونے سے
کشمیریوں کی تحریک آزادی کو موثر بنانے میں کوئی مدد نہیں مل رہی۔آزاد کشمیر و
پاکستان میں حریت کانفرنس میں شامل تنظیموں کی نمائندگی کا میرٹ ترک کر کے اسے
تحریکی تقاضوں کے مطابق رہنمائی کی اہلیت کے تقاضوں کو ملحوظ خاص رکھتے ہوئے تشکیل
دینا ناگزیر ہے۔حریت کانفرنس آزاد کشمیر و پاکستان نظم و ضبط اور''کمانڈ اینڈ
کنٹرول'' کے شدید بحران سے دوچار ہے۔اس کا عالم یہ ہے کہ اس کا کوئی بھی منہ پھٹ،ہٹ
دھرم ،کشمیر کاز کے مسلمہ معزز افراد کی '' ایسی تیسی '' کرنے میں ایک منٹ کی دیر
نہیں کرتا اور نا ہی اسے کسی کی جوابدہی کا کوئی خوف ہوتا ہے۔ اس صورتحال کی ایک
مثال یہ بھی ہے کہ گزشتہ دنوںصدر آزاد کشمیر مسعود عبداللہ خان نے اپنے دورہ امریکہ
سے پہلے سنیئر حریت نمائندگان کے وفد سے ملاقات کی۔وفد ابھی صدر آزاد کشمیر کے ساتھ
گفتگو کر ہی رہا تھا کہ اسی دوران صدر آزاد کشمیر کو ایک فیکس موصول ہوئی جس میں
متعدد حریت نمائندگا ن کے ناموں کی ایک فہرست کے ساتھ تحریر تھا کہ جناب صدر ،آپ جن
افراد کے ساتھ ملاقات کر رہے ہیں ،وہ حریت نمائندے نہیں ہیں،حریت نمائندگان یہ ہیں
جن کی فہرست آپ کو اس تحریر کے ساتھ ارسال کی جارہی ہے۔یوں حریت کانفرنس آزاد کشمیر
و پاکستان'' مسئلہ کشمیر اجاگر'' کرنے والے ایسے نمائندگان بن چکے ہیں جنہیں لوگوں
کو دکھانا مقصود ہو کہ کشمیری ایسے ہوتے ہیں۔آزاد کشمیر و پاکستان میں اپنی اصل ذمہ
داری کی ادائیگی تو دور،مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کی ''جدوجہد'' کے لئے ایک دوسرے کے
ساتھ دھکم پیل کرنا ،اس حریت کا ایک تعارف بن چکی ہے۔مختصر یہ کہ سینئر حریت
رہنمائوں کی بے بسی کا ایک عالم ہے کہ جو دیکھا نہ جائے۔ |