یہ ۲۰۰۵ کی کہانی ہے ،نوجوان جوانی کی
دہلیز پر قدم رکھتا ہے نعمت اور آسائش کی ہر چیز اس کے پاس موجود ہے ۔لااُبالی
پن پیسے کی ریل پیل اور گھوڑوں کا شوق دور درا ز کے اسفارپر مجبور کرتا ہے
اس کا والد مسقط میں بسلسلہ کاروبار مقیم ہے ۔کم عمری میں عیاشی اور دین سے
دوری کے نتیجے میں بالآخر نوجوان ایک ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں سے اس کا
ایمان مسلوب ہو جاتا ہے اور ذلت و پستی کے گہرے کنویں میں جا گرتا ہے ۔اس
نوجوان کا نام محمد انفال ہے راولپنڈی کے ضلع گوجر خان سے اس کا تعلق ہے یہ
جوان چناب نگر میں موجود ’’ربوہ‘‘قادیانیوں کے ہیڈآفس میں جاتا ہے جہاں اسے
جلی حروف میں کلمہ طیبہ مرقوم نظر آتا ہے ،منتظمین سے سوال کرتا ہے کہ یہ
تو وہی کلمہ ہے جو ہم پڑھتے ہیں جواباٌطفل مکتب کو یہ باور کرایا جاتا ہے
کہ ہم مسلمان ہیں ہمارا دیگر مسلمانوں سے کوئی اختلاف نہیں وہاں موجود
لائبریری میں تمام علماء کرام کے تراجم اور تفاسیر کا انبار محمد انفال کو
دعوت فکر دے رہا تھا ،عام فرقوں کی طرح ان کو بھی ایک فرقہ سمجھ کر ایک
فارم ُپر کرکے یہ واپس لوٹ آتا ہے۔
عرصہ دوسال تک اس کی کوئی خبر نہیں لی جاتی اسی اثناء میں جوان کی شادی ہو
جاتی ہے شادی کے بعد چناب نگر سے کچھ لوگوں کا وفد اس سے ملنے آتا ہے۔ علیک
سلیک کے بعد آنے کا مقصد بیان کیا جاتا ہے کہ آپ نے ایک فارم پرُ کیا تھا
جس کے مطابق آپ ’’احمدی‘‘ہیں اور احمدیوں کا نکاح غیر احمدیوں سے نہیں ہو
سکتا لہذا آپ کی شادی غیر مذہب میں ہونے کی وجہ سے کالعدم ہے۔ نوجوان ان سے
پوچھتا ہے کہ پہلے دن آپ لوگوں نے مجھے کہا کہ ہم محمد ﷺ کو آخری نبی مانتے
ہیں اور آج آپ غلام احمد قادیانی کی نبوت کی طرف بلا رہے ہیں یہ باتیں آپ
نے مجھے پہلے دن کیوں نہیں بتائیں تاہم وفد’’خلیفہ خامس ‘‘لندن کی طرف سے
ایک کاغذکا ٹکڑا فراہم کرتا ہے جس کے مطابق محمد انفال کو’’خلیفہ خامس ‘‘
کی بیعت کرنے پر سند جاری کی جاتی ہے گویا ایک قسم کا نعوذ باﷲ ’’صحابی
اتھارٹی لیٹر‘‘سمجھ لیں اور برطانیہ ایمبیسی کی طرف سے ایک فارم پیش کر کے
’غیر احمدی ’‘بیوی کو طلاق دینے کی ترغیب دی جاتی ہے اور یہ باور کرایا
جاتا ہے کہ آپ کے برطانیہ جانے میں آپ کی بیوی رکاوٹ ہے گویا تبدیلی مذہب
کا پہلا گفٹ ’’برطانیہ ویزہ ‘‘جھانسے کے طور پر سامنے آتا ہے ،یہ سلسلہ
جاری رہتا ہے نوجوان اپنی نیک سیرت بیوی کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا ،بچوں
کی پیدائش پر برطانیہ سے’’ نام ‘‘آتے ہیں جن کے انتخاب کی صورت میں بچوں کی
عمروں کے حساب سے ماہانہ وظیفے کی نوید بھی سنائی جاتی ہے،نوجوان اس کو بھی
خاطر میں نہیں لاتا اور سنی ان سنی کر دیتا ہے اس سب کے باوجود ان کی تسلی
کے لیے چناب نگر دوبارہ آنے کی حامی بھرتا ہے اور اس خیال سے کہ انڈر
گراؤنڈ اگر میں ’’احمدی‘بھی رہوں تو بعد میں مسلمان ہو جاؤں گا ، لیکن بات
لیک ہوجاتی ہے سسرالیوں میں لعن طعن کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے سوشل
بائیکاٹ کردیا جس کے باعث وہاں رہنا مشکل ہوگیا بیوی کو ’’احمدی‘‘ بنانے کی
بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایک بار عورتوں کے ہمراہ اہلیہ کو بھی ’’ربوہ‘‘بھیجا
تاکہ صورتحال مزید واضح ہو،بیوی نے غلام احمد قادیانی کے کفر پر مزید مہر
ثبت کرتے ہوئے خاوند کو ارادے سے باز آنے کی دعوت دے ڈالی اور خاوند کو اس
دلدل سے نکلنے کی دعوت دیتی رہی نیک سیرت بیوی کا یہ کردار جلی حروف میں
رقم ہوگا۔ اس سارے عرصے میں وہ وہ اپنی بیوی کے ایمان کو متزلزل نہیں کر
سکا اس کے بعد محمد انفال راولپنڈی سے ہجرت کرکے حطار انڈسٹریل سٹیٹ میں
آجاتا ہے جہاں اسے شیزان فیکٹری میں ’’فورمین ‘‘کی ملازمت مل جاتی ہے
فیکٹری میں موجود دیگر عملہ کے ساتھ ’’جی ایم‘‘ بھی احمدی ہوتا ہے جہاں
نوکری کے جھانسے میں مزدوروں کی معاشی فلاح و بہبود کے ساتھ فکری بنیادوں
پر بھی گاہے بگاہے حملے کئے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بہت سے مسلمان
نادانستہ طور پر ایمان سے ہا تھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس دورانیے میں محمد انفال
نے ایک لاکھ روپیہ بطور فنڈ احمدیوں کو دیے ، اس کے بقول یہ رقم ربوہ میں
موجود ’’جنت البقیع ‘‘ میں قطعہ ارضی کے حصول میں خرچ کی جائے گی اور بعد
از مرگ اس کی تجہیز وتکفین کے اخراجات اس میں سے پورے کیے جائیں گے ۔بیوی
نے اس سلسلہ میں بھی خاوند کو بہت سمجھایا بالآخر والدین کی ناراضگی اور
قریبی رشتہ داروں کا بائیکاٹ روز اسے گھائل کرتا ہے وہ اس دلدل سے نکلنے کے
لئے بیتاب تھا ’’احمدیوں‘‘کے مطابق وہ اپنے ماں باپ کا جنازہ بھی نہیں پڑھ
سکتا تھا اس بات کے صدمے سے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹنے کو تھے وہ کسی طور پر
اخروی ناکامی کے ساتھ دنیوی ذلت برداشت کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس نے ہتھیار
پھینکنے کی ٹھان لی تھی اور دو ہفتے قبل جھوٹی نبوت کے دعویدار مرزا غلام
احمد قادیانی اور اس کی جماعت سے دستبردار ہوکر آقائے دو جہاں سید الاولین
و الآخرین حضرت محمدﷺکے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لیتا ہے ہزار بار مبارکباد کے
لائق محمد انفال کی خوش بختی کہ اس نے محسن کائنات کے دامن کو چھو لیا اپنی
آخرت کو بچا کر دو ٹکے کی زندگی پر دو حرف بھیج دیئے قبول اسلام کے بعد
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد انفال کا کہنا تھا کہ میں اس دلدل سے نکل
آیا ہوں لیکن بہت سے لوگ ’’احمدیوں ‘‘کے شکنجے میں اس طرح کسے ہوئے ہیں کہ
ان کا واپسی کی راہیں مسدود ہیں۔ پیسے نوکری اور عورت کے جھانسے میں وہ لوگ
بہت دور تک نکل چکے ہیں میری واپسی کی راہ اس لئے ہموار ہوئی کہ میں نے
کبھی ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا ورنہ اس قعر ذلت سے نکلنا میرے روگ
میں نہ ہوتا
محمد انفال کو احمدیوں کی جانب سے جان کا خطرہ بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ
محمد انفال نے ضلع ہریپور میں موجود احمدیوں کے تربیتی سنٹر کی بھی نشاندہی
کی ہے ۔ضلعی انتظامیہ آئین کی رو سے ان کی سرگرمیوں کو بند کرے علماء کرام
ختم نبوت کے مسئلے کی اہمیت بیان کریں اور معاشرے میں موجود قادیانیوں کی
سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ کوئی محمد انفال کی طرح آقائے دو جہاں ﷺ کے
قدموں سے دور نہ ہونے پائے۔ربیع الاول کے مہینے میں محمد انفال کو اسلام
قبول کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں سلام محمد انفال سلام۔ |