عہد ِ راحیل شریف‘،مصنف ندیم نظر:برمحل ، بر موقع ، بر وقت

بات وہ جو بر محل کی جائے، سچائی وہ جو بر موقع بیان کی جائے اور حقیقت وہ جو بر وقت بیان کی جائے۔ وقت گزرجانے کے بعد ، واقعہ رونما ہوجانے کے بعد ، کرسی چلی جانے کے بعد،عہدے سے فارغ ہوجانے کے بعد اور وردی اتر جانے کے بعد اگر کچھ کہا بھی جائے خواہ وہ سچ ہی کیوں نہ ہو وہ بے وقت کی راگنی اور کہنے یا لکھنے والے کی بہادری کا پتہ دیتی ہے۔ بہادری ، دلیری ، سچائی، ایمانداری وہ ہوتی ہے کہ انسان بے خوف و خطر ہوکر جو بات جس وقت کرنی ہو وہ اُسی وقت کرے۔ جیسے ہمارے لمحہ موجود کے وفاقی وزیر عبد القادر بلوچ صاحب نے جنرل راحیل کی الوداعی تقریبات شروع ہوتے ہی فرمایا کہ ’’پرویز مشرف کو آئین سے غداری کے مقدمے میں عدالتی کاروائی سے بچانے کے لیے راحیل شریف نے اہم کردار ادا کیا اور راولپنڈی کے آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں مشرف کو چھپائے رکھنے کا فیصلہ بھی راحیل شریف کا تھا‘۔ کوئی وزیر موصوف سے یہ پوچھے کہ قبلہ آپ نے یہ بات ایک ہفتہ قبل کیوں نہیں کہی، اُس وقت کیوں یاد نہیں آیا جب جنرل پرویز مشرف اسپتال میں چھپے ہوئے تھے۔ یہ حق گوئی اور بہادری اُس وقت دکھاتے جب جنرل صاحب وردی میں تھے، دیگر کئی وزیر بھی اب سابق سپہ سالار کے بارے میں لب کشائی کرنے لگے ہیں۔ یہی حال ہمارے اینکر پرسنز ، تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کا بھی ہے، کل ہی طلعت حسین نے اپنے کالم ’’چیف کے لیے احتراز‘‘ میں راحیل شریف کے متعدد کوتاہیاں گنوائیں۔ موصوف لکھتے ہیں کہ ’’سابق چیف صاحب کے دور میں فیصلہ سازی کے پیچھے شخصی اظہار اور خود پارسائی کا تاثر نمایاں رہا، اس رجحان کی وجہ سے آرمی چیف کی شخصیت عوام کی نظروں میں بہت نمایاں ہوگی لیکن اُ ن کا ادارہ پس منظر وں میں چلاگیا‘‘۔ میرا نہیں خیال اس بات میں کوئی صداقت ہے آرمی کوئی چھوٹا موٹا ادارہ نہیں اس کے اہداف متعین و مقرر ہیں، شخصیات خواہ چیف ہی کیوں نہ ہو آنی جانی ہوتی ہیں۔ اس موضوع پر میری اپنے ایک بھانجے جو پاکستان آرمی میں ڈاکٹرمیجر کے عہدہ پرفائز ہیں سے اس موضوع پر بات ہوئی ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے چیف کی تبدیلی معمول کی کاروائی ہے ۔ ہمارا نظام اور اہداف جو مقرر ہیں وہ اسی طرح چلتے رہیں گے ۔ ہم جو کام کر رہے ہیں وہ اسی طرح سے سرانجام پاتے رہیں گے۔ موصوف کا لم نگار نے یہ جرٔت اور بہادری اپنی سوچ و فکرکی ایک ہفتہ قبل کیوں نہ دکھائی۔ میاں صاحب کو مشورہ دے ڈالتے کہ ایسا ہورہا ہے۔ وہ کالم نگار ہی نہیں بلکہ بڑے چینل کے اینکر پرسن بھی تو ہیں ان کے لیے کیا مشکل تھا ۔ لیکن تین سال تو سب اچھا سب اچھا ہوتا رہااب چیف کے بدلتے ہی آسمان کے وہ بادل گہرے دکھائی دینے لگے جو کبھی سر پر ہوا کرتے تھے۔ کالم نگار حامد میر نے اپنے کالم ’خاموش محاذ آرائی ‘‘ میں یہ بھی درست لکھا کہ’ راحیل شریف نے جب واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ جارہے ہیں ۔ ان کے لیے الوداعی تقریبات میں وزیر اعظم نواز شریف نے ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئے‘‘۔یہ کوئی نئی بات نہیں ، ہر دور میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ پرویز مشرف کے جانثار جو کبھی ٹی چینل پر بیٹھ کر ان کی شان میں قصیدہ گوئی کیا کرتے تھے آج کہاں ہیں ، ہرروز ٹی وی ٹاک شو میں نواز شریف کی شان میں قصیدے اور پرویز مشرف پر تبرہ پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اب اس قصہ کو یہیں چھوڑتا ہوں تمہید کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئی میرا موضوع تو پاکستان کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف کے حوالے سے برمحل ، بر موقع و بر وقت منظر عام پر آنے والی کتاب ’’عہد ِ راحیل شریف۔پاک فوج کے کارہائے نمایاں‘‘ ہے جس کے مؤلف ندیم نظر ہیں ۔ ندیم نظر کالم نگار ہیں اور روزنامہ ’خبریں‘ کے میگزین ایڈیٹر بھی۔ یہی نہیں بلکہ  وہ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ پنجاب کے صدر بھی ہیں۔

یہ کتاب مجھ تک کیسے پہنچی ؟ مجھے کیوں خیال ہوا کہ میں اس کتاب پر اظہار خیال کروں ۔ اس کی مختصر تفصیل بیان کرنا ضروری ہے۔ میرے ایک لکھاری نوجوان دوست اور ہمارے ویب ’رائیٹرز کلب‘ کے ساتھی ہیں عمران احمد راجپوت ، حیدرآباد کے باسی ہیں۔ ہمارے ویب رائیٹرز کلب کا میں صدر ہوں اس حوالے سے عمران راجپوت سے کئی سال سے راہ و رسم اور رابطہ ہے۔ ان سے میرا ایک تعلق یہ بھی ہے کہ وہ بھی راجپوت ہیں اور میرے آباؤاجداد کا تعلق بھی راجپوتانہ سے تھا۔ بیکانیر میرے آبأ کی سرزمین ہے۔ بعد میں دہلی پھر ہندوستان کا ضلع مظفر نگر اور قیام پاکستان کے بعد سے ہم پاکستانی اور کراچی کے مکین ہیں ۔ قصہ مختصر عمران نے فون کیا کہ کالم نگاروں کا ایک ادارہ ہے ’پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ‘ اس کے کچھ دوست آپ سے ملاقات چاہتے ہیں، کچھ اپنی کہیں گے کچھ آپ سے آپ کی سنیں گے۔ انکار کی کوئی وجہ تھی نہیں ، اب میری زندگی کا مقصد یہی کالم نگاری ہی ہے ، بس تو پھر اپنے قبیلے والوں سے ملاقات میں کیسا تکلف اور کیسی سوچ ، میں نے صرف یہی شرط رکھی کہ اس ملاقات کا میں میزبان ہوں گا، ملاقات میرے گھر پر ہو تو مجھے آسانی ہوگی ۔ عمران نے اگلے ہی دن تاریخ ، دن اور وقت طے کر لیا اس طرح پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ کے کچھ دوست جن میں سے تین یعنی عمران، عظیم اعظم عظیم اور محمد ارشد قریشی میرے حلقۂ لکھاریان میں شامل تھے ، انہیں دیکھ کر اور بھی خوشی ہوئی دیگر احباب میں مزمل احمد فیروزی، منصور مانی، شمشاد علی خان، ایم جے گوہراور عدیل طیب شامل تھے میرے گھر تشریف لائے۔ ہم خیال و ہم قدم ،ہم آواز و ہم کردار احباب سے مل کر ، گفتگو کر کے جس تازگی، راحت، خوش دلی، طمانیت، خوش گواری، آسودہ خاطری، بشاشت، ذہنی و روحانی مسرت کا احساس ہوا وہ تا دیر ساتھ رہے گا۔ موضوع پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمنسٹ اور اس کی سرگرمیاں ہی تھا۔ ہم تو پہلے ہی اس راہ کے مسافر ہیں۔ ہماراتو کام ہی پڑھنا، پڑھانا، لکھنا اور لکھنے کی ترغیب دینا ہی تو ہے چنانچہ ہم نے بے چوں و چراہ احباب کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کونسل میں شامل ہونے کا اقرار باآوازِ بلند اور خود اپنی زبانی کر لیا۔ اس موقع پر ہم نے اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں پر مشتمل کتاب احباب کو تحفہ میں پیش کی ،اب ہم اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ کونسل کے احباب میں سے مزمل احمد فیروزی صاحب نے ندیم نظر کی یہ کتاب جس پر ہم یہاں تفصیلی اظہار کرنے جارہے ہیں ازراہ عنایت ہمیں دی ۔ اس وقت ہم نے احباب سے یہ کہاتھا کہ
زندگی رہی تو اس کتاب پر صلاحیت بھر کچھ لکھیں گے۔سو اپنے کہے کو پورا کرتے ہوئے مسرت محسوس ہورہی ہے۔

’عہدِ راحیل شریف‘ نہ تو جنرل راحیل کی سوانح حیات ہے ، نہ ہی ان کی زندگی کا مکمل احاطہ کرتی ہے اور نہ ہی یہ تحقیقی کتاب کے زمرے میں آتی ہے ۔ یہ کالم نگار ندیم نظر کے ان کالموں کا مجموعہ ہے جو انہوں جنرل راحیل شریف کے بطور سپہ سالار پاکستان کے زمانے میں تحریر کیے ۔ یہ کالم جنرل راحیل شریف کی تین سالہ فوجی زندگی اور کارناموں کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس میں وہ کالم بھی ہیں جن کا موضوع پاکستان میں دہشت گردی کے ہونے والے واقعات ہیں بقول پروفیسر ڈاکٹرمحمد اجمل نیازی ’ ندیم نظر نے جنرل راحیل شریف کے ارادوں ، منصوبہ بندیوں اور معرکہ آرائیوں پر مشتمل یہ کتاب لکھی ہے‘۔ اسی بات کو جبار مرزا نے ایک اور خوبصورت انداز سے اس طرح لکھا کہ ’کراچی کاامن ، ضرب عضب ، آخری دہشت گرد تک چین سے نہ بیٹھنے کا عزم ، آنے والی نسلوں کی فکر، اقتصادی راہداری، بھتہ گروپ کا خاتمہ الغرض جہاں جہاں جنرل راحیل شریف کی سپہ سالارانہ نگا ہ پہنچی جناب ندیم نظر کا قلم ساتھ ساتھ گیا‘۔کتاب پاکستان کی بہادر افواج کے کارناموں کو بھی اجاگر کرتی ہے ۔ ا س جانب جمیل اظہر قاضی نے اس انداز میں اشارہ کیا ’ندیم نظر نے اپنے کالموں میں اعداد و شمار اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے پاکستانی فوج کا دُنیا کی دیگر افواج کے ساتھ مدلل انداز میں موازنہ اور تجزیہ کیا ہے‘۔ یوسف عالمگیرین کا کہنا ہے کہ ’ندیم نظر نے افواج پاکستان کی کارکردگی کو سراہنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا‘۔جنرل (ر) غلام مصطفی کا خیال ہے کہ ’افواج پاکستان کے کارہائے نمایاں پرلکھے گئے کالموں پر مبنی یہ اشاعت اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ مصنف نے تاریخی پس منظر میں حقائق پر مبنی واقعات کی روداد اور تبصروں کو رائج الوقت تمام ’’خوبیوں‘‘ سے پاک رکھا ہے‘۔ روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ضیا شاہد نے کتاب پر اختصار سے روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ’معصوم شہیدوں کے حوالے ان کے کالم بطور خاص ذہن پر گہرا نقش چھوڑتے ہیں اور تھر میں قحط ہو یا بلوچستان میں بد امنی، پاک فوج کے بہادروں نے جس طرح اپنے فرائض انجام دیے ہیں اس کا احاطہ ندیم نظر صاحب کے قلم نے بڑی خوبی سے انجام دیا ہے‘۔کتاب پر اظہار خیال کرنے والوں میں جنرل مرزا اسلم بیگ، ایثار رانا، محمد تزئین اختر،عبد الستار عاصم بھی شامل ہیں جنہوں نے ندیم نظر کو ہشت پہلو ‘باخبر ‘ متحرک صحافی اور ادیب قرار دیا ہے۔

’عہدِ راحیل شریف‘ ندیم نظر کے 42کالموں کا مجموعہ ہے یہ کالم انہوں نے جنوری 2015تا جولائی 2016کے درمیان تحریر کیے اور لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’روزنامہ خبریں‘ میں شائع ہوئے ، وہ اسی اخبار سے وابستہ بھی ہیں ۔ کالموں کے علاوہ ان کے تحریر کردہ فیچر بھی اسی اخبار میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ کتاب کے ابتدائی 33 صفحات میں مختلف احباب کی رائے کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں شامل ہے۔ یہ احباب جن کی تعداد 11ہے کسی نہ کسی اعتبار سے شعبہ صحافت سے تعلق رکھتے ہیں۔ سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ بھی شامل ہیں۔ ان احباب کی رائے پڑھ کر کتاب کے بارے میں اور اس کے مصنف کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہوجاتا ہے۔ کتاب کا آغاز ’کچھ سپہ سالار کے بارے میں‘ سے کیا گیاہے ،دوسرا کالم ’پسندیدہ شخصیت ‘ کے عنوان سے ہے۔ ان دونوں کالموں سے جنرل راحیل شریف کی شخصیت کے بارے میں تفصیلی آگاہی ہوجاتی ہے۔ دیگر کالموں کے عنوانات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے دورِ سپہ سالاری پر مصنف کی خاص نظر رہی ، وہ دیگر موضوعات کے علاوہ پاکستانی فوج، اس کی کارگزاری، سپہ سالار کی سرگرمیوں ، دشت گردی کے واقعات، آپریشن ضرب عضب ، کراچی آپریشن اور دیگر موضوعات کو اپنا مخصوص ہدف بنائے رہے۔ انہوں نے سانحہ آرمی پبلک اسکول پر بھی لکھا، ننھے شہیدوں کے قاتلوں کو بھی بے نقاب کیا، معصوم شہیدوں کو اپنے کالم میں سلام بھی پیش کیا، شاہینوں کی جرأت اور دلیری کی داستان بھی تحریر کی، تھر کے بلکتے بچوں اور پاک فوج کی خدمات کو بھی موضوع بنا یا،وہ اپنے کالموں میں ایٹمی طاقت پر فخر کرتے نظر آتے ہیں، کبھی پاک فوج کے ڈرونز پر ناز کرتے ہیں تو کہیں پاک فوج کو عالم اسلام کی محافظ ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کر، کسی جگہ وہ بلوچستان میں امن اور پاک فوج کے کردار کو اپنا موضوع بناتے ہیں۔کومبنگ آپریشن کیا ہے اس کی وضاحت کرتے دکھائی دیتے ہیں ، نیشنل ایکشن پلان، آئی ایس آئی، کمانڈنٹ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ، واہ آرڈیننس فیکڑی، چینی منصوبے اور پاک فوج خصو صی سکیورٹی ڈویژن اور دیگر موضوعات پر ان کی تحریروں سے پاک فوج کی بہادری ، کارہائے نمایاں اور جنرل راحیل شریف کی تین سالہ جدوجہدکھلی کتاب کی مانند سامنے آجاتی ہے۔ یہ کتاب گو کالموں کا مجموعہ ہے لیکن مستقبل کے مورخ ، محقق اور مصنف کے لیے ایک اساسی مأخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے حوالے سے انگریزی میں ایک کتاب کراچی کے ایک پبلشر رائل بک کمپنی نے بعنوان(Chief of Army Staff General Raheel Sharif: Soldier and  Statesman)شائع کی ہے جس کے مصنف دین علی پیرزادہ ہیں۔

ندیم نظر سے تاحال میری ملاقات نہیں ہوئی یہی وجہ بنی کہ میں نے اُن کی شخصیت پر کچھ نہیں لکھااس کتاب کے مطالعہ کے بعد اس قدر ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جو شخص اپنے پیشے سے سچی محبت کرتا ہو، ایمانداری، سچائی کا دامن تھامے ہوئے ہو، نڈر اور بہادر بھی ہو وہ یقینا ایک بھلا انسان ہی ہوسکتا ہے۔ لکھاری کی حیثیت سے محسو س ہوتا ہے کہ وہ معاشی ضرورت کے پیش نظر نہیں لکھ رہے بلکہ ان کے اندر کے انسان میں معاشرے میں سدھار پیدا کرنے کا ایک ایسا جذبہ پایا جاتا ہے جو لکھنے کا موجب ہے۔ وہ از خود ندیم نظر ہے جب کہ اس کی نظر گہری، مطالعہ وسیع اور سوچ میں سچائی کی چاشنی پائی جاتی ہے۔کالم نگار کی حیثیت سے وہ اس تگ و دو میں ، اس کوشش میں رہتا ہے کہ معاشرے کی خامیوں اور کوتاہیوں کو اجاگر کرے، قومی نوعیت کے مسائل و مشکلات کوعوام الناس کے سامنے لائے ، عالمی موضوعات جو پاکستان سے کسی اعتبار سے جڑے ہوں ان پر روشنی ڈالے ، فوج اور فوج کی کارگزاری کو قلم بند کرنے کی جانب اس کی خاص توجہ مرکوز ہے۔ اس کے اِسی جذبے اور خواہش کا حاصل ’عہدِ راحیل شریف‘ ہمارے سامنے ہے جو سابق سپہ سالار کے لیے حسین تحفہ ہے ۔ (6دسمبر2016)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286600 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More