ابابیل زمانہ

وہ اھل جنوں جو کبھی نا جھکے موت کے آگے
جن لوگوں کو افغانستان میں امریکہ کی حالت زار دیکھ کر بھی اس بات کا یقین نہ آ رہا ہو کہ قوموں کی فتح اور سرفرازی مادی وسائل یا ٹیکنالوجی کے عروج سے نہی بلکہ غیرت و حمیت سے حاصل ہوتی ہے تو ایسے لوگوں کو غیرت کا درس نہی پڑھایا جا سکتا. ان لوگوں کی جبینیں بنی ہی مادی طور پر طاقتور کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لیے ہیں اور جن افراد کو افغانستان میں صرف سو سال کے عرصہ میں تیسری عالمی طاقت یعنی پہلے برطانیہ، پھر روس اور اب امریکہ کی شکست کے بعد بھی اس بات کا یقین نہ آئے کہ اس کائنات کا ایک مالک و مختار اور فرمانروا بھی ہے جس کا اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ تم اس پر بھروسہ تو کر کے دیکھو تم تھوڑے بھی ہو گے تو تمیں زیادہ بڑے گروہوں پر غلبہ عطا کرے گا، تو پھر یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں میرا الله فرماتا ہے کہ ہم نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دی ہیں.

تاریخ کا یہ کتنا بڑا مذاق ہے کہ ایک عالمی طاقت جو خود کو واحد عالمی طاقت سمجھتی ہو جس کے ہتھیاروں کی تکنیکی خوبی ایسی ہو کہ اس کی گرد کو بھی کوئی نہ پہنچ پاتا ہو، وہ چند ہزار طالبان کے ہاتھوں اس قدر بے بس ہو جائے کہ اپنی ناکامی اور خفت کا ملبہ ایک ایسے ملک میں "بسنے والے" تین یا چار ہزار حقانی نیٹ ورک کے لوگوں پر لگا دے. یہ "بسنے والے" میں نے اس لیے لکھ دیا ہے کہ یہ امریکہ کا کہنا ہے ورنہ جس نے افغانستان دیکھا ہے اسے علم ہونا چاہئیے کہ کابل کے الٹرا ریڈ زون تک شمالی وزیرستان سے جا کر پہنچنا کسی عقلمند کا کام نہی.... یہ تو ہونا تھا اس لیے کہ آج سے تیرہ سال قبل جب امریکہ افغانستان میں داخل ہوا تھا تو میرے ملک کے طاقت کے پجاری اور مادی وسائل کو خدا سمجھنے والے دانشور، ادیب، سیاستدان اور جرنیل بھی یہی کہتے تھے کہ ٹیکنالوجی کی دنیا ہے. افغان نہتے اور بے وسائل لوگ ہیں. یہ درختوں پر بیٹھے پرندوں کی طرح مارے جائیں گے.

ایسے میں پورے ملک میں میرے جیسے چند "بیوقوف" لوگ بھی تھے جو کہا کرتے تھے کہ دیکھو اس کائنات میں ایک اور طاقت بھی ہے جو اس کی فرمانروائے مطلق ہے اور جو کوئی صرف اور صرف اس پر بھروسہ کر لیتا ہے پھر یہ اس واحد و جبار کی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ اسے ذلت و رسوائی سے بچائے. آج موجودہ دنیا کی تاریخ میں واحد افغان قوم ہے جو سرخرو ہے. کسی قوم کے سینے عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے اتنے زیادہ میڈل نہی سجے جتنے اس قوم کے سینے پر آویزاں ہیں.

امریکہ اپنی شکست کا بوجھ اس پاکستان پر ڈال رہا ہے جس کے سیاستدان، دانشور، سول سوسایٹی حتی کہ جرنیل ان کے ٹکڑوں پر پلنے کو فخر سمجھتے رہے ہیں. اس وقت میرے ملک میں دو گروہوں میں جنگ ہے. ایک وہ جو سر تا پا الله پریقین رکھتے ہیں اور دوسرا وہ طبقہ ہے جو قوم کو ڈرا رہا ہے. یہ سول سوسایٹی کے فیشن زدہ لوگ اور طاقت کے مندر میں سجدہ ریز دانشور کمال کی گفتگو کر رہے ہیں... دیکھو باز آ جاؤ انتہا پسند چھا جائیں گے....واہ جو امریکہ سے لڑے گا وہی چھائے گا کبھی بزدل بھی چھائے ہیں؟

ایک اور منطق اور درف طنی چھوڑی جا رہی ہے. امریکہ وہاں رہے گا جائے گا نہی، کیا خوش فہمی ہے. میرے یہ عظیم دانشور اور سول سوسایٹی کے مہربان جو اس ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں کسی انسان کی مدد کرتے تو نظر نہی آتے، امریکہ کی جنگ لڑنے میڈیا میں موجود ہیں. یہ کمال کے لوگ ہیں. جب دسمبر 1979میں روس افغانستان میں داخل ہوا تھا تو یہ اس ملک کی سڑکوں پر بھنگڑے ڈال رہے تھے. وہ دیکھو سرخ پھریرا سرحد عبور کرنے والا ہے، تمہاری داڑھیاں نوچ لی جائیں گی اور سارا انقلاب ہوا کی طرح اڑا دیا جائے گا. کیسے کیسے مضمون لکھے گئے. کیسی کیسی نظمیں تحریر ہوئیں، سرحدوں پر انقلاب کے سویرے کی نوید سنائی گئی. لیکن ان سب کو کیا ادراک کہ پاکستان کے ساتھ ایک ایسی قوم بھی بستی ہے جو صرف اور صرف الله پر اعتماد کرتی ہے. میں سوویت یونین کی ذلتوں کی داستان بیان نہی کرنا چاہتا. اس ملک ہی نہی پوری دنیا کی سڑکوں نے اس عالمی طاقت کو یوں رسوا ہوتے دیکھا کہ پورے یورپ میں صرف عظیم سوویت یونین کی لڑکیوں کا جنسی کاروبار سالوں تک ہوتا رہا اور آج بھی جاری ہے.. جس امریکا کو وہ کمیونسٹ پچھتر سال گالیاں دیتے رہے اسی کے دروازے پر بھیک کے لیے کھڑے نظر آنے لگے.

یہ لوگ بھی کمال کے ہیں. اگر چی گویرا بولیویا سے کیوبا جا کر لڑے تو ہیرو، اگر فرانس کے لوگ جرنل گیاپ کے ساتھ جا کر ویتنام میں کاروائیاں کریں تو عظیم. اگر سارتر الجزائر جا کر لڑے تو عظیم انقلابی. لیکن اگر کوئی الله پر یقین رکھے اور فلسطین، بوسنیا، چیچنیا یا افغانستان کے مظلوموں کی مدد اور عالمی طاقتوں کے خلاف لڑے تو دہشتگرد، امن و امان تباہ کرنے والا . کیا عجیب منطق ہے. ان سب کو اب کچھ سجھائی نہی دے رہا.
Muhammad bilal nelmi
About the Author: Muhammad bilal nelmi Read More Articles by Muhammad bilal nelmi: 9 Articles with 9067 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.