اللہ سبحانہ تعالی نے نبی کریم محمد ا کو
داعی ، جنت کی خوش خبری سنانے والا اور جہنم سے ڈرانے والا بنا کر دنیائے
انسانیت کے لیے مبعوث فرمایا، چنانچہ آپ کی پوری پیغمبرانہ زندگی اس ذمہ
داری کے احساس اور ادائیگی سے پر ہے، فرمان الٰہی ہے: اے نبی صلی الله علیہ
وسلم بے شک ہم نے آپ کو خوشخبری دینے والا اور انکار وبدعملی کے نتائج سے
آگاہ کرنے والا اور اللہ کی اجازت سے اس کی طرف لوگوں کو بلانے والا اور
روشن آفتاب کی حیثیت سے بھیجا ہے(سورہ احزاب آیت نمبر45۔46)۔۔۔!! نبی
کریم محمد مصطفیٰ ﷺ کی تمام حیات طیبہ دین اسلام کا عکس ہے، اللہ کے تمام
احکامات اور دنیا میں عظیم و برتر اور امن و سکون کی زندگی کا اصل نمونہ
آپ ﷺ نے اپنے نبوت سے قبل چالیس سال اپنے بہترین اعمال سے کفار میںعزت و
وقار کی حیثیت بیدار کردی جبکہ دین محمدی یعنی دین اسلام کے بعد سے آپ ﷺ
نے نہ صرف اللہ کے احکامت بنی نوع انسان کو پہنچائے بلکہ تمام تر اللہ کے
احکامات پر عمل کرکے مشعل راہ اور ضیات جاویدانی بخشی، آپ ﷺ اور آپ کے
دین میں داخل ہونے والوں کے اعمال کے سبب دین اسلام جزیرہ عرب سے پوری دنیا
میں تیزی سے پھیلا،دین اسلام کے شروع زمانے سے ہی ہر عمل کے لوگ دین محمدی
سے متاثر ہوکر از خود داخل ہوتے چلے گئے، دین اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں
انتہائی پر امن مزہب ہے، یہ دین احسن اعمال اور سچائی کے سبب لوگوں کے دل
میں رچ بس گیا تھا ، دین محمد اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ مذہب ہے
اسی لیئے اللہ نے اس دین محإدی کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے یہ دین تا قیامت
تک جاری و ساری رہیگا۔۔۔!! قرآن پاک دنیا بھر کے مسلمانوں کے سینہ میں
محفوظ کردیا گیا ہے جبکہ اس کی طباعت بھی کروڑوں کی تعداد میں جاری و ساری
رہتی ہیں، پانچ وقت کی آذان اور نماز ہی دین محمدی کی روح اور روحانی
کیفیت ہے، جمعہ اور عیدین کے اجتماع کفار کے دلوں پر حاوی ہوتے ہیں اور دین
محمدی کی روحانیت کے سبب کفار جوق در جوق اس پاک اور سچے دین میں داخل ہوتے
چلے آرہے ہیں۔۔۔!! آنحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو بظاہر دنیا میں تشریف لائے
چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے لیکن دین محمدی کی روحانیت و کیفیت
آج بھی اسی طرح ترو تازہ ہے، جب مسلمان خشوع و خضوع کیساتھ نماز و دیگر
عبادات اور حقوق العباد ادا کرتا ہے تو اُس مسلمان کا دل انتہائی نرم اور
روح میں تازگی پیدا ہوتی ہے !! آنحضرت محمد مصطفیٰﷺ سے والہانہ محبت ہی
دین محمدیکی کامیابی و کامرانی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں اور
نبیوں میں سب سے زیادہ اپنے پیارے حبیب محمد ﷺ سے محبت کرتا ہے یہی وجہ ہے
کہ بنی نوع انسان کو بتادیا کہ میرے عرش پر صرف میرے حبیب کی آمد ہی حق
رکھتی ہے اور مجھ سے روبرو کلام بھی کرسکتی ہے ، کائنات کے اس عظیم دین
اسلام کو جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، پی پی پی کے
تمام عہدیداران، اراکین، جیالے اور سندھ اسمبلی کے اپوزیشن جماعت ایم کیو
ایم پاکستان سمیت تمام جماعتوں نے اپنے ایمان کا اصل چہرہ عیاں کردیا ۔!!
دانشور و مفکر وں کا کہنا ہے کہ پی پی پی سیاسی جماعت مکمل مادیت پرست تو
ہے ہی لیکن ایم کیو ایم پاکستان سمیت دیگر سندھ کی سیاسی جماعتیں بھی ان سے
پیچھے نہیں رہتی کیونکہ نام نہاد مذہبی پروگرام کرکے صرف عوام کو دھوکہ
دینے کے سوا کچھ نہیں کرتے جبکہ ایوان میں جب قانون سازی کا معاملہ کرتے
ہیں تو صرف اپنے مفادات، ذاتیات اور دنیا داری کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے
ہیں چاہے آئین ہو یا دین محمدی اس کونا تلافی نقصان ہی کیوں نہ ہو جا ئے
۔۔۔!!صوبۂ سندھ کی اسمبلی نے قبولِ اسلام کے بارے میں ایک ایکٹ پاس کیا ہے
،جو امتناعِ قبولِ اسلام ایکٹ ہے،اس ایکٹ کی رُو سے اٹھارہ سال سے کم عمر
میں کوئی غیر مسلم اسلام قبول نہیں کرسکتا ، جو غیر مسلم اٹھارہ سال کی عمر
میں اپنی آزادانہ مرضی سے اسلام قبول کربھی لے تو وہ اکیس دن تک اس کا
اعلان نہیں کرسکتا ۔۔!!درحقیقت یہ بِل دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 2، 2A،8،
20، 31اور 227کے منافی ہے،آرٹیکل31ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں
کو قرآن وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کے بارے میں سازگار ماحول پیدا کرے۔
آرٹیکل 2Aاور227ریاست کو قرآن وسنت کے مطابق قانون سازی کا پابند کرتا
ہے،شریعت کی رُو سے جب کوئی ذی شعورشخص اپنی آزادانہ مرضی سے صدقِ دل کے
ساتھ کلمہ پڑھ لےتو وہ مسلمان ہوجاتا ہے ، اس کے لیے ریاست کی منظوری کہیں
بھی شرط نہیں، شریعت اسلام کے اظہار پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتی!!بلوغت
کے لیے اٹھارہ سال عمر مقرر کرنا شریعت کی رُو سے لازم نہیں ہے، شریعت میں
بلوغت کے لیے اوربھی معیارات اور علامات ہیں،کسی کو اسلام قبول کرنے سے
روکنا ،اُس کے کفر پر راضی ہونا ہے۔!! جن اسمبلی ممبران نے 'امتناعِ قبولِ
اسلام کا یہ قانون منظور کیا ہے انہوں نے اپنی عاقبت کی بربادی کا سامان
کیا ہے ان پر لازم ہے کہ اس پراللہ تعالیٰ سے توبہ کریںاوراپنی غلطی کا
ازالہ کریں ۔۔گورنر سندھ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اور وزیر اعلیٰ سندھ
سید مراد علی شاہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس قانون کو فی الفور رد کرنے
کیلئےاراکین اسمبلی کوقرآن وسنت کے مطابق حوالہ جات تحریر بھجوائیں کیونکہ
یہ ایکٹ آزادیٔ مذہب اور حقوقِ انسانی کے بھی منافی ہے ۔ اپنے مذہب کے
اظہار کے لیے کسی پر قانونی پابندی عائد کرناشریعتِ اسلامی اور پاکستان کے
آئین کے خلاف ہے ۔۔وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی اس
سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،جہاں تک جبراً مسلمان بنانے پر تعزیری
سزا مقرر کرنے کا تعلق ہے ، اُس پر کوئی اعتراض نہیں۔کیاکسی کو اسلام قبول
کرنے پر مجبور کیا گیا۔۔ ؟؟ یہ طے کرنا عدالت کا کام ہے!!یہ کسی انتظامی
افسر کا دائرۂ اختیار نہیں ہے، عدالت میں کسی بھی الزام کے ثبوت کے لیے
اقرار یاشہادت یا عدالت کے نزدیک قابلِ قبول قرائن وشواہدکا پیش کرنا ضروری
ہوتا ہے۔۔۔!! پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس خواہش
کا اظہار کر چکے ہیں کہ کسی غیر مسلم کو بھی پاکستان کا صدر یا وزیرِ اعظم
بنایا جائے ،اید رکھنے کی بات ہے کہ چند روز قبل بلاول بھٹو وزیراعلیٰ سمیت
مندر میں بتوں کے سامنے ہندو مزہب کے مطابق عبادت کی اور بھجن گائے۔۔!!
سندھ کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ محمد بن قاسم سمیت تمام مسلم سپہ سالاروں
نے اپنے مذہبی روایات اور اعمال کے سبب یہاں کے تمام ہندوؤں کو متاثر کا
یہی طریقہ بزرگان دین نے بھی دین محمدی پر عمل پیرا ہوکر متاثر کیا اس میں
سندھ کے صوفی بزرگ شاعر شاہ عبد اللطیف بھٹائی ، سچل سرمست، شاہباز قلندر
سمیت بےشمار اولیا و اسلافین نے دین کی ترویج اپنے احسن اخلاق اور دین
محمدی پر عمل پیرا ہوکر کی ، وہ سندھ جو اولیا کی مشعل راہ پر گامزن رہتا
تھا اب پی پی پی کی حکومتوں میں ہندوؤں اور کفاروں کی اطبا میں رہنے لگا
ہے جو نہ صرف سندھ دھرتی کیلئے خطرناک ثابت ہورہا ہے بلکہ پاکستان کی
معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی روایات کیلئے بھی ناسور بنا ہوا ہے ،اگر پی پی
پی اپنے دہریئے پن سے باز نہ آئی تو یہ سیاسی جماعت صفحہ ہستی سے مٹ سکتی
ہے کیونکہ سندھ دھرتی کے باسی یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ دین محمدی کو نقصان
پہنچےاور اب پی پی پی سمیت سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں نے ثابت کردیا کہ
انہیں نہ دین اسلام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی پاکستان کے آئین سے اسی
لیئے وہ یہود و نصارا اور کفار و مشکرین کی خوشی کیلئے کسی بھی حد تک
جاسکتے ہیں،بلاول بھٹو اور اس کا باپ آصف علی زرداری بھول گیا ہے کہ
ذوالفقار علی بھٹو کو ماننا پڑا کہ احمدی فرقہ کافر ہے اوراسی آئین میں
کفار قرار دیا گیا ،بھٹو نہیں چاہتا تھا کہ وہ ایسا کرے لیکن اقتدار کے
جانے کے خوف سے اسے ایسا کرنا پڑا کاش وہ اللہ اور اس کے حبیب کی محبت میں
از خود کرلیتا توپھانسی کے تختی پر لٹک کر موت کے منہ میں نہیں جاتا !
انسان اپنی موت خود چنتا ہے کیونکہ اللہ اپنے نیک بندوؤں کی موت بھی
عالیشان بنادیتا ہے جس پر انسان تو انسان فرشتے بھی رشک کرتے ہیں۔۔!!معزز
قائرین !صوبۂ سندھ میں ہندومذہب کے ماننے والوں کے لیے حکومت نے سرکاری
چھٹی کا اعلان کیا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری
نے ہندوئوں کی مذہبی تقریب میں شرکت کی اور اُن کی رسوم کو ادا کیا ، کیا
ایسے سیاسی لیڈر کو اسالمی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم بننا
چاہیئے؟؟؟انصار عباسی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ یوایس کمیشن برائے بین
الاقوامی آزادیٔ مذہب اورپیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن پاکستان کے اشتراک
سے ایک تحقیقی رپورٹ مرتب ہوئی ہے ، جس کے مندرجات انتہائی حد تک خطرناک
ہیں، اس کے مندرجات سے عیاں ہے کہ اِس کے مرتّبین کے ذہنوں میں اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے ریاستی مذہب اسلام کی حقانیت کے بارے میں انتہائی تعصب
بھرا ہوا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک (مقبول
)دین صرف اسلام ہے ، (آل عمران:19)۔فرمایا:اورجو اسلام کے سوا کسی اور دین
کو اختیار کرے گا ، تووہ اُس سے ہرگز قبول نہیں کیاجائے گا،(آل عمران:85)
اسلام تو دینِ حق ہے اور دستور کی رُو سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ریاستی
مذہب ہے اورآئین کی رُو سے اِس کا تحفظ اور فروغ ریاست کی ذمے داری
ہے،اسلام کی حقانیت تو مسلَّمہ ہے، انسان کی جبلّت تو یہ ہے کہ باطل مذاہب
کے ماننے والے بھی اپنے اپنے مذہب کو ہی برحق جانتے ہیں خواہ وہ حقیقت کے
خلاف ہو، اس رپورٹ کی رُو سے مسلمانانِ پاکستان کا اپنے دین اسلام کوواحد
مبنی بر حق دین سمجھنا ایک منفی قَدر ہے اور اہلِ پاکستان کو اس پر شرمسار
ہونا چاہیے!! معزز قائرین !ماہرین سیاسیات و محققین کا کہنا ہے کہ موجودہ
حالات میں پاکستان میں مذہبی سیاسی جماعتیں ہوں یا غیر مذہبی سیاسی جماعتیں
ان تمام کا اگر جزیاتی مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ یہ سب کے سب بیرونی
خداؤں کے طابع ہیں ان کا مقصد بیرون ممالک کی پاکستان مخالف قوتوں کو
سہارا پہنچانا ہےتو کیوں یہ پاکستان کے رہبر و رہنما ہوسکتے ہیں انب ان
بہروپیوں کا احتساب ہونا ضروری ہے ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستانی قوم
اب اپنے مستقبل کیلئے اپنے اندر سے نیک شریف سچے اور ایماندار کو الیکشن
لڑنے پر بضد ہوجائیں اور ان کی تمام تر کوششیں کریں تاکہ پاکستان ناپید،
کرپٹ، لوٹ مار کرنے والے سیاسی جماعتوں، گروہ بندیوں سے مکمل آزاد ہوکر
حقیقی معنوں میں بہترین سیاست بن کت ابھرے یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے کہ
موجودہ تمام سیاسی جماعتوں کو رد کردیا جائےبصورت نہ پاکستان کی سلامتی
محفوظ رہ سکے گی اور نہ ہی یہاں دین اسلام کا چہرہ نظر آئے گا۔ ۔۔!!
پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!! |