تیرے نام میں جو ہے مصطفی، یہ سب اسی کا کمال ہے !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
کہتے ہیں کہ انسان کی شخصیت پر اس کے نام
کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے والدین اپنے بچے کی
پیدائش کے موقع پر بہت سوچ سمجھ کر اور مشورہ کرنے کے بعد اپنی اولاد کا
نام رکھتے ہیں بلکہ اکثر لوگ اپنے نومولود بچے کا نام رکھنے کے لیئے کسی
عالم دین سے مشورہ بھی کرتے ہیں تاکہ بچے کا ایسا نام رکھا جائے جو بامعنی
بھی ہو اور مذہبی یامعاشرتی لحاظ سے اس نام کا کوئی تاریخی پس منظر بھی ہو
۔
پاکستان کی اسلامی ،سیاسی اور ثقافتی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارے
معاشرے میں جن لوگوں نے اپنے کام اور شخصیت کی وجہ سے شہرت اور کامیابی
حاصل کی ان کے نام ہر لحاظ سے بامعنی اور منفرد تھے ۔
سیاست کے میدان میں بھی کئی ایسے نامور لوگ گزرے ہیں جن کے ناموں نے ان کی
شخصیات پر گہرے اثرات چھوڑے جس کی وجہ سے انہیں دیگر سیاست دانوں کے مقابلے
میں زیادہ عزت ،مقبولیت اور کامیابی حاصل ہوئی جیسا کہ پاکستانی سیاست کے
ماتھے کا جھومر، ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو،جن کے ناموں کے اثرات
نے ساری زندگی ا ن کی شخصیت کودیگر سیاست دانوں سے زیادہ ممتاز ،مقبول اور
کامیاب بنائے رکھا۔واضح رہے کہ ذوالفقار علی کا لفظی مطلب علی کی تلوار ہے
،حضرت علی رضی اﷲ تعالی عنہ کو بہادری کی وجہ سے شیر خدا کا لقب دیا گیا
جبکہ ذوالفقار کامطلب تلوار ہے یوں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کی ساری زندگی
اپنے نام کی خصوصیات کے زیر اثر نظر آتی ہے کہ انہوں نے نہایت بہادری کے
ساتھ پاکستان کے مفاد میں وہ ہرو ہ کام کیا جس کی ہمارے ملک کو ضرورت تھی ،اگر
پاکستان آج اسلامی دنیا کا واحد اٹیمی طاقت والا ملک ہے تو اس کا کریڈٹ
ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے کہ جنہوں نے کفریہ طاقتوں کی دھمکیوں کو
خاطرمیں نہ لاتے ہوئے اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر پاکستان کے لیے ایٹم بم
بنانے کی کامیاب کوششوں کاآغاز کیا جس کی بنا پر آخر کار پاکستان کو دنیا
کا واحد اسلامی ایٹومک پاور ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔اسی طرح بے نظیر
بھٹو پر بھی اپنے پیدائشی نام کے اثرات بہت واضح طور پر مرتب ہوئے اور وہ
اپنے نام کی طرح ایک بے نظیر سیاست دان کے طور پر ہمیشہ یار رکھی جائیں گی
،بے نظیر کا لفظی مطلب ہے جس کی کوئی مثال نہ ہو، جو بے مثال ہو اور بے
نظیر بھٹو نے ایک مارشل لا ڈکٹیڑجنرل محمد ضیاالحق کے زمانے میں جس دلیری
کے ساتھ سعوبتیں اورطویل نظر بندی کا سامنا کرتے ہوئے اپنے قابل فخر باپ کی
پالیسی کے مطابق عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر بے مثال سیاسی جدوجہد
کی وجہ سے انتخابی سیاست میں نمایاں کامیابی کے ذریعے عالم اسلام کی پہلی
خاتون وزیراعظم بننے کا اعزازحاصل کرکے جو منفرد مثال قائم کی اسے بھلا کون
فراموش کرسکتا ہے۔
ناموں کے اثرات کے حوالے سے آج میرے کالم کا موضوع مصطفی کمال ہیں،یہ بھی
اپنے نام کی طرح اسم مسمی ٰ ہیں ۔مذہبی لحاظ سے حضرت محمد ﷺ کو مصطفی بھی
کہا جاتا ہے اور اکثر بنی آخرالزماں کے نام کے ساتھ حضرت محمد مصطفی ﷺلکھا
اور بولا جاتا ہے جبکہ کمال کے معنی ہی کمال کے ہیں یعنی باکمال ،ایسا شخص
جو دیگر لوگوں سے الگ ،منفرد اور باکمال ہو ۔ ایک مصطفی کمال ترکی میں بھی
پیدا ہوا تھاجسے اتنی زیادہ مقبولیت اور کامیابی حاصل ہوئی کہ اسے ترکی کے
عوام کی جانب سے ’’اتاترک‘‘ یعنی ترکوں کا باپ کا لقب دیا گیا ،اگر ہم
پاکستانی سیاست دان مصطفی کمال کی سیاسی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو
ہمیں ان کے ماضی اور حال میں ایک بات بہت واضح نظر آئے گی کہ انہوں نے محض
اپنی شخصی خوبیوں ،قابلیت اور صلاحیت کی وجہ سے ایم کیوایم جیسی بدنام
زمانہ جماعت میں رہنے کے باوجود اپنی ایک علیحدہ شناخت قائم رکھتے ہوئے
ایسے نمایاں کام کیئے کہ ایم کیوایم کے بانی وقائد نے الطاف حسین نے انہیں
اپنی جماعت کی جانب سے کراچی کا سٹی ناظم بنادیا اور پھر سٹی ناظم بننے کے
بعد مصطفی کمال نے جس طرح دن رات ایک کرکے پوری محنت ،خلوص اور ایمانداری
سے کراچی کی تعمیرو ترقی کے لیئے کسی بھی تعصب کے بغیر نہایت غیر جانبداری
سے اتنے زیادہ ترقیاتی کام کیئے کہ ان کا شمار دنیا کے چند بہترین مئیر ز
میں کیا جانے لگا ۔سٹی ناظم کی حیثیت سے مصطفی کمال کے 5 سالہ دور حکومت
میں جس تیز رفتاری سے بڑے پیمانے پر کراچی میں فلائی اوورز ،سڑکوں اور
پارکوں کی معیاری تعمیر کی گئی اس کی کوئی دوسری مثال کراچی کی تاریخ میں
پیش نہیں کی جاسکتی ۔
ماضی میں ایم کیوایم سے وابستہ رہنے والے لوگوں میں مصطفی کمال کا شمار ان
لوگوں میں ہوتاہے جنہوں نے اپنے کام کے ذریعے ایم کیو ایم کا امیج بہتر
بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا اور پھر جب مصطفی کمال کو ایم کیو ایم
کے بانی و قائد الطاف حسین کی ملک دشمن سرگرمیوں اور بھارتی خفیہ ایجنسی
’’را ‘‘سے رابطوں اور فنڈ حاصل کرنے کا علم ہوا تو انہوں نے الطاف حسین اور
ان کی قائم کردہ جماعت ایم کیو ایم سے علیحدہ ہونے میں دیر نہیں لگائی اور
3 مارچ 2016 کو کراچی میں ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کرکے عوام کے سامنے
الطاف حسین کا اصل چہرہ اس بے باکی ،جرات اور بے خوفی سے بے نقاب کیا کہ
دیکھنے اور سننے والے ششدر رہ گئے ۔ایم کیو ایم سے وابستہ رہ کر اقتدار کے
مزے لوٹنے والے سیاست دانوں کی بھیڑ میں اﷲ تعالیٰ نے صرف مصطفی کمال کو ہی
اس کام کے لیئے کیوں منتخب کیا کہ وہ لوگوں کے سامنے ایم کیو ایم اور اس کے
بانی و قائد الطاف حسین کے’’ را ‘‘سے رابطوں ،الطاف حسین کی شراب نوشی اور
منی لانڈرنگ کے حوالے سے تمام سرگرمیوں کو میڈیا کے سامنے تشت از بام لے
آئے اور اور کراچی پر ایک طویل عرصے سے راج کرنے والے ہیرو کو صرف 7 ماہ کے
اندر ہیرو سے زیرو بنا دیا ،یہ کام شاید صرف مصطفی کمال ہی کرسکتا تھا کہ
اس کے نام میں مصطفی شامل ہے جس نے اسے اتنا باکمال بنادیا کہ اس نے کراچی
میں خوف ودہشت پھیلانے والوں کے خلاف طبل جنگ اس بہادری سے بجایا کہ کچھ
لوگوں کو تو آج تک اس بات پر یقین نہیں آتا کہ الطاف حسین کی سیاست اور
شخصیت کا خوف واقعی کراچی سے ختم ہوچکا ہے۔اس حوالے سے راقم نے ایک شعر کہا
ہے جو مصطفی کمال کی باکمال شخصیت کی شخصی خوبیوں اور ان کی شخصیت پر پڑنے
والے ان کے پیدائشی نام کے اثرات کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔
سچائی کا عروج ہے تو جھوٹ کا زوال ہے
تیرے نام میں جو ہے مصطفی ،یہ سب اسی کا کمال ہے
اگر ہم مصطفی کمال کی مزاج ،سوچ ،کردار اور عمل پر غور کریں تو ہمیں پتہ
چلے گا کہ مصطفی کمال آج سے نہیں بلکہ شروع سے ہی سچ بولنے کا حوصلہ رکھنے
والوں میں شامل تھے ،آج کل سوشل میڈیا پر ان کے دورنظامت سے جڑی بہت سی
ایسی ویڈیو اپ لوڈ کی جارہی ہیں جن میں ان کا طرز گفتگو اور انداز سیاست
نمایاں ہوتا ہے ،یوں تو یہ مصطفی کمال کی یہ پرانی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ان
کو بدنام کرنے کے حوالے سے پھیلا ئی جارہی ہیں لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ
اگر ان ویڈیوز کو سیاق کو سباق کے ساتھ مکمل طور پر دیکھا جائے تو اس میں
مصطفی کمال کی بے خوفی اور صاف گوئی نمایا ں نظر آتی ہے جسے اگر بعض لوگ
بدتمیزی قرار دے رہے ہیں تو یہ ان کی اپنی رائے ہے جس کا اظہار کرنے کا
انہیں پورا حق حاصل ہے ،سب کو پتہ ہے کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اور سچ
بولنے والے کو ہی سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ ہمارے
معاشرے میں جھوٹ بولنے والے منافق لوگوں کی اتنی زیادہ اکثریت ہے کہ اگر
کوئی انسان سچ بولے تو لوگ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتے اور بجائے یہ
کہ جھوٹے لوگوں کو پکڑ کر ان سے سچ اگلوایا جائے عام طور پر سچ بولنے والے
سے ہی الٹے سیدھے سوالا ت شروع کردیے جاتے ہیں۔
کوئی جرات مند ،بہادر اور سچا سیاست دان عوام کو سچ بتانے کے لیئے منظر عام
پر آئے تو اسے سراہنے کی بجائے اس پر ایجنسیوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام عائد
کردیا جاتا ہے اور جھوٹ بول کر ایک طویل عرصے سے پاکستانی عوام کو بے وقوف
بناکر ان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار کے ایوانوں میں براجمان شخصیات سے
کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ بھائی فلاں سیاست دان آپ کی ذات یا آپ کی سیاست
کے حوالے سے جو سنگین نوعیت کے الزامات لگا رہا ہے ان میں کتنی صداقت ہے ؟
ستم بالائے ستم الٹا سچ بولنے والے سے کہا جاتا ہے کہ آپ عدالت جاؤ یا ثبوت
فراہم کرو۔یعنی ایک طرح سے پاکستان میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج کا قانون
نافذ ہے کہ ایک سیاست دان جب کسی ملک دشمن اور مفاد پرست کرپٹ سیاست دان کے
کرتوتوں کو بے نقاب کرتا ہے اس کے خلاف کھل کر بات کرتا ہے اورمیڈیا کے
ذریعے کچھ ثبوت بھی سامنے لے آتا ہے تو اس سے کہا جاتا ہے کہ اب آپ عدالت
جاؤ اور وہاں جاکر ثبوت پیش کرو۔
جیسا کہ سچ کی راہ پر گامزن پاکستان کے قابل فخر سیاست دانوں عمران خان اور
مصطفی کمال جنہوں نے پاکستانی سیاست کے چوروں اور لٹیروں کو بیچ چوراہے پر
بے نقاب کیا تو ان کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کی بجائے
الٹا عمران خان اور مصطفی کمال سے کہا جاتا ہے کہ وہ عدالتوں میں جاکر ثبوت
پیش کریں ۔عمران خان ایک طویل عرصہ سے نواز شریف کی کرپشن کو بے نقاب کررہے
ہیں اور خاص طور پر پانامہ لیکس کے حوالے سے عمران خان مسلسل مطالبہ کررہے
ہیں کہ کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے نواز شریف وزیراعظم کے عہدے پر فائز
رہنے کے اہل نہیں رہے لہذا وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر خود
کو قانون کی عدالت میں پیش کریں لیکن نواز شریف ہنوز ہٹ دھرمی اور بے شرمی
کے ساتھ وزیر اعظم کے عہدے سے چمٹے ہوئے ہیں ۔
اسی طرح مصطفی کمال گزشتہ 8 ماہ کے دوران الطاف حسین کی،شراب نوشی، وطن
دشمنی ،دہشت گردی اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ان پر تنقید کے
تیر برسا رہے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں اس حد تک تو کامیابی حاصل ہوگئی ہے
کہ انہوں نے کراچی پر کئی عشروں سے راج کرنے والے الطاف حسین کو ہیرو سے
زیروبنا دیا لیکن عملی طور پر الطاف حسین کے خلاف برطانیہ یا پاکستان میں
ابھی تک ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس کی بنا پر الطاف حسین کو ان کے
جرائم اور کرپشن پر برطانوی یا پاکستانی قانون کے تحت سزا دی جائے۔گزشتہ
دنوں مصطفی کمال نے گورنر سندھ کے عہدے پر 14 سال سے فائز رہنے والے ایم
کیو ایم کے نامزد کردہ سیاست دان عشرت العباد کی کرپشن کے حوالے سے جو کچھ
میڈیا کے ذریعے عوام اور مقتدار اداروں کو بتایا اس کے بعد اب تک گورنر
سندھ کے خلاف حکومتی یا عدالتی کاروائی کا آغاز ہوجانا چاہیئے تھا کہ
پاکستان کے آئین کے تحت دہری شہریت رکھنے والا کوئی شخص پاکستان میں کسی
صوبے کا گورنر نہیں بن سکتا ،اب جبکہ مصطفی کمال نے عشرت العباد کی کرپشن
،12 مئی کے واقعات میں ان کے ملوث ہونے اور عشرت العباد کی برطانوی شہریت
کے حوالے سے ان کے پاسپورٹ کی کاپیاں بھی میڈیا کو فراہم کردی ہیں تو عشرت
العباد کا گورنر سندھ کے عہدے پر برقررار رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا
لیکن افسوس عشرت العباد بھی نواز شریف کی طرح اب تک اپنے عہدے سے چمٹے ہوئے
ہیں۔
اگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی پر عمل کرنے والا کوئی ادارہ باقی بچا ہے
تو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ عمران خان اور مصطفی کمال نے جن سیاسی چوروں ،لٹیروں
اور دہشت گردوں کے چہروں کو بے نقاب کیا ہے ان کو ملکی قوانین کے مطابق
قانون کی گرفت میں لاکر قرار واقعی سز ا دی جائے،اگر مستقبل قریب میں الطاف
حسین ،نواز شریف اور عشرت العباد کے خلاف پاکستانی قوانین کے تحت کسی قسم
کی کوئی کاروائی نہ کی گئی تو پھر عوام میں جو مایوسی پھیلے گی اور اس
مایوسی سے معاشرے میں جو انتشار پھیلے گا اس کی تمام تر ذمہ داری ان مقتدر
اداروں پر عائد کی جائے گی جنہوں نے بہت سے حقائق کا علم ہونے کے باوجود
سیاسی مصلحتوں یا دیگرمجبوریوں کی وجہ سے کرپشن اوردہشت گردی میں ملوث
سیاست دانوں کے خلاف مجرمانہ خاموشی اختیارکرکے عوامی امنگوں کا خون کرکے
ان کے اعتماداور بھروسے کو ٹھیس پہناتے ہوئے باطل قوتوں کوقانون کی گرفت
میں جکڑنے کی بجائے انہیں ان کے مذموم مقاصد کے حصول کے لیئے مزید مواقع
فراہم کیئے ۔
خدا کرے کے ایسا نہ ہو اور پاکستانی عوام کا اپنے مقتدار اداروں پر اعتماد
قائم رہے کہ اسی میں پاکستان کی بقا کا راز پوشدہ ہے ۔عمران خان اور مصطفی
کمال کی باتوں اور الزامات کو دیوانے کی بڑ سمجھنے کی بجائے ان پر سنجیدگی
کے ساتھ تحقیقات کی جائیں تو بہت جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے
گا ۔
تیرے نام میں جو ہے مصطفی، یہ سب اسی کا کمال ہے ! |
|