اس کا باپ مشقتی تھا‘ اس کے باوجود اکلوتا
ہونے کی وجہ سے‘ اسے بڑے پیار اور لاڈ و ناز سے پال رہا تھا۔ اچھا بھلا تھا‘
پتا نہیں کیا ہوا رات کو ہاجراں سے بچے کے بارے باتیں کرتا ہوا سویا لیکن
صبح اٹھ نہ سکا۔ ہاجراں پر یہ ناگہانی آفت ٹوٹ پڑی تھی۔ وہ تو سوچ بھی نہیں
سکتی تھی کہ بھری جوانی میں یہ قیامت اس کا نصیبا ٹھہرے گی۔ ابھی تو ان کے
خوشیوں اور ارمانوں کے دن تھے۔ ہونی کو کب کوئی ٹال سکا ہے۔ یہ پوچھ کر کب
آتی ہے۔ اگر پوچھ کر آتی ہو تو اس کے خوف اور صدمے سے کوئی سڑک پر چلتا
پھرتا نظر نہ آئے۔
بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں نے ہاجراں کو عقد ثانی کا مشورہ دیا۔ وہ
جوان تھی‘ خوب صورت تھی۔ عقد ثانی اس کا شرعی حق تھا مگر اس نے صاف انکار
کر دیا اور بیٹے کے لیے بقیہ زندگی وقف کر دی۔ حقی سچی بات یہ ہی ہے‘ صاف
ستھری زندگی بسر کی۔ عیدے کی موت سے پہلے سی ہاجراں‘ ہاجراں نہ رہی۔ اس نے
جی جان سے مشقت اٹھائی اور بیٹے کو لاڈ لاڈائے۔ بدقسمی سے زیادہ دیر نہ چل
سکی اور اللہ کو پیاری ہو گئی۔ مامے چاچے کب پوچھتے ہیں‘ اسے اب اکیلے ہی
زندگی کی مشقتوں اور کراہتوں کو بھوگنا تھا۔
بڑے مامے نے بڑی شفقت کی اور اس نازوں پلتے بچے کو ایک سیٹھ کے ہاں گلپ کی
نوکری دلوا دی۔ مہینے بعد آتا‘ سیٹھ سے عوضانہ وصولتا اور چلا جاتا۔ جب ذرا
بڑا ہوا تو اسے اپنے ساتھ ہونے والے دھرو کا پتا چلا تو اس نے عوضانہ خود
وصولنا شروع کر دیا۔ اس پر مامے کو سخت غصہ آیا۔ اس نے چراغے سے تو تکرار
بھی کی۔ پھر ساری عمر طعنہ دیتا رہا کہ میں تمہیں سیٹھ صاحب کے ہاں ملازم
نہ کرواتا تو تم گلیوں کا روڑا کوڑا ہو کر رہ جاتے۔
سیٹھ صحب دیکھنے میں بڑے نیک اور پرہیزگار تھے۔ ان کی شلوار ٹخنوں سے اوپر
رہتی۔ مونچھیں بھی صفنا صفا رکھتے۔ پنج وقت نماز ادا کرتے۔ روزہ میں
باقاعدگی رہتی۔ حج بھی کر آئے۔ ان کا کاروبار خوب چلتا تھا۔ ہاں البتہ دو
نمبر مال کو ایک نمبر بنا کر بیچتے۔ سخت بخیل واقع ہوئے تھے۔ مرتے کے منہ
میں بلا مطلب پانی بھی نہ ڈالتے تھے۔ بجلی والوں سے ملے ہوئے تھے۔ ان کی
پوری زندگی دو نمبری میں گزری۔ ان کے بیٹے دو نمبری میں اپنے پاپ کے بھی
باپ نکلے۔ ان کا ہر کام دو نمبری پر انجام کو پہنچتا۔ بےشمار دولت تھی۔
دولت کے سبب سرکارے دربارے بڑی عزت رکھتے تھے۔ بڑا بیٹا چناؤ بھی جیتا۔
اچھے شریف اور محنتی لوگوں کی اولاد تھا لیکن یہاں آ کر اس پر کھلا کہ دو
نمبری کے بغیر سیٹھی مل ہی نہیں سکتی۔ پھر وہ چونا لگانے میں پاکٹ ہو گیا۔
سیٹھ کے انتہائی قرہبوں کے سامنے سیٹھ صاحب کے وہ وہ قصیدے کہتا کہ وہ سیٹھ
صاحب کے مرید ہو جاتے۔ سیٹھ صاحب کی ایمان داری کو صف اول پر رکھتا۔ یہ ہی
وجہ تھی کہ سیٹھ صاحب اسے بااعتماد ملازم سمجھتے تھے۔ سیٹھ صاحب کے بچوں کی
شادی کے سامان کی خریدداری اسی نے کی اور جی بھر کر مال کمایا۔ مال کے ہوتے
بوسیدگی اور ہے نہ کو ہم رکاب رکھتا۔
وقت کو گزرنا تھا‘ گزر گیا۔ بڑھاپا آ گیا۔ اپنے پاؤں چلنے سے بھی معذور ہو
گیا۔ جن بچوں کے لیے دونمبری کو اس نے شعار بنایا تھا‘ جھوٹے منہ سے بھی
اسے نہ پوچھتے تھے۔ زندگی مذاق ہو کر رہ گئی۔ اس تلخ زندگی سے وہ سخت بےزار
تھا لیکن وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ معذور زندگی اسے گھر سے تھڑوں اور پھر فٹ
پاتھ تک لے آئی۔ ہر گزرتا اس کی ہتھیلی دونی چونی رکھ دیتا۔ یہ جمع پونجی
شام تک اس کی ملکیت میں رہتی لیکن گھر آتے ہی اس کی جیب خالی کر دی جاتی
اور اسے موئے کتے کی طرح دیوار کے اس پار پھینک دیا جاتا۔ عجیب بات یہ تھی
کہ وہ اس حال میں بھی جینا چاہتا تھا۔ شاید زندگی کے میٹھے زہر نے اسے اپنے
بہت قریب کر لیا تھا۔ وہ جیسی بھی سہی زندگی تو تھی ہی اور وہ آتے سالوں تک
جینا چاہتا تھا۔ |