عبید اللہ سندھی کا فکر۔۔۔۔۔۔معاشرے میں خواتین کے مساوی حقوق

یہ حقیقت ہے کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقاء نے معاشرتی ڈھانچوں پہ گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ لیکن مرد وعورت کے تعلقات کے حوالے سے معاشرے میں عورت ایک بے جان سی شئے محسوس ہوتی ہے جو تمدّنی زندگی میں حصہ دار ہونے کے باوجود،معاشرتی زندگی کو جلا بخشنے کے باوجود امتیازی اور بے رحمانہ سلوک کا شکار نظر آتی ہے۔اس کا ذمہ دار یہ سرمایہ داری نظام ہے جس نے عورت کو ایک کمرشل جنس کے طور پہ استعمال کیا ہے۔وہی عورت ماں کی صورت میں نسلوں کو جنم دیتی ہے انکی نشوونما کرتی ہے۔اور شریک حیات کی صورت میں خاندانی اکائیوں کو منظم رکھ کر معاشرے کو ایک مضبوط سماجی نظام مہیا کرتی ہے وہی عورت جس کے بغیر تمدّن کا تصور نہیں کیا جاسکتا ذاتی ملکیت و وراثت کے حقوق سے محروم کر دی جاتی ہے ۔ مرد اس پر حکمرانی کرنا اپنا فطر ی حق سمجھتا ہے جبر سے اس کے فکری و ذہنی ارتقاء پر بندشیں لگاتا ہے ۔اس کی فطری نشوونماء جس سے اس کی شخصیت کو ابھرنے کا موقع ملتا کودبایا جاتا ہے ایک مصنف کے بقول ’’مردوں نے اپنی پوری زندگی میں عورت کے منافع بخش استعمال کے لئے سینکڑوں طریقے وضع کئے ہیں یہ تمام طریقے مرحلہ وار معاشرتی و معاشی زندگی میں معمول بنتے چلے گئے۔ان طریقوں کی وضعت میں مرد کے دو ہی بڑے اور مرکزی مقاصد تھے ایک نفسانی خواہشات کی تکمیل دوسرے ملکیت میں اضافہ ۔‘‘ ( 1)

قومی زندگی کی تشکیل اور اسکی ترقی میں خواتین کے کردار کو مولانا سندھی نے بنیادی اہمیت دی ہے۔انہوں نے مرد وعورت کے رشتے کو مساوی قرار دیا،کہتے ہیں’’شادی کرو اور بیوی کو برابر کا رفیق اور مساوی مرتبے کا ساتھی سمجھو‘‘(2)

عورتوں کے ساتھ گھریلو سطح پہ ہونے والے سلوک کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے اس کے اجتماعی اثرات پہ بحث کرتے ہوئے مولانا بیان کرتے ہیں’’ہمارے ہاں یہ ہوا کہ ہم نے بیویوں کو اپنا محکوم بنایا اورانہیں ذلیل سمجھا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں کی فضا محکومی اور ذلت سے آلودہ ہو گئی ہم اس فضا میں سانس لیتے ہیں اور ہمارے بچے اس میں پلتے ہیں۔چنانچہ ہماری اس گھر یلو زندگی کا اثر ہمارے گھر سے باہرپوری زندگی پر پڑا۔جس طرح ہم نے گھر کے اندر اپنی عورتوں کو محکوم اور ذلیل سمجھا،اسی طرح ہم گھر کے باہر خود بھی ذہناً،طبعاً اور اخلاقی لحاظ سے محکوم اور ذلیل ہو گئے۔ہماری اولاد اس سانچے میں ڈھلتی چلی گئی سچ پو چھو! ہماری موجودہ قومی پستی،جمود،بے ضمیری اور عدم اثبات و استقامت بہت حد تک ہماری اسی گھریلو زندگی کی وجہ سے ہے ۔اب اگر ہمیں آزاد ہونا ہے اور اس دنیا میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی اپنے اندر ہمت پیدا کرنا ہے تو ضرورت ہے کہ ہم اپنی عورتوں کے اندر عزت نفس اور رفاقت کا شعور پیدا کریں۔‘‘(3)

گویا مولانا سندھی کے نزدیک بہترین معاشرہ وہ کہلاتا ہے جس کے اندر عورت کی عزت ہو اسے گھروں کے اندر کم تر نہ سمجھا جائے، ان کے حقوق اور ان کی عزت نفس کا تحفظ ہو، انہیں سماجی زندگی کی تشکیل کے کردار میں برابر سمجھا جائے، مساوی حقوق حاصل ہوں مرد اس کو اپنا مطیع سمجھنے کی بجائے اپنی زندگی کا ساتھی سمجھے اور انفرادی اور اجتماعی امور میں اس کی رائے کو اہمیت دے، مشاورت کے عمل میں اس کو شامل کرے ، اور ایسا ماحول پیدا ہو جس میں اس کو کمتری کا احساس نہ ہو، پھر جب اولاد ہو تو بچوں اور بچیوں میں کسی قسم کی تفریق کو نہ پیدا کیا جائے تاکہ ان کے اندر حریت اور خود اعتمادی پیدا ہو ، اور وہ سماج کی بہتر تشکیل میں اپنا بہترین کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں ۔

آپ نے اپنے سیاسی پروگرام میں بلا امتیاز مرد و خواتین کو معاشرے میں بنیادی حقوق کا حقدار قرار دیا ہے۔مثلاً جمنا نربدا سندھ ساگر پارٹی کے منشور میں یہ الفاظ کہ ’’ہر مرد اور عورت کا مساوی حق ماننا اور جمہوری نظام پر فوقیت دینا‘‘(4)یعنی ایک جمہوری معاشرے کے قیام میں خواتین کا بھی وہی کردار ہونا چاہئے جو کہ مردوں کا ہے، سیاسی نظام کی تشکیل، معاشرتی ذمہ داریوں کے حوالے سے مرد و عورت میں میں کوئی امتیاز نہ ہو۔ اس کے علاوہ مولانا سندھی ملکی اور قومی ترقی میں مرد وعورت دونوں کے مشترکہ اور برابری کی سطح کے کردار کو ضروری سمجھتے ہیں۔لہذا وہ سندھ ساگر پارٹی کے اساسی اصول میں بیان کیا گیا ہے’’ترقی یافتہ یورپ کی صنائع کو اپنے ملک میں پیدا کرنے کے لئے اور وطن کی خدمت اور حفاظت میں مرد وعورت کو جواں مردی سکھلانے کے لئے یورپین معاشرت اختیار کرنا۔‘‘(5)

یہاں یورپی معاشرت سے مراد جدیدسائنس اور ٹیکنالوجی اور دیگر شعبہ جات جن کا تعلق سیاسی و معاشی نظاموں سے ہے کے علوم کو سیکھ کر عملی طور پرقومی دھارے میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کر سکے۔ اگر اس پہلو کی مزید وضاحت کی جائے تو اس سے مراد یہ ہے کہ خواتین اکنامکس کا علم اور مہارتیں سیکھ کر معاشیات واقتصادیات کے تمام شعبوں میں کام کر سکتی ہیں،سائنسی علوم میں مہارت حاصل کر کے سائنسدان بن سکتی ہیںِڈاکٹر، پائلٹ بن سکتی ہیں، خلانورد بن سکتی ہیں۔اسی طرح فوجی علوم وتربیت کے ذریعے خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ خواتین معاشرتی ترقی میں جسمانی و دماغی خدمات انجام د ے سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں کسی قسم کا امتیاز نہیں رکھا جا سکتا۔

معاشرے میں علم کی تحصیل کے حوالے سے جہاں مردوں کی تعلیم کو ضروری قرار دیتے ہیں وہاں خواتین کو بھی اسی درجہ پہ رکھتے ہیں اس سلسلے میں سندھ ساگر پارٹی کے عملی سیاسی اصول میں بیان کیا گیا ہے ’’پارٹی کے ہرتعلیم یافتہ ممبر کا فرض ہو گا کہ وہ ہر مرد و عورت کو لکھنا پڑھنا سکھائے۔‘‘(6)

لب لباب یہ کہ مولانا سندھی کے نزدیک سماجی زندگی میں خواتین کو برابری کاساتھی سمجھنا ، ا ن کی عزت نفس کا خیال رکھنا، اور زندگی کے تمام معاملات میں ان کو ساتھ لے کر چلنا قومی زندگی کی کامیاب تشکیل میں اہم اور ضروری ہیں نیز ان کی سیاسی عمل میں شرکت،تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر سماج کی فعال رکن بننا ان کا حق قرار دیتے ہیں۔

مولانا سندھی کے اس نقطہ نظر کی آج کے اس صنعتی دور میں نہایت اہمیت ہے، خواتین آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے اور کسی بھی قوم کی مجموعی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ انہیں سیاسی اور قانونی تحفط فراہم کیا جائے، ایسے قوانین اور سماجی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کا کھل کر اظہار کر سکیں اور انفرادی اور اجتماعی کردار ادا کر سکیں۔

(حوالہ جات)
1۔سرکار زینی جار چوی،مادر کائنات ،کراچی،شمع بک ایجنسی ،۲۰۰۰ء،ص ۲۷۸
2۔۔عبیداللہ سندھی،مولانا،افادات وملفوظات(مرتبہ پروفیسر سرور)لاہور،سندھ ساگر اکیڈمی،۱۹۹۶ء ،ص۴۸۳
3 ۔ایضاً ،ص۴۸۳
4۔محمدسرور،پروفیسر،خطبات ومقالات مولانا عبید اللہ سندھی(ترتیب وتقدیم مفتی عبد الخالق آزاد)لاہور،دار التحقیق والاشاعت،لاہور۲۰۰۲ء،،ص۲۹۶
5۔ایضاً،ص۲۹۷
6 ۔ایضاً،ص۲۹۹تا۳۰۰
 
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 136296 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More