۳ اگست ۲۰۱۳ء کو فرمان فتح پوری ہمیں داغِ
مفارقت دے گئے۔ فرمان فتح پوری کا اصل نام سیّد دلدار علی تھا۔ آپ ۲۶ جنوری
۱۹۲۶ء کو ریاست اتر پردیش (انڈیا) کے شہر فتح پور کے قریب واقع گاؤں ہسوا
میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۳۳ء میں آپ کے والد کا انتقال ہو گیا جب آپ کی عمر صرف ۷
سال تھی ۔ آپ کے والد سیّد عاشق علی پولیس کے محکمے میں سب انسپکٹر کے عہدے
پر فائز تھے۔ والد کی وفات کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کی والدہ پر
آپڑی جنہوں نے یہ ذمہ داری بڑے احسن طریقے سے نبھائی۔ ابتدائی تعلیم مکمل
کرنے کے بعد آپ کو فتح پور کے ہائی سکول میں داخل کرا دیا گیا جہاں سے
۱۹۶۶ء میں آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ آپ نے میٹرک کے فوراً بعد
گورنمنٹ مسلم ہائی سکول فتح پور سے بحیثیت استاد ملازمت کاآغازکیا۔۱۹۴۸ء
میں آپ نے حلیم انٹر کالج کانپور سے ایف ۔اے اور ۱۹۵۰ء میں کرائسٹ چرچ
کالج کانپور سے بی اے کیا۔ بی ۔اے کرنے کے بعد جون ۱۹۵۰ء میں آپ نے
پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔کراچی پہنچتے ہی آپ نے سول
ایوی ایشن میں لوئر کلرک کی حیثیت سے کام شروع کیاتاہم جلد ہی آپ کو
اے۔جی۔پی۔آر میں کلرک کی ملازمت مل گئی۔چونکہ اے۔جی۔پی۔آر میں ترقی کے
مواقع قدرے زیادہ تھے اس لئے آپ نے سول ایوی ایشن کو خیرباد کہہ کر
اے۔جی۔پی۔آرکراچی میں مستقل ملازمت اختیار کر لی۔ اے۔جی۔پی۔آرمیں محکمانہ
امتحان میں کامیابی کے بعدآپ ڈویژنل اکاؤٹینٹ بن گئے لیکن آپ کی منزل یہ نہ
تھی۔آپ کو اُردو سے والہانہ محبت تھی اور علامہ نیاز فتح پوری اور مولانا
حسرت موہانی کی صحبت نے اس شوق کو مزید جِلا بخشی۔آپ کوعلم و ادب سے جو
محبت تھی اس کا ثبوت آپ نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ کر دیا۔ کراچی پہنچنے
کے بعد آپ نے ۱۹۵۳ء میں ایس ایم لاء کالج سے ایل ایل بی اور ۱۹۵۵ء میں بی
ٹی کیا۔ اس کے بعد وہ کو توال بلڈنگ کے سکول میں انگریزی اور ریاضی کے
اُستاد مقرر ہوگئے۔ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا اور
۱۹۵۸ء میں آپ نے کراچی یونی ورسٹی سے ایم۔اے اردو کرلیا۔ایم ۔اے کرنے کے
بعد کراچی یونی ورسٹی میں بحیثیت لیکچرار تعینات ہوئے۔۱۹۶۵ء میں آپ نے پی
ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۷۴ء میں ڈی لِٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے آپ
پہلے پاکستانی شہری تھے۔ آپ ۳۰ سال تک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے ۔
آپ کا زیادہ وقت کراچی یونیورسٹی میں گزرا جہاں آپ نے سینکڑوں طالب علموں
کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا ۔۱۹۸۵ء میں ڈاکٹر ابو الیث صدیقی کے سبکدوش
ہونے کے بعد آپ کو اردو ڈکشنری بورڈ کا سیکرٹری بنایا گیا۔چونکہ آپ ڈاکٹر
ابو الیث صدیقی کے شاگردِ خاص تھے اس لئے انہوں نے اردو ڈکشنری بورڈ کے لئے
آپ کا نام تجویز کیا۔۱۹۹۶ء میں آپ کو سندھ حکومت کے سول سروس بورڈ کا ممبر
بنایا گیا۔ درس و تدریس کے علاوہ ادبی میدان میں بھی آپ نے کارہائے نمایاں
انجام دیئے۔ آپ کے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری
اپنے ادبی سفر کے بارے میں خودفرماتے ہیں’’مرا پہلا عشق شاعری تھا۔سکول کے
زمانے میں شاعری کا آغاز کیا اورمیری بہت حوصلہ افزائی ہوئی۔۱۹۴۰ء سے
۱۹۵۰ء کے دوران میں نے اپنے آپ کو اپنے شہر کی حد تک منوا لیااور میرا
شمار شہر کے معروف شعراء میں ہونے لگا‘‘بعد ازاں ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے
تحقیق و تنقیدکی طرف توجہ مبذول کی اور اسی کے ہو کر رہ گئے۔آپ۶۰ سے زائد
کتابوں کے مصنف تھے اورغالب شناسی میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں آپ
نے تحقیق و تنقید ، اقبالیات اور لسانیات میں کافی کام کیا۔آپ کی چیدہ چیدہ
کتب کے نام کچھ یوں ہیں۔اردو رباعی،تدریسِ اردو،تحقیق و تنقید،نیا اور
پرانا ادب،نواب مرزا شوق کی مثنویاں، قمر زمانی بیگم،زبان اور اردو زبان،
اردو املا اوررسم الخط ،اردو کی نعتیہ شاعری،تاویل و تدبیر،اقبال سب کے
لئے،فنِ تاریخ گوئی،اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری(پی ایچ ڈی
مقالہ)،اردو کی منظوم داستان (ڈی لِٹ مقالہ)میر انیس ۔حیات اور شاعری ،غالب
شاعر امروز و فردا،دریائے عشق اور بحرِ محبت کا تقابلی جائزہ،اردو افسانہ
اور افسانہ نگاری،ہندی اردو تنازعہ،نیاز فتحپوری۔دیدہ شنیدہ ،عورت اور فنون
ِ لطیفہ،غزلیات ِ غالب ۔شرح و متن ،اردو کی ظریفانہ شاعری،اردو فکشن کی
مختصر تاریخ ،اردو کی بہترین مثنویاں اورارمغانِ گوکل پرشاد۔آپ نے ’’بلا
جواز‘‘ کے نام سے اپنی سوانح عمری بھی تحریر کی۔نیاز فتح پوری آپ کے روحانی
پیشوا تھے۔ نیاز فتح پوری نے ۱۹۲۲ء میں لکھنو سے ادبی جریدہ ’’نگار‘‘ شروع
کیا۔ علامہ نیاز فتح پوری کی وفات کے بعد آپ ’’نگار‘‘ کے مدیر رہے۔آپ کی
ادبی خدمات کے عوض آپ کو۱۹۸۵ء میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ دیا گیا۔آپ نے ۸۵ سال
کی عمر میں ۳ ،اگست ۲۰۱۳ء کو وفات پائی۔آپ کی نماز جنازہ مسجد خلفائے
راشدین ،بلاک ۱۳۔ڈی ون گلستان اقبال کراچی میں ۴ ،اگست کو ادا کی گئی۔آپ
کوکرا چی یونی ورسٹی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔آپ کی اولاد میں دو بیٹے
اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔
|