والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کی کارکردگی میں حیرت انگیز تبدیلی کیسے ممکن ہوئی ؟

شاید وقت کا قطب بدل گیا ہے .......
آٹھ دس سال پہلے کور کمانڈر لاہور کے حکم پر میں نے کینٹ ایریا کی تاریخ اور خوبصورتی پر ایک تفصیلی آرٹیکل لکھا تھا۔اس مقصد کے لیے اس وقت کے آئی ایس پی آر کے انچارج میجر اور موجودہ بریگیڈئر سید شاہد عباس نے میری رہنمائی فرمائی تھی ۔جن کے ساتھ میں لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کے آفس گیا وہاں میری ملاقات چیف ایگزیکٹو آفیسر میجر (ر)ظفر سے ہوئی۔ انہوں نے مختصرا کنٹونمنٹ ایریا کے چیدہ چیدہ پراجیکٹوں پر مجھے بریفنگ دی ۔ پھر سید شاہد عباس کینٹ ایریا کے خوبصورت مقامات ، پارک ، باغیچے اور باغیچوں میں کھلے ہوئے گلاب اورموتیاکے پھول دکھانے کے لیے مجھے اپنے ساتھ لے گئے ۔ اس وقت کینٹ ایریا ایک مثالی علاقہ تھا۔ جہاں دور تک پھیلا ہوا سبزہ ، قدیمی درختوں کی بہتات، خوبصورت چوراہے ، پارک اور شفاف سڑکیں نظر آئیں ۔ صفائی کا مناسب انتظام ہونے کی بنا پر آلودگی ڈھونڈے سے بھی نہیں ملی۔یہ وہ دن تھے جب لاہور شہر ڈینگی بخار کے پھیلاؤ کی وجہ سے پورے ملک میں مشہور ہوچکا تھا ۔شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں ڈینگی کا مریض نہ ہو۔ اس کے باوجود کہ کینٹ ایریا میں ڈینگی کے مریض نہ ہونے کے برابر تھے پھر بھی کنٹونمنٹ بورڈ نے خالد مسجد کے قریب سی ایم ایچ کے کرنل اعجاز سینئر میڈیکل آفیسر کی قیادت میں ڈینگی سنٹر قائم کیا۔ جہاں سٹی ایریا کے بے شمارلوگوں کا مفت علاج بھی کیاگیا۔ چونکہ میرے دو بیٹے (زاہد اور شاہد ) بھی ڈینگی بخار کا شکار ہوئے تھے۔ اس لیے میں نے بھی آرمی کیمپ سے ہی رجوع کیا ، آرمی ڈاکٹر کے بہترین علاج اور نگہداشت سے میرے بیٹے جلد صحت یاب ہوگئے ۔ تمہید باندھنے کامقصد یہ ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر کینٹ ایریا کے بارے میں میرے ذہن میں بہت خوشگوار تاثر پیدا ہوا ۔دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ہم بھی کینٹ ایریا کے خوشگوار ماحول میں رہائش پذیر ہوسکتے ۔ حالات نے کروٹ لی اور ہم گلبرگ سے اپنا پرانا مکان فروخت کرکے کینٹ ایریا (قادری کالونی نمبر 2، والٹن روڈ لاہور ) منتقل ہوگئے ۔ یہاں شفٹ ہوئے مجھے اڑھائی سال ہوچکے ہیں۔ میرے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ تھی کہ میں جہاں بھی جاتا وہاں ہی کوڑا بکھر ا ہوا نظر آتا ۔سٹریٹ لائٹس کے کھمبے تو تھے ، ان پر نصب بلب فیوز تھے ۔اندھیرے میں ڈوبی ہوئی گلیوں میں رات کے وقت نماز مسجد جانا اور واپس آنا بھی محال تھا ۔ہر گلی میں ناہموار ، تلوار مارکہ سپیڈبریکروں کی بھرمار تھی ، جہاں سے گزرنے والے ذہنی ٹینشن کا شکار ہوتے۔ مین والٹن روڈ کو جانے والے تمام راستے کچھ ایسے ہی تھے ۔جس کا جہاں جی چاہا اس نے اپنے گھر کے سامنے سپیڈ بریکر تعمیرکرلیا یا سڑک کو اکھاڑ کر دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ سڑکیں موجود تو تھیں لیکن وہ اس قد ر زخمی حالت میں کہ سفر کرنے والوں کو اتنے جھٹکے محسوس ہوتے کہ نانی یاد آجاتی ۔ شاید ہی کوئی گلی ، بازار اور چوک ایسا ہو گا، جہاں گندگی کے انبار نہ ہوں ، کمرشل ایریاز اور مارکیٹ میں تجاوزات نے راستوں کو تنگ نہ کررکھا تھا ۔کہیں گٹر کا ڈھکن ٹوٹا ہے تو کہیں گٹر ہی زمین بوس ہے ۔ایک ہی نمبر کی تین تین گلیاں اسی آبادی کی زینت تھیں۔میں جس گلی میں رہتا ہوں وہ بھی گلی نمبر 2 ، ہماری گلی سے پہلے والی گلی بھی نمبر 2 ہی ہے جبکہ ہماری پچھلی گلی بھی نمبر 2 ہی کہلاتی ہے۔یہ بد انتظامی شاید دنیا میں پہلی بار دیکھنے کو ملی ۔

یہ سب کچھ دیکھ کر کینٹ ایریا کاوہ خوبصورت بھرم ٹوٹ گیاجس کا تصور کبھی میرے ذہن میں محفوظ ہوا کرتا تھا۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ان علاقوں میں انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے جو اصلاح احوال کے لیے اقدامات کرے ۔ایک دن میں نے خاکروبوں کے ایک سپروائزر سے نہایت ادب سے کہا کہ پیر کالونی کی گلی نمبر 1 شاید دنیا کی سب سے گندی گلی بن چکی ہے آپ اس کی صفائی کیوں نہیں کرواتے ۔ اس نے جواب دیا سر یہ کمرشل ایریا ہے اس کی صفائی دکاندار خو د کریں یہاں صفائی کرنا ہماری ذمہ داری میں شامل نہیں ہے ۔ میں نے پوچھا کہ کنٹونمنٹ بورڈ ان سے ٹیکس نہیں لیتا اور اگر ٹیکس لیتا ہے تو صفائی کرنااور کاروباری افراد کو اچھا ماحول فراہم کرنا بورڈ کی ہی ذمہ داری ہے ۔ میں نے پوچھا کیا گلیوں میں صفائی سے بھی آپ مبرا ہیں ۔یہ سن کر وہ منظر سے غائب ہوگیا۔

یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ یہ آبادی والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے ماتحت آتی ہے۔ پہلے کینٹ کے تمام علاقے لاہور کنٹونمنٹ بورڈ میں شامل تھے۔ پھر ایک انتظامی حکم پر جنوبی علاقوں کو والٹن کنٹونمنٹ کا نام دے کر الگ کردیاگیااور نئے کنٹونمنٹ بورڈ کا آفس نشاط کالونی کی آغوش میں بہت ہی خوبصورت اور کشادہ عمارت میں قائم کر دیاگیا ۔ اس عمارت کی خوبصورتی کو دیکھ کر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن کا وائٹ ہاؤس بھی شرماتا ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ وہاں دنیا پر حکمرانی کرنے والا امریکی صدر بیٹھتا ہے اور یہاں والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے انتظامی افسر براجمان ہیں جن کو کبھی اپنے ماتحت علاقوں میں آنے اور وہاں کے مکینوں کی حالت زار دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسائل حد سے زیادہ بڑھتے گئے اور گندگی کے بڑھتے بڑھتے ڈھیر مین والٹن روڈ تک جا پہنچے۔ جہاں سے گزرنے والے بھی ناک اور آنکھیں بند کرکے گزر نے پر مجبور تھے ۔ بڑے فلتھ ڈپو کی گندگی نے آدھی والٹن روڈ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔

مین والٹن روڈ کے ساتھ ساتھ ایک گندہ نالہ بھی بہتا ہے ۔جس میں کینٹ ایریا کے سیوریج کا پانی بہتا ہے۔یہ گندا پانی کہاں کہاں سے نالے میں گرتا اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ بات نہایت تکلیف دی ہے کہ بارش کے دنوں میں پانی نالے میں داخل ہونے کی بجائے ، نالے کا گندہ پانی سڑک پر جمع ہونا شروع ہوجاتاہے ۔پچھلے ماہ رمضان مجھے ایک VIP افطاری کی دعوت میں ملی جس میں شرکت کے لیے مجھے کلمہ چوک پہنچنا تھا ۔حسن اتفاق سے اسی دن دوپہر کو بارش ہوگئی ۔ نماز عصر کے بعدجوں ہی میں افطاری میں شرکت کے لیے والٹن روڈ پر پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ دونوں ا طراف کی سڑکوں پر دو فٹ پانی کھڑا ہے۔ اگر میں کیولری گراؤنڈ کا طرف رخ کروں۔ تب بھی دور دور تک پانی ایک نہر کی شکل میں بہہ رہا تھا، اگر میں قینچی امرسدھو کی جانب دیکھوں۔ تب بھی سڑک دور تک بارش کے پانی میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ کتنے ہی موٹرسائیکل سواروں کو میں نے( بائیک خراب ہونے کی وجہ سے) پانی میں ہی پیدل چلتے ہوئے دیکھا ۔جن کے انجام نے مجھے خوفزدہ کردیا۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے ناکام لوٹنا پڑا ۔ غصہ تو بہت آیا کیونکہ ایک اچھی خاصی افطاری ہاتھ سے نکل رہی تھی ۔مہنگائی کی وجہ سے اب افطاری کی دعوتوں میں بہت حد تک کمی واقع ہوچکی ہے اگر کوئی دعوت مل جائے تو غنیمت او ر اعزاز سمجھاجاتاہے ۔بہرحال کنٹونمنٹ بورڈ انتظامیہ کی چشم پوشی کی بنا پر وہ افطاری میرے ہاتھ سے پھسل گئی ۔جس کا مجھے بہت دنوں تک افسوس بھی رہا۔

بچپن کا ایک واقعے کا یہاں ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شہر میں ایک ملنگ ،کپڑوں کے بغیر ہی چلتا پھرتاتھا ، جسے لوگ سائیں کہہ کر پکارتے ۔ایک دن وہی ملنگ کپڑے پہنے اور اپنا چہرہ چھپائے دیکھاگیا ۔کسی نے پوچھا کہ سائیں جی ۔کیا معاملہ ہے آج تو آپ نے اپنا دامن کپڑوں سے ڈھانپ رکھا ہے اور چہرہ بھی چھپارکھا ہے۔ خیریت تو ہے ۔ملنگ نے جواب دیا تمہیں نہیں پتہ اس شہر میں ایک آنکھوں والا بھی آگیا ہے۔ میں اس سے چھپتا پھررہا ہوں ۔ اس شخص نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا سائیں جی کیا پہلے اس شہر میں سارے اندھے ہی تھے ۔ملنگ نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی اور راز داری کے انداز میں فرمایا خاموش کسی تک میری آواز بھی نہیں جانی چاہیئے کیونکہ اس شہر کا قطب بدل چکاہے میں اس سے چھپتا پھر رہا ہوں ۔یہ واقعہ سنانے کا مقصد یہ ہے کہ والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا قطب بھی بدل چکا ہے جس سے مسائل آنکھیں چراتے پھر رہے ہیں۔

ایک دن میری موبائل پر قومی اسمبلی کے حلقہ 125 کے ایم این اے اور وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے بات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ آپ کے حلقے کا یہ علاقہ مسائل کی آمجگاہ بن چکا ہے ۔ اصلاح احوال کی کوئی صورت نہیں بن رہی ۔ نوائے وقت میں کالم لکھنے کے باوجود ہر جانب سے خاموشی ہے ۔ انہوں نے کہا کیا آپ چوہدری سجاد کو جانتے ہیں ،میں نے کہا نہیں ، میں نہیں جانتا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا میں انہیں آپ سے رابطے کے لیے کہتا ہوں وہی اس علاقے کے مسائل حل کریں گے ۔ کال ختم ہوئے ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ چوہدری سجاد صاحب کافون آگیا ۔ انہوں نے ملنے کی خواہش کااظہار کیا ۔ میں نے کہا جناب آپ ہمارے لیے قابل احترام ہیں ، میں آپ کو ملنے کے لیے کنٹونمنٹ بورڈ کے دفتر آؤں گا ۔

پھر ایک دن میں والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے وائس چیرمین چوہدری سجاد صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر جا پہنچا ۔وہ نہ صرف خوش باش قسم کے عام فہم انسان دکھائی دیئے بلکہ انہوں نے مسائل کے بارے میں میری تمام گزارشات کو نہایت توجہ سے سنا اور ان پر عملدرآمد کے احکاما ت بھی جاری کردیئے ۔ ان کے احکامات کاہی نتیجہ تھا کہ اگلے دن کنٹونمنٹ بورڈ کا چیف سینٹری انسپکٹر سلیم صاحب اپنے معاون جناب آصف چوہان کو ساتھ لے کر میرے گھر پہنچ گئے ۔ سلیم صاحب نے صفائی کے حوالے سے میری معروضات سنی اور اسی وقت ان کے حل کی ہدایات جاری کر دیں ۔ چند دن تک خوب پھرتیاں دیکھنے میں آتی رہیں۔ پھر روایتی سستی اور کاہلی ایسی طاری ہوئی کہ دوبارہ صفائی کا سسٹم پرانی جگہ پر آگیا ۔

جب معاملات ایک بار پھر بگڑتے دکھائی دیئے تو میں ، اپنے قابل احترام دوست اور پسندیدہ امام مسجد ، قاری محمد اقبال صاحب( انہیں میں اس لیے اپنا پسندیدہ امام قرار دیتا ہوں کہ وہ جب قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے قرآن نازل ہورہا ہے اور وہ ایک ایک لفظ کو چن چن کر قرینے سے رکھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔بے شک ہم ان کے مقتدی ہیں لیکن ہمارا دل چاہتا ہے کہ وہ مزید تلاوت کرتے رہیں اور ہم سنتے رہیں ۔وہ کردار کے غازی اور گفتار کے ماہر ہیں ۔کسی بھی موضوع پر جب گفتگو کرتے ہیں تو دریابہا دیتے ہیں ، ان کی وعظ سنتے سنتے انسان ارض مقدس پہنچ جاتاہے ) کے ہمراہ وائس چیرمین کے دفتر جا پہنچا۔ چوہدری سجاد صاحب نے حسب معمول خوشگوار لہجے میں ہمارا استقبال کیا اور تکلفات سے بھرپورتواضع بھی کی ۔ ایک بار پھر الگ الگ مسائل پر لکھی ہوئی درخواستیں ان کی خدمت میں پیش کیں اور میں ان سے اجازت لے کر گھر چلا آیا ۔ ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ کنٹونمنٹ بورڈ کی سوئی ہوئی انتظامیہ نے انگڑائی لی اور خواب غفلت سے جاگ کر اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے متحرک ہوگئی ۔اب جب میں صبح واک کے لیے کیولری گراؤنڈ پارک جانے کے لیے گھر سے نکلتا ہوں تو جگہ جگہ خاکروب عملی طور پر صفائی کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ گندہ نالہ جس کی دیوا ر کے ساتھ کبھی غلاظت کے ڈھیر ختم ہونے کا نام نہیں لیتے تھے وہ مقامات بھی اب صاف نظر آئے لگے ہیں ۔وہ فلتھ ڈپو جو کنٹونمنٹ بورڈ کی کارکردگی پر بدنما داغ کی حیثیت اختیار تھا ۔اسے بھی از سر نو تعمیر کرکے کچھ اس طرح بنا دیا گیا ہے کہ اب کوڑا باہر بکھرا ہوا دکھائی نہیں دیتا ۔ ایک دن میں نے دیکھا وہاں کوڑے کو آگ لگی دیکھی۔ جس کا دھواں فضا کو آلودہ کررہا تھا ۔میں نے فورا چوہدری سجاد صاحب کو فون کیا۔ اس کے بعد کوڑے کو آگ لگانے والا معاملہ بھی ہمیشہ کے لیے انجام کو پہنچ گیا ۔

کیولری گراؤنڈ کی سیون سٹریٹ جس کے دونوں اطراف گندگی اور کوڑا ہی بکھرا دکھائی دیا کرتا تھا۔ اب وہاں بھی صبح صبح خاکروب صفائی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ خالد مسجد کے پاس پہنچوں تو احاطے میں مٹی کے ڈھیر نئی کہانی سناتے ہیں۔ جب پارک کے اندر داخل ہوتے ہیں تو ہر جگہ تعمیراتی کام ہوتا دکھائی دیتا ہے وہ ناہموار گراؤنڈ جہاں پہلے بچے فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ مٹی ڈال کر اس پر گھاس بھی لگادی گئی ہے ۔اب دور سے وہ سبزقالین سے ڈھکا ہوا میدان دکھائی دیتا ہے ۔پہلے پارک میں روشنی نہ ہونے کے برابر تھیں ۔شام ہوتے ہی یہ پارک بھوت کا ڈیرہ بن جاتا تھا اور لوگ پارک سے جلد ی جلدی نکلنے کی کوشش کرتے تھے۔ اب رات کے اندھیرے کو دن کے اجالے میں بدلنے کے لیے پارک میں بجلی کی نئی لائنیں بجھائی جارہی ہیں ۔بیت الخلا حد سے زیادہ گندہ اور بوسیدہ تھا ، اس کی تعمیر بھی نئے سرے سے جاری ہے ۔

گملوں میں لگے ہوئے سینکڑوں پھول دار پودے پارک میں کہیں اور سے لائے گئے ہیں جنہیں خالی جگہوں پر لگایا جارہا ہے ۔یہاں پانی کی ایک آبشار کے آثار بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ جب سے میں پارک جانے لگا ہوں ،ایک دن بھی اس آبشار کو چلتے نہیں دیکھا۔شاید اب اسے بھی سنجیدگی سے چلانے کا فیصلہ کرلیاگیا ہے۔ جہاں سیر کرنے والے بھی صبح و شام اس پارک کا رخ کرتے ہیں، وہاں ورزش کے لیے بھی کافی لوگ آتے ہیں ۔ پارک میں دو ٹیمیں الگ الگ ورزش کرتی دکھائی دیتی ہیں ۔ جن میں سے ایک بابوں کی ٹیم ہے جس میں زیادہ تر عمر رسیدہ لوگ ہی نظر آتے ہیں ۔ جبکہ دوسری ٹیم میں زیادہ تر جوان لڑکے ہی شامل ہوتے ہیں جن کا انسٹرکٹر ایک ہی پختہ عمر کا مضبوط شخص ہے۔ اس ٹیم کی ورزش کا انداز اس قدر دلکش ہے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتاہے ۔ مجھے یاد ہے بہت سال پہلے کی بات ہے جب انڈین چینل کی نشریات پاکستان میں نظر آنا شروع ہوئیں توہر صبح اس چینل پر ورزش کا پروگرام لگتا تھا جس میں خوبصورت اور سمارٹ لڑکیاں ٹریک سوٹ پہنے ایکسرسائز کرتی نظر آتی تھیں۔ ورزش کرنے کا انداز اس قدر دلربا تھا کہ بے شمار لوگ ورزش پروگرام دیکھ کر ہی دفتر جاتے تھے ۔خود میں بھی کئی مرتبہ اسی پروگرام کی وجہ سے دفتر سے لیٹ ہو جایا کرتاتھا۔اس پروگرام کو مس کرنا میرے بس میں نہیں تھا ۔ ورزش کرنے والی لڑکیاں لہک لہک کی اپنے جسمانی خد و خال کو کچھ اس انداز کے ساتھ ہوامیں لہراتی تھیں کہ دیکھنے والے کادل ہچکولے کھانے لگتا ۔پندرہ منٹ کایہ پروگرام اپنے وقت کا مقبول ترین تھا ۔ جس نے پاکستان میں بھی ورزش کے شعور کو بہت حد تک اجاگر کیا۔ کیولری پارک میں دوسری ٹیم بالکل انڈین گرلز کے انداز میں ہی ورزش کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجودکہ اس ٹیم میں کوئی لڑکی شامل نہیں ، لیکن انداز اس قدر دلکش ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی نظریں اس جانب اٹھ جاتی ہیں ۔ بلکہ وہ تفریح کا اچھاموقع فراہم کرتے ہیں ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس ٹیم میں تسلسل نہیں ۔ جیسے ہی انسٹرکٹر غیر حاضر ہوا تو لڑکے تنکوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ان کی ورزش میں باقاعدگی آجائے تو اس میں ان کا بھی بھلا ہوگا اور پارک میں آنے والوں کو بھی تفریح کے اچھے مواقع میسر آسکتے ہیں ۔ چونکہ میرے گھٹنوں میں درد رہتا ہے اس لیے میں ایک چکر لگا کر اس بینچ پر آ بیٹھتا ہوں جہاں سے ان کی ورزش صاف اور نمایاں دکھائی دیتی ہے ۔قصہ مختصر کنٹونمنٹ بورڈ کی کارکردگی رفتہ رفتہ بہتری کی جانب گامزن ہے اور زنگ آلود شعبے بھی حرکت میں آنے لگے ہیں۔ کیولری پارک میں جس حد تک کام شروع ہوچکا ہے ، اسے دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ بہت جلد یہ پارک بھی لاہور کے خوبصورت پارکوں میں شمار ہونے لگے گااور لوگ سیروتفریح کے لیے رات کو بھی اس پارک کا رخ کرسکیں گے۔

والٹن روڈ کا بیشتر حصہ بارش کے پانی سے نہایت خستہ ہوچکا ہے۔ سڑک کے ان خراب حصوں پر بھی پیچ ورک کا کام بھی شروع ہوچکا ہے۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ وہ گندہ نالہ کی جس کی صفائی شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔ اس سے بھی اب گار نکالی جارہی ہے ۔ایک دن میں نے شکریہ ادا کرنے کے لیے چوہدری سجاد صاحب کو کیااور بتایاکہ آپ نے کونسی چابی گھمائی ہے کہ ملتوی کیا جانے والا ہر کام اب ہونے لگا ہے ۔میرے گھر کے سامنے بھی ٹوٹے ہوئے مین ہول بھی تعمیر ہوگئے ہیں ، صفائی کا نظام بھی کچھ بہتر ہوا ہے ۔انہوں نے نہایت محبت سے جواب دیا۔ جناب آپ دیکھتے جایئے ۔ اﷲ نے اگر چاہا تو تما م مسائل باری باری ہوجائیں گے اور ایک دن آپ خود کہیں گے کہ واقعی والٹن کنٹونمنٹ میں رہائش رکھنا میرے لیے اعزازہے ۔

میں نے ان کی کاوشوں کااعتراف کرتے ہوئے کہا چوہدری صاحب میں دل کی گہرائیوں سے آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے وائس چیرمین کے عہدے کا حق اداکردیاہے لیکن منزل ابھی بہت دور ہے۔ سٹریٹ لائٹس ، غیر قانونی سپیڈ بریکرز کے خاتمے ، گلیوں سے ملبہ اٹھانے ، بازاروں سے تجاوزات کے خاتمے جیسے بے شمار مسائل آپ کی ذاتی توجہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خواہش کے باوجود اپنے علاقے کے کونسلر تک نہیں پہنچ سکا کیونکہ وہ الیکشن کے بعد خوابوں میں بھی دکھائی نہیں دیتے لیکن چوہدری سجاد احمد (جن سے میرا تعلق خواجہ سعد رفیق کے ذریعے قائم ہوا ہے) وہ ہر مسئلے کابہترین حل تلاش کررہے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں ایسا متحرک اور عوامی مسائل میں تلاش لینے والا شخص کسی بھی علاقے کا اعزاز بنتا ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ انہوں نے صرف کونسلر کا الیکشن جیتا ہے لیکن ان کی بہترین کارکردگی کو دیکھ میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ بہت جلد اپنے قائدین کی نظروں کا تارا بن کر صوبائی اسمبلی میں ہوں گے ۔

اس وقت پورے علاقے میں تعمیراتی سرگرمیاں عروج پر ہیں ،کہیں سیوریج ٹھیک کیے جارہے ہیں تو کہیں ٹوٹے ہوئے ڈھکن تبدیل ہورہے ہیں۔ کہیں خاکروب ایک ٹیم کی شکل میں صفائی کرتے دکھائی دیتے ہیں ، کہیں نالے سے گار نکالی جا رہی ہے۔ کہیں فلتھ ڈپو نئے تعمیر ہورہے ہیں ، تو کہیں کوڑا اٹھانے والی گاڑیاں اپنے کام میں مصروف ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ایک بزرگ نے کہا کہ مجھے یہاں رہتے ہوئے پچیس تیس سال ہوچلے ہیں۔ میں نے تو زندگی میں والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے عملے کی اتنی پھرتیاں نہیں دیکھیں۔بلکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے لیے یہ علاقہ غیر بن چکا تھا۔ آخر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا کہ یہ لوگ صبح و شام کام کرتے ہوئے ہمیں دکھائی رہے ہیں۔ میں نے اس بزرگ کی بات سنی اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ جناب وقت کا قطب بدل چکا ہے یہ سب اسی عظیم شخص کی کرامات ہیں جس چابی گھما کر سست ،نااہل اور کم چور ملازمین کے اندر بجلی جیسی پھرتی پیدا کردی ہے ۔خالد مسجد کے قریب خاکربوں کی بارات بیٹھی تو نظر آتی تھی لیکن پندرہ منٹ بعد پتہ نہیں چلتا تھا کہ باراتی کہاں رفوچکر ہوگئے لیکن اب وہیں چلے ہوئے کارتوس بھی کیولری گراؤنڈ میں صفائی کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ بطور خاص سینٹری انسپکٹر محمد آصف چوہان ایک ذمہ دار افسر کی حیثیت سے فالو اپ کرتا نظر آتاہے جبکہ سہیل (میٹ) بھی محنتی اور جفاکش ملازم کے روپ میں ابھر کر سامنے آیا ہے اگر اسے سپروائزر بنا دیا جائے تو وہ زیادہ اچھے طریقے سے خاکروبوں سے کام لے سکتا ہے ۔

کام میں دلچسپی لینے والا اور عملی طور پر عوام کے مسائل حل کرنے والا شخص جب کسی ادارے میں جاتا ہے تو ایک ہی شخص بوسیدہ اور زنگ آلود سسٹم کو متحرک کرسکتا ہے اگر وہ کرنا چاہے تو ۔ دور حاضر کے قطب کانام "چوہدری سجاد احمد" ہے۔جو حالیہ بلدیاتی الیکشن میں کامیاب ہوکر وائس چیرمین ،والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں ۔انہی کی وجہ سے یہ مثبت سرگرمیاں دکھائی دے رہی ہیں ۔
 
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665999 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.