سب کے کہنے پر ہم بہی بادل نخواستہ جانے کے
لیے تیار ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔ سامان پیک کیا اور ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ ہوئے،،،،
اب یہ اور بات ہے کہ نہ ہم کبھی اتنی دور کہیں گئے تھے،،، اور نہ کبھی ٹرین
کاسفر کیا تھا،،، ہمارے تصور میں پورپ جیسی ٹرینز تھا،، صاف ستھری،، پرسکون،،
جن میں نظم و ضبط کے ساتھ قطار بنا کر سوار ہوتے ہیں،، جب ہم ریلوے سٹیشن
پر پہنچے،، تو ہمیں گمان ہوا ،، کہ جیسے ہم مچھلی منڈی میں آ گئے ہو۔ ہم نے
تصدیق کے لیے پوچھا!!! کیا یہ ریلوے سٹیشن ہے؟ ساتھ سے گزرتے ہوئے کسی
چھچھورے نے کہا،،، نہیں باجی سینما گھر ہے ،، اور ہنستے ہوئے آگے چلا گیا،،،
گھر والوں نے کہا ،، باؤلی تو نہیں ہو گئی،،، جو ایسی ایسی باتیں کر رہی ہو،،،
خیر ہم چپ چاپ ٹرین کا انتظار کرے لگے،، اتنے میں ایک بھیانک سا شور اٹھا
،، ہم ڈر گئے کہ کہیں کوئی بم بلاسٹ تو نہیں ہو گیا،، پتا چلا کہ ٹرین
صاحبہ تشریف لا رہی ہیں،، جیسے جیسے ٹرین قریب آرہی تھی، ہمارا سانس رکتا
جارہا ہے۔اللہ اللہ کر ٹرین رکی ،، ہم نے سامان اٹھایا اور ٹرین کی طرف
بڑھے،، ہم ایک قدم آگے اٹھاتے،، اور لوگ دھکے دے کر دو قدم پیچھے کر دیتے،،
بمشکل ٹرین میں سوار ہوئے،، اس وقت تک ہم اجڑا دیار بن چکے تھے، کپڑے،
جنہیں ہم نے بڑے ارمانوں سے پریس کیا تھا،، اب ایسا لگ رہا تھا، جیسے گٹھری
سے نکال کر پہنے ہو،، اور ہماری زلفیں گھونسلے کا نظارہ پیش کر رہی تھی،،
ہمیں اتنا یقین ہے،، کہ اگر وہاں کوئی چڑیا ہوتی،، تو یقینا ہماری زلفوں
میں آرام استراحت فرماتی،، خیر ہم ٹرین مین بیٹھے تو کچھ سکون آیا ،، ٹرین
میں بیٹھے بیٹھے سب کا بغور معائنہ کیا،، دنیا کے ساتویں آٹھویں تو کیا
نواں عجوبہ بھی دیکھنے کو مل گیا،، اللہ اللہ کرکے کراچی سٹیشن پر پہنچے،،
اس وقت تک ہمارا جوڑ جوڑ دہائی دے رہا تھا،، ہم ٹرین سے اترے، ٹیکسی کی ،،
اتنی دیر ٹیکسی والے کو سمجھانے میں ہی لگ گئی،، (جاری) |