ایرانی فلموں کی نمائش خطرناک اقدام ہوگا !!

پاکستان میں بھاتی ثقافتی یلغار کو روکنے کے بعد ایران نے مداخلت کی تیاری شروع کردی ہے کہ وہ فلموں اور ڈراموں کے ذریعے پاکستان میں بھارت کی طرح غیر محسوس انداز میں گھر گھر گھس سکے۔پاکستانی فلموں کے معیار ، کہانیاں اور عکاسی کے معیاری نہ ہونے کے علاوہ صاف ستھرے ، ایسے سنیما گھر موجود نہیں تھے ، جو اچھی تفریح کا ماحول پیدا کرسکتے۔ ان حالات کے تناظر میں صرف پشتو فلموں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو زندہ رکھا ہوا تھا ۔ اردو اور پنجابی فلموں کی نمائش نہ ہونے کے برابر ہوگئی تھی ۔وزرات ثقافت کی جانب سے بھارتی فلموں کو طے شدہ قانون سے ہٹ کر پاکستان میں نمائش کی اجازت دی جاتی تھی ، جس نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کی تباہ حالی میں مرکزی کردار ادا کیا ، لیکن سنیما گھروں کی بحالی اور ملٹی پلیکس سنیماگھروں نے دوبارہ سنیماگھروں کی رونق بحال کردی۔ پاکستانی چینلوں میں ترکی ڈراموں کی اردو ڈبنگ کے ساتھ نشریات نے مقامی فنکاروں کو بے روزگار کیا۔ وہاں اسٹوڈیوز بھی ویران ہوتے چلے گئے ۔ لیکن وقت کے ساتھ پاکستانی ڈراموں نے ترکی ڈراموں کے مقابلے میں سبقت حاصل کرلی اور مہنگے ڈرامے خریدنے کے رجحان میں کمی ہوئی اور پاکستانی ڈراموں نے بیرون ملک بھی شہرت حاصل کی ، لیکن پاکستانی فلم سازوں نے ہمت نہیں دکھائی ، ماسوائے میڈیا ہاوس کے بینر تلے بنائے جانے والی فلموں کے علاوہ۔ پاکستانی فلم سازوں نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا ، اسی وجہ سے سنیما گھروں نے عید کے دن بھی پاکستانی فلموں کو جگہ نہیں دی ، تاہم اس پر کافی بحث مباحثے کے بعد یہ فارمولہ طے ہوگیا کہ عیدکے دوران معیاری سنیما ، پاکستانی فلموں کو لگائیں گے ، اس فیصلے سے پاکستانی فلموں کو کافی فائدہ ہوا ۔ لیکن صرف عید کیلئے بنائے جانے والی فلموں کے رجحان نے فلم انڈسٹری کو پھر بھی کھڑا نہیں ہونے دیا ۔اسی اثنا میں بھارت کی جانب مسلسل پاکستان کے خلاف در اندازیوں اور پاکستانی فنکاروں کو بھارت سے بیدخل کرنے اور فلموں سے نکالنے کے رجحان کے بعد پاکستان میں بھارتی نشریات ، اور فلموں پر مکمل پابندی عائد کردی۔پابندی سے یکدم سنیما گھروں میں خلا پیدا ہوگیا ۔ اور کئی ایسے ملٹی پلیکس سنیما بند ہونا شروع ہوگئے ، جن کے اخراجات نکالنا مشکل ہوگیا تھا ۔ عام پاکستانی فلموں کا معیار و تعداد ایسی نہیں تھی کہ جو اس خلا کو پورا کرسکتے ، لیکن اس موقع سے بھی پاکستانی فلمسازوں نے فائدہ نہیں اٹھایا ۔اور نئی فلموں کی تیاری میں تیل کی دھار دیکھنے کی پالیسی اختیار رکھی ۔ پاکستانی سنیما گھر، خاص طور پر کروڑوں روپوں کی لاگت سے تیار کردہ سنی پلیکس سینما ؤں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا۔اس موقع سے فائدہ اٹھانے کیلئے ایران نے اپنی فلموں کی نمائش کیلئے ڈسٹری بیوٹرز کو راغب کرنا شروع کردیا ہے ۔ ویسے تو پاکستان میں ہانگ کانگ ، چین کی بنی ہوئی فلمیں ماضی میں کامیاب ہوتی رہی ہیں ، لیکن وہ کسی خاص ایجنڈے کے تحت نہیں بنائی جاتی تھی ۔ ایران کی حکومت کا ایجنڈا کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ، ایرانی حکومت کی پالیسیوں کے مطابق ہی ایران فلمیں تیار کرتا ہے ، ہمارے سنسر بورڈ میں کرپشن اتنی ہے کہ وہ فلم میں پاکستانی و اسلامی روایات تو کیا کسی قوم کی ثقافت کو تاراج ہونے کی بھی پرواہ نہیں کرتے اور فلم کو نمائش کی اجازت دے دیتے ہیں ، جس کی مثال انتہائی اخلاق باختہ و پختون ثقافت کے برخلاف بننے والی پشتو فلموں کو نمائش کی اجازت دینا ہے۔ جس پر کئی بار احتجاج بھی کئے گئے ، لیکن سنسر بورڈ نے رشوت کے عوض بے حیائی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ، اب ایران میں ثقافت کے نام پر فلموں اور ڈراموں کی نمائش سے ، پاکستان میں فرقہ وارنہ متشدد نظریات گھر گھر پہنچانے کی سازش کی جا رہی ہے ۔جب پاکستان سینی پیکس سینماؤں کے جنرل مینیجر مارکیٹنگ محسن یاسین سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ایرانی فلموں کی سکریننگ میں پاکستانی سینما گھر دلچسپی لیں گے۔ 'تو انھوں نے کہا تھا کہ کیوں نہیں۔" فلم ڈسٹریبیوٹر اور سینما کے مالک ندیم مانڈوی والا نے بھی کہا کہ " ایرانی یا ترکی کی فلموں کی نمائش کے تجربے کو بالکل رد نہیں کیا اور کہا کہ تجربہ کرنا چاہیے"۔فلم ڈسٹری بیوشن کمپنی آئی ایم جی سی کے چیئرمین شیخ امجد راشد اور شائن پیکس سے تعلق رکھنے والے محسن یاسین نے بھی کہا "ابھی اس پر کام ابتدائی مراحل پر ہے، ہم نے ایران اور ترکی کی فلموں کی نمائش کا فیصلہ کیا ہے تاکہ بھارتی فلموں کا خلاء بھرا جاسکے "۔پاکستان کے سنیپیکس سینما کے جنرل مارکٹنگ مینیجر مہسن یاسین کا کہنا تھا کہ 'ہم ایرانی فلموں کی نمائش کا تجربہ ضرور کرنا چاہیں گے، کیوں کہ فلمیں ثقافتی تبادلے کا بہترین ذریعہ ہیں‘۔محسن یاسین کے مطابق "ہم اس پلیٹ فارم کے ذریعے ایرانی قونصلیٹ کے محکمہ ثقافت سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ثقافتی پروگرام کے تبادلے کے تحت ہماری مدد کریں، اور پاکستان میں ایرانی فلموں کی ریلیز کے لیے ایرانی پروڈیوسرز سے ہمارا رابطہ ممکن بنائیں"۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینما گھر وں کے مالکان نے بھارتی فلموں کی عدم نمائش کے خلا کو پورا کرنے کیلئے ایرانی ثقافت کو گھر گھر پہنچانے کا تہیہ کرلیا گیاہے ۔ایران کے حوالے سے مسلم ممالک میں پہلے ہی فرقہ وارانہ خانہ جنگیاں ہو رہی ہیں اور اس کے اثرات پوری اسلامی دنیا پر پڑ رہے ہیں ۔ ایران کی جانب سے اقتصادی راہدری کے منصوبے پر وار کئے جانے کی کئی کوششیں بھی سامنے آچکی ہیں ، نیز مسلکی طور پر پاکستان واضح طور پر دو بڑے مسالک میں تقسیم ہے ، جس میں کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والے فرد کی ٹارگٹ کلنگ پر فرقہ وارنہ فسادات اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوجاتے ہیں۔اس صورتحال میں ایران جو اپنے مخصوص مقاصد کے ساتھ ، عراق ، لبنان ، فلسطین ، شام اور یمن میں براجمان ہوچکا ہے ، اور ایران نواز جنگجو ملیشیا افغانستان ، بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازش کرتے ہوئے حساس اداروں کے ہاتھوں پکڑے بھی جا چکے ہیں۔اور پاکستان میں مذہبی ماحول اس قابل نہیں ہوا کہ مذہب و مسلک میں برداشت کا مادہ ان میں ہو۔ان حالات میں بھارتی فلموں کا خلا پورا کرنے کے چکر میں سینما گھر کے مالکان زیادہ منافع حاصل کرنے کی غرض سے ایرانی ثقافت کو حاوی کرنے کیلئے حالات سازگار بنانے کی جانب گامزن ہیں ، ماضی میں صرف دور درشن کی نشریات پاکستان میں دیکھی جاتی تھیں ، لیکن جب سے جدید ٹیکنالوجی ڈش کے ذریعے پاکستان کے گھروں میں داخل ہوئی تو ، کوئی ایسا گھر نہیں تھا ، جس میں بھجن اور ہند و رسومات داخل نہ ہوگئے ہوں ، قرآن پاک کی تلاوت سے زیادہ ، بھارتی گانے ، رقص و سرور کی محافلیں پاکستانی ثقافت پر حاوی ہوگئیں ، اور اس ثقافت سے ہمارا الیکڑونک میڈیا بھی نہیں بچ سکا ، جو نیوز بلٹن میں خبر دینے کے ساتھ ساتھ بھارتی گانے بھی دکھانے لگا اور بعض نجی چینلوں نے تو بھارتی فلموں کو باقاعدہ دکھانے کا انتظام بھی کیا ۔ اور ان چینلوں کو اشتہارات بھی زیادہ ملتے ، جو بھارتی ڈرامے ،اور فلمیں زیادہ دکھایا کرتے ، گو کہ قانون کے مطابق صرف پانچ فیصد بھارتی پروگرام دکھانے کی اجازت تھی لیکن حیران کن طور پر پاکستان کی وزرات ثقافت ، اور پیمرا کا کردار انتہائی غیر ذمے دارانہ نظر آیا ۔ اب اگر بھارت کی طرح ایرانی ثقافت کو گھر گھر پہنچانے کی کوشش کی گئی تو اس بات کا خدشہ ہے کہ ایران کی مسلم ممالک میں بے جا مداخلت اور عالمی دہشت گرد تنظیموں کی سر پرستی کئے جانے کے سبب پاکستان میں مذہبی فسادات کو ہوا مل سکتی ہے اور اس کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھا کر ، پاکستان میں شام ، جیسے حالات پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ ایران کے حوالے سے فلم کا جو بھی معیار ہو، ہمیں اس قسم کے تجربوں سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ ایران میں فلموں کی مقبولیت کا کیامعیار ہوگا ، اس کا اندازہ ایران کی سخت مذہبی پالیسی سے لگایا جا سکتا ہے ۔ ایران کی فلموں یا ڈراموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت دینا ، بھارتی فلموں کی نمائش سے زیادہ خطرناک ہوگا ۔ بھارتی ثقافت کا مقابلہ تو کیا جا سکتا ہے کہ من الیحث القوم انڈیا کے خلاف اختلافات بھلا کر قوم یکجا ہوجاتی ہے ، لیکن ایران کی سخت گیر اور فرقہ وارانہ پالیسیوں پر مشتمل بنائی جانے والی فلموں کی نمائش کا سدباب پاکستان میں ممکن نہیں ہوسکے گا ۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ ملکی سا لمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ بھارتی فلموں کے خلا کو دور کرنے کیلئے پاکستانی فلمی صنعت کو اپنے پیروں میں کھڑا کرنے کیلئے بڑے میڈیا ہاوسز کو آگے آنا ہوگا ۔ نیز پاکستان میں ہالی وڈ کی ان فلموں کی نمائش کی اجازت دے دینی چاہیے ، جو ہندی ڈبنگ میں ہیں ، اس سے انگلش زبان سے ناواقف سینما بین ایک اچھی معیاری اور سمجھ میں آنے والی فلم دیکھ سکیں گے اور بھارتی ، ایرانی ثقافت سے ہمیشہ کیلئے جان چھڑا سکتے ہیں ۔پاکستان کے حساس اداروں کو صورتحال پر گہری نظر رکھنا ہوگی ، بصورت دیگر متنازعہ، ثقافت کی صورت میں پاکستان میں داخل ہوگئی تو گلی گلی فرقہ وارنہ خانہ جنگیاں پاکستان کا مقدر بن سکتی ہیں۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744119 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.