آخر کار امریکا ایک نئے دور میں داخل ہوہی گیا

بڑھکوں کے ذریعے کسی ملک کو گرایا نہیں جا سکتا نہ اپنے نکتہ نظر کی طاقت سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ دہائیوں سے دنیا کا امن تباہ کرنے والا اب تاریخ کے ایسے راستے پر چل پڑا ہے جس کے آخری کنارے پر کھائی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ یوں تو امریکا کی پوری تاریخ نفرت کی تاریخ ہے لیکن حالیہ انتخابات کے بعد جس برے طریقے سے ایک بار پھر عورت کی تذلیل کی گئی ہے ، وہ اس کی نفرت کی زندہ مثال ہے ۔ لوگ اسے شاید دیوانے کی بڑھک ، دل کی تمنا اور مسلم عصبیت پر تعبیر کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ سارے آثار جو کسی جابر اور مغرور مملکت کے ہوتے ہیں ، اس کی کتاب کا آخری باب شروع ہو چکا ہے۔ہم نے برسوں سے روس، جرمنی ، برطانیہ کا طمطراق بھی دیکھا تھااور اس طمطراق کاسورج غروب ہوتے بھی دیکھا۔ اپنی طاقت کے ذریعے برسوں تک نہ کسی کو غلام رکھا جا سکتا ہے اور نہ یہ طاقت و قوت ہمیشہ کسی کا مقدر ہوتی ہے ۔طاقت کے نشے نے کتنے انسان تباہ کیے ، ملک تاراج کیے اور بڑے بڑے شہ زور حکمرانوں کو مٹی چاٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہ سچ ہے کہ طاقت کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ نشہ زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتا۔

طاقت کبھی کسی مسئلے کا حل بھی نہیں رہی ۔غرور اور تکبر انسانوں کو تباہ کرتا ہی ہے لیکن یہ ملکوں اور سلطنتوں کو بھی خاک میں ملا دیتا ہے ۔اس دنیا کی روایت رہی ہے کہ ہر طاقت ور کمزور کو دباتا ہے ۔ اس روایت کے برعکس حقیقت تو یہ ہے کہ اپنے ہمسر اور ہم پایہ کو کوئی شکست نہیں دے سکتا چونکہ وہ برابر ہوتا ہے ۔ اپنے سے زیادہ طاقت والے کو کوئی گرا نہیں سکتا۔ بس ایک کمزوری ہوتا ہے جو طاقت ور کا نشانہ بنتا رہتاہے اور طاقت ور اسے اپنی فتح سمجھ رہا ہوتا ہے۔

بچپن میں کھیل کے دوران اکثر باری پر جھگڑا ہوجاتا تھا ‘ہر کھلاڑی کی خواہش ہوتی تھی کہ پہلے اس کی باری آئے اور اسے پہلے کھیلنے کا موقع ملے ۔ جو تگڑا ہوتا وہ کمزور کھلاڑیوں کو دبالیتا تھا اور پہلی باری اسی کامقدر ٹھہرتی تھی۔ عالمی سطح پر تباہی و بربادی کا جو شیطانی کھیل ہو رہا ہے اس میں امریکہ سب سے تگڑا ملک ہے اس نے کمزور ملکوں کی ’’گیچی‘‘ دبا کر ان سے اپنا یہ حق منوا لیا ہے کہ اب اس کی باری ہے۔ بے شک اس نے افغانستان اور عراق پر گولہ و بارود کی بارش کی ہے‘ اس پر بیس بیس ہزار پونڈ وزنی بم برسا کر تمام بڑے شہروں کوملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے ‘اس نے معصوم بچوں ‘ جوان عورتوں ‘ مردوں اور بوڑھوں کو تا ک تاک کر مارا ‘اس نے راہ چلتے مسافروں کو گولیوں سے اڑا دیا اور عراق و افغانستان کے ملبے پر اپنی فتح کا جشن منا تارہا‘ لیکن تمام تر وحشت اور درندگی کے باجود اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ وہ اپنی ’’باری‘‘ کھیل رہاتھا ‘اپنے ہاتھوں سے اپنی عزت خاک میں ملانے ‘ پوری دنیا میں اپنے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانے اور اس آگ میں کود کر خود کو بھسم کرنے میں مصروف رہا ۔اس سے پہلے روس بھی اپنی ’’باری ‘‘ لے چکا ہے اور روس سے پہلے جرمنی کی ’’باری‘‘ بھی لوگوں کو یاد ہے۔

لوگ کہتے ہیں او ر کسی حد تک صحیح کہتے ہیں کہ امریکہ ایک زمانے میں بہت اچھا ملک تھا ۔ اس میں شہری آزادی تھی ‘ انسانی حقوق کا احترام تھا ‘ جمہوریت کی قدر کی جاتی تھی ۔ بین الاقوامی تعلقات میں بھی وہ ان اصولوں کی پابندی کرتا تھا پھر یہودیوں نے اسے اپنے شکنجے میں کس لیا۔ وہ اس کے پالیسی ساز اداروں پر چھا گئے ‘اس کے تھنک ٹینکس میں گھس گئے اور اس کی داخلی و خارجی پالیسیوں کو اپنے خطوط پر چلانے لگے۔ اس طرح یہودیوں نے اسے پوری دنیا سے بھڑا دیا اور دور کھڑے تماشہ دیکھنے لگے۔ پہلے یہ تصادم تزویراتی انداز کا تھا ‘ امریکہ اپنے ایجنٹوں کے ذریے ملکوں کی حکومتیں بدلتا اوران میں اپنے پٹھوبٹھاتا تھا پھر اس نے براہ راست تصادم شروع کر دیا۔ اس نے دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم برسائے اس کے بعد ویت نام پر جارحیت کا ارتکاب کیا لیکن یہ جارحیت اسے بہت مہنگی پڑی ‘نہ صرف ویت نامی عوام نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا بلکہ خود امریکی عوام بھی اپنی حکمران قیادت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے جنونی حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پرمجبور کر دیا۔ ویت نام سے ذلت آمیز پسپائی کے بعد بھی امریکی حکمرانوں کی آنکھیں نہ کھلیں ‘وہ بدستور صہیونی شکنجے میں گرفتار رہے اور یہودی انہیں دنیا سے لڑا کر اپنی مطلب براری کرتے رہے ۔ مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی جنگ اسی یہودی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت وہ امریکی طاقت کے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک عظیم تر یہودی ریاست کے قیام کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں ۔ امریکہ کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ یہودیوں کے لیے ڈھال کا کام دے رہا ہے۔ ان کے خلاف ہر وار کو اپنے سینے پر سہہ رہا ہے ‘ ان کی خاطر پوری دنیا کی نفرت مول لے رہا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خود امریکہ بھی پوری دنیا پر اپنی کارفرمائی چاہتا ہے ‘وہ پوری دنیا کے وسائل کو اپنی جھولی میں سمیٹنا چاہتا ہے ‘اس نے دنیا بھر کی لعنت ملامت کے باوجود عراقی تیل پر قبضہ کیا ہے جب کہ سعودی عرب اور کویت کے تیل کے ذخائر پر اسے پہلے ہی کنٹرول حاصل ہے۔ یہودی منصوبہ سازوں نے اسے ہوس ملک گیری اور مسلمان دشمنی کے ایک ایسے جنون میں مبتلا کر دیا ہے جس سے چھٹکارا پانے کے بظاہر کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ۔ اس طرح امریکہ اپنی ’’باری‘‘ بڑے طمطراق سے کھیل رہا ہے جس کا انجام تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ممکن ہے کہ عراق اور افغانستان کے بعد کچھ اور مسلمان ملکوں کی باریاں بھی آ جائیں لیکن ان باریوں کا مطلب ہے کہ امریکہ کے تباہی و بربادی کے کھیل میں اب کون سا ملک اس کا نشانہ بنے گا اور کھیلنے کے لیے نہیں بلکہ کھیلے جانے کے لیے کس کی باری پہلے آئے گی۔ اصل باری امریکہ کی ہی ہے جو سب کھلاڑیوں کو پیچھے دھکیل کر اپنا کھیل کھیل رہا ہے ۔ روس ‘ چین ‘ فرانس ‘جرمنی سب نے احتجاج کیا کہ امریکہ فاؤل کھیل رہا ہے ‘اسے کھیل کے مسلمہ اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کی کوئی پرواہ نہیں رہی۔ وہ انسانیت کا مذاق اڑاتا رہا ۔ وہ دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہا رہاتھا لیکن امریکہ نے کسی احتجاج پر کان نہیں دھرا اور پوری دنیا کی مخالفت کے باوجود آگ اور خون کا کھیل کھیلتا رہا ۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ اپنی باری کھیلتے کھیلتے اس کا سانس پھول گیا ہے ‘اس کے حواس جواب دے چکے ہیں اور وہ اوندھے منہ کسی اندھے کنوئیں میں جا گرے گا۔ یہ واقعہ کب رونما ہوگا؟ اس کا علم صرف اﷲ تعالیٰ کو ہے جس کی وسیع ترمشیت کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے…… اور جس کے ہاں دیر تو ہوسکتی ہے اندھیر نہیں ۔

ہر غرور ، وحشت اور تکبر کو زوال لازم ہے۔ہر طاقت کے مقدر میں ناتوانی اور ہرعروج کا زوال تاریخ کا سبق ہے ۔ایک نیا باب شروع ہو چکا ہے ۔ ایک نئی گیم جس میں قوت سے باری لینے والے شکست کی دہلیز پر آ چکے ہیں۔
Muhammad Saghir Qamar
About the Author: Muhammad Saghir Qamar Read More Articles by Muhammad Saghir Qamar: 51 Articles with 37903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.