ہجرتِ رسولﷺ میں پوشیدہ سبق

’ہجر ‘کے اصل معنی’جدائی‘اور’ ترک کرنے ‘کے ہیں،اسی سے ’ہجرت‘بنا ہے ،جس کے لغوی معنی ’ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جانا ہیں‘۔شریعت کی اصطلاح میں ہجرت ،اسلام کی خاطر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانے کو کہتے ہیں۔(المعجم الوسیط)

’معارف القرآن‘ میں ہے کہ لغت میں ہجرت، ہجران اور ہجر کے معنی ہیں کسی چیز سے بے زار ہو کر اس کو چھوڑ دینا اور محاوراتِ عامہ میں ہجرت کا لفظ ترکِ وطن کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اصطلاحِ شرع میں دار الکفر کو چھوڑ کر دارالاسلام میں چلے جانے کو ہجرت کہتے ہیں اور ملا علی قاریؒ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ کسی وطن کو دینی وجوہ کی بنا پر چھوڑ دینا بھی ہجرت میں داخل ہے ۔

ہجرت اور انبیاے کرامؑ
ہجرت سے قریب قریب تمام ہی انبیا علیہم السلام کو سابقہ پیش آیا ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ہجرت کا ذکر تو صراحت ووضاحت کے ساتھ خود قرآنِ کریم میں موجود ہے ،رسول اﷲﷺنے بھی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی،جس کا اجمالی ذکر قرآنِ کریم میں اور تفصیلی تذکرہ احادیثِ صحیحہ میں موجود ہے ۔ہجرت بہ ظاہر محرومی اور شکست خوردگی کا واقعہ معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت تاریخِ اسلامی میں اس کی حیثیت ایک دوراہے کی ہے ،جہاں سے اسلام کے غلبۂ ظہور اور مسلمانوں کی کامیابی کا آغاز ہوتا ہے ،اس بہ ظاہر محرومی میں اﷲ تعالیٰ نے تمام سرفرازیوں اور اسی ظاہری شکست میں تمام ظفر مندیوں کو چھپا کر رکھا ہے ۔(قاموس الفقہ)

تاریخِ ہجرتِ رسول ﷺ
جس روز رسول اﷲﷺ ہجرت فرما کر قبا پہنچے ،وہ پیر کا دن تھا اور تاریخ12ربیع الاول13نبوی تھی اور علماے سیر کے نزدیک آپ مکہ مکرمہ سے جمعرات کے روز27صفر کو روانہ ہوئے تھے ۔تین دن غارِ ثور میں رہ کر یکم ربیع الاول بروز پیر دوپہر کے وقت آپ ا نے قبا میں نزولِ اجلال فرمایا۔(سیرۃ المصطفیٰ)

رسول اﷲ ﷺکی ہجرت
رسول اﷲﷺ تقریباًدس سالوں تک عرب قبائل کو اعلان کے ساتھ اسلام کی دعوت دیتے رہے ۔آپﷺ ہر مجلس و مجمع میں جاکر انھیں حق کی دعوت دیتے، حج کے موسم میں بھی گھر گھر جاکر لوگوں کو حق کی طرف بلاتے تھے ،پھر جب اﷲ تعالیٰ نے چاہا تو عقبہ کے پاس مدینہ کے قبیلۂ خزرج کے کچھ لوگ آپ ا سے ملے ،آپﷺ نے ان سب کے سامنے بھی اسلام پیش کیا،انھوں نے اسی وقت آپ ا کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لے آئے ۔جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو اپنے احباب کے سامنے رسول اﷲ کا تذکرہ کیا اور انھیں اسلام کی دعوت دی،حتیّٰ کہ ان کی قوم میں اسلام خوب شائع ہو گیا اور کوئی گھر ایسا نہ بچا،جہاں آپ اکا ذکرِ مبارک نہ ہو۔عقبہ سے واپسی کے وقت رسول اﷲﷺ نے ان حضرات کی تعلیم کے لیے حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کو کر دیا تھا،وہ اسعد بن زرارہ کے یہاں رہے اور وہاں رہ کرامامت وغیرہ کے فرائض انجام دیتے رہے ۔آئندہ سال مصعب بن عمیر ا مکّہ واپس آئے اور انصار میں سے چند مسلمان ،مشرکین کی ایک جماعت کے ساتھ‘جو حج کی غرض سے جا رہی تھی،مکہ پہنچے اور رسول اﷲﷺ سے عقبہ میں مل کر بیعت کا وعدہ کیا،جب وہ حج سے فارغ ہوئے اور ایک تہائی رات گزر گئی تو وہ سب جمع ہوئے ۔ان کی کُل تعداد37تھی‘جن میں دو عورتیں تھیں،ان سب نے رسول اﷲﷺ کے دستِ مبارک پر بیعت کی ،اسے ’بیعتِ عقبہ ثانیہ‘کہتے ہیں۔قریشِ مکہ کو جب اس بیعت کی اطلاع ملی تو ان کے غصّے کی انتہا نہ رہی اور انھوں نے مسلمانوں کو اب پہلے سے زیادہ تکلیفیں دینی شروع کر دیں۔اس وقت رسول اﷲﷺ نے صحابۂ کرامؓکو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر جانے کا مشورہ دیاا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک ایک، دودوکرکے مدینہ منورہ ہجرت کرگئے ،حتیّٰ کہ مکہ مکرمہ میں صرف آپ ا ،حضرت ابو بکرؓ،حضرت علیؓاور وہ تھوڑے سے وہ صحابہؓ رہ گئے جو ہجرت کرنے پر قدرت نہیں رکھتے تھے ۔

جب رسول اﷲ ﷺنے ہجرت کا سفر فرمایا توآپ ا کے ساتھ حضرت ابوبکرؓاور ان کے غلام عامر بن فہیرہؓتھے اور راستہ بتانے کے لیے عبد اﷲ بن اریقط لیثی مقرر تھا،جو کافر تھا۔آپ ا کی تلاش میں جب قریش نکلے تو ان سے بچنے کے لیے آپ ا اور حضرت ابوبکرؓ غارِ ثورمیں چلے گئے ۔قریش آپ کو ڈھونڈتے ہوئے آپ کے بہت قریب تک پہنچ گئے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔حضرت ابو بکرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے مشرکین کو دیکھا کہ وہ بالکل ہمارے سروں پر آپہنچے ہیں تومیں نے رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا :اے اﷲ کے رسول!اگر ان میں سے کوئی اپنے پاؤں کی طرف دیکھے گا تو اپنے قدموں کے نیچے ہی ہمیں بھی دیکھ لے گا۔رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:اے ابو بکر!تمھارا کیا خیال ہے ان دو کے متعلق،جن کا تیسرا اﷲ ہے !

مدینے میں انصار کو یہ اطلاع ہو گئی تھی کہ رسول اﷲ ا مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوچکے ہیں ،وہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد شہر کی سرحد تک پہنچ جاتے اور آپ کا انتظار کرتے اور اس وقت تک وہاں سے نہ ہٹتے جب تک دھوپ بہت زیادہ تیز بلکہ ناقابلِ برداشت نہ ہو جاتی۔رسول اﷲﷺ جب مدینہ منورہ پہنچے اس وقت انصار اسی طرح انتظار کرکے اپنے گھروں کو لوٹ چکے تھے ،سب سے پہلے ایک یہودی کی نظر آپ ا پر پڑی، اس نے زور سے آواز دے کر انصار کو پکارا کہ جس کی تم راہ دیکھ رہے تھے ،وہ آپہنچے ہیں‘یہ خبر سنتے ہی وہ دوڑ پڑے ۔تقریباً500انصاریوں نے اس مبارک قافلے کا استقبال کیا،ان میں ہر شخص چاہتا تھا کہ رسول اﷲ ﷺاس کے یہاں قیام فرمائیں۔ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:میری اونٹنی کو چھوڑدو،یہ اﷲ کی طرف ے مامور ہے ۔جب آپ ا بنی مالک بن النجار کے گھر تک پہنچے تو اونٹنی خود بہ خود بیٹھ گئی،آپ ا اترے تو حضرت ابو ایوب انصاریؓفوراً آپ ا کا سامان اٹھا کر اپنے مکان میں لے گئے اور آپ ا نے انھیں کے ہاں قیام فرمایا۔(بخاری،سیرۃ ابن ہشام)

ہجرت سے حاصل ہونے والا سبق
رسول اﷲﷺ کی ہجرت سے جو سبق ہمیں ملتا ہے ، ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دعوت و عقیدے کی خاطر ہر عزیز ومحبوب اور ہر مانوس ومرغوب چیز اور ہر اس چیز کو بے دریغ قربان کیا جا سکتا ہے ،جس کو ترجیح دینے اور جس سے محبت کا جذبہ انسان کی طبیعتِ سلیمہ میں داخل ہے لیکن عقیدہ و دعوت کو ان میں سے کسی چیز کے لیے قربان نہیں کیا جا سکتا۔مکہ مکرمہ رسول اﷲﷺ اور صحابہ کرامؓ کا وطن ہونے کے ساتھ ساتھ دلوں کے لیے مقناطیس کی سی کشش رکھتا تھا،کیوں کہ اسی مبارک شہر میں بیت اﷲ ہے ،جس کی محبت وہاں کے بسنے والوں کی روح اور خون میں ملی ہوئی تھی لیکن ان میں سے کسی چیز نے بھی آپ ا اور صحابہ کرامؓکو وطن کو الوداع کہنے سے باز نہیں رکھا۔ایسا اس لیے ہوا کہ وہ زمین اسلام کے عقیدہ و دعوت کے لیے بالکل تنگ ہو گئی تھی اور اہلِ مکہ اس دعوت و عقیدے سے منہ پھیر چکے تھے ۔(السیرۃالنبویہ للندوی)

حکمِ رب کی تعمیل
رسول اﷲ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے کس قدر محبت تھی اس کا اندازہ اس روایت سے ہوتا ہے ، جو حضرت عبد اﷲ بن عدی بن حمراء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسو ل اﷲﷺ کو مکہ مکرمہ میں’حَزورَہ‘کے مقام پر(جو کہ مکہ مکرمہ میں حضرت امِّ ہانی رضی اﷲ عنہاکے گھر کے باہر تھااور بعد میں توسیع کے وقت مسجدِ حرام میں شامل ہو گیا) اونٹنی پر سوار یہ فرماتے ہوئے سنا:اﷲ کی قسم !(اے شہرِ مکّہ)تو اﷲ تعالیٰ کی زمین میں سب سے بہترین جگہ ہے اور اﷲ تعالیٰ کے یہاں محبوب ترین ہے ،اگر مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتاتو میں ہرگز یہاں سے نہ جاتا۔(ترمذی)

ہجرت کا مبارک عمل در اصل باری تعالیٰ کے اس ارشاد کی تعمیل یا عملی تعبیر ہے :
یٰعبادی الذین آمنوا ان أرضی واسعۃ فیای فاعبدون۔
اے میرے بندوجو ایمان لائے ہو!میری زمین فراخ ہے ،پس میری ہی عبادت کرو۔(العنکبوت)

ہجرت یہ پیغام دیتی ہے کہ اﷲ وحدہ لا شریک کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے ایمان واسلام کی حفاظت وبقا کے لیے انسان اپنا گھر بار سب چھوڑدے ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں اس عظیم واقعے سے سبق حاصل کرکے اپنی تمام زندگی رسول اﷲ ﷺکی اتباع و پیروی میں گزارنے کی سعادت و توفیق عنایت فرمائے۔ آمین
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347596 views (M.A., Journalist).. View More