ہندسوں کے درمیاں

ان کی غزلیں اور نظمیں اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ اُنھوں نے اپنے دل کی آوازسے انھیں سینچا ہے اور اپنی شاعری میں تجربات کے ساتھ ساتھ حسن بیان کا بھی اہتمام کیا ہے۔اپنے احساس اور جذبے کی صداقت کے ذریعے انھوں نے خوب صورت انداز میں اپنی آواز کو شاعری میں ڈھال کر پیش کیا
شاعر: رانا خالد محمودقیصر
ناشر: مشتاق مطبوعات
اشاعت: جولائی۲۰۱۶ء
قیمت: ۳۰۰روپے؍ ۵ ڈالر
صفحات: ۱۷۴

مبصر: صابرعدنانی

راناخالد محمودقیصر کی شخصیت ان کی شاعری میں بھی نظر آتی ہے۔جس طرح انھوں نے اپنی پہلی کتاب ’’ہندسوں کے درمیاں‘‘ لکھی ہے۔ یقینی طور پر کوئی بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ کس شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ہندسوں کے اس کھیل میں خالد محمود قیصرایک طویل مدت گزار چکے ہیں اور اب نہ صرف اُن کی انگلیوں پر ہندسے ہیں بلکہ دماغ کے خانوں میں بھی ہندسوں کی تکرار رہتی ہے۔ مگر ان کے بزرگوں کی تربیت اور ادب سے دلچسپی نے ان کوہندسوں کے درمیان رہتے ہوئی بھی انسانوں سے محبت اور بزرگوں سے ادب کرنا سکھایا ۔ جداامجد خود تعلیم یافتہ تھے اور لوگوں کوعلم وآگاہی کی طرف راغب رکھتے تھے۔اس لیے خالد محمودبھی ترقی کی منازل طے کرتے رہے مگر ان کے اندر ہیجان پیدا کرنے والی شاعری نے کبھی بھی انھیں اُن روایتوں سے دور نہیں کیا جو ان کی تعلیم وتربیت کا حصہ تھیں۔ وہ شاعری کرتے رہے اوراسے جمع بھی کرتے رہے ۔پھر زیرِنظر کتاب ملاحظے کے لیے پیش کردی۔ وہ اپنی ذات میں کئی گوشے رکھتے ہیں۔امکانات کے شاعر ہیں اگر انھوں نے دیر تک اپنا سفرجاری رکھاتو یقینا منزل پر بھی پہنچ جائیں گے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ اُنھوں نے اپنے دل کی آوازسے انھیں سینچا ہے اور اپنی شاعری میں تجربات کے ساتھ ساتھ حسن بیان کا بھی اہتمام کیا ہے۔اپنے احساس اور جذبے کی صداقت کے ذریعے انھوں نے خوب صورت انداز میں اپنی آواز کو شاعری میں ڈھال کر پیش کیا۔اردو شاعری ہر قسم کی غزلوں اور نظموں سے پُرہے اور آج بھی تواتر سے یہ کوشش جاری ہے مگر کیا اس نئے ذخیرے میں کچھ ایسا بھی ہے جو ہمارے دل ودماغ کو روشن کردے۔ انھوں نے انسانی رشتوں، رویوں اور معاشرتی ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کو اپنی شاعری میں برتا ہے اور اپنی اندرونی اور بیرونی کیفیات کااظہار اپنی شاعری میں کیا ہے۔ ان کی غزلوں کے مختلف اشعار ملاحظہ ہوں:
ہم نے دیکھا ہے زمانے میں بدل جاتے ہیں لوگ
اور ارمانوں کی صورت بھی مچل جاتے ہیں لوگ
———
ہم اگر سب کچھ لُٹا دیں تو بھی کم ہے دوستو
اور ہم طالب ہوں تو محفل سے ٹل جاتے ہیں لوگ
———
جن کو ہم سمجھاتے آئے
ہم کو وہ اب سمجھاتے ہیں
———
جو ہم کلام بھی ہوتے ہیں بے نیازی سے
بدل کے چہرے وہی غم گسار آتے ہیں
———
جسے بھلا رہے ہو تم
وہ دل میں بھی رہا ہوگا
———
اُس کو بھی ملتی ہے ہر اک گام پہ منزل اکثر
جس کے دل میں بھی کبھی عزمِ سفر ہوتا ہے
———
گلشن میں وہ نہیں ہے ستاروں میں وہ نہیں
میری نگاہ شوق سے وہ کتنا دور ہے
———
خالدمحمود قیصر کی آزاد نظم ملاحظہ ہو:
سنگم!
دو لفظوں ... کا ہے
سنگم!
دو روحوں ... کا ہے
سنگم!
دوجسموں... کا ہے
سنگم!
دوناموں... کا ہے
سنگم!
آدم حوا
حوا آدم
سنگم!
ہاں سنگم!
ان کی شاعری روایت سے بغاوت نہیں کرتی مگر جدت کی طرف گامزن ہے۔ خوب صورت سرورق اور اچھے کاغذپرطباعت نے کتاب کو دیدہ زیب بنادیا ہے۔
 
Sabir Adnani
About the Author: Sabir Adnani Read More Articles by Sabir Adnani: 34 Articles with 86755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.