محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذکر ولادت پاک پر علمائے اسلام کے ایمان افروز تاثرات

فی الوقت پوری دنیا میں اسلام کے خلاف جتنی کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں ان میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہود وعیسائیت کی ناموسِ رسالت مآب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں بے ادبی، جسارت، توہین اور گستاخی کا معاملہ نمایاں ہے۔ اسی پر اسلام مخالف مشنریاں اپنی توانائیاں اور مال و دولت صرف کر رہی ہیں۔ اسی کے لیے ہمارے ملک میں بھگوا قوتیں سرگرم عمل ہیں، تمام ذرائع بشمول میڈیا کا استعمال اس کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اظہارِ راے کی آزادی کے نام پر اہانت رسالت کی مہم کو عالمی بنا دیا گیا ہے۔ احترامِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم کو پسِ پشت ڈالنے کی خاطر تمام باطل قوتیں اس کے لیے شب و روز متحرک وفعال ہیں۔

فطری امر ہے کہ حملے کا رُخ جس سمت سے ہوگا دفاع بھی اسی رُخ سے کیا جائے گا۔حملہ پشت کی طرف سے ہو اور حصار سامنے کھڑا کیا جائے تو غیر دانش مندانہ بات ہوگی۔ یوں ہی موجودہ دور میں بلکہ گزری دو صدیوں سے جاری حملوں کے جواب میں مسلمانوں کے لیے لازم ہو گیا ہے کہ اب اپنے آقا کریم رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اپنی نسبت و ارادت مزید مضبوط کر لیں۔ اس کے لیے وہ تمام جائز امور استعمال میں لائیں جس سے مسلمانوں کے دل کا رشتۂ محبت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ سے استواررہے۔ایسا ہی ایک موقع آقائے کونین ﷺ کی آمد اور تشریف آوری پر اسلامی اہتمام کا ہے۔جسے دنیا بھر کے مسلمان صدیوں سے عید میلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے نام سے مناتے چلے آئے ہیں۔ان سطور میں ہم میلاد کے انعقاد و اہتمام کے سلسلے میں علمائے عالم اسلام کی آرا مطالعہ کریں گے تا کہ اس سے حاصل ہونے والے فوائد کا علم ہو ساتھ ہی مسلمانوں کی اجتماعیت، اتحاد، اور اجماعی تسلسل کا بھی اندازہ ہو سکے، نیز اس سے ہمیں اسلامی سوسائٹی کو مضبوط کرنے میں بھی مدد ملے گی۔شاعر مشرق ڈاکٹر اقبالؔ لکھتے ہیں:’’میرے نزدیک انسانوں کی دماغی اور قلبی تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ان کے عقیدے کی رو سے زندگی کا جو نمونہ بہتر ہے وہ ہر وقت ان کے سامنے رہے چنانچہ مسلمانوں کے لیے اس وجہ سے ضروری ہے کہ اُسوۂ رسول پر نظر رکھیں تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے ……ان جذبات کو قائم رکھنے کے لیے تین طریقے ہیں۔(آثار اقبالؔ،غلام دستگیر،ص۳۰۵،طبع حیدرآباد)

ڈاکٹر اقبالؔ نے جن تین طریقوں کی نشان دہی کی وہ یہ ہیں:انفرادی طور پر درودو سلام پڑھنا……اجتماعی طور پر محافلِ عید میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم منعقد کرنا․․․․․․․․کسی مرشدِ کامل کی صحبت میں رہ کر اتباعِ سُنّت کی عملی تربیت حاصل کرنا……اب ہم میلاد کے حوالے سے علمائے اسلام (جن میں بڑی تعداد محدثین کی ہے)کی آرا کا ایک تحقیقی مطالعہ اختصارمیں کرتے ہیں تاکہ اتحاد و اتفاق کی فضا کی استواری آسان رہے اور اعتدال و توازن کے ساتھ اسلامی ذہن سازی ہو۔
(۱) امام ابو شامہ جو امام نووی (م۲۷۶ھ) شارح صحیح مسلم کے استاد الحدیث ہیں فرماتے ہیں:’’ہمارے زمانے میں جو بہترین نیا کام کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ہر سال حضور صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلّم کے میلاد کے دن صدقات و خیرات کرتے ہیں اور اظہارِ مسرت کے لئے اپنے گھروں کوچوں کو آراستہ کرتے ہیں………… اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلّم کو پیدا فرما کر اور حضور کو رحمت للعالمینی کی خلعتِ فاخرہ پہنا کر مبعوث فرمایا ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر بہت بڑا احسان ہے جس کا شکر ادا کرنے کے لئے اس بہجت و مسرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ‘‘(السیرۃ الحلبیۃ، جـ۱، صـ۱۲۳، دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(۲) علامہ ابن جوزی (م۵۹۷ھ) لکھتے ہیں :(قرونِ ثلاثہ کے بعدسے)’’اہل مکہ و مدینہ،اہلِ مصر،یمن ،شام اور تمام عالمِ اسلام شرق تا غرب ہمیشہ سے حضور اکرم صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلّم کی ولادتِ سعیدہ کے موقع پر محافلِ میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں ۔‘‘(میلاد النبی، صـ۵۸)
(۳)امام سخاوی (م۹۰۲ھ) لکھتے ہیں:’’ موجودہ صورت میں محفلِ میلاد کا انعقادقرونِ ثلاثہ کے بعد شروع ہوا پھر اس وقت کے تمام ملکوں میں اور تمام شہروں میں اہلِ اسلام میلاد شریف کی محفلوں کا انعقاد کرتے رہے ، اس کی راتوں میں صدقات وخیرات سے فقرا ومساکین کی دل داری کرتے ہیں، حضور کی ولادت باسعادت کا واقعہ پڑھ کر حاضرین کو بڑے اہتما م سے سنایا جاتا ہے اور اس عمل کی برکتوں سے اﷲ تعالیٰ اپنے فضلِ عمیم کی ان پر بارش کرتا ہے ۔‘‘(السیرۃ الحلبیۃ، جـ۱، صـ۱۲۳ )
(۴)شیخ ابن تیمیہ(م۷۲۸ھ) لکھتے ہیں:’’اگر محفلِ میلاد کے انعقاد کا مقصد تعظیمِ رسول علیہ الصلاۃ والسلام ہے تو اس کے کرنے والے کے لئے اجرِ عظیم ہے جس طرح میں نے پہلے بیان کیا ہے۔‘‘(اقتضاء الصراط المستقیم، صـ۳۰۸ ،مطبوعہ مکتبۃ نزار مصطفی البازالریاض)
(۵) حافظ ابو زرعہ عراقی( م ۸۰۶ھ) فرماتے ہیں :’’محفلِ میلاد کے بارے میں سوال کیا گیا یہ مستحب ہے یا مکروہ؟ کیا اس بارے میں کوئی نص ہے یا کسی ایسے شخص نے کی ہے جس کی اقتدا کی جائے؟آپ نے فرمایا: ’’کھانا وغیرہ کھلانا تو ہر وقت مستحب ہے اور پھر کیا ہی مقام ہوگا جب اس کے ساتھ ربیع الاوّل میں آپ(ﷺ) کے نور کے ظہور کی خوشی شامل ہوجاتی ہے، مجھے تو معلوم نہیں کہ اسلاف میں سے کسی نے کیا ،لیکن اس کے پہلے نہ ہونے سے اس کا مکروہ ہونا لاز م نہیں آتا کیوں کہ بہت سے کا م اسلاف میں نہ ہونے کے باوجود مستحب بلکہ بعض واجب ہوتے ہیں۔‘‘ (تنشیف الاذان، صـ۱۳۶)
(۶) امام ابن حجر ہیتمی (م ۹۷۴ھ) فرماتے ہیں:’’محفل میلاد اور اذکار جو ہمارے ہاں کیے جاتے ہیں ان میں سے اکثر بھلائی پر مشتمل ہیں،جیسے صدقہ، صلاۃ وسلام رسول خدا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلّم پر اور آپ کی روح پر آپ کی مدح سرائی ۔‘‘(فتاوی حدیثیۃ، صـ۲۰۲ ،مطبوعہ دار إحیاء التراث العربی بیروت)
(۷) شیخ عبدالحق محدث دہلوی( م ۱۰۵۲ھ) فرماتے ہیں:’’اﷲ کریم رحم فرمائے اس انسان پر جس نے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے میلادِ مبارک کے مہینے کی راتو ں کو عید منایا تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں عناد اور نفاق کی بیماری ہے ان پر سخت چوٹ لگے۔‘‘(ما ثبت بالسنۃ ، صـ۱۰۴ ،ادارۂ نعیمہ رضویہ لاہور)

شیخ موصوف اپنی دوسری کتاب میں فرماتے ہیں: ’’اے اﷲ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں،میرے اعمال فسادِنیت کا شکار ہیں، البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل محض تیری ہی عنایت سے اس قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلسِ میلاد کے موقع پر کھڑے ہوکر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی وانکساری ،محبت وخلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں۔ ‘‘(اخبار الاخیار ،ص۶۲۴)نیز شیخ موصوف لکھتے ہیں:’’آپ صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلّم کی ولادت باسعادت کے مہینہ میں محفل میلاد کا انعقاد تمام عالمِ اسلام کاہمیشہ سے معمول رہا ہے۔‘‘(ماثبت بالسنۃ ، صـ۱۰۲)

(۸) امام قسطلانی ( م۹۱۱ھ) لکھتے ہیں :’’ربیع الاوّل چوں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے لہٰذ ا اس میں تمام اہلِ اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں………… اﷲ تعالیٰ اس آدمی پر اپنا فضل و احسان کرے جس نے آپ کے میلاد مبارک کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض ہے ۔‘‘(المواہب اللّدنیہ، جـ۱، صـ۱۴۸، گجرات)
(۹) علامہ محمد بن یوسف شامی (م ۹۴۲ھ) لکھتے ہیں : ’’امام نصیر الدین المعروف ابن طباخ نے فرمایا : جب کوئی شبِ میلاد اجتماع، صدقہ وخیرات اور خرچ کرے اور ایسی روایاتِ صحیحہ کے تذکرے کا انتظام ہو جو آخرت کا سبب بنیں اور یہ سب کچھ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں ہو، اس کے جواز میں کوئی شبہہ نہیں اور ایسا کرنے والا مستحق اجر و ثواب ہوتا ہے۔‘‘نیز لکھتے ہیں کہ: امام جمال الدین کُتَانی نے فرمایا:’’ جس نے بھی آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اس نے اپنے آپ کو جہنم سے محفوظ کرلیا ۔لہٰذا ایسے موقع پر خوشی کا اظہار کرنا حسبِ توفیق خرچ نہایت مناسب ہے۔‘‘(سبل الھدیٰ والرشاد، الباب ۱۳، فی عمل المولد الشریف، ۳۶۳/۱ ،طبع دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(۱۰) مفتی محمد عنایت احمد کاکوری (م۱۲۷۹ھ) لکھتے ہیں : ’’حرمین شریفین اور اکثر بلادِ اسلام میں عادت ہے کہ ماہ ربیع الا ول میں محفلِ میلادشریف کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مجتمع کرکے ذکرِ مولود شریف کرتے ہیں اور کثرت سے درود پاک پڑھتے ہیں اور بطورِ دعوت کے کھانا یا شیرنی تقسیم کرتے ہیں، سو یہ امر موجبِ برکاتِ عظیمہ ہے اور سبب ہے زیادتِ محبت کا ساتھ جناب رسول اﷲ صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلّم کے، بارہویں ربیع الاوّل کو مدینہ منورہ میں یہ محفلیں متبرک مسجد شریف میں ہوتیں ہیں اور مکۂ مکرمہ میں مکان ولادت آں حضرت میں۔‘‘(تواریخ حبیب الٰہ، صـ۸)
(۱۱) علامہ احمد زینی دحلان مفتی مکہ(مدرس مسجد حرام) (م۱۲۸۶ھ )لکھتے ہیں:’’میلاد شریف کرنا اور لوگوں کو اس میں جمع کرنا بہت اچھا ہے۔‘‘(سیرت نبوی، صـ۴۵)
(۱۲)علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی (م ۱۳۵۰ھ) لکھتے ہیں:(قرونِ ثلاثہ کے بعد)’’ہمیشہ مسلمان ولادتِ پاک کے مہینے میں محفلِ میلادمنعقد کرتے آئے ہیں اور دعوتیں کرتے ہیں اور اس ماہ کی راتوں میں ہر قسم کا صدقہ کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں۔‘‘(انوارِ محمّدیہ، صـ۲۹)
(۱۳) علامہ عبد الحی لکھنوی (م۱۳۰۴ھ) لکھتے ہیں: ’’جو لوگ میلاد کی محفل کو بدعت مذمومہ کہتے ہیں خلافِ شرع کہتے ہیں۔‘‘دن اور تاریخ کے تعیّن کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ جس زمانے میں بطرزِ مندوب محفلِ میلاد کی جائے باعثِ ثواب ہے اور حرمین ،بصرہ،شام، یمن اور دوسرے ممالک کے لوگ بھی ربیع الاوّل کا چاند دیکھ کر خوشی اور محفلِ میلاد اور کارِ خیر کرتے ہیں اور قراء ت اور سماعتِ میلاد میں اہتمام کرتے ہیں۔‘‘(فتاوی عبد الحی، جـ۲، صـ۲۸۳)
(۱۴)پایۂ حرمین مولانا رحمت اللّٰہ کیرانوی(م۱۳۰۸ھ) لکھتے ہیں: ’’اس زمانہ میں جوہر طرف سے پادریوں کا شور اور بازاروں میں حضرت محمد ﷺ اور ان کے دین کی مذمت کرتے رہے ہیں ، ایسی محفل(میلاد) کا انعقادجو میں نے ……ذکر کیں اِس وقت میں فرضِ کفایہ ہے۔‘‘(تقریظ:انوارِ ساطعہ،طبع مبارک پور،ص۴۲۰)
(۱۵)حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی(م۱۳۱۷ھ/۱۸۹۹ء)لکھتے ہیں:’’ مشرب فقیر کا یہ ہے کہ محفلِ مولد میں شریک ہوتا ہوں بلکہ ذریعۂ برکات سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں اور قیام میں لطف ولذت پاتا ہوں۔‘‘(فیصلۂ ہفت مسئلہ ،طبع لاہور،ص۱۱۱)

میلاد و ذکرِ نبوی کے اہتمام کی بابت ہمیں قرآن و حدیث اور سیرت طیبہ میں بھی کافی دلائل مل جاتے ہیں۔’’مسلم شریف‘‘ میں ہے :ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلّی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلّم سے پیر کے روز ’روزہ‘ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : ’’اس دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی کی گئی۔‘‘حدیث کے الفاظ یہ ہیں:فِیہِ وُلِدْتُ، وَفِیہِ أُنْزِلَ عَلَیَّ(صحیح مسلم، رقم الحدیث: [۲۷۵۰] ۱۹۸(۱۱۶۲)،صـ۴۷۸)

اس بات پر اجماعِ امت ہے کہ آقا ﷺ کی ولادت فضلِ الٰہی ہے،احسانِ عظیم ہے، اﷲ کریم کا ارشاد ہے:’’آپ فرمادیجئے کہ اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے ملنے پر چاہیے کہ خوشی کریں۔‘‘[سورۂ یونس : ۵۸]بہ ایں سبب رحمت عالم ﷺ کی تشریف آوری کی خوشی تمام بلادِ اسلامیہ اور شرق و غرب میں منائی جاتی ہے۔ ہاں! اس جشن مسرت اور ساعتِ سعید میں شریعتِ اسلامیہ کے مطابق جتنے اعمال ہیں وہی قابلِ قبول ہیں اور عمومی طور پر ساری دنیا کے مسلمان اس دن کو اسلامی شان کے مطابق مناتے اور غیر شرعی رسوم سے بچ کر نیک اعمال میں گزارتے ہیں۔ہمارے شہر میں بھی غیر شرعی کاموں سے بچ کر اہتمام ہوتا ہے،جس کا اہم تجزیہ مساجد میں نمازیوں کی کثرت ہے، صبح میں سارا شہر اسلامی نغموں(حمد،نعت،صلاۃوسلام)سے گونج اٹھتا ہے،اور شہر کی اسلامی شان عود کر آتی ہے،بحمدہٖ تعالیٰ۔

نعمت و رحمت کے حصول پر خوشی اور عید مناناقرآن پاک سے ثابت ہے، آسمان سے جب قومِ مسیح پر خوانِ نعمت کا نزول ہوا وہ دن عید کا ہوا، قرآن کا ارشاد ہے: ’’عیسیٰ بن مریم نے عرض کی: اے اﷲ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو،ہمارے اگلے اور پچھلوں کی۔‘‘……پھر جانِ نعمت ﷺ کا نزول فرمانا کیوں نہ عیدہو، اور ہر مسرت سے بڑھ کر مسرت۔ آج جب کہ میڈیا کے ذرائع فیس بک، چینل، اخبارات وغیرہ میں اظہارِ رائے کی آزادی کی آڑ میں ختمی مرتبت ﷺ کی شان میں مسلسل توہین و گستاخی کا سلسلہ دراز ہے،ایسے حالات میں عید میلادالنبی ﷺ کا اہتمام یقینا اسلام کی شان کا اظہار اور صہیونی قوتوں کے لیے شکست کا پیغام ہے، امتِ مسلمہ میں اجتماعی فکرورجحان کی پرورش کے لیے یہ اسلامی عمل لازمی بھی ہے ، بقول مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نوری ؂
آفتابِ ہاشمی تو غرب سے طالع ہو پھر
کر سویرا نور کا مہرِ عجم ماہِ عرب
Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 254609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.