لہو لہان اردو افسانہ:ہماری تاریخ کا ایک چشم کشا باب!

یہ ابتدائے آفرینش سے ہی چلی آرہی روایت ہے کہ جب مختلف افکارو وخیالات کے انسانوں میں ان کے افکارو خیالات کے تئیں شدت اور سختی آجاتی ہے تو وہ لا شعوری طور پر اس فکر و خیال کو نہ ماننے والوں کو اپنا دشمن اور مخالف سمجھتے ہیں ۔اس دشمنی اور مخالفت کا آغاز بہت معمولی سے نقطے سے ہوتا ہے مگر رفتہ رفتہ یہ ایک شعلہ جوالا بن جاتی ہے اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ لاوا پھٹ پڑتا ہے اور سیاست باز افراد اس میں گھی و پیڑول ڈال کر اسے مزید بھڑکا دیتے ہیں ۔پھر ایک جانب سے زیادہ اور دوسری سے کچھ کم یا برابر مارکاٹ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اسی کا نام ’فساد‘-------’رائٹ ‘ہے ۔

معصوم و بے قصور کا فیصلہ تو بہت بعد کی بات ہے ۔مٹی انسانوں کا لہو چوسنے لگ جاتی ہے ،آخر انسان کا پورا وجود مٹی کے سینے پر گر جاتا ہے ،اب کی بار اس کے ذرے بھی اس تن مردہ سے چمٹ جاتے ہیں اور اندر تک سے کھانا شروع کر دیتے ہیں۔اکثرو بیشتر مذہبی بنیادوں پر یہ لڑائی لڑی جاتی ہے۔جانبین کا یہ انداز ہوتا ہے کہ جیسے وہ جہاد افضل میں شریک ہیں اور اپنے دشمن کو ختم کر کے ہی دم لیں گے۔

ہندوستان کے طول و عرض میں1857سے ایسے مناظر کے سجنے سجانے کا آغاز ہوا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔بہت چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر یہ مہیب طوفان اپھن پڑتے ہیں۔ہندوستان میں باربار ایسا ہواجب آباد ،خوش حال ،ترقی پذیرعلاقوں میں مذہبی، لسانی و کلچرل ایشوز کو لے کر آگ لگا دی گئی اور کچھ دیر بعد اس میں انسانیت کا خون ڈال دیا گیا۔اس کے بعددیکھتے ہی دیکھتے آگ و خون کا دائرہ دوردراز کے علاقوں کو اپنی چپیٹ میں لیتا چلاگیا۔ماضی کا ذکر کیا بالخصوص حالیہ دنوں تو حالات اس قدر خوں آشام ہیں کہ الامان والحفیظ،کسی کی بھی جان کی ضمانت نہیں دی جاسکتی ۔ اچانک کہیں دوچار غنڈے جمع ہوجاتے ہیں اور کسی بھی راہ چلتے شخص ، کسی بھی گھر اور کسی بھی جگہ پر حملہ آور ہو کر ایک جان دار کی جان لے لیتے ہیں ۔پھر پولیس اور حکومت ان کی پشت پناہی کر تی ہے اور مرنے والا ہی قصور ٹھیرا دیا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں اس وقت تو مزید شدت آگئی جب اب سے ستر سال قبل جب عظیم تر ہندوستان دو لخت ہو گیا ۔دشمنوں نے ایک ہی ملک میں لکیر کھینچ دی لکیر بھی سیدھی نہیں بلکہ ٹیڑھی میڑھی۔جس کے نتیجے میں جانبین کی ایک بہت بڑی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی تھی۔ کٹے پھٹے اور خستہ حال قافلے ان حالات کے گواہ ہیں اور اس وقت کی تاریخ و ادیب شاہد ہیں کہ وہ کیسے خون خون اور آگ آگ حالات تھے۔ اس وقت ادیبوں اور قلم کاروں میں نہ جانے کہاں سے ہمت آگئی کہ وہ ان حالات کے گواہ بن گئے اور کسی تیز لینس موڈرن کیمرے کی مانند ان حالات ، چیخوں،بے بسیوں،آہوں،کراہوں،آگ،قتل،غارت گری،محرومی اورہجرت کو اپنی تحریروں میں قید کر لیا۔ان مصنفین و قلم کاروں میں منٹو،کرشن چندر،راجندر سنگھ بیدی،عصمت چغتائی،انتظار حسین بلکہ ہر بڑے قلم کار نے افسانہ یا ناول لکھ کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔اس بیانیے میں وہ نہ کسی سے ڈرے اور نے گھبرائے ۔ان تحریروں میں انھوں نے انتہائی بے باکی سے کہیں حکومت کو نشانہ بنایا،کہیں بلوائیوں کو،کہیں حملہ آو روں کو غرض جو بھی جارح طبقہ تھا اسے اپنے قلم کی نوک پر رکھ کر اس کی اصلیت سے نقاب اٹھا دیے۔اس کے بعد خدا خدا کر کے یہ حالات فرو ہوئے اور وحشی انسان پھر سے جامۂ انسانیت میں آیا مگر کلی طور پر نہیں اس لیے کہ اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے فسادات۔بڑے بڑے شہروں میں فرقہ وارانہ لڑائیاں،ایک مخصوص طبقے پر قیامت بر پا کر نے جیسے ناقابل بیان حالات کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ انسان کی حیوانیت اب پوری طرح سے جامے سے باہر آگئی ہے،وہ مکمل طور پر وحشی بن گیا ہے ۔ اس مرتبہ تو حکومت کی ایجنسیاں اور ان کے زیر سایہ شرپسند عناصر سب مل کر یہ خونی راگ کھیل رہے ہیں ۔ ان کا محبوب ترین طریقہ ٹارگیٹ کر کے مارنانیز جس پر ہاتھ ڈالیں اس کی جان لینے پر ہی انتہا کرنا ہے۔

زیر مطالعہ کتاب معروف صحافی ،نامہ نگار،بہترین تجزیہ کار،مبصر اور دہلی یونیورسٹی کے ہونہار طالب علم سید عینین علی حق کی وہ کاوش ہے جسے جرأت و حوصلگی عظیم مثال کہنا مناسب ہو گا۔’لہو لہان اردو افسانہ‘ہماری اردو تاریخ کا وہ خونی باب اور سلسلہ ہے جس میں ان داستانوں کا ذکر ہے جواس ملک کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے والے اور اس کی تقدیر بنانے والوں کو زندہ جلا دینے کے واقعات پر مشتمل ہے۔آزادی کے فوراً بعد سے لے کر آج تک یہ خونی سلسلہ جاری ہے ۔حالات اس قدر مہیب اور خطرناک ہوچکے ہیں کہ اب نہ صرف افسانے کو ہی لہو لہان ہونا پڑے گا بلکہ اردوادب کی ہر صنف کو یہ فرض نبھانا ہوگا۔

عزیز دوست سید عینین علی حق کی یہ کاوش عصر موجود کا اہم ترین تقاضا پوری کر نے والی کاوش ہے اورایک بر وقت سلسلہ ہے ۔آج ایسے دستاویز اور حقیقت ناموں کی سخت ضرورت ہے تا کہ نسل موجود کو یہ بات ذہن نشین ہوجائے کہ وہ آج جن بنیادوں،جن گھروں اور جس ملک میں پر خوش و خرم اور بے فکر رہتی ہے ،اس کے کھنڈرات میں اس کے بزرگوں کا لہو ملا ہوا ہے۔کتنے تو ایسے تھے جن کا کوئی نہیں نام نہیں تھا اور نہ ہی کوئی شناخت تھی ،مگر وہ اس کے باوجود وہ وطن عزیز کی عزت و ناموس پر قربان ہو گئے بلکہ فنا بھی۔فنا بھی ایسے کہ نہ ان کی قبریں بنیں اور نہ ہی انکے مزاروں پرپھول ،چادر چڑھے۔وہ بھی کیا شہید ناز تھے۔

ان فسادات نے ہمارے اردو افسانے کو حد سے زیادہ متاثر کیا چنانچہ یہی وہ وجہ ہے کہ قلم کاروں کی ایک بڑی جماعت نے اسے اپنا موضو ع بنایا اور ’ان فسادات ‘پر فیصلہ کن جرس لگانے والے افسانے تحریر کیے ۔ ایک طویل فہرست ہے ،ان جیالوں کی جو آج تک اس شمع جسارت کو جلا ئے ہوئے ہیں․․․․․اﷲ پاک ان کی حفاظت فرمائے۔آمین!

250صفحات پر مشتمل سید عینین علی حق کی یہ کتا ب’فسادات ‘کے پس منظر میں لکھے جانے والے افسانوں اور کہانیوں کے تجزیوں پر مشتمل کتاب ہے۔اس میں انھوں نے منتخب ،بڑے اور اثر پذیر افسا نوں کو موضوع بحث بنایا ہے ۔اس طرح سے یہ کتاب ان متون کی تفسیر بھی کہی جاسکتی ہے۔جو کہ ایک اچھا اقدام اور نئی روایت کی داغ بیل ڈالنے کے مترادف ہے۔بڑے بڑے افسانوں کو اس مختصر مجموعے میں شامل کر دیا گیا ،یہ ایک بذات خود عظیم الشان کارنامہ ہے۔بلکہ اسی کو دریا بکوزہ کر نا کہا جاتا ہے۔یہ کتاب ہماری تاریخ کا ایک چشم کشا باب بھی ہے اور ہمارے خوابیدہ ضمیروں کو بیدار کر نے والا بھی کہ ہمارے اسلاف نے کس قدر آگ و خون کے دریا سے نکل کر مادر وطن کی عزت و عصمت بچائی تھی ۔چنانچہ آج تک بچاتے آرہے ہیں۔

ان حالات میں اس قسم کی کتابوں کی اہمیت اس طرح بھی ہے کہ یہ علاج درد اور زخموں کے مرہم کا کام بھی کر تی ہیں ۔کم سے کم قاری میں اتنا شعور تو پیدا ہوہی جاتا ہے کہ وہ ان خون و فسادات کے دنوں کو یاد کر کے موجود ہ حالات کا جائزہ خود سے لے کر اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور پھر نا گفتہ بہ حالات کی بگڑتی نبض پر ہاتھ پر رکھنے کا ہنربھی اسے آجاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس قسم کی کتابیں ہماری تاریخ کے وہ باب ہیں جو ہمیں خواب غفلت سے بیدار کر تے ہیں اور ہمیں آگہی سکھاتے ہیں ۔ہمیں اپنے فرائض و ذمے داریوں کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔ چوں کہ غفلتوں نے ہمیں برباد کر دیا اور کہیں کا نہیں چھوڑا چنانچہ آج کے حالات کے ہم اس حد تک تو ذمے دار ہیں کہ دفاع بھی نہیں کر سکتے اور کوئی بھی دشمن ہمیں انتہائی بے رحمی سے کچل دیتا ہے․․․․․․چنانچہ اس قسم کی کتابیں اور حالات ہمیں سکھاتے ہیں کہ ہم کم سے کم اپنی دفاعی پوزیشن تو بحال کرلیں ۔پہلے سے ہم باخبر ہوجائیں اور حالات کی بے رحم و بد لی ہو ئی نبض کا اندازہ لگا سکیں ۔ایک طرح یہ کتابیں ہمیں احتساب کی دعوت بھی دیتی ہیں ۔ہم اس قسم کی کتابوں کے بین السطور میں اپنا بھولا ہوا سبق پاتے ہیں اور گمشدہ تاریخ کی کڑیوں کا سراغ حاصل کرتے ہیں ۔یہ کتابیں ہمیں ہمارا ماضی دکھاتی ہیں ۔ہمیں وہاں لے جاتی ہیں جہاں سے ہم بہت آگے آچکے ہیں ۔ یہ غلط نہیں ہے بلکہ ہمارے لیے نہایت ضروری امر ہے۔بلکہ ہماری ہر ضرورت سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

برادرم عزیزسید عینین علی حق کا یہ کار بلکہ کارنامہ ہمیں جھنجوڑنے والا اور حقیقت سے آشنا کر نے والا شاہ کار ہے۔اس کے لیے وہ ہم سب کے بصد بار مبارک باد کے لائق ہیں اور ان کا قدم قابل ستایش ہے۔جس کی ہر گام پرپذیرائی ہونی چاہیے اور ہورہی ہے بلکہ وقت کے گزران کے ساتھ ساتھ مزید اس میں ترقی ہوگی۔
سید عنیین علی حق کی کتاب ان حالات میں ایک ’امید سحر‘اور جینے کا حوصلہ ہے۔اس کا مطالعہ نہ صرف اس لیے ضروری ہے کہ اس میں ہمارے ماضی کے فسانے ہیں بلکہ اس لیے بھی ضرور ی ہے کہ اس میں مستقبل کے اشارے بھی موجود ہیں اور حال تو خود ہمارے سامنے کی بات ہے جس سے ہم کسی نہ کسی صور ت میں نبرد آزما ہیں او رآئے دن یہ حالات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔

مجموعی اعتبار سے کتاب مختصر ہونے کے باوجود عمدہ اور جاذب نظر ہے۔سر ورق پر جلتے مکانوں،انسانوں،گھروں ،شہروں اور بازاروں کی نئی اور پرانی تصویریں ہیں جو یا حال و ماضی کے دل خراش نظارے،یہ سب بتاتے ہیں کہ ہندوستان کی زمین کس قدر خون مسلم سے لال ہوتی گئی ہے اور جب جب اس نے تقاضا کیا، اسے خون پلایا گیا اور چن چن کے مسلمانوں کی قربانی دی گئی۔یہ حقیقی ہی حالات کے ہی عکس ہیں،فسانے نہیں اور نہ ہی کہانیوں کی تصویریں ہیں ۔خدایا !اس زمین پر یہ کیسا ظلم ہوا تھا؟؟میں کس سے پوچھوں اور مجھے کون جواب دے گا۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62239 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More