کافی دنوں سے کچھ طبیعت کی
ناسازی، کچھ گھریلو مصروفیات اور کمپویٹر خراب ہونے کے باعث لکھنے لکھانے
کا سلسلہ رکا ہوا ہے، حالانکہ اس دوران کئی اہم واقعات ہوئے، ملک میں سیلاب،
سیال کوٹ میں دو بھائیوں کا بہیمانہ قتل، الطاف حسین صاحب کا تازہ بیان،
کراچی میں ٹارگٹ اور دیگر کئی واقعات ہیں جن پر لکھنے کا ارادہ کیا لیکن
مصروفیات کے باعث ذہن حاضر ہی نہیں ہو پا رہا اور خیالات کو کتنا ہی مجمتع
کرنے کی کوشش کی لیکن خیالات منتشر ہی ہیں۔ روزنامہ جسارت کے ایک مضمون نے
ہماری توجہ اپنی جانب کھینچ لی اور سوچا کہ اس کو آپ لوگوں سے شئیر کر کے
دوبارہ ایک آغاز کیا جائے شائد اسی طرح دوبارہ طبعیت لکھنے لکھانے کی جانب
راغب ہوجائے حالانکہ کمپیوٹر ابھی تک خراب ہے اور گھریلو مسائل ابھی بھی
موجود ہیں، ”لڑکی نے چوہوں کو خط لکھا“۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح میونخ
میں پھیل گئی۔ شہر کے سارے ہی اخبارات نے یہ خبر لگائی۔ خبر کے ساتھ
تفصیلات بھی تھیں کہ لڑکی پڑھی لکھی ہے، اسکول میں ٹیچر ہے، اس کے گھر میں
رات کو چوہے تنگ کرتے تھے اس لیے اس نے چوہوں کو خط لکھ دیا۔ اس خبر کے
ساتھ ہی بہت سی بحثیں بھی چھڑ گئی تھیں۔ مثلاً چوہوں کی زبان کون سی ہوتی
ہے، کیا لڑکی نے خط انگریزی میں لکھا ہے یا جرمن زبان میں، کیا مختلف ملکوں
اور علاقوں کے چوہے مختلف زبان بولتے ہیں، کیا جس ملک میں چوہے اور دوسرے
جانور رہتے ہیں وہ وہاں کی مقامی زبان سمجھتے ہیں وغیرہ۔ لڑکی چونکہ نومسلم
تھی اس لیے میڈیا کو اس بات کے اچھالنے میں مزید دلچسپی تھی۔ لڑکی کا نام
اقصیٰ تھا۔ اس کا تعلیمی ریکارڈ بہت اچھا تھا، ہمیشہ اچھی پوزیشن لیتی رہی۔
اسکول میں بھی وہ ٹیچرز اور بچوں میں خوش اخلاق اور باوقار مشہور تھی۔ بچے
اس ٹیچر کو پسند کرتے تھے۔
یہ لڑکی ڈاکٹر کوثر صاحب کے گھر جانے لگی۔ ڈاکٹر صاحب کے گھر نوجوانوں کی
محفل رہتی تھی۔ ذکر کی مجلس ہوتی تھی۔ لڑکی ڈاکٹر صاحب کے گھرانے میں رہ کر
اسلام سے متاثر ہوئی اور اس نے اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد لڑکی نے کوشش
کی کہ اپنے والدین کے گھر یا اکیلے رہنے کے بجائے وہ ان کے گھر مستقل رہے،
لیکن بلدیہ کے قانون کے تحت پڑوسیوں نے شکایت کردی کہ اس گھر میں جو رقبہ
ہے اس میں دو فیملی نہیں رہ سکتیں۔ مجبوراً لڑکی کو اپنے لیے الگ گھر کا
انتظام کرنا پڑا کیونکہ آمدنی کم تھی اور مسلمان ہونے پر اسکول نے بھی کسی
بہانے سے لڑکی کو فارغ کردیا تھا۔ اس لیے کسی اچھی جگہ گھر لینا ممکن نہ
تھا۔ اس نے ایک قریبی نسبتاً سستے قدیم محلہ میں گھر لے لیا۔ اس چھوٹے سے
گھر میں چوہے تھے۔ آدھی رات کو جب یہ لڑکی اللہ کے دربار میں کھڑی ہوتی تو
چوہے جائے نماز کے اردگرد اچھلتے کودتے رہتے اور نماز میں تنگ کرتے۔ لڑکی
نے ڈاکٹر بخاری صاحب سے بات کی کہ چوہے مسئلہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے
کہا: جس رب کے حضور تم کھڑی ہوتی ہو اسی نے چوہے پیدا کیے ہیں، تم پیدا
کرنے والے سے بات کرو یا چوہوں سے، یا دونوں سے۔ لڑکی نے کہا کہ میں اللہ
سے دعا کروں گی لیکن اللہ کی مخلوق چوہوں سے کس طرح؟ کیا ماضی میں کبھی
مسلمانوں کا انسانوں کے علاوہ کوئی مسئلہ نہیں ہوا، اور اگر ہوا تو کیسے حل
کیا گیا؟
ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ حضرت عمر فاروق رض کے دور حکومت میں یہ واقعہ پیش
آیا۔ مصر سے حضرت سعد رض نے لکھا کہ دریائے فرات میں خشک سالی ہے، یہاں کے
قدیم رواج کے مطابق ایک نوجوان لڑکی کو دلہن بناکر دریا کے سپرد کردیتے
ہیں، اس طرح دریا میں پانی آجاتا ہے۔ نبی کے صحابی نے کہا کہ اسلام تو
عورتوں کو تحفظ اور عزت دینے آیا ہے، ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔ ان لوگوں نے
کہا کہ اچھا پھر تم لوگ خود کوئی ایسا کام کرو کہ دریا میں پانی آجائے۔
انہوں نے حضرت عمر رض کو ساری صورت حال لکھ دی۔ حضرت عمر رض نے ایک خط
دریائے فرات کے نام لکھ کر دیا، جس میں تحریر تھا ”یہ خط اللہ کے خلیفہ عمر
رض بن خطاب کی طرف سے ہے، میں خلیفہ کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ اگر تُو
اللہ کے حکم پر چلتا ہے تو چل جا“۔ جب یہ خط مسلمان دریائے نیل میں ڈال رہے
تھے تو وہاں موجود یہودی و عیسائی علما نے بہت مذاق اڑایا۔ دیگر کفار بھی
مذاق اڑا رہے تھے کہ بھلا دریا کو بھی خط لکھا جاتا ہے! دریا کی کون سی
زبان ہوتی ہے! لیکن چند دن بعد ہی دریائے نیل کے ساتھ پہاڑوں پر بارش ہوئی،
برف کے تودے پگھلنے لگے اور دریا میں پانی آگیا۔ خط کا جواب دریائے نیل نے
اس طرح دیا کہ اُس وقت سے آج تک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا، دریائے
نیل میں پانی خشک نہیں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بارہا فرمایا ہے جس کا
مفہوم یہ ہے کہ اگر تم ہمارے بن جاﺅ تو زمین اور آسمان و ہوا وغیرہ تمہارے
لیے مسخر کردیں گے۔ قرآن کا یہ دعویٰ عیسائی، یہودی علما نے بھی آنکھوں سے
دیکھ لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ حضرت عثمان رض کے دور حکومت کا قصہ ہے کہ
مسلمان مجاہدین افریقہ کے ایک ایسے علاقے میں پہنچے جہاں حشرات الارض سانپ،
بچھو وغیرہ بہت تھے۔ سپہ سالار نے مدینہ خط بھیجا اور حضرت عثمان رض کو
تفصیلی صورت حال سے آگاہ کیا۔ حضرت عثمان رض نے خلیفة المسلمین کی حیثیت سے
دو خط لکھے۔ پہلا خط مسلمان مجاہدین کے کمانڈر کے نام تھا جس میں اسے بتایا
گیا تھا کہ سب مجاہدین کو لے کر پہاڑ پر چڑھ جاﺅ، اور اس کے بعد دوسرا خط
کھول کر بآواز بلند پڑھنا۔
سپہ سالار نے مدینے سے خط موصول ہوتے ہی فوراً عمل کیا۔ سب مجاہدین ایک
پہاڑ پر جمع ہوگئے اور دوسرے خط کے متن کے مطابق انہوں نے پکارا: یاحشرات
الارض، یا حشرات الارض، منادی ہے خلیفة المسلمین، خلیفة اللہ عثمان رض بن
عفان کی طرف سے۔ مسلمان مجاہدین خود حیران رہ گئے کہ چھوٹے بڑے سانپ، بچھو
اور مختلف طرح کے خطرناک جانور سب بلوں سے نکل کر جلدی جلدی آئے اور پہاڑی
کے نیچے جمع ہوگئے۔ سپہ سالار نے حضرت عثمان رض کا خط پڑھ کر بآواز بلند
سنایا۔ خط میں حشرات الارض کو مخاطب کرکے بتایا گیا تھا کہ یہ مجاہدین اللہ
کے نمائندے ہیں اور اللہ کی زمین پر اللہ کے کام سے نکلے ہیں اس لیے انہیں
کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ مجاہدین نے دیکھا کہ سانپ، بچھو اور کیڑے
مکوڑے اس علاقے کو چھوڑ کر دور جارہے ہیں اور کچھ ہی دیر بعد علاقہ ان
خطرناک جانوروں سے خالی ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں نے خود ایتھوپیا
کے قریب جاکر یہ علاقہ دیکھا۔ آج تک اس علاقے میں سانپ، بچھو نہیں ہوئے،
حالانکہ قریبی جنگلات میں جانوروں کی بہتات ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نومسلم لڑکی
کو بتایا کہ یہ تو دورِ صحابہ رض کے واقعات ہیں، اس کے بعد بھی بزرگانِِ
دین کے کئی ایسے واقعات ہیں۔ اس نومسلم نے کہا کہ بس میں بھی ایک خط لکھ کر
چوہوں کے بل کے پاس رکھ دیتی ہوں کہ: ”میں اللہ کی بندی ہوں، تمہیں جس رب
نے تخلیق کیا ہے میں اس رب کی عبادت کرتی ہوں، مجھے ڈسٹرب نہ کرو“۔
لڑکی نے جب یہ ارادہ ظاہر کیا تو وہاں موجود پیدائشی مسلمانوں نے اسے
سمجھانے کی کوشش کی، انہی میں سے کسی نے میڈیا کو اطلاع کردی۔ میڈیا میں
آنے کے بعد مسلمان علما کی ٹیم نے رابطہ کیا اور اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ
ایسا نہ کرے، یہاں پہلے ہی مغرب میں مسلمانوں کو Backward کہتے ہیں، اب
مزید مسائل ہوں گے۔ لیکن وہ نہ مانی، اس نے یہ خط چوہوں کے بل کے قریب رکھ
دیا۔ اللہ کی قدرت اُس رات کے بعد اس گھر سے کیا محلے سے چوہے غائب ہوگئے۔
علما، پیدائشی مسلمان اور مخالف سب حیران رہ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا
انہوں نے مجھ سے پوچھا آپ حیران نہیں! ڈاکٹر صاحب نے کہا: ڈاکٹر اقبال کا
یہ شعر سمجھنے کے لیے کافی ہے آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کرسکتی
ہے اندازِ گلستاں پیدا مجھے یہ سن کر بالکل حیرانی نہیں ہوئی۔ میری والدہ
نے بتایا کہ امروہہ میں ان کے محلے میں شاہ ولایت رح کی زیارت ہے۔ یہ بزرگ
سینکڑوں سال پہلے گزرے ہیں۔ یہ اللہ کی مخلوق کی خدمت میں مصروف رہتے۔
انسان اور جانور سب ان سے مستفید ہوئے۔ اس جگہ بچھو بہت تھے، آپ نے بچھوﺅں
کو حکم دیا کہ یہاں آنے والے اللہ کا ذکر کرنے آتے ہیں، انہیں تکلیف مت
دینا۔ میری والدہ نے بتایا کہ اب شاہ ولایت کے مزار کے احاطے میں سینکڑوں
بچھو رہتے ہیں۔ بچھو کی فطرت ہے ڈنک مارتا ہی، لیکن بچپن میں ہم ان بچھوﺅں
سے کھیلتے تھے، ہاتھ پر لیتے لیکن وہ کچھ نہیں کہتے بلکہ بعض مرتبہ ہم
انہیں کھیلنے کے لیے گھر لے آتے لیکن یہ ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچاتے۔
بچھوﺅں کی یہ نسل سینکڑوں سال سے اللہ کے ولی کے دنیا سے پردہ پوشی کرنے کے
بعد بھی اس پر عمل کررہی ہے اور انسانوں کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ یہ معجزہ
انٹرنیٹ پر بہت سی ویڈیو میں موجود ہے۔
مجھے نومسلم لڑکی کا یہ واقعہ سننے کے بعد ملنے کا اشتیاق ہوا۔ ابھی چند
سال پہلے یہ فیملی کراچی میں سوسائٹی کے علاقے میں شفٹ ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب
کے گھر ایک نشست ہورہی تھی، کئی علما بیٹھے تھی، ایک بچے نے تلاوت قرآن کی۔
جب تلاوت ختم ہوئی تو رونے اور ہچکیوں کی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ پردے کے
پیچھے یہ نومسلمہ خاتون ہچکیوں سے رو رہی تھی۔ قرآن نے اللہ والوں کی یہ
نشانی بتائی ہی، مفہوم ہے ”جب ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو اللہ کے خوف سے
ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے اور وہ رونے لگتے ہیں“۔ میں نے چند برس پہلے
اقصیٰ باجی سے ملاقات کی۔ میں جیسے ہی ان کے گھر پہنچا کچھ دیر بعد بجلی
چلی گئی۔ انتہائی سرد ملک سے آئی ہوئی یہ خاتون بالکل پُرسکون تھیں۔ انہوں
نے بتایا کہ پاکستان آنے میں ان کے لیے ایک بہت بڑا Charm یہ ہے کہ یہاں
اذان کی آواز آتی ہے۔ مغربی معاشرے میں ہم اس سے محروم تھے۔ مجھے مسلمان
پاکستانی بھائیوں کی باتوں کا خیال آگیا۔ یہ جس چیز کو اس ملک کی نعمت سمجھ
رہی ہیں ہمیں اس کا احساس ہی نہیں۔ باجی نے بتایا کہ اس معاشرے میں بچوں کو
سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ بے پردگی، Sex
Education، شراب کا عام ہونا جسے آپ بڑا مسئلہ سمجھ رہے ہیں، یہ مسائل تو
گھر کی تربیت سے بآسانی حل ہوسکتے ہیں۔ ہمارے لیے بڑا مسئلہ بچوں کے اندر
پیدا ہونے والی "i" (میں) ہے۔ ان کا اسکول سسٹم انسان میں خودغرضی پیدا
کرتا ہے۔ وہ ”مَیں“ جو انسان کی دشمن ہے۔ ڈاکٹر صاحب! یہ ”میں“ ہی تھی جس
نے ایک عبادت گزار جن کو ابلیس بنا دیا۔ مغربی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ
خود غرضی ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا یہ فیصلہ ٹھیک ہے؟ یہاں لوڈشیڈنگ ہے، گرمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تکالیف اس آرام دہ ماحول سے کہیں بہتر ہیں۔ یہاں ہم
اپنے بچوں کی تربیت اسلام کے مطابق کرسکتے ہیں۔ لیکن اسکول میں جیسے ہی ان
کے بچے داخل ہوئے پرابلم شروع ہوگئی۔ ان کا بچہ ایک دن اسکول نہیں گیا،
ٹیچر نے اگلے دن پوچھا، اس نے سچ سچ بتا دیا کہ میرا موڈ نہیں تھا۔ کلاس
ٹیچر بہت خفا ہوئیں۔ پرنسپل تک بات پہنچ گئی۔ کہنے لگیں: اس معاشرے میں سچ
بولنا بہت مشکل ہے۔ مغرب میں یہ تصور بھی نہیں کہ بچہ اسکول میں جھوٹ بول
سکتا ہے۔ سچ بولنے کے علاوہ سچ سننے کی بھی اِس معاشرے میں بہت کمی ہے۔ یہ
بات بچے Routine میں اسکول میں بتا دیتے ہیں۔ ایک دن ان کے بچے کی طبیعت
خراب تھی، اسکول نے میڈیکل سرٹیفکیٹ کا کہا، انہوں نے کہا کہ کیا یہ بتا
دینا کافی نہیں! ٹیچر نے بتایا کہ بچے کے گھر والے بہانا بھی کرسکتے ہیں۔
کہنے لگیں: ڈاکٹر صاحب! بہانہ بھی جھوٹ ہی ہے۔ یہ مسئلہ ہمیں سب سے زیادہ
پیش آرہا ہے۔
ایک دن ہم لوگ ان کے گھر گئے، انہوں نے بچوں کو ڈبل روٹی، بسکٹ، انڈا اور
پراٹھا دیا، کہنے لگیں: ڈاکٹر صاحب جو تھا وہ حاضر کردیا۔ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم نے مہمان کے لیے جو موجود ہو اسے حاضر کرنے کے لیے کہا ہے۔ ہمارے
یہاں کوئی مہمان آجائے تو ذہنی پریشانی ہوجاتی ہے۔ بچے کو دوڑایا جاتا ہے،
تکلفات کیے جاتے ہیں، مہمان برکت کے بجائے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ وہ
کہنے لگیں: ڈاکٹر صاحب! ہم نے تو اپنی زندگی کا ایک نکاتی مشن بنالیا ہے،
ہر کام نبی کے طریقے پر کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ زندگی بہت پُرسکون گزر رہی
ہے، کوئی ٹینشن نہیں۔ اقصیٰ باجی نے اپنا گھر بنوایا تو انہوں نے پہلے ایک
بچھڑے (Small Cow) کا سائز منگوایا، پھر اس سے بڑا کچن کا دروازہ بنوایا،
وجہ دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ قرآن میں کچن کے دروازے کا یہی سائز
بتایا گیا ہے۔ ”کس نے بتایا، یہ آپ نے کہاں سے پڑھ لیا! کسی بھی تفسیر میں
یہ بات نہیں۔“ انہوں نے بتایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو مہمانوں
کے لیے بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا، یقیناً کچن کا دروازہ اتنا بڑا ہوگا جس میں
سے بچھڑا باہر لایا گیا ہوگا۔ ہمیں حکم دیا گیا، ابراہیم علیہ السلام کی
پیروی کرو۔ ہمیں قرآن کا حکم سننے کے بعد بس عمل کی فکر ہونی چاہیے۔
باجی زیور نہیں استعمال کرتیں۔ سادہ کپڑے پہنتی ہیں۔ ایک انوکھی بات یہ تھی
کہ وہ ایک تقریب میں شریک تھیں، انہوں نے سادہ سے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اتنے
سادہ کپڑے پہننے پر کئی خواتین نے اعتراض کیا، انہوں نے خاموشی اختیار کی۔
وہ خواتین کہنے لگیں: اگر اللہ نے ہمیں دیا ہے تو کیا اس کا اظہار نہ کریں!
بعد میں باجی نے بتایا کہ میں محفل میں ایسے کپڑے پہننے سے احتراز کرتی ہوں
جن کو دیکھ کر محفل میں شریک غریب لڑکیاں Depres ہوں اور یہ خیال ان کے ذہن
میں آئے کہ اللہ نے ہمیں کیوں نہیں اتنا دیا۔ اس طرح ان میں احساسِ کمتری
پیدا ہوتا ہے۔ تقریب میں شریک غریب رشتہ داروں کے جذبات و احساسات کا ضرور
خیال رکھنا چاہیے۔ اس طرح دوسروں میں حسد پیدا نہیں ہوگا۔ حسد ہی وہ خطرناک
چیز ہے جو معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دکھاوا کرنے والے اپنے رویّے اور
کپڑوں کے اسٹائل سے پہلے دوسروں کو پریشان کرتے ہیں اور پھر جب دوسرے ان پر
تبصرہ کرتے ہیں تو خود پریشان ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تقریبات دکھاوے
اور دوسروں کو جلانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے نمازی، روزہ دار اور
متقی اس کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ باجی کے
اس طرزِعمل پر چلیں تو جس طرح وہ پُرسکون اور ڈپریشن سے پاک زندگی گزار رہی
ہیں اس طرح گزاری جاسکتی ہے۔ کہنے لگیں: ڈاکٹر صاحب مومنین کو قرآن کی
نصیحت ہے: من شر حاسد اذاحسد۔ حاسدوں سے اللہ کی پناہ مانگیں۔ اور سادگی کے
ذریعے دوسروں کا خیال کر کے حسد کے جذبے کو Discourage کریں، یہی پرسکون
زندگی گزارنے کا طریقہ ہے۔
(نوٹ:ڈاکٹر خالد مشتاق صاحب کا یہ مضمون روزنامہ جسارت کے سنڈے میگزین میں
شائع ہوا ہے۔ ہمیں یہ مضمون پسند آیا اس لئے سوچا کہ اس کو ہماری ویب کے
قارئین سے شئیر کیا ہے۔) |