انسان اپنی ترقی کے لیے مسلسل کوشاں رہتا ہےاگر ایک انسان
زندہ ہونے کے باوجود اپنی ذات میں بہتری کے لیے کوشش ترک کر دے تو اس کا
مطلب یہ ہے کہ وہ سانس لینے کے باوجود مر چکا ہے فقط چلنے پھرنے اور وقت
گزارنے کا کام تو بہت سی دوسری مخلوقات بھی انجام دے رہی ہیں ۔انسان کو
اشرف و اعلیٰ ہونے کا شرف صرف اور صرف اگے بڑھنے ،خود کو پرکھتے رہنے کی
سوچ کی بنا پر دیا گیا ہے۔ وہ ہر دور میں بہتر سے بہترین کے لیے کوشاں رہا
ہے ورنہ شیر چیتے تو آج سے سو سال پہلے جس طرح شکار کرتے تھے آج بھی اُسی
طرح ہی شکار کرتے ہیں لیکن انسان نے ترقی کی منازل طے کرنے میں ابھی بھی
اکتفا نہیں کیا۔ اس کی وجہ انسان کی آگے سے آگے بڑھنے کی خواہش ہے۔آپ کی
اگر خواہش ہے کہ آپ اپنی ذات کو بہترسے بہترین بنائیں تو اس کے لیے کچھ
ایسی باتیں ایک ماہر نفسیات ایم اے مورن نے اپنی کتاب تیرہ چیزیں جو مضبوط
اعصاب کے لوگ نہیں کرتے ،تجویز کی ہیں،وہ کہتی ہیں کہ تیرہ ایسی باتیں ہیں
جو بہترین ذہن کے لوگ نہیں کرتے۔ میں نے اس کتاب سے جو سمجھا ہے اسے اپنے
الفاظ میں بیان کرنے کی حقیر سی کوشش کر رہی ہوں تاکہ میرے جیسے لوگ جو کم
وقت میں ہر بہترین چیز کو جاننا چاہتے ہیں اس تجزیہ سے فائدہ اُٹھا سکیں۔
میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ کو اگر وقت ملے تو اصل کتاب کا مطالعہ بھی کریں
اور اگر آپ بہترین بننا چاہتے ہیں تو خود کو ان باتوں کے پیش نظر جانچیں۔
آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ وہ کیا خوبیاں ہیں جن کے باعث آپ من چاہی ترقی
حاصل کر سکتے ہیں۔
|
|
1۔اپنا وقت خود پر افسوس میں ضائع نہ کریں۔
ہم اکثر کسی چیز میں ناکام ہونے کے بعد بیٹھ کر خود کو اور دوسروں کو کوسنا
شروع کردیتے ہیں جو ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ بہتری اور
ترقی گزری ناکامی سے سبق سیکھ کر آگے بڑھ جانے میں ہی ہے۔ اگر آپ فیل ہو
گئے ہیں تو اس کی وجہ تلاش کریں استاد اور والدین کو کوسنے سے آپ اپنا
مزید وقت برباد ہی کریں گے۔ ہمارے ہاں لوگ اکثر اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار
دوسروں کو ٹھہراتے رہتے ہیں۔ تمام عمر اپنی طرف نظر نہیں کرتے اِسی وجہ ہے
کہ ہمارا معاشرہ ترقی پزیر ہے ترقی یافتہ نہیں۔ایم اے مورن جو پہلی بات
اپنی کتاب میں لکھتی ہیں وہ یہی ہے۔
2۔ اپنی ذات پر خود کنٹرول کریں۔
اگر آپ کسی کٹھ پتلی کی طرح اپنی ڈور کسی دوسرے کے ہاتھ دے دیتے ہیں تو وہ
آپ کو اپنی مرضی سے ہی نچائے گا۔اس وجہ سے آپ کبھی اپنے خوابوں کو سچ
نہیں کر سکیں گے۔انسان اپنی منزل اور راستہ کا انتخاب خود کرتا ہے ،اس کا
مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ دوسروں سے مشورہ نہ لیں یا دوسروں کے تجربات سے
فائدہ نہ اُٹھائیں اس کا مطلب یہ ہے کہ گائے کی طرح مالک کے پیچھے پیچھے نہ
چلیں کیوں کہ آپ کو آپ کے رب نے گائے نہیں انسان بنایا ہے۔ جو سوچنے
سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اللہ تعالٰی نے آپ میں کیا کیا
خوبیاں رکھی ہیں۔ان سے فائدہ اُٹھائیں ۔اندھوں کی طرح تقلید سے گریز
کریں۔آپ ہی اپنی خواہشوں اور ارادوں کو سمجھ سکتے ہیں کوئی دوسرا جس طرح
آپ کے جسم کے لیے کھانا نہیں کھا سکتا بلکل اسی طرح آپ کے متعلق بہترین
فیصلے بھی نہیں کر سکتا۔ ایم اے مورن جو بہترین ذہن کے لوگوں کے لیے دوسرا
اصول بیان کرتی ہیں وہ یہی ہے کہ بہترین ذہن کے لوگ اپنا کنٹرول اپنے پاس
ہی رکھتے ہیں۔
|
|
3۔تبدیلی سے نہیں گھبرائیں، خود کو تبدیلی
میں ایڈجیسٹ کرلیں۔
ہمارے ہاں لوگ اچھی بُری دونوں طرح کی تبدیلی سے گھبراتے ہیں اگر آپ تجزیہ
کریں تو جانیں گے کہ ہم چھوٹے گھر سے بڑے گھر جانے سے بھی گھبراتے ہیں ۔آپ
نے اکثر سنا ہوگا کہ بیٹے نے بنگلہ لے لیا لیکن والدین ساتھ رہنے کو تیار
نہیں، اُنہیں اپنا وہی چھوٹا سا گھر پسند ہے جس میں وہ چالیس سال سے رہ رہے
ہیں۔اب بیٹا پریشان ہے کہ کیا کرے۔اسی طرح ان گنت مثالیں ہمارے معاشرے میں
گردش کرتی ہیں۔ لڑکی کو لائق ہونے کی بنا پر امریکہ میں پڑھنے کا سکالر شپ
مل گیا لیکن والدین نے امریکہ جانے کی اجازت ہی نہیں دی۔ہم لوگ چھوٹی چھوٹی
تبدیلیوں کو بھی زندگی میں لانے سے گریز کرتے ہیں جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ
ہوتی ہیں ۔ہمارے ہاں آج بھی گاؤں میں عورتوں کا نوکری کرنا بُرا سمجھا
جاتا ہے اگرچہ وہی عورتیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں یعنی ہم لوگ لکیر کے
فقیر ہیں اور تبدیلی کو زندگی میں آنے نہیں دیتے۔ ایم اے مورن کا کہنا ہے
کہ ترقی کرنے والے لوگ تبدیلی سے نہیں گھبراتے بلکہ تبدیلیوں کو خوش آمدید
کہتے ہیں۔ بہتر سے بہترین کا سفر اچھی تبدیلیوں کو قبول کر کے ہی طے کیا جا
سکتا ہے۔
4۔جن چیزوں پر اختیار نہیں ان کو خاطر میں
نہ لائیں۔
عمومی طور ہر ہم ایسی چیزوں سے متعلق سوچتے رہتے ہیں جن سے متعلق ہم کچھ
نہیں کر سکتے جبکہ ترقی کرنے والا ایسی چیزوں سے متعلق غوروفکر کرتا ہے جن
سے متعلق وہ کچھ کر سکتا ہے مثلاً ہمیں سردی لگ رہی ہے ،یہ سردی کیوں ہو
گئی ہے کتنا ہی اچھا ہو سردی ہو ہی نہیں ایسی بے کار کی باتوں کو سوچنے کی
بجائے مٖضبوط اعصاب کے لوگ یوں سوچتے ہیں سردی ہو گئی ہے لہٰذا کمبل وغیرہ
نکال لینے چاہئیں اور سردیوں کے کپڑے بھی۔جن چیزوں پر اختیار نہیں ہم ان کو
کوسنے یا پھردوسروں کو کوسنے میں اپنا بیشتر وقت برباد کرتے ہیں جبکہ اس
وقت کو ہم سب اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے استعمال میں لا سکتے تھے۔لہذا
ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم اپنی شکل تبدیل نہیں کر سکتے نہ ہی جنس بدل
سکتے ہیں لیکن ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ اپنی موجودہ صلاحیتوں کو نکھار کر
دنیا میں اپنا مقام پیدا کریں۔
|
|
5۔ہر ایک کو خوش کرنے کی کوشش نہ کریں۔
دنیا میں ترقی کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری یہ سوچ ہے کہ لوگ کیا
کہیں گے۔ بہت سے لوگ اپنی خواہشوں کو صرف اس لیے اپنے دل ہی میں مار دیتے
ہیں کہ ان کے رشتے دار ،ماں باپ یا بہن بھائیوں کو اچھا نہیں لگے گا اگر وہ
اپنی مرضی کا کام کریں۔ ہمارے ہاں خاص کر لڑکیاں دوسروں کو خوش کرنے کی
خاطر اپنی زندگی برباد کر لیتی ہیں،اپنی خواہشوں اور خوابوں پر عمل کرنا تو
دور کی بات ہے اپنے دل کی خواہش دل ہی میں مار دیتی ہیں۔ خدانخواستہ ابا
جان کو اگر پتہ چل گیا کہ مجھے ان کا پسند کردہ لڑکا پسند نہیں تو انہیں
بُرا لگے گا۔خود کو خواہ ساری زندگی بُرا لگتا رہے۔ ترقی پانے والوں کا
وطیرہ ہے کہ وہ ایک حد تک دوسروں کا سوچتا ہے۔ ہر ایک کو خوش کرنے کی ذمہ
داری آپ کی نہیں لیکن اپنی ذات کو بہتر بنانے خود کی خوشی کے لیے کوشاں
رہنے کی ذمہ داری آپ کی ہے لہذا اپنی زندگی کے فیصلے سوچ سمجھ کر کریں
خواہ آپ آدمی ہیں یا عورت اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ روح کی جنس
نہیں ہوتی وہ تو بس تسکین کی خواہاں ہوتی ہے۔
6۔خطرہ اُٹھانے سے پیچھے نہیں ہٹیں۔
بہترین ذہن کے لوگوں کبھی بھی خطروں کے پیش نظر اپنے مقاصد کو پس پشت نہیں
ڈالتے۔ وہ راستے کی ہر رکاوٹ کا دیدہ دلیری سے سامنا کرتے ہیں اور اپنے
مقصد کو پا لیتے ہیں۔اس کی مثال طارق بن زیاد کا کشتیوں کو جلا دینا ہے۔
کیسے اُس نوجوان نے اپنی فوج کو اپنے عمل سے پیغام دے دیا کہ یا تو لڑو یا
پھر مرو۔ بہترین زندگی بھی ہم سے یہ ہی تقاضا کرتی ہے یا تو محنت کرو ہر
قسم کے خطرہ کو خوش آمدید کہو۔وہ پا لو جو چاہتے ہو۔ انسان کے لیے وہی کچھ
ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے، قرآن مجید نے یہ پیغام چودہ سو سال پہلے دے دیا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ تم جانوروں کی سی زندگی گزارو،مشکل دیکھو دُم دبا کر
بھاک جاؤ ،دو وقت کے کھانے پر اکتفا کرو اپنا مقررہ وقت پورا کرو اور میری
قسمت ہی ایسی تھی یہ کہتے ہوئے مر جاؤ۔ دوسری صورت آسان مگر آپ کی ذات کا
نقصان ہے۔
7۔ماضی میں غرق نہ ہوں۔
آپ کا ماضی محض آپ کی سوچ ہے اُسے نہ آپ بدل سکتے ہیں نہ ہی اس میں
دوبارہ واپس جا سکتے ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ایک دفعہ کامیاب ہو جانے
کے بعد اسی کامیابی میں غرق ہو جانے کا مطلب ہے کہ آپ نے ناکامی کو گلے
لگا لیا یعنی کامیاب لوگوں کے لیے ترقی و کامیابی سیڑھی ہوتی ہے نہ کہ منزل
۔ ترقی کی کوئی حد نہیں لہٰذا ماضی کی ترقی،ناکامی دونوں ہی سبق حاصل کرنے
کے بعد چھوڑ دیں۔آپ اگر گزرے لمحوں کو خود سے دور نہیں کریں گے تو نئے
لمحات کے لیے جگہ بنانے میں آپ کو دشواری پیش آئے گی لہذا اپنی ناکامی و
کامیابی کوجو گذشتہ وقت کا خاصہ تھی پکڑ کر نہ بیٹھیں۔اکثر ہمارے ہاں بزرگ
اپنی کامیابی کے قصے یوں سناتے ہیں جب ہم جوان تھے تو جبکہ بڑھاپا تو محض
ہماری سوچ پر چھا جاتا ہے ورنہ جذبات کہاں بوڑھے ہوتے ہیں کبھی آپ نے سوچا
ہے کہ چونکہ اب آپ جوان ہو گئے ہیں تو آپ کو دوسروں کی محبت کی ضرورت
نہیں رہی یا پھر اب چونکہ آپ بچے نہیں رہے تو آپ کو چوٹ لگنے پر درد نہیں
ہوتا ایسا نہیں ہے لہٰذا اپنی سوچوں کا تجزیہ کریں شاہد اِنہیں ترامیم کی
ضرورت ہو۔
|
|
8۔غلطیوں کو بار بار نہیں کریں۔
ہمارے ہاں پہلے کاشت کا نظام فرسودہ تھا۔کاشتکاری کے لیے بیلوں کا استعمال
عام تھا لیکن اب ایسا نہیں۔اب کاشتکاری کے نظام میں بہت بہتری آچکی ہے
لیکن جس قدر مادی اقدار تبدیل ہوتی ہیں غیر مادی اقدار میں تبدیلی نہیں
آتی یعنی ہمارا پہناوا بدل چکا ہے لیکن دماغ اور سوچیں ابھی بھی فرسودگی
سے نکلنے کو تیار نہیں۔آج بھی ہمارے ہاں بیٹوں کو نسل کا امین اور بیٹی کو
پرائی کہا جاتا ہے،آج بھی بچیوں کی پڑھائی پر اس طرح سے خرچ نہیں کیا جاتا
جس طرح کہ بیٹوں کو تعلیم کے مواقع دیے جاتے ہیں اگرچہ لڑکی لائق اور لڑکا
نالائق ہی کیوں نہ ہو۔ہمارے ہاں یہ بات بھی عام ہے کہ ہر پیدا ہونے والا
بچہ اپنا رزق لے آتا ہے اس لیے ہر گھر میں بچوں کی تعداد گھر میں کمروں کی
تعداد سے پانچ گنا ہوتی ہے۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ اگر ترقی کرنی ہے تو اپنے
آباؤ اجداد کی غلطیوں کو نہ دہرایں۔ اپنی غیر مادی اقدار پر نظر ثانی کریں
آپ چیزوں سے متعلق کیسے سوچتے ہیں۔ہمارا نصاب تعلیم غلطیوں کو دُہرانے کی
عمدہ مثال ہے جہاں پوری دنیا بچوں میں تخلیقی صلاحتیں پیدا کرنے پر زور دے
رہی ہے ۔ہمارے ہاں آج بھی رٹو طوطے ہی کامیاب طالب علم ہیں۔نصاب وہی
فرسودہ ہے۔کاش کہ بحثیت قوم ہم اس غلطی کو دُہرانے سے انکار کردیں۔
9۔دوسروں کی ترقی پر افسردہ نہ ہوں۔
ترقی پسند قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی ترقی کو مدنظر رکھتے ہیں وہ دوسروں کی
ترقی پر نہیں کڑتے۔ نہ ہی ایسے لوگ دوسروں کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔
مضبوط دماغ کے لوگ نہ صرف دوسروں کے لیے ترقی کے راستے ہموار کرتے ہیں بلکہ
ان کے کام کا مشاہدہ و تجزیہ بھی کرتے رہیتے ہیں۔وہ نہ صرف اپنے لیے کوشاں
رہتے ہیں بلکہ دوسروں کی کامیابی کے لیے مدد فراہم کرتے ہیں۔وہ اچھی طرح
جانتے ہیں کہ حسد سے ان کا اپنا ہی نقصان ہوگا۔
10۔پہلی ناکامی کے بعد پیچھے نہیں ہٹتے۔
مضبوط اعصاب کے لوگ جب کچھ کرنے کا ٹھان لیتے ہیں تو وہ راستہ کی دشواریوں
کو خاطر میں نہیں لاتے۔اس کی مثال ایڈیسن ہے نو سو ننانوے بار فیل ہونے کے
بعد کامیابی اس کے حصے میں آئی اگر وہ پہلی دفعہ ناکامی پر افسوس کرتے
ہوئے کوشش ترک کر دیتا تو کبھی کامیابی کو حاصل نہ کر سکتا۔لہذا اس بات کو
ہمیشہ یاد رکھیں کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے بہت سی ناکامیوں سے گزرنا
پڑتا ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار کٹا عقیق پھر نگین ہوا
آپ کو اگر کامیاب ہونا ہے تو اپنی ناکامی کو ایک سیڑھی کی طرح ہی استعمال
کرنا ہو گا جس کا پہلا حصہ آپ کو منزل تک نہیں پہنچاتا لیکن منزل کے قریب
کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔
|
|
11۔اکیلے ہونے سے نہ گھبرائیں۔
ہمشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اور یہ ہی ہوگا کہ اگر آپ منفرد ہیں ،آپ کی
سوچیں دوسروں کے لیے نئی ہیں تو لوگ آپ کو قبول نہیں کریں گے۔آپ کو اپنی
جگہ بنانے اور خود کو منوانے کے لیے مسلسل محنت کرنا ہو گی۔ایسے میں اکیلے
ہونے سے آپ کی ذات پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔آپ کاخود پر یقین آپ کی
منفرد سوچوں کی سچائی کچھ وقت کے بعد دوسروں کو آپ کے قریب کر دے گی۔اکیلے
ہونے سے کوئی یہ مطلب بھی نہ لے کہ گھر چھوڑ کر جنگل میں نکل جانا ہے بلکہ
اکیلے ہونے کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ممکن ہے لوگ اس بات کی سچائی کو
نہ دیکھ پا رہے ہو جو آپ کو نظر آ رہی ہے تو آپ لوگوں کے رویے کو خاطر
میں نہ لائیں۔جیسا کہ بہت سے ایجادات کرنے والے لوگوں نے کیا۔تاریخ گواہ ہے
کہ آئن سٹائن کو بھی لوگ پاگل کہتے تھے۔نیوٹن کے بارے میں بھی لوگوں کی
کچھ ایسی ہی رائے تھی لیکن ان لوگوں میں بلا کی قوت ارادی تھی انہوں نےاپنی
تنہائی کو ہی محفل بنا لیا۔ہر وہ طریقہ اختیار کیا جو ان کو ان کے مقصد میں
کامیاب کر سکتا تھا۔ترقی حاصل کرنے کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ دوسروں کی
تنقید اور اپنی تنہائی سے نہ گبھرائیں۔
12۔اپنے آپ کو ہی دنیا کی ہر کامیابی کا
حق دار نہ سمجھیں۔
کامیاب لوگ اپنے آپ کو بہت اعلی ٰ نہیں سمجھتے وہ مسلسل محنت پر یقین
رکھتے ہیں۔ ہر انسان بے شمار صلاحیتیں لے کر دنیا میں آیا ہے۔ ہم صرف خود
کو بہترین سمجھ کر ہر کامیابی کا حق دار خود کو نہیں ٹھہرا سکتے۔اگر آپ
مضبوط اعصاب کے مالک ہیں تو آپ دنیا کے لینے دینے کی پروا نہیں کریں گے
آپ کے پیش نظر اپنے عمل ہوں گے۔ آپ ہمشہ یہ ہی سوچیں گے کہ دنیا آپ کو
اُتنا ہی دے گی جتنی آپ محنت کریں گے ۔ہر انسان جو محنت کرئے،کامیابی اس
کے قدم چومتی ہے ۔یہ اصول سب پر ایک جیسا لاگو ہوتا ہے۔
13۔ یہ امید نہ کریں کہ فوراْ نتیجہ نکل
آئے گا۔
زندگی میں کسی بھی کام کو کرنے کے بعد ہم فوراْ سے چاہتے ہیں کہ نتیجہ مل
جائے۔ہم میں برداشت اور انتظار کی صلاحیت کی کمی ہمارے کمزور اعصاب کی
نشاندی کرتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہاں آپ کو پیکاسو سے متعلق دینا چاہوں گی۔
جیسا کہ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ بہت بڑا پینٹر تھا، ایک دفعہ اس کے پاس
ایک عورت آئی اور اُسے بتایا کہ وہ اس کی بہت بڑی مداح ہے اور ایک غریب
عورت ہے، ساتھ ہی خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے کچھ بنا کر دے تو پیکاسو نے اسے
ایک منٹ میں ایک کینوس پر کچھ بنا دیا۔وہ جانے لگی تو پیکاسو نے اُسے کہا
کہ وہ اس تصویر کو اگر بازار میں بیچے گی تو امیر ہو جائے گی۔وہ حیران ہوئی
لیکن اس نے آزمانے کی خاطر اس کی قیمت معلوم کی جو تیس لاکھ تھی۔عورت
متاثر ہوئی اور واپس پیکاسو کے پاس آئی اور بولی میں بھی پینٹینگ سیکھنا
اور بنانا چاہتی ہوں کہ جو ایک منٹ میں کسی انسان کو امیر بنا سکتی ہے تو
پیکاسو مسکرایا اور بولا اس ایک منٹ کی پینٹینگ کے پیچھے تیس سال کی دن رات
کی کڑی محنت ہے۔فوراْ سے تمنا کر کے نتیجہ خواہش کے مطابق پا لینا ممکن
نہیں ،اپنی مرضی کا نتیجہ حاصل کرنے کے لیے بہت محنت اور صبر کی ضرورت ہوتی
ہے۔زندگی کا ایک بہت بڑا سچ یہ ہی ہے کہ آپ یہ امید نہ کریں کہ ایک رات
میں امیر بن جائیں گئے یا پھرعالم ہو جایں گئے۔کسی بھی ترقی یافتہ انسان کے
پیچھے اس کی سالوں کی ان تھک محنت ہوتی ہے۔
|
|