جنرل راحیل شریف۔ باوقار رخصتی
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
29نومبر2016 آخرآ ہی گیا اورجنرل راحیل
شریف نے اپنے کہنے کے مطابق وقت مقررہ پر ملازمت سے ریٹائر ہوکر یہ ثابت
کردیا کہ وہ جو کہتے ہیں اس پر عمل کرکے دکھاتے بھی ہیں۔ بات ہے 2016کے
ابتدائی مہینوں کی یعنی جنوری اور فروری کی کہ اخبارات اور سوشل میڈیا پر
جنرل صاحب کے بارے میں اس قسم کی خبریں گردش کرنے لگیں کہ وہ اپنی مدت
ملازمت میں توسیع لینے کی خواہش رکھتے ہیں، پاکستانی عوام کی ایک بہت بڑی
تعداد اس بات کے حق میں نظر آتی تھی کہ معروضی حالات، ان کی خدمات اور
کامیاب پالیسیوں کے پیش نظر انہیں اپنے عہدے پر بر قرار رہنا چاہیے،
پاکستان کے اندرونی حالات ، دہشت گردی، بھارتی کی جانب سے باڈر پر مسلسل
خلاف ورزی جیسے واقعات کا تقاضہ تھا کہ جنرل صاحب ابھی اس منصب پر براجمان
رہیں۔ مجبوریاں اور خواہشات اپنی جگہ بااصول با کردار لوگ اپنے اصولوں اور
قانون کی حکمرانی کو تمام باتوں پر ترجیح دیا کرتے ہیں ، حتیٰ کہ وہ اپنی
خواہشات کو بھی قربان کردیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ ایسے بہ کردار لوگوں
کو ہمیشہ اچھے الفاظ سے یاد رکھتی ہے ایسے با کردار لوگ آیندہ آنے والی
نسلوں کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جنرل راحیل شریف بھی ہیں
جنہوں نے حالات کی سنگینی کا سہارا نہیں لیا، سامنے دکھائی دینے والی چکا
چوند روشنی کی جانب نہیں دیکھا بلکہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوہے ہر چیز
کو قربان کردیا، بہ عزت ، بہ احترام اپنے منصب سے سرخ رو ہونا مناسب جانا ۔
اُسی زمانے میں یہ موضوع ٹی وی ٹاک شو میں بھی زیر بحث آنا شروع ہوا۔ کالم
نگاروں نے اس موضوع پر کالم لکھنا شروع کردیے، کسی نے رائے دی کہ جنرل صاحب
کو بھی توسیع ملنی چاہیے جیسا کہ ان سے پہلے سربراہان نے یہ اعزاز خوشی
خوشی قبول کیا۔بعض ایسے سربراہ بھی تھے کہ جنہوں نے از خود اپنے آپ کو
توسیع دے لی۔ راقم الحروف اس رائے کے حق میں تھا کہ جنرل صاحب کا مزاج،
کردار، عمل دیکھتے ہوئے یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ وہ وقت مقررہ پر
باوقار طریقے سے رخصت ہوجائیں گے۔انہیں قومی مفاد عزیز ہے اپنی ذات نہیں،
میرا یہ کالم بعنوان ’’سپہ سالار پاکستان کا صائب فیصلہ ‘‘ روزنامہ ’جناح‘
میں 29جنوری 2016 کو شائع ہوا تھا ۔یہی کالم سوشل میڈیا خاص طور پر ’ہماری
ویب‘ پر آن لائن موجود ہے۔
جنرل راحیل نے جب سے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان سے دہشت گردی کو جڑ سے ختم
کرکے دم لیں گے ، ان کے اس عزم کا ساتھ پاکستا ن کے ہر طبقہ فکر نے کھلے دل
سے دیا۔ دہشت گردوں کا قَلع قَمع کرنے کے لیے جو اقدامات سپہ سالار نے کیے
اور جس طرح ان اقدامات پر عملی طور پر عمل عوام الناس کو نظر آیا ،
پاکستانی عوام کے دلوں میں سپہ سالار کی قدر و قیمت بڑھتی ہی گئی اور انہوں
نے محسوس کیا کہ جنرل راحیل شریف حقیقت میں پاکستان کے سچے ہمدرد، مخلص نیز
انہیں ملک کی بہتری ہر چیز پر مقدم ہے۔ اس موقع پر پاک فوج کے ترجمان جنرل
عاصم باجوہ نے سماجی ویب سائٹ ٹوئٹر پر یہ بیان جاری کیا تھا جس میں کہا
گیا تھا کہ ’’سربراہ پاک فوج جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع سے
متعلق افواہیں بے بنیاد ہیں‘‘ اس حوالے سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کاکہنا
تھا کہ پاک آرمی عظیم ادارہ ہے اور مدت ملازمت میں توسیع پر یقین نہیں
رکھتے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے
کے لیے کئے جانے والے اقدامات بھر پور طاقت کے ساتھ جاری رہیں گے، پاکستان
کا وسیع تر ملکی مفاد مقدم ہے اور ہر قیمت پر ملک کو محفوظ بنایا جائے
گا۔آج جنرل صاحب کی کہی ہوئی بات سچ ثابت ہونے جارہی ہے۔ باوجود اس کے کہ
موجودہ حالات کے تناظر میں جنرل راحیل شریف کا اسی حیثیت میں برقرار رہنا
ملک اور قوم کے اعلیٰ تر مفاد میں ہے ۔ ملک میں نیشنل ایکشن پلان کو ابھی
پائے تکمیل تک پہنچنا باقی ہے، کراچی اور دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے
خلاف آپریشن ابھی مکمل نہیں ہوا، ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جاری
آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنا باقی ہے۔جو اہداف جنرل صاحب مکمل
کرنا چاہتے تھے وہ ابھی پائے تکمیل کو پہنچنا باقی ہیں ۔ دہشت گردی اور
کرپشن کے ناسور کی جڑیں اس قدر گہری ہوچکی ہیں کہ اس کی جڑوں کو اکھاڑ
پھینکنے میں ایسی ہی سنجیدگی، تیزی، بلند حوصلے کی ضرورت ہے جو جنرل راحیل
شریف نے دکھائی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ان کا جانشین بھی انہی کے نقشہ
قدم پر چلتے ہوئے ان اقدامات کو اسی تندہی سے جاری و ساری رکھے گا۔ جنرل
راحیل شریف کا یہ فیصلہ ان کی عزت اور وقار میں اضافہ کا باعث ہواہے، ہمارے
ملک میں طاقت ور یا اثر رسوخ رکھنے والے سرکاری ملازمین کے لیے مدت ملازمت
میں توسیع لے لینا ایک ایسا کلچر بنا ہوا ہے کہ جس نے بعض اداروں کے
ملازمین میں بددلی پیدا کر رکھی ہے، ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ
سرکاری ملازم کی حیثیت سے ریٹائر ہوجانے کے بعد بھی لوگ اسی منصب پر ڈٹے
ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید دنیا میں ان سے بہتر انسان پیدا ہی نہیں
ہوا۔ جنرل راحیل کا یہ فیصلہ ملک میں مدت ملازمت میں توسیع کلچر کے خاتمے
کاباعث بھی ہوگا۔
جنرل راحیل شریف کی نجی زندگی کا مطالعہ ہمیں بتا تا ہے کہ وہ ایک راجپوت
خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، یہ خاندان روایتی طور پر فوجی ملازمت میں پیش
پیش رہا ہے اور اب بھی ہے۔ وہ 16جون1956کو ئٹہ میں پیدا ہوئے ، وہ ایک آرمی
آفیسر میجر رعنا محمد شریف کے بیٹے ہیں۔ان کے بڑے بھائی میجر رعنا شبیر
شریف 1971کی جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے شہید ہوئے اور نشان حیدر
سے سرفراز ہوئے۔ ان کے ایک اور بھائی کیپٹن ممتاز شریف بھی آرمی آفیسر تھے
، صحت کی خرابی کے باعث جلد ریٹائرمنٹ لے لی۔جنرل راحیل شریف 1965کی جنگ
میں دشمن کے دانت کھٹے کرنے والے، بہادری کے جوہر دکھانے والے پاکستان آرمی
کا افتخار میجر عزیز بھٹی شہید کے بھانجے بھی ہیں۔وہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی
کے باپ ہیں۔ ایک بیٹا آرمی آفیسر ہے۔گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی،
اسی حوالے سے وہ اپنے الوداعی دوروں کے سلسلے میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی
بھی تشریف لے گئے اور طلبہ سے خطاب بھی کیا1976میں کمیشن حاصل کیا ۔
قیام پاکستان سے اب تک یعنی 1947 سے 2016تک 69سالہ تاریخ میں پاکستان آرمی
کو 15سربراہان میسر آئے ، گویا جنرل راحیل شریف 15ویں چیف آف آرمی اسٹاف
ہیں جو اب ریٹائر ہونے جارہے ہیں ان کی جگہ 16 ویں جنرل آرمی چیف ہوں گے۔
یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں(1947
۔1951)کے درمیان پاکستان کو کوئی مسلمان آرمی چیف میسر نہیں آیا، پاکستان
آرمی کے اولین چیف جنرل سرفرینک میسروی تھے(Sir Frank Messervy) جو15 اگست
1947کو پاکستان آرمی کے اولین سربراہ بنے۔ یہ وہی میسروی ہیں کہ جن کے بارے
میں حامد میرنے اپنے کالم ’نیا آرمی چیف‘ (جنگ24 نومبر2016 ) میں لکھا ہے
کہ ’قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد بھارتی حکومت نے برطانوی سرکار کے
نمائندے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے ریاست جموں و کشمیر پر فوجی قبضے
کی کوشش شروع کی تو قائد اعظم نے سربراہ مملکت کی حیثیت سے پاکستانی فوج کو
حکم دیا کہ وہ بھارت کا راستہ روکے لیکن آرمی چیف نے قائد اعظم کا حکم
ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار زبانی نہیں بلکہ عملی تھا۔ اس نے حکم تو
سن لیا لیکن حکم پرعمل درآمد نہ کیااور یوں بھارت نے آسانی سے ریاست جموں و
کشمیر پر قبضہ لر لیا‘‘۔ اگر اُس وقت کوئی مسلمان چیف ہوتا تو وہ یقینا
قائد اعظم کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرتا اور آج کشمیر کی یہ صورت حال ہی نہ
ہوتی۔ بدقسمتی سے سر فرینک میسروی کے بعد بھی کوئی مسلمان جنرل اس عہدے پر
پورا نہیں اتر تا تھا چنانچہ میسروی کے ریٹائرمنٹ (10فروری 1948) کے بعداسی
دن جنرل سر ڈوگلس گریسی (General Douglas Gracey) نے آرمی کے دوسرے چیف کی
ذمہ داریاں سنبھالیں ، یہ 17جنوری 1951تک چیف کے عہدے پر تعینات رہا۔ جنرل
محمد ایوب خان پہلے مسلمان اور پاکستانی جنرل تھے جنہوں نے جنرل گریسی کی
جگہ فوج کی قیات سنبھالی۔ ایوب خان صاحب کو آرمی کی سربراہی کا ایسامزا آیا
کہ انہوں نے جنرل اسکندر مرزا کو جو اس وقت ملک کے گورنر جنرل تھے برطرف کر
کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور صدارت کی کرسی پر براجمان ہوگئے۔جنرل ایوب
خان نے جرنل موسیٰ خان کو 27اکتوبر1958کو پاکستان کا کمانڈر انچیف مقرر
کیا۔یہ فوج کے تیسرے کمانڈر انچیف تھے۔ ایوب خان کی کرسی ڈاما ڈول ہونے
لگی، بھنور میں پھنس گئی، کوئی راستہ نہ رہا تو اقتداراپنے ہم پیشہ فوجی
جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا جنہوں نے18 جون 1966کوکمانڈر انچیف کا عہدہ
سنبھالا تھا۔ جنرل یحیٰ خان کا دور پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور
کہلاتا ہے اس لیے کہ پاکستان جب دو لخت ہوا تو وہ سربراہ تھے، جنرل نیازی
نے سابق مشرقی پاکستان میں بھارتی فوجی جنرل کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ یحیٰ
خان 20دسمبر 1971تک سربراہ رہیں۔ اب ذوالفقار علی بھٹوپاکستان کے حاکم وقت
بن چکے تھے انہوں نے 20 دسمبر 1971کو جنرل گل حسن کوپاکستان کو چھٹا آرمی
چیف مقرر کیا لیکن جنرل گل حسن کی مدت بہت ہی مختصر رہی وہ تین ماہ بعد
5مارچ1972کو رخصت ہوگئے ان کی جگہ جنرل ٹکا خان کو کمانڈر انچیف بنا دیا
گیا۔ ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھٹو صاحب نے بہت ہی سیدھے سادھے جنرل
بقول شخصے اﷲ میاں کی گائیں نظر آنے والے جنرل ضیاء الحق کو یکم جنوری
1976کو آرمی کا سربراہ مقرر کیا یہ پاکستان آرمی کے آٹھویں چیف تھے۔ بھٹو
صاحب نے7سینئر جنرلوں پر فوقیت دیتے ہوئے ضیاء ا لحق کا انتخاب کیا تھا۔
خیال یہی رہا ہوگا کہ یہ شخص سیدھا سادھا ہے۔ وفادار اور فرمانبردار ثابت
ہوگا ۔ جنرل صاحب کیسے فرمانبر دار ثابت ہوئے کہ بھٹوں صاحب کو تختہ دار پر
لٹکا کر ہی دم لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 11جنوری 1977کو ملک میں مارشل لاء
نافذ کردیا اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے۔البتہ انہوں نے ازراہ
عنایت جنرل مرزا اسلم بیگ کو وائس چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کر دیا تھا۔یہ
فیصلہ بھی قدرت کی جانب سے تھا۔ضیا صاحب آرمی چیف بھی تھے اور صدر مملکت
بھی۔ انہیں ہٹانے والا کوئی نہیں تھا سوائے اس ذات کے جو اوپر بیٹھی ہے جو
سب سے طاقت ور ہے جو وہ چاہتی ہے وہی ہوکر رہتا ہے۔ پل بھر میں کیا سے کیا
ہوجائے گا کسی کو معلوم نہیں۔ 17اگست 1988کو ضیاء الحق صاحب بذریعہ فوجی
جہاز بہاولپور سے روانہ ہوتے ہیں، کئی اہم شخصیات بشمول کئی جنرلز ان کے
ساتھ تھے ۔ طیارے کو فضاء میں ایسا حادثہ پیش آتا ہے کہ اس میں موجود ایک
جان بھی نہیں بچ پاتی ۔ ضیاء الحق اﷲ کو پیارے ہوجاتے ہیں، جنرل اسلم بیگ
آرمی کے سربراہ بن جاتے ہیں۔ اب نواز شریف صاحب کا دور حکمرانی شروع ہوجاتا
ہے۔ مرزا اسلم بیگ صاحب کے ریٹائرمنٹ میں کچھ وقت باقی ہوتا ہے کہ نواز
شریف صاحب کی جانب سے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو سربراہی سونپ دی جاتی ہے
،جنوری 1993 میں جنجوعہ صاحب اچانک وفات پاجاتے ہیں چنانچہ نواز شریف صاحب
کی جانب سے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف بنا دیا جاتا ہے۔ کاکڑ صاحب
12جنوری 1996تک اپنے منصب پر فائذ رہتے ہیں اور ریٹائرہوجاتے ہیں ۔ اب
پاکستان کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ تھیں انہوں نے فوج کے
سینئر ترین جنرل جہانگیر کرامت کو 12جنوری 1996کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر
کیا۔ جنرل جہانگیر کرامت کی مدت ملازمت ابھی چندماہ باقی تھی کہ میاں صاحب
کادور اقتدار شروع ہوگیا اور میاں صاحب سے جہانگیر کرامت کے کچھ اختلافات
ہوگئے ، اب فوج کے سربراہ کی حیثیت سے میاں صاحب کو 13ویں سربراہ کا انتخاب
کرنا تھا۔ خوب چھان پھٹک کی گئی، جنرل پرویز سینئر ترین جنرل نہیں تھے ان
سے اوپر دو سینئر جنرل تھے لیکن میاں صاحب کو اردو بولنے والا جنرل زیادہ
بھایا ، شاید انہوں نے بھٹو مرحوم کی طرح یہی سوچا ہوکہ یہ بھی سیدھا سادھا
بندہ ہے، کمانڈو ضرور رہ چکا ہے، سیاست اس کے بس کی بات نہیں، یہ وفاداری
میں بھی پیش پیش ہوگا۔ میاں صاحب نے 16اکتوبر کو جنرل پرویز مشرف کو ملک کا
13واں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کردیا۔ پھر کیا ہوا، سیدھے سادھے جنرل نے کیا
گل کھلائے، میاں صاحب کو تگنی کا ناچ نچا دیا، یہاں تک کے میاں صاحب جیل کی
سلاخوں کے پیچھے بھی گئے بھلا ہو سعودی فرماں رواؤں کا کہ جنہوں نے پرویز
مشرف کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ میاں صاحب کی جاں بخشی کردیں ۔ جنرل
صاحب اس وقت کل اختیار ات کے مالک تھے، کیسا قانون، کہاں کا قانون، کیسی
عدالت اور کیسا مقدمہ یک جُنبشِ قلم میاں صاحب اپنے اہل و عیال کے ہمراہ
سلاخوں کے پیچھے سے سیدھے ائر پورٹ اور پھر جدہ۔ میاں صاحب یہ جا اور وہ
جا، کہا ں کی اخلاقیات، کہاں کے عوام، کیسی جمہو ریت ، کیسی سیاست کہا ں کی
نون لیگ اور اور کہا کے نون لیگی ساتھی، بس اپنی اور اپنے خاندان کی خیر ہو
۔ اب جنرل پرویز مشرف آرمی چیف بھی تھے صدر پاکستان بھی، انتخابت ہوئے تو
جنرل صاحب کی پارٹی کو بری طرح شکست ہوگئی۔ اب تو وردی اتار ے بغیر کوئی
چارہ نہیں رہا ، ملک کی سیاسی جماعتوں کا دباؤ ،دوسری جانب ملک کے وکیلوں
نے کمر باندھ لی کہ جنرل صاحب وردی اتاردیں باقی خیر ہے۔ پرویز مشرف صاحب
نے بہت کوشش کی ، این آر او بھی کیا لیکن بات بنی نہیں آخر وردی اتارنا ہی
پڑی ، جب وردی اتر گئی تو بغیر وردی کے بندے کی اوقات ہی بدل جاتی ہے۔ مشرف
صاحب نے چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ چھوڑ کر 28نومبر کو جنرل اشفاق پرویز
کیانی کو فوج کا 14واں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کردیا۔ جنرل کیانی کے دور
حکومت میں علامہ آصف علی زرداری کی پانچ سالہ حکومت برقرار رہی ، 2013کے
انتخابات میں زرداری صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی صرف سندھ تک محدود ہوکر
رہ گئی جب کہ میاں نواز شریف صاحب پنجاب میں واضح اکثریت سے جیتے جس کے
نتیجے میں انہوں نے مرکز میں بھی حکومت بنائی ۔ میاں صاحب کی یہ تیسری باری
تھی جس کا قانونی اختتام 2018کے انتخابات میں ہوناہے۔ اس سے قبل کچھ ہوجائے
تو کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کیانی صاحب ان خوش قسمت چیف میں سے ہیں کہ جن کو
جمہوری حکومت نے ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع ملی۔ حالات اچھے
جارہے تھے اس لیے جنرل کیانی فوج کی سربراہی کرتے رہے۔ 28نومبر2013کو انہیں
کہہ دیا گیا کہ ’بس ، نو مور‘ اور ان کی مدت ملازمت اختتام کو پہنچی اب
میاں صاحب کا ایک اور امتحان شروع ہوا، سابقہ امتحانات اور ان کے نتائج ان
کے سامنے تھے۔ ان کی روشنی میں انہوں نے جنرل کیانی کی خالی کردہ کرسی پر
کسی نئے جنرل کو بٹھانا تھا ۔ یہ فیصلہ یقینا مشکل ہوتا ہے کہ جب ایک سے
ایک بڑھ کر شخصیات سامنے ہوں اور آپ کو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا
ہو۔اس وقت میاں صاحب نے جنرل راحیل شریف کا انتخاب کیا جو 29 نومبر2013 کو
عمل میں آیا۔ تین سال مکمل ہونے پر حالات کا تقاضہ کچھ اور ہی تھا لیکن
جنرل راحیل مزاج مختلف ہے، وہ عزت اور وقار سے چلے جانا چاہتے تھے ، وہ
اپنے اس فیصلے پر ڈٹے رہے اور آج وہ دن آہی گیا کہ وہ پاکستانی عوام کے
دلوں میں بسے ہوئے ہونے کے باوجود اپنے منصب سے جدا ہورہے ہیں ، یہ کہنے
میں کوئی پس و پیش نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اس حق میں
ہر گز نہیں کہ جنرل راحیل شریف یہ عہدہ چھوڑیں۔ انہیں جنرل صاحب سے بہت
امیدیں وابستہ ہیں۔ نہیں معلوم وہ پوری ہوسکیں گی یا نہیں۔ لیکن وطن عزیز
کے لیے ان کے کارنامے خاص طور پر ضرب عضب، کراچی آپریشن، دہشت گردی کے
خاتمے کے حوالے سے جو اقدامات کیے وہ لائق تحسین ہیں اور تاریخ کا حصہ رہیں
گے۔پاکستان کی تاریخ میں ان کا مقام اور مرتبہ بلند اور سنہرے الفاظ سے
لکھا جائے گا۔اب میاں صاحب نے پاکستان آرمی کے 16ویں آرمی چیف اورچیرٔ مین
جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا انتخاب کرناتھا جو انہوں نے کر دیا ہے۔ سینئر
جنرل جن کی فہرست انہیں فراہم کی گئی تمام کے تمام جنرل ایک سے ایک بڑھ کر
تھے، ان میں سے کسی کا انتخاب تو ہونا ہی تھا وہ ہوگیا۔لیفٹینیٹ جنرل قمر
باجوہ آرمی چیف جن کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے اس وقت جی ایچ کیو میں انسپکٹر
جنرل آف ٹریننگ اینڈ ایو لیوایشن تعینا ت ہیں ، انہوں نے 10کور کی کمان
کااعزاز بھی حاصل ہے۔ جنرل زبیر حیات کو جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی مقرر
کردیا گیا ہے ۔ جنرل راحیل شریف تین سال مکمل کرنے کے بعد29نومبر
2016کوآرمی چیف کی حیثیت سے ریٹائر ہوجائیں گے۔ جنرل راحیل شریف کی
ریٹائرمنٹ جس پروقار اور بہ احترام طریقے سے عمل میں آرہی ہے وہ پاکستان کی
تاریخ میں ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھی جائے گی، وہ پاکستانی عوام کے دلوں میں
ہمیشہ یاد رہیں گے۔جنرل راحیل شریف کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو قلم سے
قرطاس پر منتقل کرنے کے لیے طویل وقت اور تحقیق کی ضرورت ہے، ان پر ایک
نہیں بلکہ بے شمار کالم، مضامین ہی نہیں بلکہ تصانیف لکھنے کی ضرورت ہے۔
چار صفحات پر مشتمل کالم لکھنا ان کی با وقار رخصی کے شایان شان ہر گز نہیں
، اس کا مقصد تو محض انہیں رخصت کرنے والے قلم قبیلے میں اپنی شمولیت اور
جنرل صاحب کو خراج تحسین پیش کرنا مقصود ہے۔ان کی شخصیت اور عظیم کارناموں
پر مستقبل کا مورخ یقینا لکھے گا، تحقیق ہوگی اور ان کے خدمات اور کارناموں
کا اجاگر کیا جائے گا اور ہونا بھی چاہیے۔ابتدائی طور پر کالم نگار روزنامہ
’خبریں ‘کے میگزین ایڈیٹر ندیم نظر نے ایک کتاب’’ عہدِ راحیل شریف: پاک فوج
کے کارہائے نمایاں‘‘مرتب کی ہے۔ بنیادی طور پر کتاب ندیم نظر کے ان کالموں
کا مجموعہ ہے جو انہوں نے جنرل راحیل شریف، افواج پاکستان ، ضرب عضب، دہشت
گردی کے خلاف اقدامات، دہشت گردوں کے حملے، سانحہ اے پی ایس، پشاور، واہ
فیکٹری، کومبنگ آپریشن، فضائیہ کے کیمپ پر حملہ اور دیگر موضوعات پر تحریر
کیے۔ کتاب اس اعتبار سے قابل تعریف ہے کہ یہ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ
کے موقع پر منظر عام پر آئی۔ بہ الفاظ دیگر ندیم نظر کی یہ کتاب جنرل راحیل
شریف کی بطور آرمی چیف خدمات کا بڑی جامعیت کے ساتھ تذکرہ پیش کرتی ہے۔
(28نومبر2016) |
|