جنرل راحیل شریف کی محبت
(Dr Tasawar Hussain Mirza, Lahore)
مکتب مدرسہ، سکول کالج، ہسپتال مسجد،
چرچ مندر،شہر گاؤں، عورت مرد، بچے بزرگ، طالب علم پروفیسر، امیر غریب،
ٹرینیں بسیں، ریلوے اسٹیشن جیسے پبلک مقامات کا جہاں ایک ایک دن میں کئی
کئی دھماکے ہوتے تھے۔ کبھی خودکش کبھی بم، قتل و غارت کی ایسی لہر جس میں
ہر بشر انجانے خوف، وحشت کا شکار، تھا، کوئی نہیں جانتا تھا کہ گھر سے
نکلنے والے شخص کو واپسی نصیب ہوتی ہے یا نہیں، پورے ملک میں دہشت گردوں نے
جنگل کا قانون بنایا ہوا تھا، جی ہاں یہ حالت تھی اپریشن’’ضرب عضب ’’سے
پہلے اسلامی جموریہ پاکستان کی مملکت کی جس کو ’’پہلا اسلامی ایٹمی ملک
’’کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
کہتے ہیں جس طرح کمال کے بعد زوال قدرتی عمل ہے اسی طرح ہر اندھیری رات کے
بعد روشن سویرا بھی قانون ِ فطرت ہے۔ آج ملک میں امن سکون ہے دہشت گردی کا
قلع قمع ہو چکا ہے۔ جو 5%سے 10% تک ہے انشائاﷲ وہ بھی نست و نمود ہو جائیگا۔
کیونکہ اﷲ نے پاکستانی قوم کی دعائیں قبول کر کے جنرل راحیل شریف جیسا قومی
ہیرو دیا ہے۔ پاکستانی قوم اس احسان پر اﷲ ربالعزت کی مشکور ہیں جس نے ایک
سچا اور پکا پاکستانی مومن جنرل راحیل شریف اسلامی جموریہ پاکستان کی حفاظت
کے لئے مامور کیا ہے۔58 سال پاکستانی قوم کو انتظار کرنا پڑا بقول ڈاکٹر
علامہ محمد اقبال ّ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ
ور پیدا
آ رمی چیف جنرل راحیل شریف 16 جون 1956ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے ان کے والد
میجر محمد شریف تھے ان کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف 1971 کی پاک بھارت جنگ
میں شہید ہوئے اور انہیں نشان حیدر ملا راحیل شریف تین بھائیوں اور دو
بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں ان کے دوسرے بھائی، ممتاز شریف، فوج میں کیپٹن
تھے آرمی چیف میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کے بھانجے ہیں جنہوں نے 1965 ء کی
بھارت پاکستان جنگ میں شہید ہو کر نشان حیدر حاصل کیا۔پاکستان آرمی چیف
جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی پاکستانی فوج کے مایہ ناز سپوت میجر شبیر
شریف شہید تھے جو اپریل 1943 کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک راجپوت گھرانے
سے تھا جس کا ماضی میں تعلق ایک ہندو راجپوت خاندان سے تھا۔ بعد میں یہ
خاندان حلقہ بگوش اسلام ہوا تو کشمیر کی سکونت ترک کر کے گجرات کے قصبہ
کنجاہ میں آباد ہو گیا۔میجر شبیر شریف کے پردادا میاں محمد بخش ایک صوفی
منش آدمی تھے اور دور دور تک اپنے انسان دوست کارناموں کے لئے مشہور تھے۔
ان کے بیٹے میاں غلام حسین اور میاں مہتاب نے اپنے خاندان کی ان روایات کو
مرتے دم تک زندہ رکھا۔ میجر شبیر شریف کے والد میجر شریف، میاں مہتاب کے
بیٹے تھے۔میجر محمد شریف نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلامیہ ہائی
سکول کنجاہ ضلع گجرات سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1935 میں سگنل کور
میں بطور سنگنلر بھرتی ہو گئے۔ ان کیڈیوٹی جیل پور میں لگائی گئی جو
انگریزوں کے دورِ حکومت میں بھارت کے ملٹری ٹریننگ سنٹرز میں سے بہت بڑا
سنٹر مانا جاتا تھا۔
میجر محمد شریف نے یہاں رہ کر بہت سے آرمی کورسز میں کامیابی حاصل کی۔ اس
کے بعد کچنر کالج نوکانگ سے منسلک ہو گئے اور فوج کا اعلی ترین کورس یعنی
سپیشل آرمی کورس کیا۔ اپنی محنت کے بل بوتے پر وہ ایک عام سنگنلر سے ترقی
کرتے ہوئے میجر کے عہدے تک پہنچے اور 6 جون 1965 کو بحیثیت میجر ہی ریٹائر
ہوئے مگر 2 ماہ بعد ہی 6 ستمبر 1965 کو جب مسلح جارحیت کے مرتکب ہوئے بھارت
نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو ایمرجنسی رولز کے تحت میجر محمد شریف کی
خدمات دوبارہ حاصل کی گئیں۔ اس جنگ میں میجر محمد شریف کے دو بیٹے کیپٹن
ممتاز شریف اور میجر شبیر شریف شہید بھی وطن کے دفاع کے لئے دشمن کے سامنے
سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح سینہ سپر تھے۔ اس جنگ میں میجر شبیر شریف
شہید نے ستارہ جرات اور کیپٹن ممتاز شریف نے ستارہ بسالت حاصل کیا جو ان کی
بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
میجر شبیر شریف شہید کی خاندانی روایات گواہ ہیں کہ ان کے خاندان کا تقریبا
ہر فرد فوج میں رہا۔ میجر صاحب کی والدہ کے 5 بھائی یعنی میجر صاحب کے
ماموں فوج میں مختلف عہدوں پر فائز رہے جبکہ ان کے نانا انگریزوں کے دور
میں 1918 تک راجپوتانہ رائفلز سے جمعدار کے عہدے پر رہے۔ میجر صاحب کے
بہنوئی میجر سعادت علی خان تھے۔ ان کا تعلق رام پور کے نواب خاندان سے تھا۔
یہ 1971 کی جنگ میں سلیمانکی فاضلکا سیکٹر میں میجر شبیر شریف شہید سے دو
سو گز پیچھے ان کے سیکنڈ ان کمانڈ کی حیثیت سے مصروفِ جنگ تھے۔ جب میجر
شبیر شریف شہید نے جامِ سہادت نوش کیا تو میجر سعادت علی خان ہی ان کے جسد
خاکی کو فوج سے وصول کر کے گھر لائے تھے۔ اس خاندان کی رگوں میں وطن کی
خدمت اور فوج میں رہ کر وطن کی حفاظت کا جو سودا سمایا ہوا تھا اس کی کتنی
ہی انمٹ مثالیں موجود ہیں۔
پاکستان میں فوج کے سربراہ کیلئے نامزد ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل راحیل شریف
روائتی فوجی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں 16جون 1956میں کوئٹہ میں میجر شریف
کے گھر پیدا ہونے والے راحیل شریف کے باقی دونوں بھائی بھی فوج میں ہے ان
کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید کو پاک بھارت جنگ میں شاندار خدمات پر
پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا گیا جبکہ انکے ماموں میجر
عزیز بھٹی بھی لاہور میں بھارت کا حملہ پسپا کرنے پر نشان حیدر کے حقدار
قرار پائے تھے۔راحیل شریف کے ایک اور بھائی ممتاز شریف بھی پاک فوج میں
کیپٹن رہ چکے ہیں اور انہیں انکی خدمات پر ستارہ بسالت عطا کیا جا چکا ہے
جبکہ انکے والد بھی فوج میں جرات اور بہادری پر اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔دو
نشان حیدر سمیت کئی دیگر اعزازات حاصل کرنے پر انکی فیملی کو تمغوں والی
فیملی کے طور پر جانا جاتا ہے
آرمی چیف کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ راحیل شریف نے گورنمنٹ کالج، لاہور
سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی میں داخل
ہوئے تھے اکیڈمی کے 54ویں لانگ کورس کے فارغ التحصیل ہیں? 1976 ء میں
گریجویشن کے بعد، انہوں نے فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی چھتی بٹالین میں کمیشن
حاصل کیاتھا نوجوان افسر کی حیثیت سے انہوں نے انفنٹری بریگیڈ میں گلگت میں
فرائض سرانجام دئیے تھے راحیل شریف نے بطور بریگیڈیئر آزاد کشمیر اور
سیالکوٹ میں دو انفنٹری بریگیڈز کی کمانڈ کی جن میں کشمیر میں چھ فرنٹیئر
فورس رجمنٹ اور سیالکوٹ بارڈر پر 26 فرنٹیئر فورس رجمنٹ شامل ہیں۔جنرل
پرویز مشرف کے دور میں میجر جنرل راحیل شریف کو گیارہویں انفنٹری بریگیڈ کا
کمانڈر مقرر کیا گیاتھا راحیل شریف ایک انفنٹری ڈویژن کے جنرل کمانڈنگ افسر
اور پاکستان ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں تھے
راحیل شریف نے اکتوبر 2010 سے اکتوبر 2012 تک گوجرانوالہ کور کی قیادت کی
تھی انہیں جنرل ہیڈ کوارٹرز میں انسپکٹر جنرل تربیت اور تشخیص رہنے کا
اعزاز بھی حاصل ہے 27 نومبر 2013 کو وزیر اعظم نواز شریف نے انہیں پاکستانی
فوج کا سپاہ سالار مقرر کیا20 دسمبر 2013 کو راحیل شریف کو نشان
امتیاز(ملٹری) سے نوازا گیاتھا آرمی چیف کو ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا
ہے۔
جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب’امریکہ’برازیل’اردن اور ترکی کے اعلیٰ فوجی
اعزازات بھی مل چکے ہیں۔ آرمی چیف راحیل شریف نے جس وقت پاکستانی آرمی کی
کمانڈ سنبھالی تو ملک میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر تھی ان کی
زیر قیادت 15جون 2014 کو آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جس سے ملک میں امن و
امان کی صورتحال بہتر ہوئی اور راحیل شریف ایک مقبول آرمی چیف کی حیثیت سے
ابھرے۔حالیہ ایران سعودیہ کشیدگی میں وہ بھی ملکی وزیر اعظم میاں نواز شریف
کے ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگے کم کرنے کیلئے دورے پر تھے۔ آرمی چیف
کے عہدے کی مدت نومبر 2016 میں ختم ہو گی ہے۔۔لیکن جنرل راحیل شریف جیسا
سپاسلار اسلامی جموریہ پاکستان نے وہ وقار ، حب الوطنی کا عملی نمونہ پیش
کیا ہے کہ عام پاکستانی سے لیکر خاص تک، تعلیم یافتہ ہو یا ان پڑھ ، عورت
ہو یا مرد ، بچے اور جوان ، سیاسی لیڈر ہو یا دینی راہبر ، سماجی ورکر اور
رفاحی شخصیات سمیت تمام طبقہ فکر کے محب ، وطن جنرل راحیل شریف کو دل سے
پاکستان کا ہیرو بنایا ہے ۔ اور اﷲ کے کرم و فضل سے جنرل راحیل شریف نے بھی
ثابت کر دیا ہے کہ اسلامی جموریہ پاکستان کا اصل ہیرو کیا ہوتا ہے۔آج جنرل
راحیل شریف چیف آف آرمی سٹاف سے ریٹائرڈ ہو گئے ہیں مگر پاکستانیوں کے دل
پر آج بھی محبت کی حکمرانیجنرل راحیل شریف کی قائم ہے ان شااﷲ قائم ہی رہے
گئی۔ |
|