تحریک انصاف میں ایک نئے ترجمان کو شامل
کیا گیا ہے۔ جناب فواد چودھری کا تعلق لدھڑ کے معروف سیاسی گھرانے سے
ہے۔چودھری الطاف حسین بے نظیر دور میں گورنر پنجاب رہے ہیں صرف گورنر ہی
نہیں تھے ایک دانشور اور زیرک سیاست دان بھی تھے انہوں نے اپنے زمانے میں
سید ابوالاعلی مودودی کی میزبانی بھی کی۔اسی گھرانے کے فرخ الطاف ضلع ناظم
بھی رہے ہیں اور اسی گھر سے ہمارے دوست چودھری شہباز حسین شوکت عزیز کی
کابینہ میں وزیر بہبود آبادی بھی رہے ہیں چودھری صاحب کے ساتھ جدہ میں خوب
وقت گزرا ہے۔پاکستان میں کئی سیاسی گھرانے ہیں جو اپنا وزن سوچ سمجھ کر کسی
پارٹی کے نام کرتے ہیں ان کا اپنا ایک ووٹ بینک ہوتا ہے۔ان سے یہ توقع کرنا
کہ وہ جس کے ساتھ رہے گیں انہی کے ہو کر رہ جائیں گے یہ ناممکن ہے چودھریز
آف لدھڑ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ق اور اب اس کے بعد تحریک انصاف میں آئے
ہیں۔فواد چودھری گزشتہ چند سالوں میں اس لسٹ میں شامل رہے ہیں کہ جن کے
بارے میں بڑا سوچ سمجھ کے کہنا پڑتا ہے کہ وہ آج کل کس پارٹی میں ہیں۔انہوں
نے ضمنی الیکشن سے چند روز پہلے پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کیا شمولیت
کے بعد ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ بنی گالہ کا طواف کرنے کی بجائے وہ
حلقے میں نکل گئے۔فرخ الطاف کا آمرانہ اور کھڑپینچی کا انداز چودھری شہباز
حسین کی انکساری اور خود فواد چودھری کی شاطرانہ چالوں نے ایک ایسا الیکشن
جس کے بارے میں دوستوں کی رائے تھی کہ یہ سیٹ بھی گئی اور جائے گی بھی تیس
پینتیس ہزار کے فرق سے کے تآثر کو دفن کر دیا۔رات دن محنت کر کے لدھڑ کے
چودھریوں نے یہ معرکہ سر کر ہی لیا لیکن وہ چند ہزار کے فرق سے ہار گئے اور
اس ہار پر فخر ہی کیا جا سکتا ہے بکسے صبح تک آتے رہے اور نتیجہ گزشتہ رات
کو آ گیا۔دنیا نے اس ہار کو ان کی جیت مان کر قبول کیا۔چودھری فواد نے ثابت
کیا کہ وہ ورکر ہے اور وہ جنگ لڑنا جانتا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ جماعت
اسلامی کو راضی کر لیتے اور مرزا جہلمی کو بھی گلے لگا لیتے۔یقین کیجئے یہ
فتح ہوتی میں جہلم جا نے کی تیاری میں تھا لیکن مرزا صاحب شائد ٹکٹ کے دنوں
میں فیصلہ کر چکے تھے کہ مل گیا تو ٹھیک ورنہ پیپلز پارٹی میں چلا جاؤں
گا۔ہماری پارٹی میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم ایک کو راضی اور ایک کو
ناراض ضرور کرتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا مرزا صاحب کو جو دھرنے کے دنوں میں
ڈی چوک میں ہی رہے انہیں بلا کر کہا جاتا کہ یہ ٹکٹ آپ اپنے ہاتھوں سے فواد
کو دیں۔یہ دل لگیاں آتی کسے ہیں؟چودھری شہباز بڑے قد کاٹھ کے عظیم دوست ہیں
گزشتہ تیس سالوں سے یاد اﷲ ہے،بات ان کے ہاتھ میں نہ تھی۔البتہ اس خامی کے
باوجود چودھری فواد حسین نے بلا لے کر نواب زادہ خاندان کو چکرا کے رکھ
دیا۔اس الیکشن نے ان بھاری بھر کم چودھریوں کے وزن میں مزید اضافہ کیا۔ان
لوگوں نے پارٹی ٹکٹ لے کر اپنی انا اور چودھراہٹ کو سنبھالا دئے رکھا کسی
گروہ کا ساتھ نہیں دیا اور پارٹی کو یہ پیغام دیا کہ پارٹی اپنی جگہ ہم خود
ایک گروپ ہیں۔
فواد چودھری ایک کامیاب اینکر پرسن ہے تجزیہ کار ہے میں نے ایک سال پہلے
کالم لکھا تھا جس میں کہا تھا کہ فواد چودھری کی نظر پی ٹی آئی کے میڈیا
ڈیپارٹمنٹ پر ہے۔وہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے بارے میں شدید الفاظ کا
استعمال کر چکے ہیں ان کے یہ الفاظ شیخ رشید بابر اعوان کی دھول میں کھو
گئے ہیں۔پارٹیوں میں یہ کوئی معیار ہے ہی نہیں ہے کل کے دشمن آج کے دوست
اور آج کے دوست کل کے دشمن ہو سکتے ہیں۔جیو تو روز ہی یاد کراتا رہتا ہے کہ
عمران خان نے شیخ رشید کے بارے میں کیا کہا اور شیخ صاحب کیا کہتے رہے ہیں
یہی ماجرا بابر اعوان کا ہے مزے کی بات ہے دونوں پنڈی کے شیر سکون جا کر
بنی گالہ ہی پاتے ہیں۔ اور ایک تصویر میں فواد چودھری نے بھی انصاف قبول کر
لیا ہے۔
چودھریوں کو گرچہ بلدیاتی انتحابات میں گھر سے مار پڑی تھی وہ بھی خیر سے
پی ٹی آئی کی اپنی گروہ بندی کی وجہ سے تھی فوق چودھری جو جاوید چودھری کے
فرزند سے ہار گئے لیکن انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقے میں جان لڑا کر ثابت
کیا کہ لدھڑ ہاؤس زندہ ہے اس میں پی ٹی آئی کے بلے نے دھوم مچا کر الیکٹیبل
تھیوری کو طاقت بخش دی۔یعنی تبدیلی کا مین پوسٹ آفس الیکٹیبلز ہی ہیں۔
رہی بات انہیں ترجمان مقرر کر نے کی تو پارٹی کے کئی ترجمان ہیں لیکن ان کے
چیف اب بھی نعیم الحق ہیں۔نعیم الحق عمران خان کے برسوں سے ساتھی ہیں۔اس سے
پہلے وہ سندھ کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور وہ عمران خان کے لئے اپنی بیگم کی
وفات کے بعد بوریا بستر سنبھال کر بنی گالہ اپنی رہائش گاہ میں منتقل ہو
گئے ہیں جو کرایہ کی ہے۔عمران خان کی تیزیوں کا ساتھ جناب نعیم الحق ہی دے
سکتے ہیں یا عون چودھری یہ وہ لوگ ہیں جن کا مرنا جینا عمران خان کے ساتھ
ہے۔یہ چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ہے جو اور کسی کے بس کی بات نہیں۔تحریک انصاف
کا سیکریٹری اطلاعات ہونا الگ بات ہے عمران خان کا چیف آف پروٹوکول کی ذمہ
داری نعیم الحق ادا کر رہے ہیں ان کی جگہ کوئی اورنہیں لے سکتا۔میڈیا
ڈیپارٹمینٹ ایک سال سے میجر (ر) افتخار درانی کی زیر نگرانی ہے اور پورا
ڈیپارٹمنٹ کل وقت ملازمین کی وجہ سے چلایا جا رہا ہے جن کو اﷲ نے صلاحیت کے
ساتھ پارٹی سے وفاداری کی خوبی بھی دے رکھی ہے۔
لوگ دور کی کوڑی بھی لاتے ہیں شنید یہ بھی ہے کہ لندن میں قیام کے دوران
سپریم کورٹ میں پاکستان عوامی تحریک کے جناب گنڈاہ پور سے نعیم الحق کی تلخ
کلامی کا معاملہ بھی گونجتا رہا ۔بے وثوق ذرائع کہتے ہیں کہ نعیم الحق سے
بابا جی ناراض ہیں حالانکہ جناب گنڈا پور اس دن گندا پور واقع ہوئے تھے۔کچھ
لوگ وہاں خاموش تھے۔بہر حال میں نے لفظ با وثوق کی بجائے بے وثوق استعمال
کیا ہے۔اﷲ کرے غلط ہو۔
ہمارے بہت سارے دوست سمجھتے ہیں کہ ٹی وی پر آ کر چیخنے چلانے سے بندہ
سیکریٹری اطلاعات بن جاتا ہے یہ تھیوری سراسر غلط ہے۔سیف اﷲ نیازی کے منظر
عام سے ہٹنے کے بعد پارٹی کارکنوں کی نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر
سے بھی رونا دھونا سننا نعیم الحق کا ہی کام ہے میں تو کہتا ہوں انہیں کل
وقتی سیکرٹری تعلقات عامہ و امور چیئرمین لگا دیا جائے۔کبھی آپ ان کے دفتر
میں چلے جائیں ایک ہاتھ میں فون اور سامنے ہمہ وقت ہجوم کارکناں انہیں اپنے
اپنے دکھڑے سناتا نظر آتا ہے۔نعیم الحق کا کمال ہے سب کی سنتے ہیں ہر کسی
کو تسلی دیتے ہیں سارے بیٹا لے کے جاتے ہیں کام ہو نہ ہو بندہ وہاں سے باہر
آ کر نعیم الحق زندہ باد کا نعرہ ضرور لگاتا ہے۔نعیم الحق عمران خان کا دست
راست ہیں۔ کارکنوں کی آواز ہیں۔کمال کے غیرب پرور ہیں میں نے اپنی آنکھوں
سے بیرون ملک پاکستانیوں سے بات کرتے دیکھا اور انہیں غریب لوگوں کی
ملازمتیں کرواتے پایا۔میں نے جب بطور ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات ۲۰۰۷ میں جوائن
کیا اس وقت اکبر ایس بابر پھر احمد اویس ان کے بعد عمر چیمہ،بعد میں شیریں
مزاری پھر عمر چیمہ ان کے بعد نعیم الحق آئے۔اب بھی جو اضافہ ہوا ہے وہ ایک
ترجمان کی حیثیت سے فواد چودھری کا ہوا ہے۔پانامہ لیکس میں ان سے ترجمانی
کا کام لیا جائے گا وہ ایک وکیل بھی ہیں جوان بھی ہیں اور تند و تیز مقرر
بھی۔میں انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتا ہوں۔اور برادر نعیم
الحق کے لئے نیک تمنائیں میرے دل میں ہیں اور قلم کی نوک پر بھی۔ان کے دور
میں ان کے دست و بازو کٹ گئے اس پر ان سے پیار بھرا گلہ ضرور ہے اور اتنا
ضرور کہوں گا انسان کی طاقت اس کے دوست ہوتے ہیں ۔ اﷲ تعالی انہیں اور پی
ٹی آئی کو کامیابیاں دے آمین۔ |