آجکل نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان ،چین،سری لنکا،بنگلہ دیش سمیت
مغربی خطے میں ایک نیا ایشوجنم لے چکا ہے یہ ایشو نہ تو کسی ملک کے دفاعی مقصد سے
منسلک ہے اور نہ ہی یہ ایشو کسی ملک کی اندرونی سیاست سے وابستہ ہے اور نہ ہی یہ
ایشو کسی سیکورٹی ادارے کا ایشو ہے لیکن اگر دیوار کی دوسری جانب آپ کھڑے ہوں تو آپ
دیکھیں گے کہ یہ مسئلہ ہے دنیا بھر کے ممالک انکے سیکورٹی اداروں انکے سیاسی اداروں
انکے انتظامی اداروں انکی سرحدوں اور انکی فضاؤں کا مسئلہ ہے اس طویل ترین تمہید کا
مقصد صرف اور صرف یہی ہے کہ آپکو اس اہم مسئلے کی نذاکت کا احساس دلایا جائے ۔
قارئین……!!یہ مسئلہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے اس مسئلے پر ہر کسی کو تشویش ہوناضروری
ہے کہ نہ صرف خشکی بلکہ پانی میں بھی بسیرا کئے ممالک کا ہر شہری اس مسئلے کی زد
میں ہے ۔
قارئین ……!!یہ مسئلہ ہے ’’فضائی آلودگی‘‘ آپ میرے ان تمام خدشات میری اس ساری تشویش
میرے اس سارے انتباہ کو بے شک اہمیت کی نگاہ سے نہ دیکھیں مگر یہ100%حقیقت ہے کہ یہ
مسئلہ انتہائی سنگین ہے اور دنیا کے ہر فرد کو اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کیلئے
ابھی سے جدوجہد شروع کر دینا ہوگی اور اگر ایسا نہیں کرتا تو پھراسکا مطلب ہے کہ وہ
نہ اپنے ساتھ اخلاص کا رشتہ رکھتا ہے اور نہ اپنے گردو بیش میں رہنے والوں کیلئے
انسانی ہمدردی۔
آئیں آج اس پر تفصیلی نگاہ ڈالیں کہ آخر اس فضاکے آلودہ ہونے سے ہمیں کیا نقصانات
ہو سکتے ہیں اور فضا کو آلودہ کرنے میں کس کس نے کتنا کردارادا کیا ہے اور اب کس کس
کو اس کا کتنا خمیازہ بھگتنا پڑے گا یقیناً یہ انتہائی اہم بحث ہے جس پر آج کے جدید
دور میں زیادہ سیر حاصل بحث نہیں کی جا رہی جو کہ انتہائی ضروری ہے ۔
ایک وقت تھا کہ دنیاٹیکنالوجی کا خواب دیکھا کرتی تھی اور انسانی زندگی ریڈیو کی
خبروں تک محدود تھی اور مارکونی کی اس ایجاد پر ہی دنیا کو فخر رہتا تھا کہ اس کرہ
ارض پر ایک ایسا جادوئی ڈبہ انسان کی ایسی تحقیق ہے جو دنیا بھر کو ایک دوسرے کے
ساتھ سماعتی ٹیکنالوجی کے ذریعے جوڑ کر متحد کر رہا ہے مگر انسان کے اندر بہتر سے
بہتر کی جستجو نے انسان کو چین سے نہ رہنے دیا اور یوں مارکونی کی اس ایجاد کے بعد
ایک اور تحقیق کا جادو سر چڑھ کر بولا اور اس جادوئی ڈبے میں آواز کے ساتھ تصویرنے
بھی اپنا وجود بنا لیا اور یوں دنیا بھر کیلئے یہ جادوئی ڈبہ توجہ کا مرکز بن گیا
اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس جادوئی ڈبے کی ترقی آج آپکے سامنے ہے کہ اب اس جادوئی
ڈبے نے انسان کو ڈپریشن،بلڈ پریشرسمیت دیگرکئی پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہے اور
اسی جادوئی ڈبے کے باعث آج ایک جانب حیاکو بے حیائی تیزی سے شکست سے دو چار کر رہی
ہے تو اسی جادوئی ڈبے کے باعث روشن خیالی کے نعرے نے رشتوں کے تقدس کا کھلواڑ کیا
ہے ۔اس جادوئی ڈبے نے دنیا بھر میں ایک جانب ہمارے اسلامی کلچر کویہود و نصاری کے
کلچر سے مشابہ بنا دیا ہے تو دوسری جانب اس جادوئی ڈبے کے باعث آج دنیا بھر میں یہ
فضا آلودہ ہوئی ہے کیونکہ اس جادوئی ڈبے میں پیش کئے جانیوالے کھیل تماشوں نے ویژن
سے محبت کرنیوالوں کیلئے جگہ تنگ کردی اور حوص اور حرصِ دنیاکی ایسی کمپیئن کی کہ
آج اچھے گھر،اچھی گاڑی،اچھے کاروبارجیسے ویژن نے اپنی جگہ بنالی اور یہی وہ خواہش
ہے جو بڑھتی ہی چلی گئی اور بالآخر اس خواہش نے عام آدمی سے بڑھ کر اداروں میں اپنی
جگہ بنائی اور یوں ایک نیا کلچر متعارف ہوا اور نیک نیتی کی جگہ انتظامی اداروں میں
بد نیتی کا کلچر عام ہوا اور پھر اس بدنیتی کے کلچر کی عمارت کے نیچے ان انتظامی
اداروں میں ایک چپڑاسی سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائز بے شمار ہستیوں نے اپنی اس حوص
دنیا کو پورا کیا اور یوں یہ کلچر وقت کے ساتھ بڑھتا گیا اور آج یہ بے لگام ہو کر
کئی شکلوں میں نظر آتا ہے کہیں اس کا نام کرپشن ہے تو کہیں ٹارگٹ کلنگ تو کہیں اس
کا نام شدت پسندی تو کہیں اس کا نام دہشتگردی سے منصوب ہے مگر حقیقت میں یہ ایک ہی
کلچر کی کئی شکلیں ہیں ۔
قارئین ایک ٹارگٹ کلر ،ایک شدت پسند ،ایک دہشتگرد،ایک کرپٹ شخص کی خواہشات کیا ہو
سکتی ہیں یہ آپ پر عیاں ہے ایک چور ایک ڈاکو سب کے خیالوں میں حوص دنیا ہی چھپی نظر
آئے گی اور یوں ایک ہی بیماری کے یہ مختلف نام ہیں آپ اسے دوسرے لفظوں میں اس طرح
سے بھی کہہ سکتے ہیں ۔
قارئین اب یہ معاملہ یہاں تک نہیں رکا اب اس کے باعث کیا ہوا کہ ایک جانب انتظامی
عہدوں پر بیٹھے افراد نے اپنے عہدوں سے نا انصافی کی تو دوسری جانب خلق خدا نے اس
نا انصافی پر اپنے رویئے پر نظر ثانی کی اور ماسوائے چند ایک کے کثیر تعدادمیں عام
آدمی نے بھی اسی راہ پر چلنا شروع کیا اور نا انصافی پر مبنی اس معاشرے میں رہ کر
بھر پور دنیاوی فائدے اٹھائے جسکی مثالیں آج ہمارے پاس موجود ہیں کہ کہیں ہمارے
معدنی ذخائر کا ضیاع ہوا تو کہیں ہمارے آبی ذخائر تباہ ہوئے تو کہیں ہمارے جنگلوں
میں لگے طویل عمر کے قد آور درختوں کے سینے چاک ہوئے اور بات یہیں نہیں رکی بلکہ اس
تازہ فضا کو آلودہ کرنے کے لئے کہیں ہم نے اپنے ہی بنائے ہوئے انسانی زندگی کے تحفظ
کے قوانین کا قتل کیا اور اتنے زہریلے دھوئیں اس فضا کو بطور تحفہ پیش کیئے کہ
ہماری آنیوالی نسلیں ضرور ہماری اس اہم کاوش پر ہمارا نام تاریک صفحات میں درج کریں
گی اور باقی جو لعن طعن کریں گی اس کی توقع تو ہمیں بہر صورت ضرور رکھنا چاہئے وہ
اسکے علاوہ ہے ۔
قارئین یہ تو تھی نچلی سطح پر بات تھی مگرعالمی سطح پر مختلف ممالک کی جانب سے خود
کو سپر پاور کے طور پر منانے کیلئے جس طرح سے جنگ و جدل کا حشر برپا کیا وہ بھی
تاریخ دانوں کے قلم سے لکھی گئی کتابوں پر واضح طور پر درج ہے اس پر سیر حاصل بحث
ممکن نہیں مگر جس طرح سے جنگوں میں گولہ بارود،ایٹم بم،فاسفورس بم،پیلٹ گن سمیت
مختلف زہریلے مادے فضاء میں اپنی حوص کیلئے معلق کئے گئے اسکی مختصر جھلک ماضی قریب
کی عراق،کویت جنگ،9/11اور اسکے بعد سے ابتک کی بحیرہ عرب اور ایشیائی اور مغربی خطے
میں جاری دہشتگردی کی لہر کی صورت میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے ۔
قارئین……!! اگرچہ وطن عزیز میں بار بار کہا جا رہا ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی
کا باعث خود پاکستان کی صنعتیں ہیں اور عوام اور ماضی اور حال کے حکمران ہیں مگر یہ
فضائی آلودگی بین الاقوامی سطح پر فضائی آلودگی کیلئے کی جانیوالی جنگوں میں
استعمال کئے گئے کیمیائی اور زہریلے دھویں والے اسلحہ سے بہت کم ہے امریکہ بہادر نے
9/11کے بعد سے اب تک جتنا گولہ بارود اور زہریلی گیسیں افغانستان میں استعمال کی
ہیں وہ تو گزشتہ 60سالوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی ہیں اسی طرح امریکہ سے قبل روس
اور روس سے قبل برطانیہ یہ معاملہ تو ماضی بعید سے ماضی قریب اور حال تک پہنچ چکا
ہے تو اگر سارا الزام ہم اپنے عوام کو دیں یا حکومت کو دیں تو یہ نا انصافی ہے ۔
موجودہ حالات میں جبکہ ہم ’’فضائی آلودگی‘‘ کے حوالے سے نشانے پر آگئے ہیں ایک جانب
ہم بارش کیلئے ترس رہے ہیں تو دوسری جانب تازہ ہوا میسر نہیں جب ہم سانس لیتے ہیں
تو زہریلے مادے ہمارے جسم میں جا کر ہماری سانسوں کے تسلسل کو توڑنے کی جدوجہد میں
مصروف نظر آرہے ہیں ابھی ہمیں شاید زیادہ شدت سے احساس نہیں مگر دو سے تین سالوں
میں احساس نہیں بلکہ ہم اس میں مبتلا نظر آئیں گے اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ
آخر اس ماحولیاتی آلودگی سے کس طرح بچا جائے اور اپنی آنیوالی نسلوں کو انسان دوست
ماحول کس طرح دیا جا سکتا ہے آلودگی سے پاک فضا اپنی آنیوالی نسلوں کیلئے کس طرح سے
چھوڑی جا سکتی ہے تو یقینا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے مگر جو قومیں اپنے مستقبل کی فکر
کرکے حال میں اقدامات کرتی ہیں یقیناً وہی قومیں ہی کامیاب رہتی ہیں ہمارے سامنے
اسکی بڑی مثال ہمارا دیرینیہ دوست چین ہے جس نے ہمارے بعد آزادی حاصل کی اور آج ہم
سے بہت آگے نکل چکا ہے یقینا اسے حال میں رہ کر مستقبل کیلئے بہترین منصوبہ بندی کی
تھی اور آج وہ زیادہ مسائل کی زد میں نہیں اگرچہ چین کی صنعتی ترقی اسکے لئے بھی
دوسری جانب وبال جان ضرور ہے اسکے بھی کئی علاقوں میں بھی گزشتہ سال ’’فضائی
آلودگی‘‘کے واضح آثار نظر آئے ہیں مگر چین کے پاس وسائل ہیں اسلئے مسائل نہیں ہونگے
وہ جلد ان پر قابو پاسکتا ہے ۔
قارئین……!! مختصراً اب ہمیں کیا کرنا ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ آنیوالی نسلوں کیلئے
کوئی بڑا کام کر کے جائیں تو پاکستان کی20کروڑ عوام 20کروڑ پودے لگائے اور اسے اپنی
زندگی اور موت کا مسئلے سمجھے حکومت بھی ملک میں ماحولیاتی ایمر جنسی کا نفاذ کرے
اور ایک طاقتور مہم کا آغاز کرے کیونکہ ماحولیاتی آلودگی کے مسئلے پر سنجیدگی سے
سوچنا وقت کی اہم ضرورت ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ ہمیں اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دینے
کیلئے اپنی گلیوں اور اپنے محلوں کو صاف رکھنا ہوگا اور اسکے لئے ضروری ہے کہ وطن
عزیز کے طو ل و عرض میں رہنے والے نوجوان ہراول دستے کا کردار ادا کریں اور گلی گلی
ایسی تنظیمیں ترتیب دیں جو صرف اور صرف اپنی حدود کی صفائی کیلئے جدوجہد کریں ہفتہ
وار صفائی مہم شروع کی جائے وزیراعظم سے لے کر عام آدمی تک سبھی صاف ماحول کیلئے
جدوجہد کریں سڑک پر ہر ایسی گاڑی جو دھواں چھوڑتی ہو یا جسکے چلنے سے آلودگی کا
مسئلہ جنم لے اسکے خلا ف محکمہ ایکسائز سختی سے ایکشن لے اور ساتھ ہی ساتھ سڑک اور
عوامی مقامات پر تھوکنے پر پابندی لگائی جائے اور اسکے لئے جرمانہ رکھا جائے اور
خصوصی فورس بنائی جائے جو گندگی پھیلانے والوں کیخلاف فوری ایکشن لے اور موقع پر
انہیں سزا دے یا جرمانہ کی صورت میں وصولی کرے اگر حکومت فضائی آلودگی پر قابو پانے
میں سنجیدہ ہے تو ایک نئی فورس ترتیب دے جو وفاق کی سطح پر ہو یوں ایک جانب تو بے
شمار بیروزگار نوجوانوں کو نوکریاں میسر آئیں گی تو دوسری جانب ایک صاف ستھرا
پاکستان بھی میسر آئے گا جسکی فضا آلودہ نہیں ہوگی اور ساتھ ہی ساتھ ایک فرد ایک
پودا کا نعرہ لگا کر آگے بڑھا جائے اور گندگی پھیلانیوالوں کیخلاف مذکورہ فورس کے
ان ایکشن ہونے سے حکومت کو کروڑوں کا ریونیو اکٹھا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ لوگوں میں
صفائی کا شعور بھی اجاگر ہوگا یقینا صرف دو سالوں کے اندر ہم اس وطن کوایک خوبصورت
اور قائد کے خوابوں سے ہم آہنگ پاکستان دے سکتے ہیں ۔ |