نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، درپیش چیلنجز
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے انفرنٹری بلوچ
رجمنٹ کے جنرل قمر جاوید باجوہ کا بطور نئے آرمی چیف تقرر کیا ہے جبکہ جنرل
زبیر حیات چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مقررکیے گئے ہیں اور انہیں
لیفٹیننٹ جنرلز سے جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی ہے۔جنرل راحیل شریف اپنی
تین سالہ مدت پوری کر کے ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔جنرل راحیل شریف نے آرمی چیف کی
حیثیت سے دہشت گردی کے خلاف بھر پور اقدمات کئے ۔جنرل راحیل شریف کے دور
میں دہشت گردی کے ایسے سنگین ترین واقعات ہوئے جس کے بعد ملک میں سرکاری
سطح پردہشت گردی کے خلاف مزید سخت تر اقدامات کئے گئے۔ملک میں دہشت گردی کے
خلاف کاراوئیوں کے علاوہ بھارت کے ساتھ بھی تعلقات تنائو میں رہے اور جنرل
راحیل شریف کی ریٹائر منٹ کے وقت یہ کشیدگی جنگی خطرات تک پہنچ چکی ہے۔اسی
دور میں شروع ہونے والے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی زمینی اور
سمندری علاقے میں مکمل حفاظت کی نئی ذمہ داری بھی بخوبی ادا کی۔جنرل راحیل
شریف کے دور میں ہی عمران خان اور طاہر القادری نے پارلیمنٹ کے سامنے طویل
دھرنا دیا جس سے راہداری منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔اسی دور میں سول اور
ملٹری تنائو کی صورتحال بھی سامنے آتی رہی لیکن صورتحال ابتری کی طرف نہیں
گئی۔اسی دور میں ایسا طبقہ سرگرم نظر آیا جو ملک میں فوج کے اقتدار پر قبضے
کا متمنی ہے۔
نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو درپیش چیلنجز میں سر فہرست بھارت کے
بڑہتے ہوئے ہمہ گیر خطرات سے نبرد آزما ہونا ہے۔بھارت نے پاکستان کے اندر
جنگ چھیڑ دی ہے اور اب سرحدوں پر فوجی اجمتاع اور کشمیر کی کنٹرول لائین سے
فائرنگ اور گولہ باری سے پاکستان کو زیادہ سے زیادہ دبائو میں لانے کی جنگی
حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔جنرل راحیل شریف کے '' نیو وار ڈاکٹرائن'' میں
پاکستان کے لئے زیادہ خطرات کا موجب مشرقی کے بجائے مغربی سرحد کو قرار
دینے سے بھی مد مقابل دشمن بھارت ہی نظر آیا جو افغانستان کو پاکستان کے
خلاف استعمال کر رہا ہے۔نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کوکشمیر کے امور
کا وسیع تجربہ ہے۔ اسی حوالے سے پاکستان کو بھارتی عزائم کے خطرات کے پیش
نظر ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے۔گزشتہ تیس سال سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت
سے آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے کشمیریوں کی جدوجہد سیاسی اور عسکری طور
پر جاری ہے اور اب مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی سیاسی جدوجہد بھارت کے خلاف
بھرپور عوامی مزاحمت کی صورت بھارت کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔مقبوضہ
کشمیر میں شدید عوامی مزاحمت کے نتائج سے خوفزدہ بھارت پاکستان کے ساتھ
جنگی کشیدگی سے مقبوضہ کشمیر کے منظر نامے کو بدلنے کی کوشش میں ہے۔یہ بات
اب واضح طور پر محسوس کی جاتی ہے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے سرگرم اور موثر
حکمت عملی نہیں اپنائی گئی ۔پاکستان کے خلاف بھارت کے دیرینہ مذموم عزائم
کو ناکام بنانے کے لئے لازم ہے کہ کشمیر کے حوالے سے مضبوط پالیسی اپنائی
جائے۔پاکستان کی کشمیر پالیسی کو مضبوط اور موثر بنانے کے کئی عنوانات ہیں
جن پر کام کرنا ضروی ہے۔
کشمیر کے حوالے سے نرم انداز اپنانے سے بھارت کی یوں حوصلہ افزائی ہوئی ہے
کہ اب بھارت اعلانیہ طور پر بلوچستان ہی نہیں بلکہ گلگت بلتستان اور آزاد
کشمیر میں بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔پاکستان کے
پالیسی سازوں کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہی ہو گا کہ کشمیر پاکستان کے دفاع
کا آخری مورچہ ہے ۔پاکستان میں اس سوچ کے پرچاری بھی نظر آتے ہیں جو بھارت
کے خلاف پاکستان کو کم سے کم خطرے میں ملوث کرنے کی بات کرتے ہیں۔لیکن ان
کی طرف سے یہ حقیقت فراموش کر دی جاتی ہے کہ جارحانہ انداز بھارت کی طر ف
سے ہے،کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت و مددکو کسی طور بھی پاکستان کی
جارحانہ پالیسی قرار نہیں دیا جا سکتا۔پاکستان کو بھارت کے خلاف کسی بھی
قسم کی کمزوری دکھانے کے بجائے اس کا بھرپور مقابلہ کرنے کی سوچ اور فکر کو
فروغ دینا ہے کیونکہ اس کے بغیر پاکستان کے خلاف بھارتی عزائم کو ناکام
بنانا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو سکتا ہے۔ہمیں اس نظرئیے پر محدود نہیں
رہنا کہ بھارتی جارحیت کو کیسے اپنے علاقوں میںروکا جائے گا اور اس کے لئے
ایٹمی صلاحیت کی بات بھی کی جاتی ہے، پاکستان کو بھارتی علاقوں پر قبضے کی
جنگی حکمت عملی پر بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔اقتصادی راہداری منصوبے کی
صورت اب پاکستان کا دفاع چین کی بھی ذمہ داری بن چکا ہے۔جنگ کی ہمت بھارت
بھی نہیں کر ے گا لیکن ہمیں بھارت کے سامنے کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ
کرنے کے اجتناب کی سوچ اور عمل کو مضبوط بنانا ہے۔
قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کے بعد دہشت گردی
کے خلاف کاروائیوں کے لئے موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے ۔اس کے لئے
فوجی کاروائیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ذرائع بروئے کار لانا بھی اہم ہے۔اب
پاکستان میں دہشت گرد گروپ پاکستان دشمن ملکوں کی طرف سے پاکستان کو کمزور
کرنے کی 'پراکسی وار' کے طور پر بھی نظر آ رہے ہیں۔اس کے لئے ہمیں اپنے
کنٹرول اور انٹیلی جنس کو موثر طور پر بروئے کار لانا چاہئے۔گزشتہ چند سال
سے پاکستان میں یہ سوچ مضبوط ہوئی ہے کہ امریکہ پر کلی انحصار کی پالیسی
تبدیل کی جائے ۔ملک میں دہشت گردی کے حوالے سے یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ
ڈالر اتنا طاقتور ہے کہ وہ پاکستان میں کچھ بھی کرا سکتا ہے۔امریکہ میں سخت
گیری کا تاثر دینے والے ڈونلڈ ٹرمپ اگلے ماہ نئے صدر کا عہدہ سنبھالیں گے
۔وہ افغانستان،جنوبی ایشیا کے بارے میں کون سی حکمت عملی اختیار کرتے
ہیں،اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔پاکستان کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہونے کے
باوجود یہ دہشت گردی امریکی سربراہی والے دہشت گردی کے عالمی ایجنڈے کا حصہ
بھی ہے ،اس لیئے ملک میں دہشت گردی کی صورتحال کا انحصار امریکی پالیسیوں
پر بھی ہے۔
گزشتہ عرصہ میںحکومت اور فوج کے درمیان اختلافی امور منظر عام پر آئے جس سے
اس سرکاری دعوے پر کئی سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے کہ '' حکومت اور فوج ایک
پیج پہ ہیں''۔ملک میں فوج کی بالادستی کا تصور اب بھی کارفرما نظر آ رہا
ہے۔بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کی لئے ہماری قوت مضبوط ہو سکتی ہے لیکن
سیاسی کمزور ی ہوتے ہوئے ملک کے مضبوط ہونے کا دعوی نہیں کیا جا سکتا۔ نئے
آرمی چیف اگلے تین سال اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیں گے تاہم وزیر اعظم نواز
شریف کو دو سال سے کم عرصے کے بعد عام انتخابات میں عوام کے سامنے پیش ہونا
ہے۔وزیر اعظم نواز شریف،مسلم لیگ(ن) کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر چوائس
کہا جا سکتا ہے لیکن عوام کے لئے سرکاری محکموں کی کارکردگی بہتر نہ بنانے
،عوامی مسائل،شکایات پر توجہ نہ دینے،جماعت میں سیاسی اصولوں کی ترویج نہ
کرنے اور خاندانی سیاست و حاکمیت کو محدود نہ رکھنے کے عوامل ایسے ہیں جو
عمران خان کی طرز سیاست کے باوجود ،انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اورعام
انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کی اکثریت میںکمی آ سکتی ہے۔موجودہ حکومت کے ختم
نہ ہونے اورجنرل راحیل شریف کے اپنے معیاد عہدہ پر ریٹائرڈ ہونے سے ملک میں
پارلیمنٹ کی بالادستی کی طرف کچھ پیش رفت تو ہوئی ہے لیکن پارلیمنٹ کی
بالادستی کے لئے سیاسی جماعتوں کے نام پرشخصی،خاندانی،علاقائی،فرقہ وارانہ
اور این جی او ٹائپ گروپوں کے بجائے ملک میں حقیقی سیاسی کلچر کی تشکیل و
ترویج پر توجہ دینی ناگزیر ہے جو کسی صورت بدعنوان نہیں ہوتی اور اپنی
بدعنوانی کے عوض'' بار گینگ'' پر مجبور نہیں ہو سکتی۔ طبقاتی ، معاشی عدم
مساوات اور عوام کے لئے سرکاری محکموںکی بدترین کارکردگی،بشمول پولیس،عوام
ہی نہیں ملک کے لئے ایسا مستقل مسئلہ ہے جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے
خطرات کا موجب بھی بن سکتا ہے۔نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ایک تجربہ
کار اور قابل فوجی کمانڈر ہیں اور بجا طور پر ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ
پاکستان کے دفاع،مضبوطی اور استحکام کے حوالے سے پاکستان کو بہتری کی جانب
گامزن کریں گے۔ |
|