اہتمام

بھیڑیے کے بہانے کی محض ایک مثل ہے ورنہ اسے تو کسی بہانے کی ضرورت ہی نہیں۔ طاقت کسی جواز یا بہانے کی محتاج نہیں ہوتی۔ وہ جب اور جسے چاہے دبوچ لے اور چیر پھاڑ ڈالے۔ تاریخ میں ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ مقتدرہ طبقے کم زوروں کو دبوچتے اور گھسیٹتے آئے ہیں۔ اسی طرح طاقتور بادشاہ کم زور بادشاہوں کی عزت و آبرو کو اپنے گوبر آلود پاؤں تلے روندتے آئے ہیں۔ یہ ہی نہیں اس علاقے کی پہلے سے مظلوم عوام کا بھی قیمہ بناتے آئے ہئں۔ بدقسمتی دیکھیے مورکھ ہی نہٰیں آتے وقتوں کے چھتر گرفتہ لوگ بھی جئے جئے کار کرتے آئے ہیں۔ کسی کو توفیق اور جرآت نہیں ہوئی کہ وہ ان کے اصلی چہرے عوام کو دیکھا پائے کیوں کہ بےخبر عوام کی بھی جذباتی وابستگی ان بھیڑیوں سے وابستہ رہی ہے۔

مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر زکرا نے اس روز بہانہ تلاش کر میری عزت افزائی کا اہتمام کیوں کیا۔ بہانہ تراشے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ میں تو پہلے ہی بھ بھیڑ سے بھی کم درجے پر فائز ہوں۔

ہوا یہ کہ میں رات گیے پیشاب کے لیے اٹھا۔ وہ سو رہی تھی یا سونے کا ناٹک کر رہی تھی۔ واپس آ کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ اسی لمحے وہ اٹھی اور گرجنے برسنے لگی۔ میں حیران ہو گیا کہ آدھی رات کو مجھ سے ایسا کون سا جرم سرزد ہو گیا ہے جو یہ بھونکنا شروع ہو گئی ہے۔ میں نے پوچھا
آخر مجھ سے کون سی غلطی ہو گئی ہے جو یہ قتل و غارت کا بازار گرم کر دیا گیا ہے۔
سب کچھ کر گزر کے بعد بھی پوچھتے ہو کہ کیا غلطی ہوئی ہے۔
میں نے دوبارہ سے عرض کیا کہ بتا دینے میں حرج ہی کیا ہے۔
میرا سرہانہ نیچے گرا پڑا تھا تم نے اٹھایا نہیں۔ اس پر پاؤں رکھ کر گزر گئے ہو۔
اس میں آخر لڑنے والی ایسی کون سی بات ہے۔
یہ کوئی بات ہی نہیں۔ کتنے معصوم بن رہے ہو۔
جب میں گیا سرہانہ گرا نہیں تھا جب واپس آیا تو گرا پڑا تھا۔ میں نیند کے غلبے میں تھا۔ چارپائی پر لیٹ گیا۔ یہ بات غلط ہے کہ میں اس پر پاؤں رکھ کر گزرا ہوں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ تو سوئی ہوئی تھی اسے کیسے پتا چل گیا کہ میں پاؤں دے کر گزرا ہوں گویا جاگ رہی تھی اور جانتی تھی کہ آدھی نیند میں سرہانہ نہیں اٹھاؤں گا۔

باقی رات اسی کل کلیان میں گزر گئی‘ صبح ہوئی۔ اٹھتے ہی کہنے لگی‘ تمہیں میری صحت کا ذرا بھر احساس نہیں۔
پوچھا صحت کو کیا ہو گیا ہے۔
کہنے لگی‘ جو تم نے پیٹھی والے نان لا کر دیے تھے‘ اس کا ایک ٹکرا گلے میں پھنس گیا ہے۔
میں کوئی نبی نہیں‘ جو مجھ پر وحی اتر آتی کہ ایک ماہ بعد‘ نان کا ٹکڑا گلے میں پھنس جائے گا‘ جو یہ آخری فیصلہ کرنے پر اتر آئے گی۔ نان کے ٹکڑے کے گلے میں پھنسنے میں‘ میرا کوئی عمل دخل ہی نہ تھا۔ خیر مجھے ٹکڑا نکلوائی ادا کرنا پڑی۔ باہر سے واپسی پر‘ چار پر لیٹ گئی‘ جیسے بڑا اپریشن کروا کر آئی ہو۔

بیمار کی دیکھ بھال اور خاطر مدارت ذمے آ پڑی۔ میں اس خوف سے لرزتا ہی رہا کہ اگر کوتاہی ہو گئی تو اس پس دہلیز امریکہ کے کلسڑوں کی زد میں آ جاؤں گا۔
 
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 211061 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.