ضرورت رشتہ

یہ تقریباََ آٹھ سال قبل کا واقعہ ہے اُ ن دنوں میں اسلام آباد کے ایک تجارتی مرکز میں اپنے دوست کے ہمراہ ایک جگہ تفریحاََ وقت گزاری کے لئے کام کرنا شروع ہوا تھا۔اُن دنوں میں نے نوکری تلاش کرنا شروع کی ہوئی تھی تاکہ میں کہیں ملازمت کر کے اپنے معاشی حالات کو بہتر کر سکوں۔انہی دنوں میں ایک روز میں نے اخبار میں ایک جگہ ’’ضرورت ہے‘‘ کے تحت جہاں کچھ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت تھی ،وہاں پر جب فون کیا تو انہوں نے ہماری جانچ پڑتال کی ،جب ہم نے نوکری کی بابت معلوم کرنا چاہا تو پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے اشتہار تو شادی کے حوالے سے دیا تھا،کیوں کہ انہوں نے چند لڑکیوں کے لئے رشتے حاصل کرنا تھے۔

یہ رشتے کے حوالے سے ایک عجیب ترین اشتہار کہا جا سکتا ہے اور ہم کئی دن تک اس پر ہنستے رہے تھے اور دلی طور پر رنجیدہ بھی ہوئے تھے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کے لئے رشتوں کی خاطر لوگوں کو اخبارات میں اشتہارات تک دینا پڑتے ہیں۔مگر دوسری طرف سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر لوگ اشتہارات دیتے ہیں تاکہ اُنکی بیٹی کا کہیں اچھی جگہ رشتہ ہو سکے۔

نکاح شرعی اصول کے تحت کیا جانے والا ایسا معاہدہ ہے جس کے بعد مرد و عورت کے مابین جنسی تعلق جائز ہوتا ہے اور اسکے ساتھ حقوق و فرائض کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے نسب کا تعین بھی ہو جاتا ہے۔ فطری تقاضوں کی خاطر بھی نکاح ضروری ہے کہ گناہ کر کے اپنے تقاضے پورے کرنا کسی بھی طور پر مناسب عمل نہیں ہے۔مگریہاں والدین بھی اُس وقت سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں جب اُنکو معلوم ہوتا ہے کہ اُنکے ’’لال‘‘ رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں یا اُنکے ’’ کارنامے‘‘ لوگوں کی زبانی اُن تک پہنچتے ہیں۔یہ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ والدین بچوں کا نکاح نہیں کرتے ہیں ،اور یہی تاخیر ہی اُنکو برائی کی جانب راغب کرتی ہے۔دوسری طرف ہر رشتے میں خامی تلاش کر کے رد کرنے والوں کو بھی یہی بات اس قدر تاخیر کروا دیتی ہے کہ جب لڑکی کے سر میں چاندی اُترتی ہے تو وہ اخبارات میں دلکش اشتہارات دے کررشتے کے لئے مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی سے شادی کرنے پر بہت سی مراعات کا فائدہ بھی بیان ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان کر دیتے ہیں تاکہ رشتے کے لئے حامی بھری جا سکے۔

سننے میں تو یہاں تک بھی آیاہے کہ ایک مخصوص فقہ کے لوگ اس حوالے سے اپنی لڑکیوں کی شادی کی خاطر بہت کچھ نوجوان حضرات کو دیتے ہیں تاکہ ایک تو اُنکی بیٹی کی شادی ہو سکے ،دوسرا اُنکی فقہ میں شمولیت بھی ممکن ہوسکے۔اس حوالے سے ترغیبی مراعات کے اشتہارات بھی دیے جاتے ہیں تاکہ اپنے مذہوم مقاصد کے ساتھ نکاح کا عمل بھی ہو جائے۔دوسری طرف یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پہلی شادی میں ناکامی کے بعد یا زور زبردستی سے کسی کو کسی کے ’’پلے باندھنے کے لئے بھی‘‘ بہت کچھ ایسا اشتہار میں بیان کر دیا جاتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ ایسے گھرانے میں شادی کر کے اپنے معاشی حالات کو بہتر کرلیں۔

مگر آج کے دور میں نکاح کی خاطرشرعی تعلق میں بندھ جانے کے لئے اچھے رشتوں کا ملنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔جس کی وجہ اکثر افراد اپنے جیون ساتھی کے حصول کے لئے سوشل میڈ یا پراور اخبارات میں رشتے کے حصول کے لئے اشتہارات دیتے ہیں۔اگر اُن اشہارات کو ملاحظہ کرلیا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ لوگ کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں اور کس طرح کا جیون ساتھی چاہ رہے ہیں۔بہت سے ایسے بھی افراد اشتہار دیتے ہیں جو کہ اپنے مسلک /عقیدے/برادری میں مناسب رشتے حاصل نہیں کر پاتے ہیں۔اگرچہ اسلام میں ذات پات کا کوئی تصور نہیں ہے مگر ہمارے ہاں یہ وبا عام ہو چکی ہے تب ہی جب آدھی سے زائد عمر اسی چکر میں ضائع ہو جاتی ہے تو پھر آخری حل اشتہار ہی نظر آٹا ہے جس میں اگرچہ کوئی برائی نہیں ہے مگر ایسے لوگوں کے کوائف مشکو ک بھی ٹھہرائے جا سکتے ہیں کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر شادی کے لئے اشتہار دیا گیا ہے۔اگر اُن حقائق کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر بھی یہ ایک نیک عمل کی طرف قدم ہوتا ہے جس پر ہمیں شرمساری نہیں محسوس ہونی چاہیے کہ نکاح کا پیام دینا جرم نہیں ہے۔

قرآن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ نیک مرد کے لئے نیک عورت اور برُے مردو خواتین کے لئے ایسے ہی فرد بطور جیون ساتھی ہوتا ہے اور دوسر ی طرف یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ بے نکاح افراد کا نکاح کرادیا جائے۔ مگر ہم آج کے دور میں قرآن کی تعلیمات کے برعکس چل رہے ہیں۔ اسی وجہ سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے۔والدین نے نکاح جیسے اہم معاملے میں بھی دین کے احکامات کے برعکس اپنی ضد ،انا، خاندان ،خواہش کو مدنظر رکھنا شروع کیا ہو ا ہے جس کی وجہ سے آج ہمیں بے شمار مثالیں ایسی دیکھنے کو مل رہی ہیں جس میں پسند کی شادی نہ ہونے پر نوجوان نسل موت کو گلے لگا رہی ہیں۔یا پھر وہ گھر سے بھاگتے ہیں تو پھر کہیں اور کسی بڑے مسئلے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

اور مردوں کو عورتوں پر فضلیت ہے۔(سورہ بقرہ:228)

بہت سے مرد حضرات قرآن کی مذکورہ بالا آیت کی بنا پر سمجھتے ہیں کہ وہ عورت پر حکمر انی کر سکتے ہیں اور انکی من مانی خواتین پر چل سکتی ہے اور شادی بیاہ کے معاملات ہوں یا زمین جائیداد کے لوگ اکثر اسی وجہ سے انکا حق دینے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔اگرچہ مذکورہ آیت کی رو سے لڑکی کا والد سرپرست ہونے کی وجہ سے یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اس کا نکاح کر سکے ۔مگر یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ وہ اس معاملے میں کہیں زیادتی نہ کرلیں اور روز محشر پھر انکو اپنے عمل کا جوابدہ ہونا پڑے۔اگرچہ والدین سوچ سمجھ کر اور دیکھ بھال کر جیون ساتھی منتخب کرتے ہیں مگر بسااوقات اُن سے بھی اندازے کی غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ جس کا خمیازہ اولاد کو تاحیات بھگتنا پڑتا ہے۔یہاں یہ بات میں وضاحت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ پسند کی شادی میں والدین کی رضامندی بھی شامل ہونی چاہیے ۔ بالخصوص والدجو کہ بیٹیوں سے بے پنا ہ پیار رکھتے ہیں اس معاملے میں اُنکی خوشی کا احترام کریں،جہاں پسند سامنے آئے تو جو بھی ہو اﷲ پر بھروسہ کرتے ہوئے شادی کر دینی چاہیے۔والدین اپنی بیٹی کے احساسات و جذبات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔کیونکہ اس حوالے سے بھی روزمحشر جوابدہی ہوگی کہ اُس نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا تھا ۔اس لئے اگرباپ تک بیٹی یا بیٹے کی پسند پہنچ جائے تو اُنکی حوصلہ شکنی کی بجائے اسلام کے قوانین کے مطابق عمل درآمد کا سوچنا چاہیے۔

اگر ہم ’’ضرورت رشتہ‘‘ کے اشتہار کی وجوہات تلاش کریں تو اکثر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ والدین کی اپنی مرضی پر کئے گئے رشتوں جہاں دو فریقین رضا مند نہ ہوں ،وہاں شادی کر دی جائے تو اکثر دوبارہ سے فریقین کی شادی کے لئے رشتے کا اشتہاردینا پڑتا ہے ۔ہمارے معاشرے کااخلاقی زوال اتنا گر چکا ہے کہ ہم دوسری شادی کرنے والوں پر انگلیاں اُٹھاتے ہیں ،ہم چونکہ دین سے دور ہوچکے ہیں تو اس لئے ایسے معاملات کو محض جنسی ضرورت کا تقاضہ سمجھتے ہیں ،دیگر حقائق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

اب یہاں بات والدین پر آتی ہے کہ وہ کس بنیاد پر ہم سفر کی تلاش کرتے ہیں اور کیسے شخص کو جیون ساتھی کے طور پر منتخب کرتے ہیں۔اس حوالے سے ’’ضرورت رشتہ کا اشتہار‘‘ اُن افراد کے لئے جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا چاہتے ہیں ایک اہم سیڑھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ نیک عمل کی ادائیگی سرانجا م دیں اور اُنکی عزت نفس بھی مجروح ن ہو۔ہم لوگ اگریہاں اسلام کی تعلیمات کے مطابق عمل درآمد کریں تو کہیں بھی اس اشتہار کے دینے کی ضرورت نہ آئے۔مگر ہم لوگ اعلی پائے کا رشتہ دیکھنا چاہتے ہیں اور سچ کہوں کہ اپنی اوقات بھول جاتے ہیں کہ ہم خود کیا ہیں۔ہم لڑکی والوں سے بے پناہ جہیز کی توقع رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے بے شمار لڑکیوں کی وقت پر شادی نہ ہو پاتی ہے کہ اُسکی تیاری میں ہی وہ آدھی عمر گذار دیتی ہیں۔مرد کے لئے تو کہیں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے وہ اپنی سے آدھی عمر کی لڑکی سے بھی شادی کرلیتا ہے مگر لڑکی بچاری نہیں بول سکتی ہے۔ لڑکی کی منشاء کو بھی دیکھنا چاہیے اگر وہ کسی بھی عمل سے یہ والدین پر ظاہر کر دیتی ہے کہ وہ کسی خاص شخص کے ساتھ رہنے کے لئے ذہنی طور پر آمادہ ہو چکی ہے۔ پھر والدین کو بھی اسکی خواہش کا احترام کرنا چاہیے اور من پسند شخص سے شادی کرا دینی چاہیے۔اس میں برا مان لینے یا اپنی بیٹی کی پسند کو گناہ کبیر ہ نہیں گرداننا چاہیے کہ اُس نے ایسا سوچ ہی کیسے لیا کہ وہ اپنے والدین کی مرضی کے خلاف پسندیدہ شخص کے ساتھ نکاح کی خواہشمند ہے۔اکثر ایسے ہی حالات و واقعات کی وجہ سے ہی نوجوان نسل کورٹ میرج کی طرف مائل ہو رہی ہے کہ لڑکے یا لڑکی کے جانب کے والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں ہی پسند کی شادی کے مخالف ہو جاتے ہیں۔پھر بات قتل وغارت تک پہنچ جاتی ہے کہ کوئی ہمارے بیٹی کے ساتھ شادی کا سوچ ہی کیوں رہا ہے۔کہیں کہیں پر اس طرح کی صورتحال پر بھی خاندان میں سبکی ہونے پر ہی ’’ضرورت رشتہ کا اشتہار‘‘ بھی دیا جاتا ہے کہ ایسی صورتھال میں خاندان والے رشتے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں۔

اکثر واقعات میں ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ والدین جان بوجھ کر اپنے بیٹی کے لئے آنے والے رشتے کو اگر رد نہیں کر سکتے ہیں، تو پھر کچھ ایسا طرزعمل لڑکے والوں کے ساتھ اختیارکرلیتے ہیں کہ وہ پھر دوبارہ سے رشتے کی بات کرنے لڑکی کے ہاں جانے سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں کہ وہاں خوب بے عزت کر دیاجاتا ہے یا کھری کھری سنا دی جاتی ہیں اور پھر دیکھنے میں آیاہے کہ ایسے میں لڑکا اور لڑکی کورٹ میرج کر لیتے ہیں اور والدین کہتے نظر آتے ہیں کہ’’ ناک کٹ گئی ہے‘‘۔ بڑی ہی ناخلف اولاد ہے، جس نے والدین کی عزت کی لاج نہیں رکھی ہے۔کبھی کبھی اگر لڑکا/لڑکی شادی نہ بھی کر سکیں تو بھی ایسے حالات میں خاندان میں مناسب رشتہ نہ ہونے پر بھی اشتہار دیا جاتا ہے تاکہ مناسب رشتے کے بعد حالات میں سدھار ممکن ہو سکے۔

جہاں ضرورت رشتہ کے اشتہار دینے والوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں دوسری طرف کورٹ میرج کرنے والوں کو بھی اکثر خاندان کے چند افراد کے اُکسانے پر یا غیرت کے نام پر والدین یا بھائی وغیرہ قتل کر دیتے ہیں اور پھر وہ اپنی ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارتے ہیں۔جبکہ نکاح کرنا تو گناہ نہیں ہے مگر ہم لوگ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے دوسروں پر اُنگلی اُٹھانے کو فخر سمجھتے ہیں ۔اسی وجہ سے ہی چندگھرانوں کی جب لڑکیوں کی بدکرداری مشہور کر دی جاتی ہے تو اُنکے رشتے خاندان بھر میں نہیں ہو پاتے ہیں اور انکو رشتوں کے لئے یا تو شادی کرانے والے دفاتر یا پھر اشتہار دینے کی ضرورت پڑتی ہے جوکہ ہمارے معاشرے کے لئے جو کہ ایک اسلامی معاشرہ کہلایا جاتا ہے میں ایک افسوس ناک رجحان کہلایا جا سکتا ہے۔

وٹے سٹے کی شادی، ونی اور کاری کی جانے والی میں سے اکثریت لڑکیوں کی ترجیح پسند کی شادی ہی ہوتی ہے اور پاکستان میں پسند کی شادی کا رجحان وقت کے ساتھ روز بروز بڑھتاجا رہا ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے معاملات میں بے جا ضد ،انا،خاندان،دولت ، اوردین اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دوری ظاہر کرتا ہے جس کی وجہ سے نوجوان نسل پسند کی شادی کے لئے عدالت سے رجوع کرتے ہیں جس کی وجہ اُنکے والدین کو معاشرے میں سرجھکا کر رہنا پڑتا ہے ۔بہت سے لوگ پسند کی شادی کو آوارگی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف والدین آج بھی یہی سوچتے ہیں کہ اُن سے زیادہ بہتر فیصلے کوئی اور نہیں کر سکتا ہے ۔لیکن یہی خود اعتمادی کبھی کبھی لے ڈوبتی ہے اور جب گھر ٹوٹتا ہے تو پھر اُنکو بھی دوسری شادی کرانے کے لئے اشتہار دینا پڑتاہے ۔اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے میں حقائق بیان نہیں کئے جاتے ہیں اور نوبت پھرسے نکاح کی طرف آجاتی ہے۔

اکثریت والدین کی یہی سوچ ہی بسااوقات اُنکی اپنی اولاد کی خوشیوں کوان سے دور کر دیتی ہے اور انکے غلط فیصلوں کی وجہ سے بچے ساری زندگی پریشانی کا شکار رہتے ہیں ۔بہت حد تک والدین اپنے بچوں کا بہتر ہی سوچتے ہیں مگر یہاں والدین کو اس بات کا بھی احساس کرنا چاہیے کہ اگر بچے اپنے من مانی کرنا چاہ رہے ہیں تو وہ انکی خوشی میں شامل ہوں اور انکے مستقبل کے لئے دعا گورہیں تووالدین کے ساتھ اولاد بھی اپنی زندگی اچھے انداز سے بسر کر سکتی ہے اور پسند کی شادی کے عدالت سے رجوع کرنے جیسے واقعات میں کمی آسکتی ہے.۔مزید براں شادی جیسے نیک عمل کی راہ میں رکاوٹیں بھی دور ہو سکتی ہیں جو کہ مختلف وجوہات کی بنا پر کھڑی کر دی جاتی ہیں تاکہ اپنے مرضی کے فرد سے شادی ممکن کرائیں جا سکیں۔اگرچہ اسلامی تعلیمات اس حوالے سے واضح ہیں کہ نکاح کرلینا چاہیے تاکہ انسان برائی کی طرف مائل نہ ہوں، اسی وجہ سے اگر کوئی نکاح کے پیغام کا اشتہار دیتا ہے تو کوئی گناہ کا عمل نہیں ہے۔ لیکن اس عمل کی آڑ میں خرافات نہیں ہونی چاہیے۔بہت سارے لوگ اشتہار دے کر محض دوستی تک رہنا چاہتے ہیں ۔کچھ اپنے مذہوم مقاصدکی خاطر ملتے ہیں اور مطلب پورا کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہ محض تفریحا میں دوسروں کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔ایسے افراد جو ’’ضرورت رشتہ کے اشتہار‘‘ کی آڑ میں مذہوم مقاصد رکھتے ہیں اُنکو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کے حوالے سے ایک دن جواب دہ ہونگے ایسا مت کریں۔بصورت دیگر مکافات عمل کو یاد رکھیں اُنکو غلط کرنے پر سزا بھی بھگتنی پڑ سکتی ہے۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 481987 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More