انسان اور ماحول کا دنیا کی ابتدا سے ہی
گہرا تعلق قائم ہے۔جس طرح ماحول انسانی زندگی پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرتا
ہے اسی طرح انسانی سرگرمیوں نے بھی قدرتی ماحول کو بھی بے حد متاثر کیا
ہے۔موجودہ دور میں ماحولیاتی عدم توازن کے باعث ہماری زمین نزع کے عالم میں
ہے اور اس کی سانسیں ختم ہونے کا مطلب انسانی زندگی کا خاتمہ ہے۔ دنیا بھر
میں آئے روز موسمیاتی تبدیلیوں اور ارضی عمل کا ری کے غیر متوقع مظاہرے
نہایت پریشان کن ہیں کیونکہ یہ انسانی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہے
ہیں۔ حالیہ ایام میں جرمنی، فرانس ، چین، پاکستان اور انڈونیشیا میں بے وقت
اور بے اندازہ بارشوں کے سبب تباہ کن سیلابوں کا مشاہدہ کیا گیا جن میں
سینکڑوں افرادلقمہ اجل اور اربوں روپے مالیت کی املاک تباہ ہوگئیں جبکہ
انڈونیشیا، ملائشیا، چین و جاپان کے سمندری علاقوں اور بھارت ، چین اور
نیپال کے ہمالیائی خطوں کے آس پاس وقفے وقفے سے چھوٹے بڑے زلزلوں کا وقوع
پذیر ہونا بھی معمول بنتا جارہا ہے۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کو پر تعیش اور سہل بنادیا
ہے وہیں اس کے نتیجہ میں ہونے والی منفی انسانی سرگرمیوں بالخصوص صنعت و
حرفت کی ناہموار ترقی، انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر
جنگلات کی کٹائی، قدرتی وسائل کا بے دریغ استحصال اور معدنی ایندھن کے بے
تحاشا استعمال کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی، عالمی سطح پر درجہ حرارت میں
اضافہ، اوزون کی تباہی، موسمیاتی تبدیلی، قدرتی آفات ،خشک سالی اور غذائی
بحران کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔سترھویں صدی میں صنعتی انقلاب نے جہاں
انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا وہیں فضا میں کاربن
ڈائی آکسائڈ کی مقدار میں بھی 34فیصد اضافہ کیا۔اعدادو شمار کے مطابق
صنعتوں اور دیگر انسانی سرگرمیوں کے نتیجہ میں ہر سال 37بلین میٹرک ٹن
کاربن ڈائی آکسائڈ اور دیگر زہریلی گیسیں فضاء میں خارج کی جاتی ہیں جو
اوزون کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق اوزون کے حفاظتی
غلاف میں آسٹریلیا کے رقبے کے برابر سوراخ ہو چکا ہے۔اگر ماحول میں بڑھتی
ہوئی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پرڈرامائی انداز میں قابو نہ پایا گیا تو دو
سو سال بعد اوزون کی تہہ مکمل ختم ہوجائے گی جس کے نتیجہ میں زمین سے زندگی
کا وجود مٹ جائے گا۔
انسانی ضروریات کے پیش نظر ہرسال 50ملین ایکڑ جنگلات کا صفایا کیا جاتا ہے
۔چونکہ یہ جنگلات جانوروں اور پودوں کی کثیر تعداد کا مسکن ہیں اس لیے
روزانہ ایک سو جانداروں کی سپی شیز اپنا قدرتی مسکن تباہ ہوجانے کی وجہ سے
معدوم ہوجانے کے خدشے سے دوچار ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک ملین
سے زائد سپی شیز ناپید ہوچکی ہیں جبکہ 2050 تک انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے
15 سے 37 فیصدپودوں اور جانوروں کا صفایا ہوجائے گا۔اس صدی کے اختتام پر
سمندر کی سطح میں تقریباً دو فٹ کا اضافہ متوقع ہے جس کی وجہ سے قریبی
علاقے زیر آب آجائیں گے۔اگر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر قابو نہ پایا گیا
تو اس صدی کے اختتام تک زمین کے درجہ حرارت میں 12 ڈگری فارن ہائیٹ کا
اضافہ ہوجائے گا جو گلوبل وارمنگ میں اضافہ کی وجہ بنے گا۔ماحولیاتی عدم
توازن انسانی ہلاکتوں کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے جس پر قابو پالیا جائے
تو سالانہ ایک کروڑ تیس لاکھ انسانی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔
پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی زد
میں ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں مون سون کی ہوائیں کم ہو
رہی ہیں، زرعی پیداواری صلاحیت متاثر ہو رہی ہے، موسموں کی شدت بڑھتی جارہی
ہے، ساحل کٹاؤ کا شکار ہورہے ہیں اورجنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے جنگلی حیات
کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں ۔ جنوبی بحیرہ عرب کی سطح میں اضافے اور شمالی
گلیشیئرز کے پگھلنے سے پاکستان میں 2010 کے بعد سے ہر سال سیلاب معمول بن
چکے جس کی وجہ سے پندرہ ارب ڈالرز سے زائد کے نقصانات ہوچکے ہیں جبکہ دو
کروڑ سے زائد افراد متاثر اور تین لاکھ کے لگ بھگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ ملک کے
جنوبی حصے ایک دہائی سے خشک سالی کا نشانہ بنتے آرہے ہیں ۔گزشتہ سال بھی
تھر پارکر اور چولستان میں خشک سالی کے باعث لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے
اور سینکڑوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر
رکھنے والے ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس گرمی کی شدید
لہر سے1200 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ گزشتہ 20سال میں پاکستان 133 قدرتی آفا ت
کا سامنا کر چکا ہے جو حکومتی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی انحطاط کی وجہ سے پاکستان کو جی ڈی
پی کے 9 فیصد کے مساوی یعنی ہرسال 365 ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ
رہا ہے۔ا نٹرنیشنل یونین فارکنزرویشن آف نیچر کی تازہ ترین رپورٹ میں
بتایاگیا ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب غیر انسانی حیات کی
105 اقسام معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں 103 اقسام کے
جانوروں اور 2 اقسام کے پودوں کو ناپید ہونے کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ اسی
طرح 23 ممالیہ جانوروں کی اقسام، 25 پرندوں کی اقسام، 10 رینگنے والے
جانوروں کی اقسام جبکہ مچھلیوں کی 30 اقسام کے علاوہ کیڑے مکوڑوں کی 15
اقسام معدومیت کے شدید خطرے سے دوچار ہیں۔
جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے کیوں کہ یہ تازہ آکسیجن کی فراہمی
میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔کسی ملک کی معاشی ترقی اور ماحولیاتی استحکام
کے لیے اس کے 25فیصد رقبہ پر جنگلات کاہونا ضروری ہے لیکن پاکستا ن میں صرف
2 فیصد رقبہ پر جنگلات موجود ہیں جو ماحولیاتی بگاڑ کی بڑی وجہ ہیں۔جنگلات
میں کمی کی وجہ سے ہرسال مٹی کے تودے گرنا، شدید بارشیں، تباہ کن سیلاب اور
درجہ حرارت میں اضافہ جیسے مسائل سامنے آرہے ہیں۔ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی
کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نئی صنعتیں لگائی جارہی ہیں جو ماحولیاتی
آلودگی کی بڑی وجہ ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اسوقت ملک بھر میں 17
ہزار کے قریب انڈسٹریز کام کر رہی ہیں جس میں 14 ہزار انڈسٹریز گندا پانی
اور دھواں خارج کر رہی ہیں جو فضائی اور آبی آلودگی کا باعث بن رہا
ہے۔سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک ، زرعی مقاصد کے لیے زہریلی ادویات اور کھادوں
کا استعمال اور ساحلوں کے قریب آبادی مختلف اقسام کی آلودگی پھیلا رہے ہیں
جو انسانی صحت پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے۔
یہ تمام اعدادو شمار مستقبل میں ملک کو درپیش ایک بڑے مسئلہ نشاندہی کر رہے
ہیں لیکن اس کے باجوود ہماری پارلیمنٹ، وزارت ماحول، ماحولیاتی حفاظت کی
ایجنسیاں، صنعتی ایسوسی ایشنز یا شہری میونسپل باڈیز نے اس کے سدباب کے لیے
قابل ذکر اقدامات نہیں کیے۔
رواں سال نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 175 ممالک کے
سربراہان اورحکومتی نمائندوں نے "پیرس کلائمیٹ ڈیل" پر دستخط کیے جس میں
پاکستان کی نمائندگی وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان نے کی۔اس معاہدے
کا مقصد بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل پر قابو پاتے ہوئے آنے والی نسلوں کو
صحت مند ماحول کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ماحولیاتی عدم توازن پر
قابو پانے کے لیے ترقی پذیر ممالک کے عوام کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے
کے لیے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ غربت اور ماحولیاتی تبدیلی
میں گہرا تعلق ہے۔ لوگ معاشی بہتری کے لیے شہروں کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں
اور روزگار کے حصول کے لیے ماحولیاتی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔ ہر فرد کو اس
بات کا شعور ہونا چاہیے کہ ماحول کی تباہی دراصل قیامت کی جانب روانی کے
مترادف ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی اور عوامی سطحوں پر لوگوں کو ماحول
کی حفاظت کے لئے ایک باقاعدہ پروگرام کے تحت شعور فراہم کیا جائے۔سیمینارز
منعقدکیے جائیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ماحول کو نقصان پہنچانے والی
اشیاء کے بارے میں عام آدمی تک معلومات پہنچائی جائیں۔مستقبل میں قدرتی
آفات سے نمٹنے کے لیے مربوط منصوبہ بندی کی جائے اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے
قوانین بنائے جائیں۔ماحولیاتی تحفظ کو نصا ب میں شامل کیے جانے کی اشد
ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں میں ماحول کی بہتری کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ صنعتوں کو
انڈسٹریل زون میں منتقل کرنے اور سڑکوں پر موجود گاڑیوں کو ماحول دوست
بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے کا ایک اہم
ذریعہ شجر کاری ہے جس کے فروغ کے لیے تعلیمی اداروں ، صحت کے مراکز اور
دیگر دفاتر میں حکومتی سرپرستی میں مہم چلانی چاہیے۔ |